عبد الرحٰمن الداخلاندلس کے پہلے اموی حکمران جنہوں نے مسجد قرطبہ میں مزدوروں کی طرح کام کیا
عبد الرحٰمن الداخل113ھ/بمطابق731عیسویٰ کو دمشق میں پیدا ہوئے تھے۔آپ کا لقب الداخل ہے اور آپ کو یہ لقب اس وقت ملا جب آپ نے سر زمین اُندلس میں قدم رکھا اور اموی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔5 سال کی عمر میں آپ کے والد کا سایہ آپ کے سر سے اُٹھ گیا۔ آپ علم کے برے شیدائی تھے آپ نے دور دور جا کر علم حاصل کیا۔
جب 132ھ /بمطابق 750عیسویٰ کو عباسی بر سرِاقتدار آئے اور بنو اُمیہ کا دورِ حکومت ختم ہو گیا تو آپ نے دمشق سے کہیں اور چلے جانا پسند کیا اور آپ فلسطین چلے گئے۔وہاں سے اپنے آذاد کردہ غلام بدر کے ساتھ مصر اور پھر افریقہ چلے گئے۔لیکن افریقہ کے حکمرانوں نے آپ کے آنے کو پسند نہ کیا اسی وجہ سے آپ وہاں ذیادہ دیر نہ رکے ۔لیکن ابھی اللہ تعالیٰ نے آپ سے بہت سا کام لینا تھا ۔
عبد الرحٰمن کو اس طرح صحرا نشینی اختیار کرتے ہوئے کوئی 5سال ہو چکے تھے۔آخر کار سیشا نامی علاقے میں بسنے والے بربر قبیلے نے عبد الرحٰمن کی میزبانی کو قبول کیااور جب قبیلے والوں کو معلوم ہوا کہ انکی ماں کا تعلق اسی قبیلے سے ہے تو یوں عبد الرحٰمن کی اس قبیلے سے اجنبیت ختم ہو گئی۔
اب یہاں سے عبد الرحٰمن کا سیاسی دور شروع ہوتا ہے ۔اس قیام کے دوران عبد الرحٰمن نے اپنے وفادار غلام "بدر" کو ہسپانیہ روانہ کیا تاکہ وہ وہاں جا کر وہاں کے رہنمائوں کو بتائیں کی ہشام بن عبد الملک کے پوتے عبد الرحٰمن بن معاویہ افریقہ آبسے ہیں ۔آپ کاغلام اندلس پہنچا اور وہاں کے رہنمائوں سے ملا اور انہیں ساری روداد سنائ اور انہیں عبد الرحٰمن کی حمائت پر آمادہ کر لیا۔اُدھر عبد الرحٰمن اپنے غلام کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک دن سمندر کے ساحل کے پاس نمازِ عصر ادا کر رہے تھے کہ آپ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جہاز ان کی طرف آ رہا ہے اور اچانک اس میں سے ایک آدمی پانی میں چھلانگ لگا کر تیزی سے انکے پاس تیرتا ہوا آ رہا ہوتا ہے،یہ آپ کا غلام بدر تھا جو اپنے مالک کو خوشخبری سنانے کے لیے بے چین تھا ،ساحلِ سمندر پہ آتے ہی آپ کے غلام نے آپ کو مبارک باد دی اور بتایا کہ اندلس کے حکمران آپ کی انتظار میں ہیں اور ہم یہ جہازآپ کو لینے کے لیے لائے ہیں۔
یوں عبد الرحٰمن اندلس روانہ ہوے،طویل سفر کے بعد عبد الرحٰمن کا جہاز 138ھ/بمطابق 755عیسویٰ کو اندلس کی ایک بندر گاہ پر لنگر انداز ہوا۔اب یہاں سے اندلس میں بنو اُمیہ کے اقتدار کا دور شروع ہوتا ہے۔عبد الرحٰمن نے اندلس پر 33 سال 4مہینے حکومت کی اور اس دوران اندلس میں جو ترقیاتی کا م ہوئے اس کی بنا پر بنو ومیہ پونے 3سو سال تک حکومت کرتے رہے اور اس کے بعد بھی سینکروں سال تک اندلس پر اسلامی پرچم لہراتا رہا۔
یہ مسلمانوں کا عہدِ زریں تھا،اندلس کے دامن میں ایسے بے شمار نامور اہل علم کے نام محفوظ ہیں جن کے ناموں سے دنیا آج بھی اچھی طرح واقف ہے۔
عبد الرحٰمن نے اندلس مین حکومت اپنے ہاتھ میں لیتے ہی ملک کو 6 صوبوں میں تقسیم کیا۔ان میں مریدہ،طلیطلہ،بلنسیہ،غرناطہ،سرقسط اور مرقسیہ شامل ہیں اور عبد الرحٰمن نے ہر صوبے میں قاضی مقرر کیا۔
اس کے بعد عبد الرحٰمن نے اندلس کو محفوظ رکھنے کے لیے فوج پر خصو صی توجہ دی اور انکی کوششوں سے اندلس کی فوج کے صرف سواروں کی تعداد ایک لاکھ تک جا پہنچی۔عبد الرحٰمن نے بحری بیڑے کو بھی مضبوط بنایا۔155ھ/بمطابق772عیسویٰ کو عبد الرحٰمن نے قرطبہ کی فصیل تعمیر کروائی۔
162ھ/بمطابق789عیسویٰ مین فرانس کا بادشاہ شارلیمن نے فرانس میں عوام کو یہ تاثر دیا کہ یہ اسلام اور عیسائیت کی جنگ ہے،اور اس نے اس طرح ایک بری فوج اکھٹی کی اور اندلس کے ایک شہر "سرقسطہ" کا محاصرہ کر لیا۔عوام نے شہر کے دروازے بند کر دئیے۔لیکن اس دوران فرانس میں بغاوتیں ہونے لگیں اور شارلیمن کو واپس جانا پڑا،واپسی پر جب اس کی فوج البرانس کے تنگ دروں سے گزری تو وہاں کے مقامی عیسائی باشندوں نے اس کی فوج پر حملہ کر دیا۔
اُدھر جب عبد الرحٰمن سرقسطہ پہنچے تو شارلیمن وا پس جا چکا تھا۔لیکن عبد الرحٰمن نے اس کا پیچھا کیا اور فرانس پر حملہ کر کے اس کے جنوبی علاقوں کے تمام قلعوں کو تباہ کر دیا۔بعد میں فرانس کے بادشاہ شارلیمن نے صلح کی درخواست کی جسے عبد الرحٰمن نے منظور کر لیا۔
عبد الرحٰمن نے اندلس میں مسلمانوں کی مسجد کے لیے خصوصی اہتمام کیا۔قرطبہ کی عظیم جامع مسجد کی تعمیر بھی عبد الرحٰمن کے کارناموں میں سے ایک کارنامہ ہے۔قدیم زمانے میں جب اندلس میں بت پرستوں کی حکومت تھی،تو ان کا ایک بڑا بت خانہ قرطبہ میں موجود تھا۔جب ہسپانیہ میں عیسائیت پھیلی تو انہوں نے اسے گرا کر یہاں کلیسا قائم کر دیا۔اور جب طارق بن زیاد نے اندلس کو فتح کیا تو (جس طرح دمشق پر قبضے کے بعد حضرت عمر رضی الله عنه کے حکم پر حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی الله عنه اور حضرت خالد بن ولید رضی الله عنه نے وہاں جا کر گرجا کو مسلمانوں اور عیسائیوں میں مساوی تقسیم کر دیا تھا)طارق بن زیاد نے بھی اس کلیسا کو اسی طرح مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔اس طرح جب 98ھ میں قرطبہ کو دار الحکومت بنایا گیا تو قدرتی طور پر شہرے آبادی میں اضافہ ہو گیا اور یہ مسجد مسلمانوں کے لیے ناکافی ہو گئی۔
جب عبد الرحٰمن امیرِاندلس بنے تو انہوں نے مسجد کو وسیع کرنے کے لیے عیسائیوں کے مذہبی رہنمائوں کو بلایا اور انہیں یہ پیش کش کی کہ کہ وہ مسجد کے ساتھ ملحق کلیسا کی زمیں حکومت کو فروخت کر دیں۔کچھ بحث کے بعد عیسائی رہنما اس بات پر راضی ہوگئے کہ اندلس میں دیگر جتنے کلیسا مسمار کر دیے گئے تھے انہیں دوبارہ تعمیر کی اجازت دی جائے۔ عبد الرحٰمن نے یہ شرط منظور کر لی اور عیسائیوں کو زمین کی قیمت کے طور پر 1 لاکھ دینار بھی ادا کیے۔
دمشق کے ایک ماہر تعمیرات نے نقشہ تیار کیا لیکن عبد الرحٰمن خود بھی فنِ تعمیر سے واقف تھے۔عبد الرحٰمن نے مسجد کی تعمیر کے لیے پہاڑوں کو کٹوا کر نہر تعمیر کر وائی۔اس مسجد کی تعمیر کے لیے ان کے شوق کا یہ عالم تھا کہ عام مزدوروں کے ساتھ پتھر ڈھوتے تھے۔ عبد الرحٰمن نے مسجد کے پرانے میناروں کو گرا کر 108فٹ نیا مینار بھی تعمیر کرایا۔
اس مسجد کی تعمیر میں عبد الرحٰمن الداخل نے صرف 2 سال کے عرصے میں 80ہزار دینار خرچ کیے ،مسجد کے آس پاس مدرسے،ہسپتال اور سرائیں کا خاکہ بھی تیار کیا گیا۔ 2 سال کے عر صے کے بعد مسجد اس قدر تعمیر ہو گئی کہ اس میں نماز اد ا کی جا سکتی تھی،عبد الرحٰمن نے جمعہ کا خطبہ دیا اور نماز پڑھائی،اور پھر 25 ربیع الآخر172ھ/بمطابق 2 اکتوبر 788عیسویٰ کو عبد الرحٰمن کی وفات ہو گئی۔ آپ کی نماز جنازہ اسی مسجد میں ادا کی گئی اور آپ کو قرطبہ کے قصر میں سپردخاک کر دیا گیا۔
Us umvi ne mola Ali pe sbo-shatam krwana shru kia