عثمان غازی کے ہاتھوں اناگول شہر کی فتح

عثمان غازی پر بنائے جانے والی پچھلی ویڈیو میں ہم نے دیکھا کہ کیسے عثمان غازی نے بازنطینی ٹیکفور “آیا نیکولا” سے “کولوچہ حصار”قلعہ چھین کر وہاں کائی پرچم کو لہرایا۔
آج کی اس ویڈیو میں ہم عثمان غازی کی مزید فتوحات کے بارے میں بات کریں گے۔
“کولوچہ حصار” کی فتح کے بعد “اینا گول “شہر بالکل غیر محفوظ ہو گیا تھا ۔کیونکہ اب اناگول کو فتح کرنے کے لیے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، اس پر انا گول قلعے کےٹیکفور “آیا نکولا”نے اپنے ہمسائے “کراچہ حصار”قلعے کےٹیکفور کو ایک خط لکھا:۔
” کہ تم اب بھی خاموش بیٹھے ہو،اور تم کس انتظار میں ہو، عثمان ہمیں تباہ کرنے کے بعد ہمارے بچوں کو غلام بنا لے گا ،اور وہ تم سےتمہارا قلعہ”کراچہ حصار” بھی چھین لے گا ۔اگر ہم نے بروقت کاروائی نہ کی تو یہ ترک ہمارے شہروں میں داخل ہو جائیں گے “
اس خط کے پڑھنے کے بعد “کراچہ حصار” کے گورنر نے “آیا نکولا” کے ساتھ اتحاد کرلیا اور دونوں نےمل کر ایک فوج تیار کی، جس کے بعد دونوں کی فوجیں “عثمان غازی” کو ختم کرنے کے لیے اپنے شہروں سے روانہ ہوئیں ۔
ادھر عثمان غازی کو بھی ایا نکولا اور اس کے اتحادی کے حملے کی خبر مل چکی تھی،جس کے بعد عثمان غازی نے جلد دیوان بلوایا اور انہیں عیسائیوں کے حملے کی خبر دی، جس پر تمام ترک سرداروں نے “عثمان غازی” کو مشورہ دیا کہ ہم عیسائی لشکر پر کھات لگا کر حملہ کریں ۔تاکہ ان عیسائیوں کی طاقت کو توڑ سکیں ۔عثمان غازی نے اپنے سرداران کے مشورے کو پسند کیا اور فوج کو جمع کرنے کے بعد وہ”اکیزجے” نامی پہاڑی پر جا پہنچے،جہاں عثمان غازی نےاپنے جانثاروں کے ساتھ عیسائی فوج پر کھات لگانی تھی۔
عثمان غازی کا یہ منصوبہ بڑا ہی شاندارتھا، اگر عثمان غازی اپنے اس منصوبے میں کامیاب ہو جاتے تو رومیوں کی پیش قدمی کو کسی حد تک روکا جا سکتا تھا ۔سو ایسا ہی ہوا،عثمان غازی اپنے جنگجوؤں کے ساتھ اس پہاڑی علاقے میں چھپ کر بیٹھ گئے اور رومی فوج کے کا انتظار کرنے لگے ایک طویل انتظار کے بعد عثمان غازی نے دیکھا کہ” مشرقی رومی فوج” مٹی کے بادل کے ساتھ سامنے نمودار ہوتی ہے اور جیسے ہی یہ رومی فوج عثمان غازی اور ان کے جنگجوؤں کے تیروں کے نشانے پر آتی ہے، تو عثمان غازی اچانک حملے کا حکم دیتے ہیں۔،اور مسلمان سپاہی دشمن پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔یہ حملہ اس قدر شدید ہوتا ہے کہ رومی فوج اس حملے کا سامنا نہیں کر سکتی ،رومی فوج اس جنگ میں تعداد کے لہذٰ سے عثمانیوں سے زیادہ تھی، لیکن اس کے باوجودعثمان غازی کے مختصر جانثاروں نے ان رومی سپاہیوں کو بھاگنے نہ دیا اور وہ میدان جنگ میں اپنے سردار کے ساتھ ڈٹے رہے ۔جلد عثمانی سپاہیوں نے رومیوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا اور ہزاروں رومی سپاہی کائیوں کی تلواروں کا نشانہ بنے ۔
لیکن اس شدید معرکے میں عثمان غازی کا بڑا بھائی” ساوچی بے “ایک رومی سپاہی کی تلوار کی ضرب لگنے سے شدید زخمی ہو گئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اس معرکے میں شہید ہو گئے۔ ساوچی بے کی شہادت کائیوں کے لیے ایک بہت بڑی قیامت تھی ،اس شہادت پر عثمان غازی اور ان کے سپاہی شدید غصے میں آگئے اور انہوں نے رومی فوجوں پر ایک فیصلہ کن حملہ کیا ۔
یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ اس حملے میں رومی فوج کا کمانڈر “کالا نوز” عثمانیوں کے ہاتھوں مارا گیا ۔رومی کمانڈر کے قتل ہونے کے بعد رومی سپاہیوں کے پاؤں اُکھڑ گئے اور وہ میدان جنگ سے بھاگنے لگے ۔عثمان غازی نے اس جنگ میں ہزاروں رومی سپاہیوں کو جنگی قیدی بنا لیا جبکہ بھاگنے والے سپاہیوں کا عثمان غازی نے تعاقب کیا اور جہاں کوئی رومی سپاہی نظرآیا اسے ختم کر دیا گیا۔
1287ء میں ہونے والی “اکیزجے” جنگ میں عثمان غازی نے شاندار فتح حاصل کی اورآس پاس کے علاقوں میں عثمان غازی کی دھاک بیٹھ گئی ۔لیکن عثمان غازی کے لیے جہاں یہ فتح خوشی کا باعث تھی وہیں یہ فتح عثمان غازی کے لیے غم کا باعث بھی بنی کیونکہ اس جنگ میں انہوں نے اپنے بڑے بھائی ساوچی بے کو کھو دیا تھا جو کہ عثمان غازی کے ساتھ بے حد پیار کرتے تھے ۔
ادھر سلجوقی سلطنت کے پائے تخت “قونیا” میں سلطان “غیاس الدین مسعود “کو جب یہ خبر ملی کہ آیا نکولا نے اپنی فوجوں کے ساتھ عثمان غازی پر حملہ کیا ہے اور عثمان غازی نے نہ صرف آیا نکولا کو شکست دی بلکہ سینکڑوں سپاہیوں کو گرفتار بھی کر لیا ہے اور رومیوں کا ایک بہت بڑا کمانڈر “کالانوز”بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے ،تو وہ عثمان غازی کی اس فتح پر بے حد خوش ہوئے لیکن سلطان کو اس بات پر غصہ بھی آیا کہ بازنطینی فوج کیسےعثمان بے پر حملہ کر سکتی ہے؟
سلطان نے کہا کہ “کراچہ حصار”کے ٹیکفروں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے یہ کافر ایسی حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے ،اس کے بعد سلطان “غیاث الدین “نے اپنی فوج کو جمع ہونے کا حکم دیا اور وہ اپنے لشکر کے ساتھ پائے تخت “قونیا” سے “کراچہ حصار” کی جانب پیش قدمی کرنے لگے ۔ایک دن کے سفر کے بعد سلجوقی فوجیں “کارا چاہیسار” قلعہ جا پہنچیں، سلطان نے پڑاؤ کے بعد اپنی فوجوں کو “کراچہ حصار” قلعہ کے محاصرے کا حکم دیا۔
ادھر عثمان غازی کی فوج بھی “کراچہ حصار”قلعے کی جانب پیش قدمی کر رہی تھی ،جبکہ عثمان غازی کے کچھ دستے اب تک بھاگنے والے رومی سپاہیوں کا پیچھا کر رہے تھے۔ سلطان غیاث الدین کے پاس پہنچنے کے بعد عثمان غازی نے سلطان کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ سلطان “غیاث الدین”کراچہ حصار” کی فتح کے لیے پوری تیاری کے ساتھ روانہ ہوئے تھے ،اور وہ اپنے ساتھ منجنیقیں بھی لائے تھے تاکہ وہ”کراچہ حصار” قلعے کا محاصرہ کر کے اس کی دیواروں کو گرا سکے اور اس قلعے پر اسلامی پرچم لہرایا جا سکے۔
سلطان نے عثمان غازی کے ساتھ مل کر اس شہر کا محاصرہ شروع کیا یہ ممکن تھا کہ سلجوقی سلطان غیاس الدین مسعود عثمان غازی کے ساتھ مل کر اس شہر کو فتح کر لیتے لیکن محاصرے کے تیسرے دن سلطان کو پائے تخت “قونیا” سے کچھ ایسی خبریں موصول ہوئیں جس کی وجہ سے سلطان کو جلد یہ محاصرہ عثمان غازی کو منتقل کر کے واپس جانا
پڑا۔
ہوادراصل کچھ یوں تھا کہ جب سلجوقی سلطان اپنی فوجوں کے ساتھ “کراچہ حصار” قلعے کی فتح کے لیے “قونیہ “سے نکلے تو ان کے آنے کے بعد” ایل خانی منگولوں نےسلجوقی شہر “ایر غلی” پر حملہ کر کے اس کی آبادی کو تہ تیغ کردیا تھا۔
جب سلجوقی سلطان کو اپنے شہر کے تباہ ہونے کی خبر ملی تو سلطان نے جلد عثمان غازی کو اپنے خیمے میں بلایا انہوں نے عثمان غازی کو صورتحال سے آگاہ کیا اور محاصرے کے لیے لائے ہوئے تمام جنگی آلات انہوں نے عثمان غازی کے سپرد کیے اور خود اپنی فوجوں کے ساتھ وہ واپس پائے تخت قونیا کی طرف روانہ ہو گئے، سلطان مسعود نے جانے سے پہلے عثمان غازی کو کہا کہ :۔
“بیٹا تمہارے پاس سعادت کی بہت سی نشانیاں ہیں، دنیا میں اس وقت کوئی نہیں جو تمہارا اور تمہاری اولاد کا مقابلہ کر سکے میری دعا ہے کہ اللہ تمہاری مدد کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا تمہارے ساتھ ہو “
اور اس کے بعد سلجوقی سلطان پایا تخت “قونیا”واپس چلے گئے۔
پایا تخت “قونیا” واپس آنے کے بعد سلطان غیاس الدین نے منگولوں کے خلاف جنگ شروع کر دی ،کیونکہ “ایرغلی” پر حملے کا سلطان غیاس الدین کو بے حد افسوس اور دکھ تھا، سلطان نے سلجوقی سپاہیوں کے سامنے ایک پرزور تقریر کی جس کے بعد جذبہ شہادت سے سرشار سلجوقی سپاہیوں نے منگولوں کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ یہ جنگ دو دن اور دو راتوں تک جاری رہی اور ایک طویل معرکے کے بعدآخر فتح سلجوقی سلطان کو ہی حاصل ہوئی اور تاتاری لشکر کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا سلطان غیاث الدین نے اس جنگ میں ایلخانی منگولوں پر کوئی رحم نہ کیا کیونکہ وہ ایرغلی شہر میں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہونے والا ظلم دیکھ چکے تھے ۔سلطان نے تمام منگولوں کو جو کہ میدانِ جنگ میں ان کے ہاتھ لگے انہیں ختم کرنے کا حکم دے
دیا۔
ادھر دوسری جانب عثمان غازی اپنے سپاہیوں کے ساتھ کراچہ حصار قلعے کی دیواروں کو توڑ کر شہر میں داخل ہو چکے تھے اور انہوں نے جلد شہر پر قبضہ کر لیا اور “کراچہ حصار” کاگورنر عثمان غازی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اس فتح کے بعد بہت سا مال غنیمت عثمانیوں کے ہاتھ لگا جس کے بعد عثمان غازی نے مال غنیمت کا کچھ حصہ اپنی فوجوں میں تقسیم کیا جبکہ باقی حصہ انہوں نے اپنے بھتیجے” اکتیمور “کے ہاتھ سلجوقی سلطان غیاس الدین کو بھیج دیا اور سلطان کو”کراچہ حصار” قلعے کی فتح کی خوشخبری دی جب سلطان غیاث الدین نے عثمان غازی کی اس فتح کو سنا تو وہ بے حد خوش ہوئے سلطان نے مال غنیمت کو جمع کیا اور عثمان غازی کے بھتیجے اک تیمور کے ہاتھوں مزید جنگی ساز و سامان عثمان غازی کے پاس پہنچا دیا ۔
“کراچہ حصار” قلعے کی فتح عثمان غازی کی دوسری بڑی فتح تھی ۔عثمان غازی نے اس شہر میں بہت سی اصلاحات کیں اور یہاں پر موجودبڑے چرچ کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا اور یوں شمال مغربی اناطولیہ کی سرزمینوں میں دن میں پانچ مرتبہ نماز کے لیے آذان کی آواز سنائی دینے لگی۔ عثمان غازی نے”کراچہ حصار” قلعے کی فتح کے بعد یہاں عدل و انصاف کے ساتھ حکومت شروع کی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہر کے عیسائی باشندوں نے جب دیکھا کہ عثمان غازی بڑے ہی انصاف پسند اور غیر مسلموں پر رحم اور انصاف کرنے والے ہیں تو وہ عثمان غازی کے انصاف سے بے حد متاثر ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں عیسائیوں نے اسلام قبول کر لیا اور یوں “کراچہ حصار” شہر ایک اسلامی شہر کے طور پر ابھرنے لگا۔
عثمان غازی پر بنائی جانے والی یہ دوسری ویڈیو اپ دوستوں کو کیسی لگی اپنی رائے کا اظہار نیچے کمنٹ باکس میں ضرور کیجئے گا اور مذید ایسی ویڈیوز کے لئے ہمارے چینل کو سبسکرائیب ضرور کریں۔

Check Also

ابراہیم پاشا: عثمانی سلطنت کے گرینڈ وزیر کی مکمل تاریخ

ابتدائی زندگی اور پس منظر:۔ ابراہیم پاشا 1495ء کے آس پاس یونان کے علاقے پارگا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *