حجاج بن یوسف کا نام اسلامی تاریخ میں ایک ایسے حکمران کے طور پر لیا جاتا ہے جو اپنی سخت گیری، ظالمانہ طرزِ حکومت اور جنگی مہارت کے لیے مشہور تھا۔ وہ بنو امیہ کے دور کا سب سے طاقتور گورنر تھا، جس نے کئی فتوحات حاصل کیں لیکن ساتھ ہی اپنی بے رحم پالیسیوں کی وجہ سے بدنام بھی ہوا۔ بعض مؤرخین اسے انتہائی سفاک حکمران قرار دیتے ہیں، جبکہ کچھ اسے ایک عظیم منتظم اور بہادر سپہ سالار بھی مانتے ہیں۔
پیدائش اور ابتدائی زندگی:۔
حجاج بن یوسف 661ء میں طائف (موجودہ سعودی عرب) میں پیدا ہوا۔ وہ قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا پورا نام حجاج بن یوسف بن حکم بن ابو عقبہ تھا۔ اس کا خاندان علمی اور ادبی لحاظ سے مشہور تھا، اور اسے بہترین تعلیم دی گئی۔ ابتدا میں وہ قرآن کا معلم تھا، لیکن جلد ہی اس کی طبیعت میں جنگ و جدل اور حکمرانی کا شوق نمایاں ہونے لگا۔ وہ عبدالملک بن مروان کے دور میں فوج میں شامل ہوا اور اپنی صلاحیتوں کے سبب جلد ہی ترقی پانے لگا۔
حجاج بن یوسف کا عروج:۔
حجاج بن یوسف کی صلاحیتوں کو پہچانتے ہوئے عبدالملک بن مروان (بنو امیہ کا خلیفہ) نے اسے اہم فوجی اور حکومتی ذمہ داریاں سونپیں۔
کوفہ اور بصرہ کا گورنر:۔
عبدالملک بن مروان نے اسے 694ء میں عراق کا گورنر مقرر کیا، جہاں اس نے سخت قوانین نافذ کیے۔ وہ بدنظمی ختم کرنے اور خوارج و باغیوں کو کچلنے میں کامیاب ہوا، لیکن اس کے طریقے بے حد ظالمانہ تھے۔ وہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے سخت سزائیں دیتا تھا، اور ذرا سی بغاوت پر ہزاروں لوگوں کو قتل کر دیتا تھا۔
مکہ پر حملہ اور کعبہ کی بے حرمتی:۔
پھر 692ءمیں عبداللہ بن زبیر کے خلاف جنگ میں مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور شہر کو محاصرے میں لے لیا۔ کعبہ پر منجنیقوں سے پتھر برسائے گئے، جس سے بیت اللہ کا ایک حصہ تباہ ہوگیا۔ عبداللہ بن زبیر کو قتل کر کے اس کی لاش کئی دنوں تک سولی پر لٹکائے رکھی، جس پر عوام میں غم و غصہ پھیل گیا۔
حجاج بن یوسف کا کعبہ پر حملہ اور صحابہ کی شہادت:۔
حجاج بن یوسف کے سب سے زیادہ متنازع واقعات میں سے ایک کعبہ پر حملہ اور اس میں صحابہ کرام کی شہادت ہے۔ یہ واقعہ اسلامی تاریخ کے ایک انتہائی دردناک باب کے طور پر جانا جاتا ہے۔
پس منظر:۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، جو خلیفہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے، نے یزید بن معاویہ کی وفات کے بعد خلافت کا دعویٰ کیا اور مکہ کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ عبدالملک بن مروان، جو اس وقت اموی خلیفہ تھا، انہیں ختم کرنے کے درپے تھا اور اس مقصد کے لیے حجاج بن یوسف کو مکہ پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔
محاصرۂ مکہ 692ء:۔
حجاج بن یوسف نے بڑے لشکر کے ساتھ مکہ مکرمہ کا محاصرہ کر لیا اور شہر پر شدید بمباری شروع کر دی۔ اس نے منجنیقوں کے ذریعے بیت اللہ پر حملہ کیا جس سے کعبہ کی دیواروں کو نقصان پہنچا۔ اس حملے میں کئی صحابہ کرام اور تابعین شہید ہوئے، اور مسلمانوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت:۔
جب حجاج کے لشکر نے مکہ میں داخل ہو کر جنگ شروع کی، تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بہادری سے لڑے۔ تاہم، ان کے بیشتر ساتھی شہید ہو چکے تھے اور وہ تنہا رہ گئے۔ حجاج نے انہیں شہید کر دیا اور ان کی لاش کئی دنوں تک سولی پر لٹکائے رکھی، تاکہ لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہو۔ ان کی والدہ، حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا، جو اس وقت ضعیف ہو چکی تھیں، نے جب اپنے بیٹے کی لاش کو دیکھا، تو صبر کا مظاہرہ کیا اور کہا:
“میرے بیٹے، تُو نے شہادت کو ترجیح دی اور عزت کے ساتھ مرا۔”
اسلامی مؤرخین کی رائے:۔
ابن کثیر اور طبری جیسے مؤرخین اس واقعے کو بنو امیہ کی سفاکیت اور حجاج بن یوسف کے ظلم کی ایک مثال قرار دیتے ہیں۔ بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ حجاج کی یہ حرکت ایک ناقابلِ معافی جرم تھا، کیونکہ اس نے مقدس شہر پر حملہ کر کے کعبہ کو نقصان پہنچایا۔
حجاج بن یوسف کے ظلم و ستم:۔
حجاج کی سخت مزاجی اور سفاکانہ پالیسیوں کی وجہ سے وہ عوام میں سخت ناپسندیدہ ہو گیا۔اس نے ہزاروں لوگوں کو بغاوت کے الزام میں قتل کرایا۔ اس کے جلاد ہر وقت قیدیوں کو قتل کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ مؤرخین کے مطابق، اس کے دور میں تقریباً 1 لاکھ 20 ہزار لوگ قتل کیے گئے۔
قید و بند کی سختیاں:۔
اس کے زندان اتنے خوفناک تھے کہ قیدی تھوڑے ہی عرصے میں مر جاتے تھے۔ بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس کی قید میں لوگ کھانے اور پانی کے بغیر رہنے پر مجبور ہوتے تھے۔
حجاج بن یوسف کی وفات:۔
حجاج بن یوسف کی موت بھی اس کے باقی معاملات کی طرح ایک عجیب اور عبرت ناک انجام رکھتی ہے۔ وہ اپنی زندگی میں جتنا طاقتور اور بے رحم تھا، موت کے وقت اتنا ہی بے بس اور لاچار ہو چکا تھا۔
آخری ایام اور بیماری:۔
یوں714ءمیں حجاج شدید بیمار ہو گیا۔ مؤرخین کے مطابق، وہ ایک انتہائی تکلیف دہ اور لاعلاج بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اس کے پیٹ میں شدید سوجن اور تکلیف پیدا ہو گئی تھی، جس کے باعث وہ انتہائی تکلیف میں مبتلا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی بیماری کئی ماہ تک جاری رہی، اور وہ بے حد کمزور ہو گیا۔
گناہوں کا احساس اور پچھتاوا:۔
حجاج بن یوسف کے آخری دنوں میں اس کے دل میں اپنے مظالم کے بارے میں پشیمانی پیدا ہوئی۔ بعض روایات کے مطابق، اس نے کہا:
“کاش! میں نے یہ سب کچھ نہ کیا ہوتا، کاش! میں کسی معصوم کی بددعا کا شکار نہ ہوا ہوتا۔”
مؤرخین کے مطابق، وہ اپنے ظلم کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہو چکا تھا اور بار بار کہتا تھا کہ اللہ میرے گناہوں کو معاف کر دے۔ ایک روایت کے مطابق، اس نے قرآن مجید کو ہاتھ میں لے کر کہا کہ اے اللہ! میں تیری رحمت سے ناامید نہیں ہوں، لیکن میں نے جو ظلم کیے ہیں، ان کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔
آخری الفاظ اور عبرتناک انجام:۔
وہ انتہائی تکلیف دہ حالت میں دنیا سے رخصت ہو گیا، اور یوں اسلامی تاریخ کا ایک ظالم مگر طاقتور حکمران اپنی زندگی کے سب سے بے بس لمحے میں انجام کو پہنچا۔حجاج بن یوسف کی وفات کے بعد لوگوں نے خوشی منائی اور اس کے مرنے پر جشن منایا گیا۔ بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ لوگوں نے اس کی قبر پر پتھر پھینکے اور اسے بددعائیں دیں۔
حجاج بن یوسف کی موت ایک عبرت کا نشان بنی۔ اس کی بے پناہ طاقت اور ظالمانہ حکمرانی کے باوجود، وہ آخری وقت میں اپنی بیماری، پچھتاوے اور تنہائی کا شکار ہو کر مرا۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ طاقت اور اقتدار ہمیشہ قائم نہیں رہتا، اور ظالم کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔
