سلطان سلیمان کی وفات – ایک عظیم عہد کا اختتام

16ویں صدی کی اسلامی تاریخ کا ایک درخشاں باب، سلطنت عثمانیہ کے سب سے طاقتور اور دانا حکمران سلطان سلیمان اول کی قیادت میں لکھا گیا۔ سلطان سلیمان، جنہیں مغرب میں “سلیمان دی میگنیفیسنٹ” اور مشرق میں “القانونی” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، اپنی حکمت، عدل، اور فتوحات کی بدولت دنیا بھر میں مشہور ہوئے۔

لیکن ہر عظیم سفر کا ایک اختتام ہوتا ہے۔ 6 ستمبر 1566ء کو، جب سلطان سلیمان محاصرۂ سگیتوار میں اپنے آخری لشکری مہم پر تھے، وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات کو کئی دنوں تک خفیہ رکھا گیا تاکہ فوج کا حوصلہ قائم رہے، اور یوں سلطنت عثمانیہ کا یہ شیر خاموشی سے تاریخ کے صفحات میں امر ہو گیا۔ان کی موت صرف ایک بادشاہ کی وفات نہ تھی بلکہ ایک عہد، ایک سنہری دور، اور انصاف و حکمرانی کی ایک عظیم مثال کا اختتام تھا۔ آج بھی، سلطان سلیمان کی میراث تاریخ کے اوراق میں روشن ہے، اور ان کا نام عظیم ترین مسلم حکمرانوں میں شمار ہوتا ہے۔یہاں سے شروع ہوتا ہے ایک نئی تاریخ کا سفر، مگر سلطان سلیمان کی داستان ہمیشہ زندہ رہے گی۔

ہنگری کی مہم اور سلیمان کی وفات:۔

جس وقت محاصرہ اُٹھا لینے کی خبر قسطنطنیہ پہنچی، سلیمان آسٹریا سے ایک نئی جنگ کی تیاری کر رہا تھا، وجہ یہ تھی کہ ہنگری کی حلیف جماعتوں میں پھر نزاع شروع ہو گئی تھی اور میکسی میلن ثانی (1) Maximilian) نے جو فرڈینینڈ کے انتقال کے بعد اس کا جانشین تھا،اس نے کانٹ زا پولیا کے لڑکے کو تخت سے محروم کر دینے کا عزم کر لیا تھا، چنانچہ اسی سلسلہ میں اس نے بعض اہم قلعوں پر قبضہ بھی کر لیا تھا، یہ معلوم کر کے سلیمان نے بذات خود میدان میں آنے کا فیصلہ کیا اور باوجود اس کے کہ  سلطان کی عمر 76 سال ہو چکی تھی ،ضعف عمر اور علالت کے باعث وہ گھوڑے پر بیٹھ نہیں سکتا تھا، پالکی میں سوار ہو کر یکم مئی 1566ء کوفوج کے ساتھ قسطنطنیہ سے ہنگری کی طرف روانہ ہوا، اس میں شبہ نہیں کہ آسٹریا کی جنگ نے اس سال مبارزین مالٹا کو دوسرے حملہ سے محفوظ کر دیا جو یقیناً ان کےلیے مہلک ثابت ہوتا 27 جون 156 کو سلیمان سلین کے مقام پر پہنچا اور وہاں نوجوان سگمنڈ زاپولی ( Sigismund Zapoly) نے جو سلطنت عثمانیہ کے زیر سر پرستی ہنگری اور ٹرانسلوینیا کا بادشاہ تھا، اس کے سامنے نذر اطاعت پیش کی ، آگے بڑھنے سے پہلے سلیمان اربرو (Erbru) اور کھیتھ (Szigeth) کے قلعوں کو فتح کر لینا چاہتا تھا، چنانچہ 5 اگست 1566ء کو عثمانی فوجوں نے زیجیے شہر کے گرد اپنے خیمے نصب کر دیے۔

پانچ روز میں شہر فتح ہو گیا لیکن وہاں کے حاکم زرینی (Zriny) اور اس کے باقی ماندہ 3200 آدمیوں نے قلعہ میں پناہ لی اور وہاں سیاہ علم نصب کر کے اس بات کی قسم کھائی کہ جب تک ایک سپاہی بھی زندہ رہے گا ہتھیار نہ ڈالیں گے، اگست اور ستمبر میں ترکوں نے اس قلعہ پر تین حملے کیے لیکن ہر بار انہیں پسپا ہونا پڑا، بالآخر انہوں نے قلعہ کے سب سے سے بڑے برج کے نیچے سرنگ کھود کر بارود بچھا دیا اور 5 ستمبر 1566ء کو علی الصباح بارود میں آگ لگا دی، پھر بھی چار روز کی مسلسل گولہ باری کے بعد 8 ستمبر کو یہ قلعہ فتح ہو گیا۔

لیکن 5 ستمبر کی رات ہی کو سلیمان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی ، صدر اعظم صوقولتی نے سلطان کی وفات کی خبر بالکل مخفی رکھی اور اسی کے نام سے تمام احکام جاری کرتا رہا، اس نے پوشیدہ طور پر شہزادہ سلیم کے پاس اس حادثہ کی اطلاع بھیج دی، اس درمیان میں عثمانی فوجیں جن کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی متعدد مقامات فتح کرتی رہیں، صوقولتی نے سلیمان کی لاش پر مصالحہ لگا کر اسے خراب ہونے سے محفوظ کر دیا تھا اور کوچ کے وقت لاش کو پالکی میں رکھ کر ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جایا جاتا تھا، اس نے لشکر میں یہ خبر مشہور کرا دی تھی کہ سلطان علالت کی وجہ سے باہر نکلنے سے معذور ہے، اس تدبیر سے اس نے سات ہفتہ تک اس کی وفات کو پوشیدہ رکھا اور بالآخر یہ معلوم کر لینے کے بعد کہ قسطنطنیہ میں شہزادہ سلیم تخت پر بیٹھ چکا، اس نے 24 اکتوبر 1566ء کو تمام فوج کو جمع کر کے سلیمان کی وفات کا اعلان کر دیا۔

Check Also

ابراہیم پاشا: عثمانی سلطنت کے گرینڈ وزیر کی مکمل تاریخ

ابتدائی زندگی اور پس منظر:۔ ابراہیم پاشا 1495ء کے آس پاس یونان کے علاقے پارگا …

One comment

  1. Agar Suleiman ne ran mureedi na k hote to shayad empire bach jate aurton hurrem sultan k madakhlat k pure chances dea
    Shehzade Mustafa ka na haq qatal
    Rustem pasha k corruption per khamoshi
    Ye bhi sulieman k karname han

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *