جب اورخان غازی اناطولیہ میں رومی سرزمینوں کو فتح کر رہے تھے، تو اس دوران رومی سلطنت کے دارالحکومت “قسطنطنیہ “میں تخت کے لیے لڑائی شروع تھی ۔ رومی سلطنت کی تباہی کی ایک بڑی کمزوری یہ بھی تھی کہ یہاں تخت کے لیے ہمیشہ جنگیں ہوا کرتی تھیں۔
جب بحر مارمرا کے ساحل پررومی شہروں کے کمانڈر عثمانیوں کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے ،تو اس وقت رومی شہنشاہ نے اپنے ان کمانڈروں کی مدد کے لیے نہ تو کوئی کمک بھیجی اور نہ ہی اس نے کوئی فوج تیار کی ۔
عثمان غازی اور پھر ان کے بعد اور خان غازی کی پوری زندگی میں شہنشاہِ قسطنطنیہ نے سوائے ایک یا دو جنگوں کے عثمانیوں کے خلاف نہ تو ان کا کوئی مقابلہ کیا اور نہ ہی وہ بہادر جنگجو کے طور پر ان کے سامنے آسکا۔
سلطنت عثمانیہ اگر رومی سلطنت کا واحد مسئلہ ہوتی تو پھر بھی بات تھی۔ لیکن یہاں جہاں پر رومی ایک طرف تو تخت کی لڑائیوں میں پھنسے ہوئے تھے تو دوسری طرف ان پر یورپ سے سربیائی اور بلغاریوں کے کے حملے ہو رہے تھے۔
سربیا کابادشاہ اسٹیفن ڈوشن ایک مضبوط حریف کے طور پر مشرقی رومی سلطنت پر حملہ آور ہوا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے مقدونیہ پر قبضہ کر کے اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اس فتح کے بعد اس نے اور خان غازی کو ایک پیغام بھیجا جس میں اس نے مشترکہ طور پر کام کرنے اور “قسطنطنیہ”پر قبضہ کرنے کی اور خان غازی کو پیشکش کی لیکن اورخان غازی نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔
1341ءعیسوی میں جب رومی سلطنت مغرب سے ترکوں اور مشرق سے اپنے اہل مذہب بھائیوں سے پھنسی ہوئی تھی، تو اس دوران رومی شہنشاہ اینڈرونیکوس سوم کی اچانک موت ہو گئی ۔
یہ اٹھویں صدی ہجری یعنی کہ چودویں صدی عیسوی کے وسط میں بازنطینی سلطنت انتہائی کمزور ہو چکی تھی۔ اس کے مقبوضات جو صدیوں تک یورپ میں دریائی ڈینیو ب اور ایشیاء میں اناطولیہ اور شام تک پھیلے ہوئے تھے۔ اب صرف تھریس، مقدونیہ کے ایک جز جس میں سالونیکا شامل تھا اور یونان میں سوریا کے ایک بڑے حصے تک محدود ہو کر رہ گئے تھے ۔ایشیائی مقبوضات تو تقریباً تمام کے تمام عثمانیوں کے قبضے میں چلے گئے تھے ۔
یورپ میں بھی سرویا کا با اقتدار فرما روا” اسٹیفن ڈوشن” جزیرہ نمائے بلکان کے نصف سے زیادہ علاقوں پر اپنا تسلط قائم کر کے سالو نیکااور اس کے بعد قسطنطنیہ پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا ۔تخت کی خانہ جنگیوں نے بازنطینی سلطنت کو اور بھی کمزور کر دیا تھا۔
739 ہجری با مطابق 1338 عیسوی میں شہنشاہ اینڈونیکس کی انتقال پر اس کا گرینڈ چانسلر” کینٹا کوزین” اس کے نابالغ لڑکے جان پیلیو لوگس کا ولی اور ملکہ اینا کے ساتھ اس کا سرپرست مقرر ہوا ۔” کینٹا کوزین” نے صرف اس پر قناعت نہ کی، بلکہ اس نے 474 ہجری بمطابق 1343 عیسوی میں” نیکو ٹیکا” میں اپنے شہنشاہ ہونے کا اعلان کر دیا ۔ملکہ کو یہ بات سخت ناگوار گزری اور اس نے اس کی مخالفت کی ،نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں میں لڑائی چھڑ گئی اور دونوں نے اور خان سے مدد کی درخواست کی ۔
اس سے پہلے بھی بعض ترک امیروں نے تخت قسطنطنیہ کے مختلف دعوے داروں میں سے کسی نہ کسی فریق کا ساتھ دیا تھا” کینٹا کوزین” نے اورخاں سے چھ ہزار عثمانی سپاہی مدد کے لیے مانگے اور اس مدد کے بدلے میں اس نے اپنی بیٹی “تھیوڈورا” کو اور خاں غازی کے ساتھ اس کی شادی کرنے کی پیشکش کی اور خان غازی نے یہ شرط منظور کر لی اور 746 ہجری بمطابق 1345 عیسوی میں اس نے 6 ہزار عثمانی سپاہی ” کینٹا کوزین” کی مدد کے لیے یورپ میں بھیجے۔
” کینٹا کوزین” نے ان سپاہیوں کی مدد سے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا جو کہ ملکہ”اینا” کے قبضے میں تھا اور ایک سال کے محاصرے کے بعد خود شہر کے چند لوگوں کی غداری کی وجہ سے ” کینٹا کوزین” کی فوج کے ساتھ عثمانی دستہ کو س دنیا شہر میں داخل ہوا اور ملکہ کو مجبوراً صلح کے لیے راضی ہونا پڑا۔ صلح اس بات پر ہوئی کہ” کینٹا کوزین” اور اس کی بیوی نیز ملکہ اینا اور شہزادہ جان پیلولوگس تخت نشین کر دیے جائیں چنانچہ چاروں کی رسم ِ تاج پوشی ادا کی گئی۔ اس اتحاد کو اور زیادہ مضبوط کرنے کے لیے” کینٹا کوزین” نے اپنی چھوٹی بیٹی کی شادی نوجوان شہنشاہ جان سے کر دی اور خان کا نکاح بھی شہزادی تھیو ڈورا سے ہو گیا۔ صلح کے بعد اورخان غازی کے چھ ہزار سپاہی جو اس نے” کینٹا کوزین” کی مدد کے لیے بھیجے تھے واپس آگئے لیکن چند ہی سال کے بعد ان کی ضرورت پھر یورپ میں پیش آئی۔
کیونکہ 750 ہجری بمطابق 1349 عیسوی میں اسٹیفن ڈوشن شاہ سرویہ نے سالونیکا پر حملہ کر دیاشہنشاہ کو یقین تھا، کہ اسے فتح کرنے کے بعد وہ قسطنطنیہ کی طرف بڑھے گا۔ اس نازک موقع پر ” کینٹا کوزین” اور جان پیلیو لوگس دونوں نے اورخان غازی سے مدد کی درخواست کی۔
اس دفعہ اور خان غازی نے 20 ہزار سپاہی روانہ کیے عثمانیوں کی مدد سے سالو نیکامیں اسٹیفن کو شکست ہوئی اور قسطنطنیہ کی فتح کا حوصلہ جو اس کے دل میں بار بار پیدا ہوتا تھا، اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا جنگ کے خاتمے پر عثمانی سپاہی پھرواپس چلے گئے، مگر چار سال کے بعد اور خان غازی کو اپنی فوجیں آبنائے باسفورس کے مغربی ساحل پر بیچنے کا ایک اور قیمتی موقع اس کے ہاتھ آیا جو یورپ میں عثمانیوں کے قدم جمنے کا سبب ثابت بنا۔
ہوادراصل کچھ یوں کہ” کینٹا کوزین” تاج و تخت میں جان پیلیو لوگس اور ملکہ اینا کی شراکت کو زیادہ دنوں تک برداشت نہ کر سکا اور اس نے 754 ہجری بمطابق 1353 عیسوی میں حکومت کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لینے چاہے۔ جان نے اس کی شدید مخالفت کی اور خانہ جنگی شروع ہو گئی ۔” کینٹا کوزین” نے حسب دستور اور خان غازی سے مدد کی درخواست کی اور اس کے معاوضے میں اس نے یورپین ساحل کا ایک قلعہ پیش کیا اورخان غازی نے اپنے بڑے بیٹے سلیمان پاشا کی سرکردگی میں 20ہزار عثمانی ترک سپاہی ” کینٹا کوزین” کی مدد کے لیے قسطنطنیہ روانہ کیے۔ عثمانی فوجوں کی مدد سے ” کینٹا کوزین” نے جان پیلیو لوگس کو شکست دے کرقسطنطنیہ کے تخت پر قبضہ کر لیا ۔
سلیمان پاشاہ نے حسب معاہدہ “زنیپ”قلعہ پر قبضہ کر کے اس میں عثمانی دستہ متعین کر دیا۔اس کے چند ہی دنوں بعد تھریس میں ایک زبردست زلزلہ آیا جس سے بے شمار شہروں کے شہر تباہ و برباد ہو گئے انہی میں گیلی پولی بھی تھا۔ جودرہ دانیال کے مغربی ساحل پر سب سے زیادہ اہم اور بہترین قلعہ تھااور یہ زنپ سے تھوڑے فاصلے پر واقع تھا۔ سلیمان پاشاہ نے اسے تائید غیبی خیال کیا اور اس نے گیلی پولی پر قبضہ کر لیا ۔قلعے میں متعین یونانی دستہ عثمانیوں کے یوں اچانک پہنچنے پر حیران اور پریشان تھا۔ اس نے ترکوں کے خلاف کوئی مزاحمت نہ
کی۔
اس درمیان میں ” کینٹا کوزین” نے سلیمان پاشاہ سے 10 ہزار دوکات کے عوض زنپ سے قبضہ اٹھا لینے کی خواہش کی اور سلیمان پاشاہ نے اسے منظور بھی کر لیا مگر اس معاملے کی تکمیل سے قبل ہی گیلی پولی کا واقعہ پیش آگیا، جس کے بعد سلیمان پاشا نے زینب کی واپسی سے بھی انکار کر دیا اور گیلی پولی کی شہر پناہ کو درست کر کے اس میں ترک فوج کا ایک مضبوط دستہ اس نے یہاں متعین کیا۔ اس کے بعد اس نے تھریس کے چند اور مقامات بھی فتح کر لیے اور بہت سے ترکوں اور عربوں کو لا کر اس نے ان شہروں میں انہیں آباد کر دیا۔
گیلی پولی کی فتح سے ترکوں کی تاریخ کا ایک نیا اور سنہری دور شروع ہوتا ہے 755 ہجری بمطابق 1354 عیسوی میں انہوں نے پہلی بار فاتح کی حیثیت سے یورپ میں قدم رکھا اور مسیحی یورپ میں ایک عظیم الشان اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو دو صدیوں کے اندر گیلی پولی سے ویانہ کی دیواروں تک پھیل گئی ۔
ان واقعات سے” کینٹا کوزین” کے خلاف قسطنطنیہ میں سخت ترین بغاوت کھڑی ہو گئی۔ ہر شخص اس پر وطن سے غداری کا الزام عائد کرتا تھا اور اسی کو ترکوں کے یورپ میں لانے کا ذمہ دار ٹھہراتا تھا۔آخر کار رائے عامہ سے مجبور ہو کر اس کوتخت و تاج سے دستبردار ہونا پڑا۔ قسطنطنیہ کے لوگوں نے جان پیلیولوگس کو بلا کر تخت پر بٹھایا اس نے 50 سال تک حکومت کی لیکن اس طویل مدت میں بازنطینی سلطنت کی حالت دن بدن خراب ہوتی چلی گئی اور ترکوں کا تسلط بڑھتا ہی گیا۔
رومیلیا میں سلیمان پاشا نے اپنی فوجوں کے ساتھ فتوحات کے سلسلے کو جاری رکھا اور انہوں نے قلع شورلو اور ڈیمو ٹیکا کو فتح کر کے اسے عثمانی سلطنت میں شامل کر لیا ۔
اس دوران جہاں ترک یورپ میں فتوحات کا ایک نیا دور شروع کر رہے تھے تو اسی دوران سربیہ کا شہنشاہ اسٹیفن ڈوشن ترکوں کو یورپ سے نکالنے اور قسطنطنیہ پر قبضہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھا 1355 عیسوی میں اسٹیفن ڈوشن جنگی تیاریوں میں مصروف تھا اور اس نے کسی حد تک ترکوں کے خلاف ایک بڑی فوج جمع بھی کر لی تھی لیکن ان تیاریوں کے دوران ہی سٹیفن ڈوشن کا اچانک انتقال ہو گیا ۔سربیا کے شہنشاہ ا سٹیفن ڈوشن کی موت کے ساتھ ہی عظیم سربین سلطنت مختلف چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہو گئی اور یوں یورپ میں اپنی فتوحات کو جاری رکھنے کا خواب عثمانیوں نے جاری رکھا۔
یورپ میں تھوڑے سے وقت میں عظیم الشان فتوحات حاصل کرنے کے بعد ایک بار اور خان غازی کے بیٹے سلیمان پاشا نے اپنی فوجوں کو جمع کیا اور ان کے سامنےاس نے بڑی پرزور تقریر کی جس میں سلیمان پاشا نے کہا کہ:۔
” جو فتوحات ہمیں یورپ میں حاصل ہوئیں وہ ناقابل یقین ہیں، ہماری فوج جو کہ فتوحات سے حاصل کرتی رہی، نئے ممالک کی فتح کا باعث بنی ،یہ فتوحات درحقیقت اللہ کی مدد سے ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک معجزہ ہے، ورنہ اتنے کم وقت میں اتنی کم فوج کے ساتھ اتنے بڑے علاقوں کو فتح کرنا کوئی معمولی کام نہیں تھا۔ جو ایمان والے ہیں وہ جہاد پر نکلتے ہیں اور کوشش کرنے کا راستہ منتخب کرتے ہیں، پھر انہوں نے اپنے سپاہیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کبھی بھی جہاد کی خواہش کو دل سے نہ نکالنا، دین کے دشمنوں سے ہمیشہ لڑنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا اور کافروں سے جنگ کے دوران میدان جنگ چھوڑ کر کبھی بھی نہ بھاگنا اور اس دوران صبر اور برداشت سے کام لینااور اللہ کی طرف سے ہمیشہ مدد طلب کرنا”
یہ عظیم عثمانی شہزادہ جس نے اپنی فوج کے سامنے ایک ایمان افروز تقریر کی تھی کہ کچھ ہی عرصے کے بعد یعنی کہ 759ہجری بمطابق 1358 عیسوی میں شکار کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گرے اور جانبرنہ ہو سکے اور سلیمان پاشاہ کی موت ہو گئی ۔
یہ عثمانی شہزادہ فن ِسپاہ گری اور سپہ سالاری میں ممتاز تھا اور عثمانی خاندان کے تمام اعلیٰ اوصاف اس میں پائے جاتے تھے۔ اور خان غازی کو اس کی وفات کا بے حد صدمہ ہوا اور اس بیٹے کے جانے کے صدمے کے ٹھیک ایک سال بعد1359عیسوی میں اور خان غازی کا انتقال ہو گیا ۔
اور خان غازی نے اپنے 33 سال کے دورِ حکومت میں عثمانی مقبوضات کو بہت زیادہ وسعت دی انہوں نے نہ صرف ایشیائے کوچک کے بقیہ بازنطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور بعض ترک قبیلوں کو عثمانی سلطنت میں شامل کیں بلکہ یورپ میں داخل ہو کر تھریس کا ایک حصہ بھی فتح کر لیا ۔جو اس براعظم میں عثمانی فتوحات کا ایک شاندار مقدمہ تھا۔ جن فوجی اور ملکی آئین پر سلطنت عثمانی کی عظمت قائم ہوئی ان کا بنیادی پتھر اور خان غازی نے ہی اپنے ہاتھ سے رکھا تھا۔
عثمان غازی کی حیثیت ایک امیر سے زیادہ نہ تھی لیکن اور خان غازی کے کارناموں نے اسے بادشاہی کا حقدار ثابت کر دیا تاہم اس بادشاہی میں بھی وہ درویشی کی سی زندگی بسر کرتے تھے اس وصف میں وہ اپنے والدعثمان غازی ہی کی طرح تھے ۔