تاریخ میں کچھ ایسے معرکے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ اپنی اہمیت اور اثر و رسوخ کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک معرکہ 1565ء میں سلطنتِ عثمانیہ کا مالٹا پر محاصرہ تھا، جسے تاریخ میں “محاصرہ مالٹا” (Great Siege of Malta) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس محاصرے میں سلطان سلیمان اعظم نے اپنے طاقتور بحری بیڑے کو عیسائیوں کے اس اہم قلعے پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ جنگ ایک ایسی صلیبی لڑائی تھی جس میں عثمانیوں اور سینٹ جان نائٹس کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوئیں۔
یہ کہانی نہ صرف جنگی حکمتِ عملیوں کی ہے، بلکہ یہ ہمت، عزم، اور قربانی کی ایک مثال بھی ہے۔ تو آئیے، اس تاریخی محاصرے کی مکمل تفصیلات جانتے ہیں۔
مالٹا: ایک اسٹریٹجک جزیرہ
مالٹا بحیرہ روم کے عین وسط میں واقع ایک اہم جزیرہ تھا۔ یہ مشرق و مغرب کے درمیان ایک ایسا پُل تھا جو یورپ، شمالی افریقہ، اور مشرق وسطیٰ کو جوڑتا تھا۔
سلطنتِ عثمانیہ کی توسیع
16ویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ اپنی طاقت کے عروج پر تھی۔ سلطان سلیمان اعظم (1520-1566) کے دور میں سلطنت کے بحری اور زمینی فوجی مہمات نے مشرقی یورپ، بحیرہ روم اور مشرق وسطیٰ میں عثمانی اثر و رسوخ کو ناقابل تسخیر بنا دیا تھا۔
سینٹ جان نائٹس کون تھے؟
سینٹ جان نائٹس (Knights of St. John) ایک عسکری مذہبی گروہ تھا جو صلیبی جنگوں کے دوران قائم ہوا۔ جب عثمانیوں نے 1522 میں رودس کا محاصرہ کر کے اسے فتح کیا تو یہ نائٹس وہاں سے نکل کر مالٹا چلے گئے اور اسے اپنا نیا قلعہ بنا لیا۔ وہ مالٹا کو عثمانیوں کے خلاف عیسائی دنیا کے دفاعی مورچے کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔
سلطان سلیمان، جو پہلے ہی رودس پر قبضہ کر چکے تھے، نے اب مالٹا کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ بحیرہ روم میں عثمانیوں کی برتری کو یقینی بنایا جا سکے۔
1565 کے اوائل میں، سلطان سلیمان نے اپنے بہترین سپہ سالار پیالی پاشا اور مصطفیٰ پاشا کو حکم دیا کہ وہ ایک زبردست بحری بیڑا تیار کریں۔
عثمانیوں کے پاس 200 کے قریب بحری جہاز تھے، جن میں جنگی جہاز اور سپلائی کاروین شامل تھیں۔
فوج میں 40,000 سے زائد سپاہی شامل تھے، جن میں تجربہ کار جینیسری سپاہی (Janissaries)
عثمانیوں نے بڑی توپوں اور جدید اسلحے کے ساتھ مالٹا پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔
دوسری طرف، نائٹس آف سینٹ جان کے پاس صرف 8,000 جنگجو تھے، جن میں 600 نائٹس اور باقی مقامی ملیشیا شامل تھی۔ لیکن ان کے پاس مضبوط قلعے اور جنگی مہارت تھی۔
محاصرہ مالٹا (1565ء)
عثمانی حملے کا آغاز
18 مئی 1565ء کو عثمانی بحری بیڑا مالٹا کے ساحل پر پہنچا اور فوراً قلعہ بندیوں پر حملہ شروع کر دیا۔
عثمانیوں نے قلعہ سینٹ ایلمو (Fort St. Elmo) کو نشانہ بنایا، جو دفاعی لائن کا سب سے کمزور قلعہ تھا۔
نائٹس نے زبردست مزاحمت کی، لیکن 23 جون کو عثمانیوں نے قلعہ سینٹ ایلمو پر قبضہ کر لیا۔
زبردست مزاحمت اور خونریز جنگ
زبردست مزاحمت اور خونریز جنگ
عثمانیوں نے باقی قلعوں پر حملہ جاری رکھا، لیکن نائٹس اور مقامی فوجیوں نے انتہائی بہادری سے لڑائی کی۔
عثمانیوں کے لیے شدید گرمی اور نائٹس کی گوریلا جنگی حکمت عملی بہت نقصان دہ ثابت ہوئی۔
عثمانی فوج کی قیادت میں اختلافات پیدا ہونے لگے اور پریالی پاشا اور مصطفیٰ پاشا کی رائے مختلف تھی کہ کس طرح حملہ جاری رکھا جائے۔
ہسپانوی کمک کی آمد
عثمانیوں کی فتح قریب تھی، لیکن 7 ستمبر 1565ء کو اسپین کے بادشاہ فلپ دوم نے نائٹس کی مدد کے لیے 8,500 سپاہیوں پر مشتمل ایک بحری بیڑا بھیج دیا۔
عثمانیوں کو دو محاذوں پر لڑنا پڑا اور ان کی سپلائی لائنز کمزور ہونے لگیں۔
8 ستمبر کو عثمانی فوج نے پسپائی اختیار کی اور مالٹا کو چھوڑ دیا۔
نتائج اور اثرات
عثمانی فوج کی شکست: یہ جنگ عثمانیوں کے لیے ایک بڑی ناکامی تھی اور ان کی بحری قوت کو ایک دھچکا لگا۔
مالٹا کی عظیم فتح: عیسائی یورپ نے اس کامیابی کو عثمانیوں کے خلاف ایک بڑی فتح سمجھا، اور سینٹ جان نائٹس کے عزائم مزید مضبوط ہو گئے۔
سلطان سلیمان کی آخری بڑی مہم: یہ معرکہ سلطان سلیمان کے آخری بڑے فوجی اقدامات میں سے ایک تھا۔ وہ 1566 میں انتقال کر گئے۔
بحیرہ روم میں طاقت کا توازن: اس جنگ کے بعد، عثمانیوں کو بحیرہ روم میں مزید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر 1571 کی لیپانٹو کی جنگ میں۔
نتیجہ
محاصرہ مالٹا تاریخ کی ایک عظیم جنگ تھی، جو عثمانیوں اور عیسائی دنیا کے درمیان جنگوں کا ایک اہم باب تھی۔ اگرچہ عثمانیوں نے بڑی فتح کی امید کی تھی، لیکن نائٹس کی بہادری، ہسپانوی کمک، اور قدرتی عوامل نے ان کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔
یہ محاصرہ نہ صرف ایک جنگ تھی بلکہ یہ طاقت، حکمت عملی، اور ثابت قدمی کی ایک زبردست کہانی بھی ہے، جو آج بھی تاریخ کے اوراق میں زندہ ہے۔
سلطنت عثمانیہ کے شاندار ماضی اور مسلمانوں کی فتوحات کی تاریخ پڑھ کر سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے انہی اوراق میں سیاسی مخالفوں اور غداروں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ جو اسلامی عقائد اور تعلیمات کو زبردست نقصان پہنچا تی نظر آتی ہے۔
آج کے حالات میں بھی ہمیں ماضی کی غداریاں اور سیاسی ضمیر فروشیاں نظر آتی ہیں ۔