معرکہ عین جالوت،جب ناقابلِ شکست منگولوں کو مملوکوں نے شکست دی۔

خوارزمی سلطنت کا زوال (1219–1221)

چنگیز خان کی قیادت میں منگولوں نے 1219 سے 1221 کے دوران خوارزمی سلطنت پر حملہ کیا اور اسے شکست دے دی۔ چنگیز خان کی وفات کے بعد منگول سلطنت میں تبدیلیاں آنے لگیں، مگر فتح اور دولت جمع کرنے کا جذبہ برقرار رہا۔

مملوک و سلجوق کا قیامِ دفاع:۔

منگولوں کی یلغار کے سامنے صرف مملوک اور سلجوق سلطنتیں کھڑی رہ سکیں۔ خاص طور پر مملوکوں نے مشہور “عین جالوت” کے معرکے میں منگول لشکر کو شکست دے کر مسلمانوں کی عزت بچائی۔

جلال الدین خوارزمی کی جدوجہد (1221–1228)

پنجاب میں پسپائی: 1221 کی بہار میں دریائے سندھ کے کنارے ہونے والی لڑائی کے بعد خوارزمی شہزادہ جلال الدین خوارزمی نے پسپائی اختیار کی اور پنجاب داخل ہو گئے۔

فوج کی تنظیم و دوبارہ فتوحات: اگلے تین سالوں میں انہوں نے اپنی فوج کو منظم کیا اور پنجاب کے متعدد علاقوں کو فتح کیا۔

دہلی کے مملوک سلطان سے معاہدہ: جلال الدین نے چنگیز خان کے خلاف اتحاد کی کوشش کی، مگر مملوک سلطان نے خوف کی وجہ سے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً جلال الدین نے لاہور چھوڑ کر ایران کی جانب رخ کیا اور خوارزم شاہ کی وفات کے بعد خود کو خوارزمی سلطان قرار دے دیا۔

تبریز کی جانب منتقلی اور جارجیا پر حملہ: چونکہ ایران اور جارجیا پہلے ہی حملوں سے کمزور ہو چکے تھے، جلال الدین نے دارالحکومت تبریز منتقل کیا اور 1226 میں جارجیا کے خلاف “Battle of Garni” جیت کر تیبیلیسی کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔

منگولوں کا جوابی حملہ اور سلجوق سلطنت کی جنگیں (1227–1231)

1227 میں منگولوں نے جلال الدین کی فتوحات کو روکنے کے لیے ایک چھوٹا لشکر ایران میں بھیجا جسے انہوں نے شکست دے دی، جس سے ان کی سلطنت مزید مستحکم ہوئی۔

مگر 1228 میں ایوبی اور سلجوق سلطنتوں کا اتحاد قائم ہوا اور “ایروان” کے مقام پر لڑائی میں جلال الدین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

1231 میں منگولوں کے حملے میں جلال الدین پھر مغلوب ہوئے، جس کے بعد وہ موجودہ ترکی کی جانب پسپائی اختیار کر گئے۔ اس واقعے کے بعد خوارزمی سلطنت کے باقی حصے منگولوں کے قبضے میں چلے گئے۔

منگولوں کی مزید فتوحات (1241–1258)

خوارزمی سلطنت کے زوال کے بعد منگولوں نے سلجوق، سلیشیا اور جارجیا کو ہدف بنایا، اگرچہ ان علاقوں نے کچھ عرصے تک مزاحمت کی کیونکہ منگول اپنی توجہ مشرقی یورپ کی جنگوں پر مرکوز کر چکے تھے۔

1241 میں اوغدای خان کی وفات کے بعد، منگول کمانڈر “بایجو نویان” نے سلجوقی سلطان سے اطاعت کا مطالبہ کیا۔ اس کے جواب میں سلطان نے منگول سفیر کی بے عزتی کی، جس پر نویان نے سلجوقی شہر “ارزونوم” پر حملہ کر کے اس کی آبادی تباہ کر دی۔1243 میں نویان 30 ہزار مضبوط لشکر کے ساتھ سلجوق سلطنت پر حملہ آور ہوا جبکہ سلطان نے 60 ہزار کا لشکر جمع کیا۔ ابتدائی حملوں میں سلجوقی دستوں نے منگولوں کو پسپا کیا مگر ایک دستے کا بہت آگے نکل جانا ان کے لیے مہلک ثابت ہوا جس سے جنگ میں ان کی شکست یقینی ہو گئی۔

ہلاکو خان اور وسطیٰ ایشیاء کی فتح (1251–1258)

1251 میں منگولوں کا نیا خان “مونکے خان” منتخب ہوا، جس نے “قوبلای” اور “ہلاکو” کو چین اور ایران کی فتح کی ہدایت دی۔1256 میں ہلاکو خان ایک لاکھ فوج کے ساتھ مشرق وسطیٰ داخل ہوئے، اور خوارزمی سلطنت کو مکمل طور پر فتح کر کے حششین (اساسنز) کے قلعوں کا محاصرہ کیا۔ایران کی فتح کے بعد ہلاکو خان نے عباسی خلیفہ “المعتصم” کو منگولوں کی اطاعت کا مطالبہ کرنے کے لیے سفیر بھیجا، جس کا انکار کر دیا گیا۔11 جنوری 1258 کو منگولوں نے بغداد کی طرف پیش قدمی کی۔ اگرچہ عباسی خلیفہ نے 20 ہزار فوج بھیجی اور ابتدائی طور پر کامیابی حاصل کی، اگلے دن منگولوں کا مرکزی لشکر پہنچ گیا اور عباسی دستوں کو زیر کر کے بغداد فتح کر لیا۔10 فروری 1258 کو منگولوں نے بغداد میں داخل ہو کر تقریباً تمام آبادی کو ہلاک کر دیا، صرف یہودی اور عیسائی بچنے میں کامیاب ہوئے۔ بغداد کی مشہور لائبریری کو بھی آگ زدہ کر کے اسلامی سنہری دور کا اختتام کر دیا گیا، اور مسلمانوں کو پہلی بار خلیفہ سے محروم ہونا پڑا۔

منگولوں کا مصر اور شام کی جانب پیش قدمی اور “عین جالوت” کا معرکہ (1260)

ہلاکو خان نے بغداد کے بعد مصر کی جانب بھی پیش قدمی کی، مگر اس وقت مصر میں ایوبی حکومت قائم تھی۔18 جنوری 1260 کو ہلاکو خان نے صلیبی اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام کے شہر حلب کا محاصرہ کیا۔ یہاں سے منگولوں کا دائرہ کار بڑھانے کا ارادہ تھا، مگر حمص اور دمشق جیسے شہر بغیر لڑائی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔اسی دوران، مونکے خان کی بیماری کے باعث وفات کی خبر ملنے پر ہلاکو خان نے 30 ہزار کا لشکر ایک تاتاری کمانڈر “کیٹبوکا” کے حوالے کر کے باقی لشکر منگولیا واپس بھیج دیا۔منگول سفیروں کے قتل اور منگولوں کے خلاف جنگ کا اعلان ہونے کے بعد مملوک سلطان “سیف الدین قطز” نے فلسطین سے اپنی فوج روانہ کی۔کیٹبوکا نے 25 ہزار فوج کے ساتھ حملہ کیا، مگر مملوکوں نے دریائے اردن کو عبور کرتے ہوئے 1260 میں “عین جالوت” کے مقام پر منگولوں کا مقابلہ کیا۔اس معرکے میں مملوکوں نے تین طرفہ حملے سے منگولوں کو گھیر لیا اور تقریباً 10 ہزار منگول فوج ہلاک ہو گئی۔ اس فتح نے منگولوں کی مزید مسلمان علاقوں پر یلغار کو روک دیا اور اسلامی دنیا کو محفوظ رکھا۔

نتیجہ:

منگولوں کے یہ حملے اور ان سے جڑی جنگیں اسلامی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئیں۔ اگرچہ منگولوں نے ابتدا میں بے پناہ فتوحات حاصل کیں، لیکن مملوکوں کا “عین جالوت” کا معرکہ ایک فیصلہ کن فتح ثابت ہوا جس نے مسلمان علاقوں کو مزید یلغار سے بچا لیا۔ یہ واقعات نہ صرف فوجی حکمت عملی کی مثال ہیں بلکہ تاریخ میں بدلتے سیاسی حالات اور اتحاد کی اہمیت کو بھی واضح کرتے ہیں۔

Check Also

ابراہیم پاشا: عثمانی سلطنت کے گرینڈ وزیر کی مکمل تاریخ

ابتدائی زندگی اور پس منظر:۔ ابراہیم پاشا 1495ء کے آس پاس یونان کے علاقے پارگا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *