1281ءمیں جب
ارتغل غازی نے وفات پائی تو اس وقت “کائی قبیلے” کے پاس صرف “سوغوت “شہر یا پھر اس کے علاوہ ایک دو قبائل کی قیادت تھی۔ جو کہ وراثت میں عثمان غازی کے حصے میں آئی تھی۔
عثمان غازی نے اس قبائلی سرداری کو ایک سرحدی ریاست تک پہنچانے اور پھر سرحدی ریاست سے ایک سلطنت کی بنیاد رکھنے تک بڑی کامیابی حاصل کی تھی، اور جب عثمان غازی کا انتقال ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے اور خان کے لئے جو وراثت چھوڑی وہ اس سے کہیں زیادہ تھی جو انہیں اپنے والد ارتغل غازی سے ملی تھی۔ اگرچہ عثمان غازی نے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد ڈال دی تھی لیکن ابھی تک کوئی باقاعدہ انتظامی طریقہ کار یا پھر منظم فوج نہیں تھی۔ ریاست کے پاس نہ تو پیسہ تھا اور نہ ہی بحریہ تھی ۔یہاں تک کہ ابھی تک عثمانیوں کے پاس بندرگا بھی نہیں تھی۔ اس لیے اور خان غازی کو اپنے والد کی جانب سے ملی ہوئی اس سلطنت کو ایک منظم ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے انہیں کافی کوششیں کرنی پڑی۔
جب عثمان غازی کا انتقال ہوا تو اس وقت اور خان بے کی عمر تقریبا ً40 سال تھی ۔اپنی زندگی کے آخری سالوں میں انہیں اپنے والد عثمان غازی کی بیماری کی وجہ سے انہوں نے سلطنت کا انتظام سنبھالا اور بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔
جب برسا کا محاصرہ جاری تھا تو انہوں نے 1321ء عیسوی میں “مودانیا” پر قبضہ کر لیا اور وادی اسکاریہ سے بحیر اسود کے ساحل تک کے علاقوں کی فتوحات کے لئے انہوں نے “کونور الب” کو روانہ کیا۔ جبکہ “اکچہ کوچہ” کو انہوں نے “ازمیت”کو فتح کرنے کے لئے روانہ کیا۔ عثمان غازی کے یہ دونوں کمانڈر کامیاب رہے اور انہوں نے “دوزجہ” اور اس کے گرد و نواح اور “ساپانجا” جھیل کے گرد و نوا ح کے علاقوں کو تھوڑے ہی عرصے میں فتح کر لیا۔اسی دوران عبدالرحمٰن غازی نے “یالووا” کو بھی فتح کر لیا ۔
جب عثمان غازی کا انتقال ہوا تو ان کے دو بیٹے تھے جو کہ ان کے بعد تخت کے امیدوار تھے ۔عثمان غازی کا بڑا بیٹا علاؤ الدین اور دوسرا چھوٹا بیٹا اور حان تھا اورحان غازی نے سب سے پہلے اپنے بڑے بھائی علاؤ الدین کو سلطنت کی تقسیم کی تجویز پیش کی، لیکن علاؤ الدین نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔ علاؤالدین نے باپ کی وصیت نیز اپنی سکون پسند طبیعت کی بنا پر اس کو نا منظور کیا اور” اور خان” کے اصرار پر صرف انتظامی مملکت کی ذمہ داری قبول کی یعنی تخت سلطنت سے کنارہ کش ہونے کے باوجود سلطنت کا بار اُٹھانا قبول کیا اور سلطنت عثمانیہ کے پہلے وزیر کی حیثیت سے سامنے آئے ۔
علاؤالدین نے تین چیزوں پر خاص طور پر توجہ دی سکہ، لباس اور فوج اگرچہ سلطان علاؤ الدین سلجوقی نے عثمان غازی کو خطبے کے علاوہ اپنے نام کے سکے جاری کرنے کی بھی اجازت دے دی تھی، تاہم عثمان نے صرف خطبے پر ہی قناعت کیا اور اپنا سکہ جاری نہیں کیا تھا ۔اور خان کی تخت نشینی کے وقت تمام ایشیائی کو چک میں صرف سلجوقی سکے رائج تھے، اب علاؤ الدین نےبادشاہت کے اس امتیاز کو بھی اختیار کیا اور اسلامی مملکت میں اور خان کے نام کے سکے جاری کیے ۔علاؤ الدین نے عوام کے مختلف طبقوں کے لیے مختلف قسم کے لباس تجویز کر کے ان کے متعلق قوانین نافذ کیے شہری اور دیہاتی مسلم اور غیر مسلم ہر طبقے کا لباس الگ الگ مقرر کیا۔
لیکن علاؤالدین کا سب سے بڑا کارنامہ وہ فوجی اصلاحات ہیں، جن سے سلطنت عثمانیہ کی طاقت اچانک پڑ گئی اور جو 300 برس تک اس کی حیرت انگیز فتوحات کی ضامن رہی۔ وہ عظیم کارنامہ سلطنتِ عثمانیہ کے لئے باقاعدہ فوج کا قیام تھا ، جو ینی چڑی فوج کے نام سے مشہور ہوئی ،اور جس کی دہشت سے بہادری کے بل بوتے عثمانیوں نے 300برس تک یورپ میں قدم جمائے رکھے۔
فوجی طاقت حاصل کرنے کے بعد اب اور خان غازی نے فتوحات کی جانب توجہ دی انہوں نے 6 اپریل 1326 عیسوی کو بورسہ شہر کی
فتح کے بعد بورصہ جیسے دو اہم مقامات ازنیک اور ازمیت کی طرف توجہ دی اس وقت ازنیک ایک صنعتی شہر تھا جو کہ بورصہ سے بھی بڑا تھا جبکہ ازمیت ایک تجارتی بندرگاہ تھی اگر اورحان غازی ان دو شہروں کو فتح کر لیتے تو عثمانیوں کے پاس اہم ترین شہر ہوتے اور رومی بحر مارمرا میں اپنے مضبوط قدموں سے محروم ہو جاتے۔
ازنیک شہر پر قبضہ کرنے سے پہلے خلیج ازمیت کے جنوبی ساحلوں کو کارا مرسل بے نے فتح کر لیا تھا۔جبکہ کنڈیرا کے آس پاس کے علاقے کو “اکچاکوچا” نے ،اورکارتل کے قریب “اسکودار”اور اس کے شمال میں “سماندرا”قلعے کو “کونور الپ”اور عبدالرحمٰن غازی نے فتح کر لیا تھا۔
ازنیک شہر کی ناکہ بندی اور محاصرہ عثمان غازی کے آخری ایام میں شروع ہوا تھا ،اور خان غازی جب حکمران بنے تو انہوں نے اس شہر کی ناکہ بندی سخت کر دی اور محاصرے کا دائرہ وسیع کر دیا اس دوران مفتوحہ علاقوں میں یونانیوں کے ساتھ ترکوں کے اچھے سلوک کی وجہ سے “ایزنیک” کے آس پاس کے یونانیوں نے شہر کے لوگوں کو ترکوں کا ساتھ دینے کا مشورہ دیا اور کچھ لوگ ترکوں کی طرف سے جنگ میں شامل ہو گئے۔
اب چونکہ از نیک شہر چاروں طرف سے دیواروں میں گھرا ہوا تھا اس لیے یہ زیادہ محفوظ تھا اور تعمیر کے لحاظ سے یہ اناطولیہ میں مشرقی رومی سلطنت کا سب سے مشہور شہر تھا اس کے علاوہ یہ شہر “ارتھوڈوکس” کے مقدس مقامات میں سے ایک تھا۔،جس نے اس مشرقی رومی سلطنت کے شہر کو بہت زیادہ اہمیت دے دی تھی۔
اناطولیہ میں حالات کی سنگینی کو دیکھ کر رومی شہنشاہ “اینڈرونیکوس سوم” نے اندرونی لڑائیوں کو ختم کرتے ہوئے فوج کی سربراہی کی اور 1329 عیسوی میں وہ اپنی فوج کے ساتھ اناطولیہ کی طرف روانہ ہوا۔ اینڈرونیکوس اس امید پر قسطنطنیہ سے روانہ ہوا کہ وہ اور خان غازی کی فتوحات کو روک کر ازنیک شہر کو بچا لے گا ،اس کے علاوہ اس کی خواہش تھی کہ وہ اور خان غازی کو شکست دے کر ترکوں سے اناطولیہ میں اپنے کھوئے ہوئے علاوقوں کو واپس حاصل کر لے گا۔
اورحان غازی کو جب یہ خبر ملی کہ رومی شہنشاہ خود اپنی فوج کے ساتھ اناطولیہ میں اور خان سے جنگ کے لیے پیش قدمی کر رہا ہے تو انہوں نے ازنیک شہر کا محاصرہ اپنے بیٹے شہزادے سلیمان کے حوالے کر کے خود رومی فوج سے جنگ کرنے کے لیے وہ”ازمیت” چلے گئے۔دریں اثناءرومی شہنشاہ نے “گیبزے” اور “ایسکیہسر” شہر کے درمیان اپنی فوج کے ساتھ پڑاؤ ڈالا اور وہاں ترک فوج سے لڑنے کا اس نے فیصلہ کیا۔
وہ مقام جہاں میدان جنگ کا انتخاب کیا گیا تھا وہ رومی فوج کے لئے بہتریں میدان تھا۔
10 جون کی صبح کو جب آگ برساتا سورج طلوع ہوا ،تو دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھیں۔ اینڈرونیکوس نے اپنی فوج کی کمان خود کی۔ اس نے اپنے دائیں اور بائیں جانب پہاڑیوں کے اوپر اپنے بہترین تیر اندازوں کو بٹھایا جبکہ اس کے عقب میں “بحیرہ مرمرہ”کا سمندر تھا۔
اینڈرونی کوس کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ عثمانیوں کو میدان جنگ کی طرف کھینچ کر وہاں ان کا مقابلہ کرے گا ۔
جبکہ دوسری جانب اور خان غازی پہاڑی سے میدان جنگ کا نظارہ کر رہے تھے اور رومی فوج کو اس نا ہموار علاقے کی طرف متوجہ کرنے اور اپنے گڑ سوار دستوں کے ساتھ گھات لگانے کا منصوبہ بنا رہے تھے اور اس منصوبے کے مطابق اور خان غازی نے ابتدا میں اپنے 300 افراد پر مشتمل گھڑسواروں کو میدان ِجنگ میں اتارا ۔اس دستے نے رومی فوج پر تیر برسائےاور وہ واپس پیچھے ہٹنے لگے یہ دراصل ایک جنگی چال تھی کہ دشمن اس دستے کا پیچھا کرتے ہوئے اور خان غازی کے پسند کے میدان میں آئے جہاں پر گھات لگا کر اس پر حملہ کیا جائے۔ لیکن رومی شہنشاہ اینڈرونیکوس نے جلد یہ محسوس کر لیا کہ یہ ایک جال ہے لہذا اس نے اپنے سپاہیوں کو اپنی جگہ پر قائم رہنے کا حکم دیا اور اس نے جوابی تیر عثمان غازی کے گھڑسوار دستوں پر برسائے۔
اور خان غازی کے گھڑ سوار دستے نے ایک بار پھر رومی فوج پر تیر برسائے اور اس نے یہ حملہ کئی بار دہرایا جس سے شہنشاہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے تیر اندازوں کے دستے کو ختم کرنے کے لیے اپنے گھڑسوار وں کو حملے کا حکم دیا۔
جب رومی فوج اپنے شہنشاہ کے زیر کمان میدان جنگ میں اتری تو اور خان غازی کا یہ ہراول دستہ واپس اپنے لشکر کی جانب پسپا ہوا، اور خان غازی نے تازہ دم گھڑسوار دستے میدان ِجنگ میں اتارے اور یوں جنگ شروع ہو گئی۔
اور خان غازی کی فوج تیر اندازی کی وجہ سے جلد رومی فوج پر غالب آگئی ۔شہنشاہ نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اس نے اپنے گھڑسواروں کے ساتھ پیچھے ہٹنا شروع کر دیا لیکن عثمانی گھٹڑسواروں کا حملہ اس قدر تیز اور شدید تھا، کہ اس افرا تفریح کے دوران شہنشاہ ایک تیر لگنے کی وجہ سے اس کی ٹانگ شدید زخمی ہو گئی اور جلد رومی ہیڈ کوارٹر میں یہ خبر پھیل گئی کہ شہنشاہ کی موت ہو گئی ہے اس خبر نے رومی فوج میں شدید انتشار پیدا کر دیا جس پر اور خان غازی نے اپنی پوری فوج کے ساتھ میدان جنگ میں اترے ۔
رومی شہنشاہ اپنی فوج میں پھیلی ہوئی اس افرا تفری کو روک نہ سکا اور وہ اپنے چند خاص آدمیوں کے ساتھ میدان جنگ سے بھاگ کر کشتی میں سوار ہو گیا جبکہ فوج کا کچھ ہی حصہ جہازوں میں سوار ہو کر قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوا ۔لیکن باقی رومی فوج اتنے خوش قسمت نہیں تھی کہ وہ جان بچا کر کشتیوں میں سوار ہو سکیں اور زندہ واپس قسطنطنیہ پہنچ سکیں۔ رومی فوج کا کچھ حصہ اور خان غازی کے سپاہیوں کے ہاتھوں مارا گیا ، باقی کے سپاہی اور خان کی فوج کے ہاتھوں جنگی قیدی بنے جبکہ فوج کا ایک حصہ دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔
یوں اور خان غازی کی رومی سلطنت کے ساتھ ہونے والی اس پہلی جنگ میں اور خان غازی کو شاندار فتح حاصل ہوئی۔ جبکہ رومی شہنشاہ اینڈرونیکوس سوم بڑی مشکل سے زندہ جان بچا کر قسطنطنیہ واپس پہنچ سکا۔
اس فتح کے بعد اور خان غازی اپنی فوج کے ساتھ ازنیک شہر کے محاصرے پرواپس پہنچ گئے۔
رومی شہنشاہ کی فوج جوکہ ازنیک شہر کی واحد امید تھی اور خان غازی کے ہاتھوں شکست کھا کر واپس کو قسطنطنیہ پہنچ گئی۔اس شکست کے بعد از نیک شہر کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں اور اہلِ شہر کے لئے اب
ہتھیار ڈالنے کے سوا اب کوئی چارہ نہ تھا یوں اناطولیہ میں مشرقی رومی سلطنت کا یہ سب سے اہم ترین شہر ازنیک عثمانی سلطنت کے قبضے میں آگیا۔
1331ءمیں میں ازنیک شہر کی فتح کے بعد اور خان غازی فاتحانہ اس شہر میں داخل ہوئے ۔ اور خان غازی نے لوگوں کو اجازت دی کہ وہ اپنا سامان لے کر شہر سے جا سکتے ہیں اس فتح کی شام تک ازنیک شہر کی گلیوں میں اور خان غازی کے حکم پر ترک سپاہیوں نے اعلان جاری کیے کہ تمہارا مال اور جان ہمارے سپرد ہے جو بھی ہم سے پہلے جہاں بھی رہا اور کام کرتا رہا اسے جاری رکھنا چاہیے آپ لوگ اپنے مذہب پر ازادی کے ساتھ عمل کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد ازنیک شہر کا کمانڈر جہاز کے ذریعے اپنی سپاہیوں کے ساتھ استنبول واپس چلا گیا لیکن اور خان غازی کے اچھے رویے کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں نے ازنیک شہر میں ہی رہنے کو ترجیح دی اور بہت کم لوگوں نے شہر کو خالی کیا ۔