عثمان غازی کا بازنطنینی فوج کے ساتھ پہلا بڑا معرکہ

اناطولیہ میں موجود سلجوقی سلطنت کا پہلا الحکومت “ازنیک” شہر تھا۔ جو کہ پہلی صلیبی جنگ کے دوران سلجوقیوں کے ہاتھ سے نکل کر عیسائیوں کے پاس چلا گیا تھا ۔جس کے بعد سلجوقیوں کو مجبوراً اپنا دارالحکومت ازنیک سے قونیہ منتقل کرنا پڑا، تا ہم سلجوقیوں کی بڑی خواہش تھی کہ ازنیک شہر کو وہ واپس حاصل کر سکیں ،کیونکہ ازنیک شہر کو سلجوقی اپنے آباؤ اجداد کی میراث سمجھتے تھے۔
ازنیک شہر جس نے سلجوقیوں کو پسپائی پر مجبور کیا تھا ،اب وہ رومیوں اور سلجوقیوں کے درمیان ایک سرحد بن گیا تھا ۔تا ہم خانہ بدوش ترک اکثر اپنے ریوڑ چڑھانے کے لیے رومی سرزمین میں داخل ہو جایا کرتے تھے ۔کیونکہ انہیں سرحد کے اس پار اچھی سطح مرتفع کی ضرورت تھی۔ جہاں پر وہ اپنے مویشیوں کو چراسکیں۔

دوسری جانب مشرقی رومی گورنر اپنی سرزمین پر ترکمانوں کی آمد سے بے حد پریشان ہوئے اور انہوں نے ترکوں کو روکنے کے لیے سرحد کے ساتھ قلعوں کی ایک لمبی قطار بنا دی۔ تاکہ ترکمان رومیوں کی سرزمین میں داخل نہ ہو سکیں۔
1176عیسوی میں سلجوقیوں اور رومیوں کے درمیان “میرو کیفا لون” کی جنگ ہوئی ۔جس میں سلجوقی سلطان کلچ ارسلان کو شاندار فتح حاصل ہوئی اور رومیوں کے ہزاروں سپاہی اس جنگ میں مارے گئے۔ جب کہ اتنے ہی سلجوقیوں کے ہاتھ قیدی بنے۔ اس جنگ میں شکست کے بعد رومی شہنشاہ نے سلطان قلیچ ارسلان سے امن کی پیشکش کی اور صلح کی درخواست کی جس پر سلطان کلچ ارسلان نے صلح کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے اپنی پہلی شرط یہ رکھی۔ کہ رومی سرحد کے قریب تعمیر کیے گئے تمام نئے قلعوں کو ختم کر دیا جائے ۔جس پر شہنشاہ نے ان تمام نئے قلعوں کو ختم کر دیا۔
ازنیک شہر کو فتح کرنے کی خواہش سلجوقیوں کےدل سے کبھی بھی نہ نکلی۔انہوں نے ازنیق شہر کو فتح کرنے کی کئ بار کوشش کی، لیکن سلجوقی کبھی بھی ازنیک شہر کو فتح نہ کر پائے۔
لہذا اب کائی قبیلے کے سردار عثمان غازی نے ازنیک شہر کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا۔جو کہ سلجوقی سلطنت کی جانب سے سرحدی علاقوں کےسردار اعلیٰ تھے۔
اناطولیہ میں سلجوقی سلطنت کے خاتمے کے بعد جب مختلف علاقوں میں گورنروں اور اُمرا نے خود مختار ریاستیں قائم کیں، تو اس وقت عثمان غازی نے بھی” سلطنت عثمانیہ “کی بنیاد رکھ دی۔ جس کے بعد وہ اناطولیہ میں موجود سلجوقی سلطنت سے آزاد ہو گئے اور اس کے بعد انہوں نے پہلےکاراچاہیسار،یار حصار اور اینا گول شہر کو اپنی مدد آپ کے تحت فتح کیا ۔
اوران ابتدائی فتوحات کے بعد اب عثمان غازی کی نظر سلجوقی سلطنت کے پرانے پائے تخت ازنیق شہر کی جانب تھی۔ جب عثمان غازی نے اپنی سلطنت کے قیام کے بعد آس پاس کے علاقوں کو فتح کرنا شروع کیا تو بیتھینیاکے علاقوں کے عیسائی گورنر عثمان غازی سے خوفزدہ ہونے لگے۔ لیکن شہروں کے ٹیکفروں اور گورنروں کے علاوہ شہر کی عام آبادی عثمان غازی کے ساتھ تھی اور وہ چاہتی تھی ،کہ جلد از جلد عثمان غازی ان کے علاقوں کو فتح کر کے یہاں ان پر حکومت
کریں ۔
عثمان غازی کے دور کا ایک عیسائی مؤرخ لکھتا ہے کہ
” ازنیق کے گورنر نے اپنے شہریوں پر ڈاکوؤں جیسا سلوک کیا”
عثمان غازی کی حکومت کے تحت آنے والے رومی لوگوں نے بتایا کہ عثمان غازی نے انہیں مکمل مذہبی آزادی دی ہوئی تھی۔اور ان کے ساتھ انصاف کیا جاتا تھا اور یوں باقی رومی علاقوں میں رہنے والے لوگ بڑی بے چینی کے ساتھ اپنے شہروں کو عثمانی سلطنت میں شامل کرنا چاہتے تھےم بیلیجک، یار حسار اور انا گول کی فتح کے بعد عثمان غازی نے آس پاس کے علاقوں میں اپنی فتوحات کو جاری رکھا ،اس کے لیے عثمان غازی نے 1301 عیسوی میں ینی شہر اور کوپری حصار قلعے پر حملہ کر کے اسے عثمانی سلطنت میں داخل کر لیا۔ جبکہ عثمان غازی نے ینی شہر کو سلطنت عثمانیہ کا نیا دارالخلافہ کرار دیا۔ ینی شہر کو عثمانی سلطنت کا نیا پایہ تخت بنانے کے بعد اب عثمان غازی کا اگلا نشانہ “ازنیک” شہر تھا۔ جسے فتح کرنے کے لیے عثمان غازی جنگی تیاریوں میں مصروف تھے ۔جلد عثمان غازی نے اپنی جنگی تیاریاں مکمل کیں اور وہ اس اہم ترین قلعے کو فتح کرنے کے لیے ینی شہر سے نکلے۔
عثمان غازی نے ازنیق شہر پہنچنے کے بعد انہوں نے اس شہر کا محاصرہ کر لیا اور اس کی ناکہ بندی کرتے ہوئے انہوں نے ازنیق شہر کو آنے والے تمام راستوں پر ناکے لگا دیے اور یوں ازنیک شہر کی ناکہ بندی کر دی گئی۔ شہر میں رہنے والے لوگوں کا تمام گزر بسر شہر کے اندر موجود غلے پر تھا۔ کیونکہ شہر سے باہر عثمانی فوجیں اس شہر کو فتح کرنے کے لیے بے چینی کے ساتھ ازنیک شہر پر حملے کر رہی تھی۔
عثمان غازی کے اس محاصرے کی خبر جب قسطنطنیہ میں بازنطینی شہنشاہ “آندرونیکوس دوم”کو ملی تو وہ اس خبر سے بے حد پریشان ہوا ۔
اس انتہائی قسم پرسی کی حالت میں رومی شہنشاہ اینڈرونیکوس نے 7 ہزار کرائے کے فوجیوں کی ایک فوج کو تیار کیا اور جلد شہنشاہ اپنی اس نئی فوج کے ساتھ بحری جہاز میں سوار ہو کر ازنیک شہر کو بچانے کے لیے قسطنطنیہ سے روانہ ہوی۔روانگی سے پہلے شہنشاہ نے بورصہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے ٹیکفروں کو پیغام بھیجا کہ وہ عثمان غازی کے خلاف جتنی زیادہ فوج ہو سکے جمع کریں تاکہ وہ عثمان کو ختم کرنے کے بعد اپنے چھینے ہوئے علاقوں کو واپس حاصل کر سکیں ۔جس کے بعد ان عیسائی ٹیکفروں نے عثمان غازی کے خلاف جنگی تیاریاں شروع کر دیں ۔
اس دوران قسطنطنیہ میں عثمان غازی کا ایک جاسوس موجود تھا جس نے عثمان غازی کو ان تمام حالات سے آگاہ کیا کہ ایک بڑی فوج عثمان غازی کو ختم کرنے کے لیے قسطنطنیہ سے روانہ ہو چکی ہے اس کے علاوہ عثمان غازی کے جاسوس نے یہ بھی خبر بھیجی کہ بورصہ اور اس کے آس پاس کے شہروں کے ٹیکفروں نے شہنشاہ کے حکم پر عثمان غازی کے خلاف فوج جمع کر لی ہے اور وہ شہنشاہ کے انتظار میں ہیں اس خبر کے بعد عثمان غازی پریشان ہو گئے کیونکہ انہیں قسطنطنیہ سے شہنشاہ کے بھیجے ہوئے نئے لشکر کا خطرہ تھا جبکہ مغرب کی جانب انہیں رومی ٹیکفروں کی جانب سے خطرہ تھا جنہوں نے عثمان غازی کےخلاف اپنی فوجوں کو جمع کیا ہوا تھا ۔
اس خبر نے عثمان غازی کو مشکل میں ڈال دیا لیکن جلد عثمان غازی نے اس مشکل سے نکلنے کا فیصلہ کیا، عثمان غازی نے فوری فیصلہ کیا اور انہوں نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ہم از نیک شہر کا محاصرہ اٹھا رہے ہیں اور اس کے بعد عثمان غازی اس محاصرے کو چھوڑ کر اپنی فوجوں کے ساتھ واپس ینی شہر آگئے۔ ادھر رومی فوجیں جمع ہو کر آنے والے رومی کمانڈر “مظالون” کے ما تحت ینی شہر پر حملے کے لیے جمع ہو گئی۔
عثمان غازی جلد اس لشکر کے مقابلے کے لیے اپنے پائے تخت ینی شہر سے نکلے۔
27 جولائی 1302 عیسوی کی رات کو عثمان غازی کی فوجیں بازنطینی سلطنت کی فوج کے سامنے خیمہ زن ہوئی رات کو عثمان غازی نے اللہ کے حضور گڑگڑا کر مدد کی دعا کی ،اور صبح فجر کی نماز سے کچھ دیر پہلے عثمان غازی نے اپنے ہر اول دستے کو حملے کا حکم دے دیا ۔
ادھر دوسری جانب رومی فوج کا کمانڈر “مظالون” لشکر کے عقب میں کھڑا تھا۔ اس کے سامنے اس کے بہترین گھڑسوار دستے تھے ،جبکہ ان گھڑسوار دوستوں کے آگے پیدل نیزہ بردار سپاہی تھے۔ یوں رومی کمانڈر مظالون نے عثمان غازی کے ابتدائی حملے کو روکنے کے لیے اپنے نیزہ برداروں کو سب سے آگے رکھا ہوا تھا ۔تاکہ وہ عثمان غازی کے سپاہیوں کو ایک ہی جھٹکے میں روک سکے۔ جب عثمان غازی کا ہر اول دستہ رومی فوج سے مقابلے کے لیے لشکر کے پاس پہنچا ،تو اس وقت رومی کمانڈر مظالون نے ایک چال چلی اس نے سب سے پہلے تو عثمان غازی کے حملے کا انتظار کیا ۔جیسے ہی عثمان غازی کا ہر اول دستہ اس کے پیدلوں سے ٹکرایا تو اس نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بہترین گھڑسوار دستے دائیں اور بائیں جانب سے عثمان غازی کے ہر اول دستے کو گھیرنے کے لیے روانہ کر دیے ۔جبکہ اس دوران رومی فوج عثمان غازی کے ہر اول دستے کو روکنے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئی تھی۔
عثمان غازی دور کھڑے جب انہوں نے دیکھا کہ رومی فوج کے گھڑسواروں نے دائیں اور بائیں جانب سے عثمان غازی کے ہراول دستے کو گھیرلیا ہے، تو عثمان غازی اپنی باقی ساری فوج کے ساتھ میدان جنگ میں اترے ۔عثمان غازی نے اپنے گھڑسواروں کے ساتھ رومیوں پر سخت ترین حملہ کیا ۔
عثمان غازی کے میدان جنگ میں اترنے کے بعد ہر اول دستہ جو کہ رومیوں کے نیزہ بردار دستوں کے ساتھ نبرد آزما تھا اس نے یک دم پیچھے ہٹ کر باقی رومی فوج سے جنگ لڑنا شروع کر دی اور رومی فوج چاروں اعتراف سے عثمان غازی کی فوجیوں سے گری ہوئی تھی۔ اس صورتحال کو دیکھتے اوئے رومی جرنیل نے اپنے نیزہ بردار دستوں کو حملے کا حکم دیا ،تا ہم نیزہ بردار سپاہیوں نے حملے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ عثمان غازی کے اس حملے سے بے حد گھبرا گئے تھے۔
عثمانی مجاہدین رومی گھڑسواروں پر تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے۔ میدان جنگ میں ڈھالیں ٹوٹ رہی تھیں گھوڑے ایک ایک کر کے گر رہے تھے۔ اس دوران ایک بار پھر رومی کمانڈر نے اپنے پیدل دستوں کو حملے کا حکم دیا لیکن اس بار بھی پیدل نیزہ بردار سپاہیوں نے حملے سے انکار کر دیا۔ بلکہ وہ عثمان غازی اور ان کے سپاہیوں کے ہاتھوں مرنے والے اپنے ساتھیوں کو دیکھ کر گھبرا گئے اور انہوں نے ڈھالیں وہیں پھینکی اور میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔
اس دوران رومی فوج کا بیشتر حصہ یا تو عثمان غازی اور ان کی سپاہیوں کے تلوار کا نشانہ بن چکا تھا ،جبکہ باقی کے رومی سپاہیوں نے عثمان غازی کے سامنے ہتھیار ڈالنا شروع کر دیے اور یوں رومی یہ جنگ ہار گئے اور رومی فوج کا سپہ سالار مظلون میدانِ جنگ چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ عثمان غازی کو اس جنگ میں ایک شاندار فتح حاصل ہوئی اس جنگ میں فتح کے بعد بہت سا مال غنیمت اور قیدی عثمان غازی کے ہاتھ لگے۔ عثمان غازی کی اس عظیم فتح سے ان کی شہرت تمام دنیائے اسلام میں پھیل گئی۔
عثمان غازی کی اس عظیم فتح اور سلطنت عثمانیہ کے قیام کی خبر سننے کے بعد دنیائے اسلام کے تمام گوشوں سے مجاہدین جوق در جوق عثمان غازی کی سلطنت میں ہجرت کرنے لگے یوں تھوڑے ہی عرصے کے بعد عثمان غازی کی فوجوں کی تعداد رومی فوج سے کہیں زیادہ بڑھ گئی تھی ،اور کچھ ہی عرصے کے اندر سلطنت عثمانیہ نے عسکری ،اقتصادی، اور ثقافتی لحاظ سے کافی شہرت اور دولت حاصل کر لی تھی۔

Check Also

ابراہیم پاشا: عثمانی سلطنت کے گرینڈ وزیر کی مکمل تاریخ

ابتدائی زندگی اور پس منظر:۔ ابراہیم پاشا 1495ء کے آس پاس یونان کے علاقے پارگا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *