سلطنتِ عثمانیہ کے بانی ارتغرل غازی کی تاریخ

تیرویں صدی عیسوی میں جب “چنگیز خان “اور اس کے بیٹوں نے عالم اسلام پر یلغار کی تو ترکان غز کا ایک قبیلہ “کائی” اپنا وطن خراسان چھوڑ کر “ماہان “چلا گیا۔ مہان موجودہ روس میں ترکستان کے مشہور شہر “مرو” کے قریب ایک گاؤں تھا ۔جب منگولوں نے اس جگہ حملہ کیا تو اس قبیلے کے سربراہ سلیمان شاہ نے 597 ہجری بمطابق 1200 عیسوی میں “اناطولیہ” کا رُخ کیا۔
اناطولیہ سے مراد موجودہ ترکی کا وہ حصہ ہے جو ایشیاء میں شامل ہے۔ کہتے ہیں کہ سلیمان شاہ کو جہاد کی بڑی خواہش تھی اسی غرض کے لیے وہ مشرقی اناطولیہ میں چلے گئے اور وہاں انہوں نے سات برس تک قیام کیا اور اس قیام کے دوران انہوں نے شمال کے عیسائیوں کا قلع قمع کیا، جو کہ اخلاق آ کر لوٹ مار کرتے تھے ،انہوں نے شمال کی بازنطینی یعنی کہ” رومی” حکومت سے ٹکر لی ۔جس کا مرکز طرابزون یعنی کہ موجودہ ترکی کی اہم بندرگاہ تھا۔
اس کے بعد سلیمان شاہ نے شام کے مشہور شہر” حلب” کی طرف پیش قدمی کی۔ اس پر کچھ مورخین لکھتے ہیں، کہ سلیمان شاہ حلب کی جانب اس لیے گئے تھے ۔کیونکہ ایک تو ایران میں منگولوں کی واپسی شروع ہو گئی تھی دوسری یہ کہ سلیمان شاہ آخری صلیبی جنگ میں شرکت کے لیے بیت المقدس جا رہے تھے۔ جب سلیمان شاہ کا قافلہ حلب کے قریب دریائے فرات پر پہنچا تو سلیمان شاہ دریا پار کرتے ہوئے پانی میں ڈوب کر جان بحق ہو گئے ۔
سلیمان شاہ کی وفات کے بعد ان کا بیٹا “ارطغل غازی” اپنے بھائی” سنگر تکن” کے ساتھ قائی قبیلے کے 340 گھرانوں کے ساتھ” اناطولیہ” کی جانب روانہ ہوا۔ اس وقت سلجوکی تخت پر عظیم سلجوکی سلطان ” علاؤ الدین کیکوباد” تخت نشین تھے۔ جب” ارتغل غازی” اپنے جنگجوؤں کے ساتھ “سیواس” شہر کے قریب پہنچے، تو یہاں ایک میدان میں انہیں دو فوجیں آپس میں جنگ کرتی ہوئی نظر آئیں، ان میں سے ایک حریف طاقتور تھا جبکہ دوسرا کمزور ” ارتغل غازی” نے کمزور حریف کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا ،یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے فوجوں کے پرچموں اور سپاہیوں کی وضع قطع اور لباس سے بھی ان کی قومیت اور مذہب کا اندازہ لگا لیا ہو۔ بہرحال ارطغل غازی کے پاس اس وقت صرف 444 سوار تھے ،لیکن وہ اس مختصر سی فوج کو لے کر اس طاقتور فوج پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑے جو ایک کمزور فوج کے سپاہیوں کو مار رہی تھی ۔یہ حملہ اس قدر اچانک تھا کہ اس بڑی فوج کے افسروں اور سپاہیوں کو یہی گمان گزرا کہ حریف کو کہیں سے تازہ دم سپاہیوں کی بڑی کمک حاصل ہو گئی ہے، اس زبردست فوج کے سپاہیوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔
جب میدان جنگ صاف ہوا تو فاتح فوج کے سپہ سالار نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ کون لوگ تھے جو ایک نازک موقع پر رحمت کے فرشتے بن کر آئے۔ ایک لمبے تعارف کے بعد انکشاف ہوا کہ بھاگنے والی فوج منگولوں کی فوج تھی، اور ارطغل اور ان کے ساتھیوں نے جس فوج کی مدد کی وہ سلجوقی “سلطان علاؤ الدین”
کی فوج ہے۔
سلطان علاؤ الدین ” ارتغل غازی” کی بہادری اور جواں مردی سے بے حد خوش ہوئے اور انہوں نے ارتغرل غازی کو انعام کے طور پر،رومیوں کے نزدیک “سوغوت” کا علاقہ عطا کیا۔ یہ سرسبز علاقہ دریائے سقاریہ کی بائیں جانب واقع تھا، گو کہ یہ کوئی وسیع علاقہ نہ تھا لیکن بازنطینی یعنی کہ” رومی سلطنت” کی سرحد کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت تھی۔ سلطان علاؤ الدین نے “ارطغرل غازی” کو”اچ بیک” یعنی کہ سرحدی سردار کا لقب بھی دیا ۔
ارتغل غازی بہادر اور ہوشیار جرنیل تھے۔ ارتغل غازی کے قیام کے کچھ ہی عرصے کے بعد “نیقیا” کے شہنشاہ اور سلجوقی سلطان کے درمیان جنگ چھڑ گئی “سلطان علاؤ الدین کیکوباد” اپنی فوجوں کے ساتھ سرحد کی جانب روانہ ہوئے۔ جس کے بعد ارتغل غازی نے بھی اپنے سپاہیوں کی ایک جماعت تیار کی اور سلجوقی سلطان کی مدد کے لیے روانہ ہو گئے۔
جلد سلجوقی سپاہیوں نے عیسائیوں کی ایک قلعے”قراچہ حصار” کا محاصرہ کر لیا، اس محاصرے کے دوران “کائی قبیلے” کے سپاہیوں نے سلجوقیوں کی بڑی مدد کی اور ارتغل غازی ہی کی مدد سے سلجوقیوں نے یہ قلع فتح کیا،”قراچہ حصار” کی فتح کے بعد سلجوقی سلطان علاؤ الدین نےارتغل غازی کی بے حد تعریف کی اور ارطغل غازی کو اکنجی کے سربراہ کا درجہ دیا گیا ۔ارطغل غازی جب سرحد پر رومیوں کے ساتھ جنگ میں مصروف تھے تو انہوں نے اس دوران اپنے نوجوان بیٹے عثمان غازی کو سلطان علاؤ الدین کی خدمت میں پایہ تخت”قونیا” بھیجا۔
ارتغل غازی جو کہ انتہائی بہادر باصلاحیت اور نیک شخص تھے انہوں نے “قراچہ حصار” کی فتح کے بعد”بیلیجیک” قلعے کے ٹیک فور کو سلجوکی ریاست کو ٹیکس دینے کا مطالبہ کیا۔ 1281 عیسوی میں “قائی قبیلے” کے سردار ارطغل غازی کا انتقال ہو گیا۔ ارطغل غازی کے انتقال کے بعد لوگوں نے سوغوت شہرمیں ارطغل غازی کی اولاد میں سے عثمان غازی کو قائی قبیلے کا نیا سردار منتخب کر لیا۔ کیونکہ وہ ارتغل غازی کے بعد “عثمان غازی “کو ہی قائی سردار کے طور پر دیکھنا چاہتے
تھے ۔
عثمان غازی کو اپنے والد کی جانب سے سلجوقیوں کا دیا ہوا ایک سرحدی عہدہ ملا جو کہ اس وقت چاروں اطراف سے دشمنوں سے گھرا ہوا تھا ۔عثمان غازی اپنے والد کی طرح نہایت بہادر اور طاقتور ترین سردار تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ جنگی حکمت عملی سے بخوبی واقف تھے۔ وہ انتہائی ثابت قدم اور صابر انسان تھے ۔عثمان غازی نے اپنی زندگی اسلام کے لیے صرف کر دی وہ ایک ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جہاں پر اسلام کا بول بالا ہو اور ایک عالمی نظام قائم ہو جس کے جھنڈے کے نیچے عالم اسلام کے مسلمان امن کے ساتھ رہ سکیں اور اس خواب کی تکمیل کے لیے انہوں نے کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا ۔
عثمان غازی نے جب “قائی قبیلے” کی سرداری کو سنبھالا تو ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے ہمسائے یعنی کہ پڑوسی رومن جاگیرداروں کے خلاف فتوحات کو بڑھائیں ، لیکن عثمان غازی نے اپنا ارادہ ظاہر نہ کیا اور “ینی شہر” اور “لیفکے قلعے” کے رومن ٹیکفروں اور کمانڈروں کے ساتھ انہوں نے دوستانہ تعلقات قائم رکھے۔
لیکن اس دوران “انا گول” کے ٹیک فور” ایا نکولا” نے سمجھ لیا کہ عثمان غازی درحقیقت تو دوستی کا تھا ہاتھ بڑھائے ہوئے ہیں ،لیکن اصل میں وہ اپنی فوجوں کو جمع کر رہے ہیں تاکہ وہ رومی زمینوں کو فتح کر سکیں اس لیے عثمان غازی کو روکنے کے لیے اور سلطنت عثمانیہ کی طاقت کو توڑنے کے لیے اس نے عثمان بے کے کئی وفادار اور حامی ترک قبائل پر حملہ کر کے ترکوں کو شہید کر دیا ۔
رومی گورنروں کی جانب سے مسلسل حملوں سے تنگ آ کر عثمان غازی نے انا گول کے گورنر ایا نکولا کے خلاف حملے کی منصوبہ بندی کی اور وہ “انا گول “کو فتح کرنے کی تیاری کرنے لگے اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے والد”ارتغل غازی ” کے دوستوں “اگجا کوچہ، توگت الپ، کو نور الب اور عبدالرحمان غازی سے مشاورت کے بعد جنگی تیاری شروع کی اور جلد وہ اپنی فوجوں کے ساتھ رومی سرحد میں داخل ہوئے یہاں ان کا سامنا ایا نکولا کے زیر کنٹرول رومی فوجوں کے گھات میں ہوا، جہاں ایک بڑی وادی کے دونوں اطراف سے درختوں میں چھپے رومی فوجوں نے اچانک عثمان غازی پر حملہ کر دیا اور ایک سخت جنگ شروع ہوئی۔ عثمان غازی اور ان کی فوج کو بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا اور بے شمار ترک اس حملے میں مارے گئے ۔جن میں عثمان غازی کا بہترین جنگجو “بائے ہوجا” بھی شہید ہو گیا اور عثمان غازی بڑی مشکل سے رومی حصار کو توڑ کر اپنے سپاہیوں کو زندہ واپس لانے میں کامیاب ہوئے اور یوں اس جنگ میں دونوں میں سے کسی بھی فریق کو فتح حاصل نہ ہو سکی۔
اس ابتدائی شکست کے بعد جب عثمان غازی واپس سوغوت شہر میں آئے تو وہ بے حد اداس تھے وہ اپنے خیمے میں گئے اور خود کو خیمے میں بند کر لیا انہوں نے نماز ادا کی اور اللہ سے مدد مانگی اور خوب گڑگڑا کر روئے، جس کے بعد عثمان غازی کو نیندآگئی اور وہ وہیں سو گئے۔ جب عثمان غازی رات کو سوئے تو انہوں نے ایک بڑا ہی خوبصورت خواب دیکھا انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ان کے “شیخ ایدابالی” کے سینے سے چاند نکلتا ہے جو کہ عثمان کے سینے میں داخل ہو جاتا ہے پھر وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے سینےسے ایک تناور درخت نکلتا ہے یہ درخت بڑا ہو کر ایک سایہ دار درخت بن جاتا ہے اور ایک دنیا پر چھا جاتا ہے۔
جب عثمان غازی صبح کو بیدار ہوئے تو وہ اپنے شیخ کے پاس گئے اور انہیں اپنا خواب بتایا شیخ ایدبالی نے کہا کہ اے میرے بیٹے اللہ تعالی تمہیں اور تمہاری اولاد کو سلطنت نصیب کرے گا اور میری بیٹی تمہاری شریک حیات ہوگی اور اس کے بعد عثمان غازی کا نکاح انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ کر دیا
کہتے ہیں کہ اس خواب کی تعبیر کے بعد عثمان غازی نے اپنی تلوار کو جس سے انہوں نے بے شمار جنگیں جیتی تھیں کو مضبوطی کے ساتھ اپنے سینے کے ساتھ لگایا یوں عثمان غازی کی ہمت اور خود اعتمادی لوٹ آئی ، جس کے بعد عثمان غازی نے “کراچہ حصار” قلعے پر قبضے کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا “کراچہ حصار” دراصل انا گول کی فتح میں بنیادی رکاوٹ تھا اور عثمان غازی کو پہلے اس پر حملہ کر کے اسے ختم کرنا تھا۔
یہ قلعہ انا گول شہر سے تقریبا پانچ کلومیٹر مشرق میں واقع تھا اور اسے انا گول شہر کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا اگر اس قلعے پر قبضہ کر لیا جاتا،تو اِنا گول شہر کو فتح کرنا نہایت آسان ہو جاتا۔
چنانچہ کلوچہ حصار کی فتح کے لیے عثمان غازی نے اپنے چند ایک جان نسار سپاہیوں کو رومی فوجیوں کے بیس میں قلعے میں داخل کیا عثمان غازی کے ان جانسار سپاہیوں نے رات ہونے پر شہر کے دروازے کھول دیے اس دوران عثمان غازی جو کہ شہر سے باہر گھات لگائے بیٹھے تھے ،وہ اپنے 450 جنگجوؤں کے ساتھ تیزی سے شہر میں داخل ہوئے اور انہوں نے شہر میں موجود تمام عیسائی سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جس کے بعد عثمان غازی نے اس قلعے پر قبضہ کر لیا اور اس کی دیواروں کو گرا دیا۔
جس کے بعد انا گول شہر غیر محفوظ ہو گیا کیونکہ اس کی اپنی دفاعی چوکی “کراچہ حصار” تباہ ہو چکی تھی،یہ عثمان غازی کی پہلی فتح تھی۔
“کراچہ حصار” کے تباہ ہونے کے بعد انا گول کے ٹیک فور ایا نکولا نے”کولوچہ حصار” کے گورنر کو ایک خط لکھا کہ ہمیں مل کر عثمان کو ختم کرنا ہوگا نہیں تو عثمان
ہم سے ہمارے علاقےچھین لے گا ایا نکولا نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نے اس وقت عثمان غازی کو ختم نہ کیا توبعد
” گرے ہوئے دودھ پر رونے کا کوئی فائدہ نہیں “
اور یوں ایا نکولا اور کراچہ حصار کا گورنر عثمان غازی کے خلاف متحد ہو گئے دونوں نے اپنی فوجوں کو جمع کیا اور متحد ہو کر انہوں نے عثمان غازی کو ختم کرنے کے لیے سوغوت کی جانب پیش قدمی شروع کی۔

Check Also

ابراہیم پاشا: عثمانی سلطنت کے گرینڈ وزیر کی مکمل تاریخ

ابتدائی زندگی اور پس منظر:۔ ابراہیم پاشا 1495ء کے آس پاس یونان کے علاقے پارگا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *