تاریخ میں کئی جنگیں ایسی ہیں جو سلطنتوں کی تقدیر بدل دیتی ہیں۔ انہی میں سے ایک پرتگال اور عثمانی سلطنت کے درمیان ہونے والی جنگیں ہیں، جنہوں نے 16ویں اور 17ویں صدی کے دوران بحر ہند، خلیج فارس اور شمالی افریقہ کے خطوں میں طاقت کے توازن کو متاثر کیا۔ یہ جنگیں سمندری راستوں، تجارتی مراکز اور مذہبی نظریات کے تصادم کی ایک واضح مثال ہیں۔
پسِ منظر:۔
15ویں صدی کے آخر میں پرتگال نے سمندری طاقت کے طور پر اپنی پہچان بنائی۔ واسکو ڈا گاما کے ہندوستان پہنچنے کے بعد پرتگالیوں نے بحر ہند میں اپنی تجارتی اور فوجی موجودگی مضبوط کر لی۔ دوسری طرف، سلطنت عثمانیہ، جو کہ 15ویں صدی کے اواخر تک ایک وسیع طاقت بن چکی تھی، نے بھی اپنی بحری طاقت کو مستحکم کیا اور اسلامی دنیا کے دفاع اور اپنے تجارتی مفادات کی حفاظت کے لیے پرتگالیوں کے خلاف محاذ آرائی کی۔
پہلی جھڑپ:۔
پرتگال اور عثمانیوں کے درمیان پہلی بڑی جھڑپیں 16ویں صدی کے آغاز میں ہوئی جب پرتگالیوں نے خلیج فارس، بحیرہ احمر اور بحر ہند کے اہم مقامات پر قبضہ کرنا شروع کیا۔ سلطان سلیم اول (1512-1520) کے دور میں عثمانیوں نے مصر پر قبضہ کر لیا اور بحیرہ احمر تک اپنی رسائی بڑھا لی۔ اس کے بعد سلطان سلیمان اعظم (1520-1566) نے اس جنگ کو مزید بڑھایا۔
پرتگال سے بحری جنگ:۔
پندرہویں اور سولہویں صدی میں اسپین کے بعد جس ملک سے مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا وہ پرتگال تھا، اندلس میں جب اسلامی حکومت قائم تھی تو پرتگال بھی اسی کے زیر سایہ تھا۔ لیکن جب اس سرزمین میں مسلمانوں کا آفتاب اقبال غروب ہوا اور اسپین کی عیسائی حکومت نے اسلام کشی کا عمل شروع کیا تو پرتگال نے بھی اخوت دینی کا حق پوری طرح ادا کیا، ہندوستان، چین، سیام، جاوا، سماترا، جزائر ہند، سیلون، ملیبار، ممباسه، زنجبار، حبش، مصر و عرب وغیرہ مشرقی ممالک کی بحری تجارتیں عرب تاجروں کے ہاتھوں میں تھیں، ان کے جہاز بحر ہند، بحر عرب، خلیج فارس اور بحر احمر کے تجارتی راستوں پر قابض تھے، یہ لوگ چین، ہندوستان اور ایران وغیرہ سے مال لے جا کر مصر پہنچاتے تھے اور وہاں سے وینس اور جنوا کے سوداگر اسے یورپ لے جاتے تھے، پھر اسی طریقہ سے یورپ کا مال عربوں کے جہازوں پر ہندوستان، ایران اور چین وغیرہ مشرقی ملکوں میں پہنچتا تھا ، اس تجارت سے مسلمانوں اور خصوصاً عربوں کو بہت فائدہ تھا۔ لیکن جب واسکوڈی گاما نے راس امید کی راہ سے ہندوستان تک پہنچنے کا راستہ ریافت کیا تو پرتگال نے اس بات کی کوشش شروع کی کہ جس طرح ممکن ہو یہ تجارت عربوں کے ہاتھوں سے چھین لی جائے اور مشرقی ممالک سے تجارت کرنے کے لیے بجائے قدیم راستے کے وہ جدید راستہ اختیار کیا جائے جس کو واسکوڈی گاما نے دریافت کیا تھا، اس مقصد کے حصول کے لیے پرتگیزیوں نے جو طریقہ اختیار کیا اس کی نوعیت مولانا سید سلیمان ندوی کے مستند رسالہ ” خلافت عثمانیہ سے واضح ہوتی ہے، مولا نا فرماتے ہیں:
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے عرب جہازوں پر تاخت شروع کی ، عرب جبش ، ہندوستان اور فارس کے ساحلی مقامات پر حملے کیے اور نا مسلموں کو مجبور کیا کہ وہ مسلمانوں اور عربوں کے ہاتھ اپنا اسباب تجارت فروخت نہ کریں، ملیار کے موپلہ تاجروں پر بڑی زیادتیاں کیں، یمن اور حجاز کے ساحلی شہروں پر قبضہ جمایا اور ہندوستان میں سندھ سے لے کر مدراس و گجرات و بمبئی تک بندر گاہوں پر دھاوے کیے ، ساحلوں اور جزیروں میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا، مسجد میں شہید کر کے کلیسا ئیں بنائی جا رہی تھیں، کالی کٹ کے راجہ کو اس پر مجبور کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کو عرب آنے جانے سے روک دے، چین ساحل ہند پر قبضہ کر کے مسلمانوں کو قتل کیا اور مسجد کو کلیسا بنالیا اور پھر رفتہ رفتہ عرب کے ساحلوں پر عدن ، ہرمز، پریم وغیرہ کو اور ہندوستان کے ساحلوں میں سے گوا، جیول، واہل ، دیپ، دمن، مہمائم وغیرہ کو تاخت و تاراج کیا ، 915ھ میں کالی کٹ پر حملہ کر کے شہر کو لوٹ لیا اور وہاں کی جامع مسجد کو جلا کر شہید کر دیا۔ یہی حال انہوں نے عرب کے ساحلی مقامات کا کر دیا ، حج کے بحری مسافران قزاقوں کے ہاتھوں سے یہ مشکل جانبر ہو سکتے تھے، گوا کی مشہور بندرگاہ سلطنت بیجاپور سے چھین لی گئی اور سلطان گجرات کی تمام بندرگاہوں پر غارت گری شروع کردی، جدہ اور عدن پر کئی حملے کیے، کبھی کامیابی ہوئی اور کبھی نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا، انتہا یہ ہے کہ پرتگالی یہ خواب دیکھنے لگے کہ جدہ پر قبضہ کر کے حجز پر حملہ کیا جائے اور خاکم بدہن مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ پر قبضہ جما کر عظمت کے مقدس ترین مقامات شہید کر دیے جائیں، (نعوذ باللہ ) اسلام کی عمارت کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے ۔یہ حالات تھے جن کی روک تھام کی ذمہ داری سلطان نے تخت پر آنے کے بعد بحیثیت خلیفۃ المسلمین کے محسوس کی اور پھر اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہو آنے کی حتی الامکان پوری کوشش کی ، چنانچہ 931ھ (1525ء) میں اس نے ایک بیڑا رئیس سلیمان کی ماتحتی میں عدن کے محاصرہ کے لیے روانہ کیا ، جس پر اس وقت پرتگیزوں کا قبضہ تھا، مگر اس مہم میں ترکوں کو شکست ہوئی ، پھر بھی وہ دل شکتہ نہیں ہوئے اور بحر ہند میں برابر پرتگال کے جہازوں پر حملہ کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ گجرات کے ساحل تک پہنچ گئے ، ہا ان میں اور پرتگیزیوں میں متعد معر کے پیش آئے ، اس کے بعد 945ھ (1538ء) میں ایک عظیم الشان تر کی بیڑاسلیمان پاشا والی مصر کی سرکردگی میں سوئز اور عدن پر قبضہ کرتا ہوا گجرات کی طرف روانہ ہوا، دیپ پہنچنے کے بعد گجراتیوں سے مل کر اس نے پرتگیزوں پر حملے شروع کیے، سلیمان پاشا نے دیپ کا محاصرہ کر لیا اور اگر وہ استقلال کے ساتھ محاصرہ کو جاری رکھتا تو یہ بندرگاہ پرتگال کے قبضہ سے ضرور نکل جاتی لیکن غالباً سلیمان پاشا کی خود رائی اور استبداد نے امرائے گجرات کو آزردہ کر دیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے سامان رسد کا بھیجنا بند کر دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روز دفعتاً تر کی بیڑے نے لنگر اُٹھا کر کوچ کر دیا اور دیپ پر پرتگیزوں کاقبضہ بدستور قائم رہا، سلیمان کو جب یہ خبر پہنچی تو اسے بہت غصہ آیا ، اس نے سلیمان پاشا کو اپنے دربار میں طلب کیا اور غضب ناک ہو کر کہنے لگا کہ میں نے تم کو دیپ سے فرنگیوں کو نکالنے کے لیے اور وہاں کے بادشاہ کی مدد کے لیے بھیجا تھا، ہندوستان کےمسلمانوں پر حاکم بنا کر نہیں بھیجا تھا۔
پرتگال کا کعبہ پر حملے کا منصوبہ:۔
1513ء میں، پرتگالی ایڈمرل الفونسو ڈی البوکرک (Afonso de Albuquerque) نے مکہ پر حملہ کرنے اور کعبہ کو تباہ (نعوز باللہ)کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کا مقصد نہ صرف اسلامی دنیا کو جھٹکا دینا تھا بلکہ بحیرہ احمر اور بحر ہند کے تجارتی راستوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا بھی تھا۔ اس حملے کے پیچھے ایک اور بڑی وجہ یہ تھی کہ پرتگال چاہتا تھا کہ مسلم تاجروں کو مکمل طور پر ختم کر کے اپنے تجارتی راستے محفوظ بنائے۔
جب عثمانیوں کو پرتگالیوں کے اس منصوبے کا علم ہوا تو انہوں نے فوری طور پر ردعمل دیا۔ اس وقت مملوک سلطنت مصر اور حجاز کے علاقوں پر حکمرانی کر رہی تھی، لیکن عثمانیوں نے انہیں اپنی حمایت فراہم کی اور اپنے بحری بیڑے کو حرکت میں لایا۔
سلطان سلیم اول (1512-1520) کے دور میں عثمانیوں نے مملوکوں کے ساتھ مل کر پرتگالی خطرے کا مقابلہ کرنے کی تیاری کی۔ 1517ء میں جب عثمانیوں نے مملوک سلطنت پر فتح حاصل کی اور حجاز کو اپنی سلطنت میں شامل کیا، تو عثمانیوں نے مکہ اور مدینہ کے دفاع کے لیے ایک مؤثر نظام قائم کیا۔ انہوں نے بحیرہ احمر میں ایک مضبوط بحری اڈہ قائم کیا تاکہ پرتگالیوں کی کسی بھی جارحیت کو روکا جا سکے۔
معرکہ جدہ1517ء:۔
پرتگالیوں نے جدہ کے قریب اپنی مہم کا آغاز کیا، لیکن وہاں انہیں عثمانی بحریہ اور مقامی افواج کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ عثمانی گورنر میر علی بیگ نے بحیرہ احمر میں پرتگالی بحری بیڑے کے خلاف شدید حملے کیے اور انہیں بھاری نقصان پہنچایا۔عثمانی توپ خانے اور بحری قوت کے سامنے پرتگالی شکست کھانے لگے اور ان کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔ وہ بحیرہ احمر کے پرتگالی اور عثمانی جنگیں سمندری طاقت، تجارتی راستوں اور مذہبی اثر و رسوخ کے حصول کے لیے لڑی گئیں۔ یہ جنگیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ 16ویں اور 17ویں صدی میں یورپی اور مسلم طاقتیں عالمی تجارت اور سیاست پر غلبہ پانے کے لیے کس قدر سرگرم تھیں۔ اس جنگ کا سب سے بڑا اثر بحر ہند کی سیاست پر پڑا، جہاں بعد میں برطانوی اور ڈچ سامراج نے اپنے پنجے گاڑ دیے۔
یہ جنگیں تاریخ کے ایک اہم باب کی نمائندگی کرتی ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ سلطنتوں کے عروج و زوال میں جنگی طاقت، سفارت کاری اور معاشی عوامل کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔