اناطولیہ میں موجود “باز نطینی سلطنت” کے تمام بڑے شہروں کو عثمان غازی کے بیٹے اور حان غازی نے فتح کر لیا تھا رومیوں کے تین بڑے شہروں میں سے دو “بورسہ” اور” ازنیق” عثمانی سلطنت میں شامل ہو چکے تھے ۔جبکہ ازمیت کا محاصرہ برابر جاری تھا۔ اب اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اناطولیہ میں رومی سلطنت اپنے مضبوط قدموں سے محروم ہو چکی تھی اور سوائے ازمیت اور گیملک کے اناطولیہ میں بازنطینی سلطنت کا کوئی شہر نہیں بچا تھا یہ دونوں شہر سمندر کے کنارے واقع تھے اور ان دونوں شہروں کا آپس میں رابطہ سمندر ہی کے ذریعے قائم تھا۔
شہنشاہ نے ان دونوں شہروں میں سے ازمیت شہر کو زیادہ اہمیت دی اور یہاں انہوں نے کھل کر اور خان غازی کے لشکر کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ اب چونکہ ازمیت شہر ایک بندرگاہ تھی ،اس لیے اور خان غازی کو اس محاصر ےمیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہو
سکی۔
اور خان غازی بحریہ کی ضرورت کو بڑی اچھی طرح سے سمجھتے تھے لہذا اورحان بے نے عثمانی کمانڈر کارا مرسل بے کو جو کہ اس سے پہلے کیراسی قبیلے کے پاس بحری خدمات سر انجام دے چکے تھے اور جو کہ بحری جہازوں کی اچھی طرح سے معلومات رکھتے تھے انہیں اورخان
غازی نے خلیج ازمیت میں ایک بحری جنگی جہاز بنانے کا حکم
دیا ۔
ازنیک شہر کی فتح کے ٹھیک تین سال بعد 1334 عیسوی میں اناطولیہ میں موجود بازنطینی سلطنت کا ایک اور اہم شہر گیملک عثمانیوں کے قبضے میں چلا گیا ۔
گیملک کی فتح کے ٹھیک چار سال بعد 1338 عیسوی میں اور خان غازی نے ارموتلو شہر کو بھی فتح کر کے اسے عثمانی سلطنت میں شامل کر لیا
ان فتوحات کے بعد اب اور خان غازی کے نظریں آ خری بازنطینی شہر ازمیت پر لگی ہوئی تھیں۔
رومی شہنشاہ جو کہ ازمیت شہر کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے تھے انہوں نے اس شہر کا انتظام صرف شاہی
اپنے خاندان کے افراد کو ہی دیا ،جن پر انہیں حد سے زیادہ اعتماد ہوا کرتا تھا ۔اس وقت ازمیت شہر کی حکمرانی شہزادی ماری کے بھائی کلا نیس کی حکومت میں تھا۔
اور خان غازی کے محاصرے کے دوران”کلا نیس” نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سپاہیوں کے ساتھ اس نے قلعے سے نکل کر اور خان غازی کی فوج پر حملہ کر دیا ،لیکن اس حملے کے نتیجے میں اسکی جان چلی گئی، شہر کے گورنر کے قتل ہونے کے بعد عثمانی سپاہیوں نے کلا نیس کے سر کو کاٹ کر اپنے نیزے پر بلند کیا ،جس پر قلعے کے محافظوں کے حوصلے پست ہو گئے،اور اپنے گورنر کی اس بے بسی کی موت پر شہر میں موجود بازنطینی سپاہیوں نے ازمیت شہر کو اور خان غازی کے حوالے کرنے پر راضی ہو گئے ۔
ازمیت شہر کی فتح کے بعد اس علاقے کا نام عثمانی کمانڈر اکچا کوچہ کی یاد میں تبدیل کر کے اسے کوکیلی رکھا گیا تھا، جو کہ اس فتح سے پہلے ہی شہید ہو گئے تھے یوں کو کیلی شہر کی فتح کے بعد اب عثمانیوں کے لیے قسطنطنیہ کا راستہ صاف ہو گیا تھا۔
اور خان غازی کی ان فتوحات کی وجہ سے عثمانی سلطنت اناطولیہ میں موجود باقی ترک ریاستوں میں سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ترین ریاست بن چکی تھی ،اورحان غازی کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر ہمسائی عثمانی ترک ریاست کیراسی کے سردار”اکلان بے” نے اور حاں غازی کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
کیراسی ترک بھی کسی زمانے میں عثمانیوں کی طرح ہجرت کر کے اناطولیہ میں آبادہوئے تھے اور یہاں انہوں نے عثمانیوں کی طرح اناطولیہ میں موجود بازنطینی سلطنت سے ان کے علاقوں کو چھین کر اپنے قبیلے کیراسی کی حکومت قائم کی تھی ۔
کیراسی قبیلے کا ایک پلس پوائنٹ یہ بھی تھا کہ انہوں نے اورحان غازی کے والد عثمان غازی کے دور سے ہی عثمانیوں کے جانب اپنی دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور ان کی قرابت برسوں سے جاری تھی ۔یہاں تک کہ “اکلان بے” نے اپنے چھوٹے بیٹے” ترسن بے “کو اور خان غازی کے پاس بھیجا ۔تاکہ وہ عثمانی مدارس میں تعلیم حاصل کرے اور، اور خان غازی کے زیرِ نگرانی انکے بیٹے کی پرورش ہو۔
اورحان غازی نے کیراسی شہزادے تورسن کو اپنے بچوں سے کبھی بھی الگ نہ کیا اور نہ ہی اسے احساس ہونے دیا کہ وہ یہاں از نیک میں اجنبی ہے غرض اور خان غازی نے ترسن کی شخصیت کو نکھارنے میں بے حد اہم کردار ادا کیا۔
چند سالوں کے بعد کیراسی قبیلے کے سردار “اکلان” بے کا انتقال ہو گیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے “دیمر حان بے” نے اپنے باپ کی جگہ قبیلے کی باغ ڈور سنبھالی۔ تاہم اس کے سخت رویے کی وجہ سے اس کے قبیلے کے چند سرکردہ لوگ اس سے ناراض تھے۔
انہوں نے کیراسی قبیلے کے وزیر” حاجی ایلبے” سے اپیل کی کہ وہ “دیمر حان بے” کی بجائے اس کے چھوٹے بیٹے، ترسن بے کو کیراسی تخت پر دیکھنا چاہتے ہیں، کیراسی وزیر نے اورحان غازی کو پیغام بھیجا اور انہیں تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس پر اورحان غازی نے تورسن بے کو اپنے پاس بلایا اور انہیں ان تمام حالات سے آگاہ کیا کہ کیراسی قبیلے کے لوگ تمہیں کیراسی تخت پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
اس پر قیراسی شہزادے نے اورحان بے کا شکریہ ادا کیا،اور ترسن بے نے کیراسی قبیلے کی سرداری لینے کی بجائے،اس نے سرداری عثمان بے کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔اور اس مقصد کے لیے اس نے اپنے بھائی کو ایک طویل خط لکھا ،جس میں اس نے عثمانی سلطان اور خان کی تعریف کی اور اس کی عیسائیوں کے خلاف فتوحات حاصل کرنے کا تذکرہ بھی کیا اور اس خط میں اس نےلکھا ۔:
ایڈینک ،مانیاس،بالق اسیر، برگاما،اور ادرمد، کو اورحان غازی کے حوالے کرنے کا حکم دیا جبکہ باقی کی زمین اس نے وہاں کہ سرداروں کے پاس ہی رہنے دیں”
ترسن بے کی اس خواہش پر اورہان بے نے اپنے سپاہیوں کو جمع کیا اور وہ بورصہ شہر سے روانہ ہوئے ۔بورسہ شہر سے روانگی کے وقت راستے میں رومی صوبہ “الوابات” پڑتا تھا ۔عثمانی فوجیں یہاں سے گزریں اور انہوں نے اس قلعے کو رومیوں سے چھین کر یہاں عثمانی پرچم لہرا
دیا ۔
یہاں سے اورحان بے صوبہ “کیرماستی” میں داخل ہوئے جہاں کی حکمران ایک عیسائی عورت تھی،جسکا تعلق قیصرِ روم کی اولاد سے تھا۔جب اس عیسا ئی عورت کو اورحان غازی کی آمد کی خبر ملی، تو اس نے اورحان غازی سے جنگ لڑنے کی بجائے “ذِمی” کے طور پر سلطنت عثمانیہ سے وابستہ ہو گئی۔
یہاں سے اورحان غازی “میہالی چیچک” روانہ ہوئے ،یہاں کے بھی عیسائی گورنر نے اورحان غازی کی اطاعت قبول کی اور”ذِمی” کے طور پر اس نے سلطنت عثمانیہ میں شمولیت اختیار کر لی ان تینوں شہروں کی فتح کے بعد اور خان غازی برق رفتاری کے ساتھ کیراسی سرزمین میں داخل ہوئے اور انہوں نے اپنا رخ کیراسی شہر”بالق اسیر” کی طرف کیا۔
جب اور خان غازی ترسن بے کے ساتھ دارالخلافہ”بالق اسیر” پہنچے تو کیراسی وزیر” اور کیراسی قبیلےکے معززین اور خان غازی کے سامنے پیش ہوئے اور شہر کو انہوں نے اورحان غازی کے حوالے کر دیا، جس کے بعد انہوں نے اور حاں غازی کے ہاتھ کا بوسہ بھی لیا یہاں سے اور خان غازی کیراسی اُمراء کے ساتھ برگاما شہر کی جانب روانہ
ہوئے۔
اس قلعے کے محاصرے کے دوران اور خان غازی نے ترسن بے اور “حاجی ایلبے” اور ان کے دوستوں کو بلایا اور ان سے کہا کہ اسلامی قانون کے مطابق ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے خلاف جنگ نہیں لڑ سکتا جو کہ اسلام میں حرام ہے اس سے مسلمانوں کا امن خراب ہوتا ہے اور فساد برپا ہوتا ہے یہاں بھائی چارے کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کیراسی قبیلے کے معززین کے ساتھ قلعے میں جائیں اور اپنے بھائی سے روبرو ہو کر ملاقات کریں اور اس ملاقات کے ذریعے اسے امن کے ساتھ اس بات پر قائل کریں کہ وہ اپنے بھائی کے حق میں تخت سے دست بردار ہو جائے یوں نہ تو خون خرابہ ہوگا اور نہ ہی فساد برپا ہو
گا۔
کیراسی شہزادے ترسن بے نے اورحان غازی کی اس تجویز کو پسند کیا اور وہ کیراسی قبیلے کے معززین کے ساتھ قلعے کے باہر جا پہنچے، کیراسی قبیلے کے یہ معززین اپنے چھوٹے شہزادے کے ساتھ قلعے کی دیوار کے بالکل پاس کھڑے تھے ،کہ جہاں ترسن بے کے بڑے بھائی نے بڑی بے رحمی کے ساتھ قلعے سے تیر چلا کر اپنے چھوٹے بھائی ترسن بے کو مار ڈالا۔جب
کیراسی قبیلے کے معززین نے اپنے پیارے اور شریف شہزادے کو یوں مرتے دیکھا تو وہ روتے ہوئے اور خان غازی کے خیمے کی طرف بھا گئے اور انہوں نے اور خان غازی کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا ۔اور خان غازی اس معصوم نوجوان کے قتل پر انتہائی غم زدہ اور غصے میں تھے کیونکہ انہوں نے اس شہزادے کی پرورش بچپن سے کی تھی اور انہی کی زیر نگرانی اس نے جوانی میں قدم رکھا تھا ۔
اور خان غازی نے اس کا بچپن دیکھا ہوا تھا اس لیے اور خان غازی سے رہا نہ گیا انہوں نے برگامہ قلعے پر فوری طور پر قبضہ کرنے کا حکم دیا اور انہوں نے تمام کیرایسی قبیلے کے شہروں میں اپنے قاصد بھیجے جس میں یہ پیغام تھا کہ۔:
“اب سے کیراسی قبیلہ مکمل طور پر عثمانی سلطان اور خان کے زیر اہتمام ہوگا ملک میں کام کرنے والے تمام لوگ اپنے اپنے عہدوں پر قائم رہیں گے تاہم جو لوگ باغی دمیر خان کی پیروی کرتے ہیں ان کے خلاف سخت کروائی ہوگی اگر باغی زندہ رہنا چاہتے ہیں تو وہ سرکشی سے باز اآجائیں اور سلطان اور خان کی اطاعت کو قبول کریں “
جلد اور خان غازی کے یہ قاصد کیراسی قبیلے کے تمام شہروں میں جا پہنچے اور انہوں نے اورحان غازی کے اس حکم کو پڑھ کر لوگوں کو سنایا جس کے بعد کیراسی قبیلے کے شہروں کے حکمرانوں نے شہروں کے دروازے کھول دیے اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ اور خان غازی کے پاس جا پہنچے۔
دیمر خان جو کہ برگاما قلعےمیں چھپا ہوا تھا اس نے محسوس کیا کہ اس کے پاس اور خان غازی کے خلاف لڑنے کی طاقت نہیں ہے،تو اس لیے اس نے ہتھیار ڈال دیے اور اور خان سے امان طلب کی اس نے شہر سے نکل کر اور خان سے معافی مانگی اور اور خان غازی کے جبے کو بوسہ دیا۔
اور غازی نے دیمر خان کو گرفتار کر کے بورصہ شہر بھیج دیا ،جہاں دو سال کے بعد طاعون کی بیماری کی وجہ سے اس کی موت ہو گئی اس طرح بغیر کسی جنگ اور خون خرابے کے کیراسی قبیلہ سلطنت عثمانیہ کی حاکمیت کے تحت آگیا ۔
اورحان غازی نے کیراسی صوبے کا انتظام اپنے بڑے بیٹے سلیمان پاشا کے سپرد کر دیا اور کیراسی قبیلےکے معززین کو ان کے عہدوں پر قائم رکھا اس کے بعد بورسہ شہر جس کی تعمیر اب کسی حد تک مکمل ہو چکی تھی،اسے سلطنت عثمانیہ کا نیا دارالحکومت بنا دیا گیا۔
بورسہ شہر کا انتظام اور خان غازی نے اپنے چھوٹے بیٹے شہزاد مراد کے حوالے کیا۔اورحان بے نے اپنے چھوٹے بیٹے کو سنجاق بے کا خطاب دیتے ہوئے اسے اس شہر کا گورنر مقرر کیا ۔
کیراسی قبیلے کی فتح کے بعد عثمانی سلطنت کی بحری طاقت میں بے شمار اضافہ ہوا کیونکہ کیراسی بحری امور میں انتہائی ماہر اور تجربہ کار تھے جس کی وجہ سے اورہان غازی کو بے حد فائدہ پہنچا
جب اور خان غازی کے بیٹے سلیمان پاشا نے اپنی فوج کے ساتھ مشرقی رومی سلطنت کے آخری شہر کیپیڈیک کو فتح کیا تو اس وقت مشرقی رومی سلطنت کے پاس اناطولیہ کے ساحل پر بحرے مار مرا کے پاس کوئی زمین باقی نہیں بچی تھی۔