پہلی جنگِ عظیم (1914–1918) کے دوران سلطنتِ عثمانیہ نہ صرف بیرونی محاذوں پر دشمن افواج کا سامنا کر رہی تھی، بلکہ داخلی سطح پر بھی شدید دباؤ اور کمزور ہوتی ہوئی سیاسی و عسکری حالت سے دوچار تھی۔ انہی حالات میں ایک جرمن فوجی رہنما مارشل کولمار فرایہر فون در غولتز نے ایک انقلابی اور غیر معمولی تجویز پیش کی — دارالحکومت استنبول کو دمشق یا حلب منتقل کرنے کی تجویز۔
⚔️ تجویز کیوں دی گئی؟
مارشل غولتز، جو کہ عثمانی افواج کے ساتھ ایک مشیر کے طور پر منسلک تھے، اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ روس کی طرف سے بحیرہ اسود کے راستے استنبول کو لاحق خطرہ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، برطانوی اور فرانسیسی افواج بھی مشرق وسطیٰ سے استنبول کی طرف پیش قدمی کے ارادے رکھتی تھیں۔
غولتز کا ماننا تھا کہ اگر عثمانی حکومت اپنے سیاسی اور عسکری مرکز کو شام یا عراق جیسے علاقوں کے قریب منتقل کر لے، تو یہ نہ صرف استنبول پر حملے کے خطرے کو کم کرے گا بلکہ فوجی رسد اور مالی امداد کی ترسیل کو بھی زیادہ مؤثر اور تیز بنائے گا۔ ان کے مطابق دمشق یا حلب جیسے شہر اُس وقت کے فعال محاذوں کے قریب تھے، اور یہاں سے جنگی کارروائیوں کو بہتر طور پر کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔
🏛️ عثمانی حکومت کا ردِعمل
یہ تجویز عثمانی حکومت کے اعلیٰ حلقوں میں زیرِ غور آئی اور بعض اراکین نے اس پر مثبت ردِعمل بھی دیا۔ لیکن حالات کی تیزی سے بدلتی صورتحال نے اس منصوبے کو حقیقت بننے سے روک دیا۔
1918 میں دمشق اتحادی افواج کے قبضے میں چلا گیا، اور عثمانی سلطنت ایک ایک کر کے اپنے علاقے کھوتی چلی گئی۔ یوں، دارالحکومت کی منتقلی کا منصوبہ دفن ہو گیا۔ استنبول 1922 تک سلطنتِ عثمانیہ کا دارالحکومت رہا، جب کہ اسی سال خلافت عثمانیہ کا باضابطہ خاتمہ بھی عمل میں آیا۔
👤 مارشل غولتز پاشا: ایک بھولا ہوا اتحادی
عثمانیوں کے لیے غولتز صرف ایک جرمن مشیر نہیں تھے بلکہ انہیں “غولتز پاشا” کا خطاب دیا گیا تھا۔ انہوں نے عثمانیوں کے ساتھ مل کر کئی اہم جنگی منصوبوں میں حصہ لیا، جن میں سب سے نمایاں کوت کا محاصرہ (Siege of Kut) تھا، جو آج کے عراق میں واقع ہے۔
افسوس کہ غولتز 1916 میں ٹائفائیڈ بخار میں مبتلا ہو کر بغداد میں وفات پا گئے — اس سے پہلے کہ وہ برطانوی جنرل ٹاونسینڈ کی عثمانیوں کے سامنے ہتھیاری ڈالنے کا منظر دیکھ پاتے۔ یہ واقعہ عثمانی فوج کی ایک بڑی فتح تھی، مگر غولتز اپنی زندگی میں اس لمحے تک نہ پہنچ سکے۔
نتیجہ: ایک منصوبہ جو تاریخ کا حصہ بن گیا
غولتز پاشا کی تجویز اگرچہ عملی شکل اختیار نہ کر سکی، لیکن اس نے پہلی جنگِ عظیم کے دوران سلطنتِ عثمانیہ کی کمزور سیاسی حالت اور جنگی حکمت عملیوں کی ایک جھلک ضرور پیش کی۔ یہ تجویز آج کے مورخین کے لیے اس بات کا اشارہ ہے کہ عثمانیوں نے جنگی حالات میں غیر روایتی حل تلاش کرنے کی سنجیدہ کوششیں کیں۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تاریخ صرف کامیاب فیصلوں کی داستان نہیں ہوتی، بلکہ ان منصوبوں کی بھی ہوتی ہے جو کبھی مکمل نہیں ہو سکے۔