رمضان المبارک میں ہونے والی عظیم فتح، معرکہ حارم۔

 “معرکہ حارم” (Battle of Harim) ایک مشہور جنگ تھی جو رمضان 559 ہجری (1164ء) میں سلطان نورالدین زنگی اور صلیبی حکمرانوں کے درمیان لڑی گئی تھی۔

تاریخ اسلامی میں کئی ایسی جنگیں ہوئی ہیں جنہوں نے سلطنتوں کی تقدیر بدل دی، انہی میں سے ایک اہم معرکہ “جنگِ حارم” (Battle of Harim) ہے، جو رمضان 559 ہجری (1164ء) میں سلطان نورالدین زنگی اور صلیبی حکمرانوں کے درمیان لڑی گئی۔ یہ جنگ شام کے شمالی علاقے حارم میں ہوئی اور مسلمانوں کے لیے ایک زبردست فتح کا باعث بنی۔

12ویں صدی میں صلیبی جنگوں کی شدت اپنے عروج پر تھی۔ صلیبی ریاستوں نے شام اور فلسطین کے کئی اہم علاقوں پر قبضہ کر رکھا تھا، اور ان کی طاقت دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ حارم ایک اہم اسٹریٹیجک قلعہ تھا، جو انتاکیہ (Antioch) اور حلب (Aleppo) کے درمیان واقع تھا۔ صلیبی فوجوں نے اس قلعے پر قبضے کے لیے محاصرہ کر لیا تھا، اور ان کا مقصد مسلم علاقوں پر مزید تسلط قائم کرنا تھا۔سلطان نورالدین زنگی جو ایک عظیم سپہ سالار اور اسلام کے دفاع کے لیے پرعزم حکمران تھے، اس خطرے کو بھانپ چکے تھے۔ انہوں نے صلیبیوں کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ایک زبردست جنگی حکمت عملی ترتیب دی۔

یہ جنگ شام کے شمالی علاقے حارم (موجودہ ترکی کے قریب) میں ہوئی، جو اس وقت صلیبی ریاستوں اور مسلم سلطنتوں کے درمیان ایک اہم دفاعی مقام تھا۔ صلیبی جنگوں کے دوران یورپی بادشاہوں نے اس علاقے پر کئی حملے کیے، لیکن نورالدین زنگی کی حکمت عملی اور شجاعت نے انہیں زبردست شکست دی۔

 جنگ کا آغاز:۔

1164ء میں، صلیبی بادشاہ بوہمند III (Prince of Antioch)، ریمونڈ III (Count of Tripoli) اور دیگر یورپی افواج نے حارم قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ ان کے ساتھ بازنطینی اور آرمینیائی فوجیں بھی شامل تھیں۔ صلیبیوں کا منصوبہ مسلم علاقوں پر مزید قبضہ کرنا اور نورالدین زنگی کی طاقت کو کمزور کرنا تھا۔

 سلطان نورالدین زنگی کی حکمت عملی:۔

نورالدین زنگی نے رمضان کے مقدس مہینے میں جنگ چھیڑنے کی اجازت دی، کیونکہ صلیبی اپنی افواج کو زیادہ منظم کر رہے تھے۔

زنگی نے اپنے دستے تین حصوں میں تقسیم کیے، تاکہ صلیبی افواج کو گھیر کر حیران کر دیا جائے۔مسلم افواج نے ایک مضبوط دفاعی حکمت عملی اپنائی، اور اچانک جوابی حملہ کر کے صلیبیوں کو مکمل محاصرے میں لے لیا۔

 عظیم فتح:۔

صلیبی فوج مکمل طور پر تباہ ہو گئی، اور ان کے کئی بڑے رہنما گرفتار کر لیے گئے، بشمول:

بوہمند III (Prince of Antioch)

ریمونڈ III (Count of Tripoli)

ہنری آف شامپین

ہیمفرے II آف تورون

یہ جنگ صلیبی تاریخ میں ایک بہت بڑی شکست سمجھی جاتی ہے، کیونکہ نورالدین زنگی نے نہ صرف حارم کو واپس لیا، بلکہ صلیبی ریاستوں کی طاقت کو بھی بری طرح کمزور کر دیا۔

 معرکہ حارم کے اثرات:۔

 یہ جنگ مسلم افواج کے حوصلے کو بلند کرنے کا باعث بنی اور صلیبیوں کی مشرقی مسلم علاقوں پر گرفت کمزور ہو گئی۔سلطان نورالدین زنگی کی فتوحات نے صلاح الدین ایوبی کے لیے راہ ہموار کی، جنہوں نے بعد میں فتحِ بیت المقدس (1187ء) کی۔ صلیبی بادشاہتوں میں بےاعتمادی اور اندرونی اختلافات پیدا ہوئے، جس نے ان کی مزید کمزوری کا سبب بنایا۔

یہ جنگ ایک یادگار معرکہ تھی جو مسلمانوں کی بہادری، اتحاد اور بہترین حکمت عملی کی علامت بن گئی۔ نورالدین زنگی کی قیادت میں اسلامی تاریخ کا ایک زبردست باب رقم ہوا!

Check Also

ایک غلام جس نے منگولوں کو شکست دی تھی۔

جب سلطان صلاح الدین ایوبی کے  تخت پر ملک الصالح نے 637ھ/بمطابق1274عیسویٰ کو   اقتدار سنبھالا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *