کہا جاتا ہے کہ اس بغاوت کے دوران سلجوقی سلطان علاؤ الدین کیکو باد صوم تخت چھوڑ کر فرار ہو گئے اور یوں سلجوقی تخت خالی ہو گیا۔جبکہ منگولوں کی یہ دونوں فوجیں “ارض روم” شہر کے قریب ایک میدان میں آمنے سامنے ہوئیں۔ ایک طویل خونریز جنگ کے بعد آخرباغی کمانڈر”سلیمیس” کو شکست ہوئی اور اس کی فوج منتشر
ہو گئی۔
جب اناطولیہ میں ایلخانیوں کی آپس میں جنگ ہوئی اور سلطان علاؤدین کیکوباد صوم نے تخت چھوڑ کر راہِ فرار اِختیار کی تو سلجوقیوں کی رہی سہی طاقت بھی جاتی رہی اور یوں سلجوقی سلطان کے نہ ہونے پر مختلف امراء اور گورنروں نے اپنی خود مختار چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کر لیں۔ دوسری جانب ایلخانی کمانڈر کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد باغی منگول کمانڈر “سلیمیس” کے سپاہی مغرب کی جانب فرار ہو گئے جہاں انہوں نے عثمان غازی کی سرزمینوں میں قدم رکھا اور انہوں نے عثمان غازی کی اطاعت قبول کر لی اور عثمانی فوج میں شامل ہو گئے جس کے بعد عثمان غازی نے اپنے سپاہیوں کی تعداد بڑھا دی۔ عثمان غازی کی فوجی طاقت کا خوف بازنطینی ٹیکفروں کے دلوں میں بڑھتا گیا اور وہ عثمان غازی سے اب ڈرنے لگے ۔
اسی سال یار حصار قلعے کے ٹیکفور نے بیلجیک قلعے کے ٹیک فور کے ساتھ اتحاد کرنے کے ارادے سے اپنی بیٹی ہولو فیرا کی شادی طے کر دی ۔ویسے کہنے کوتویہ صرف ایک شادی تھی۔ لیکن اس شادی میں اصل منصوبہ عثمان بے کو دعوت دے کر انہیں شہید کرنا تھا۔
اینا گول ،یار حساراوربیلجیک قلعے کے ٹیکفروں نے آپس میں فیصلہ کیا کہ عثمان غازی جو کہ دن بدن مضبوط ہوتا جا رہا ہے کوہم اس شادی میں دعوت دیں گے اور انہوں نے اس شادی کے دوران عثمان غازی کو زہر دے کر مارنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔
تاہم “ہارمن کایا “شہر کےٹیک فور میخائیل کوسس کی عثمان غازی کے ساتھ دوستی تھی اور ان کے عثمان غازی کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔میخائیل کوسس کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا گیا تھا لیکن میخائیل کوسس نے دوست ہونے کے ناطے دوستی کا حق ادا کیا اور اس نے عثمان غازی کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا کہ کیسے رومی ٹیکسفور شادی کے بہانے آپ کو زہر دے کر مارنا چاہتے ہیں۔
جب عثمان غازی کو یہ خبر ملی تو انہوں نے اپنے کمانڈروں اور سرداروں کی مشاورت سے ایک شاندار منصوبہ تیار کیا اس منصوبے کے تحت بیلجیک قلعے میں جوخواتین تحائف لے کر جائیں گی ،وہ خواتین کے بجائے خواتین کے لباس میں ملبوس مجاہدین لہوں گے اور مناسب وقت آنے پر مجاہدین اپنے ہتھیار نکال کر سپاہیوں پر حملہ کر دیں گے اور بیلجیک قلعے کا دروازہ کھول دیں گے اور اس دوران بیلجیک قلعے سے باہر چھپے مجاہدین قلعے میں داخل ہو کربیلجیک قلعے کو فتح کر لیں
گے ۔
اس منصوبے کا دوسرا حصہ شادی کی دعوت تھی جس میں یہ طے پایا کہ عثمان غازی اس شادی میں جائیں گے اور تحفے کے طور پر وہ اپنے ساتھ تیل اور شہد کے بھرے ہوئے بیرل لے کر جائیں گے لیکن ان شہد اور تیل کے ڈرموں میں دراصل عثمان غازی کے سپاہی ہوں گے اور یہ بھی طے پایا کہ جب رات کے اس پہر تمام سردار اور ٹیک فور اور رومی سپاہی نشے میں دھت ہوں گے تو تب انہیں مار دیا جائے
گا ۔
اس منصوبے کا تیسرا حصہ انا گول شہر تھا جہاں پر ترگت الپ اپنے سپاہیوں کے ساتھ انا گول شہر کا محاصرہ کریں گے۔ بیلیجک قلعے کے ٹیک فور نے شادی کا یہ پروگرام بیلجیک قلعے کے ساتھ موجود ایک گاؤں میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔
ادھر عثمان غازی بھی شادی کے لیے مکمل تیار تھے انہوں نے اپنے جنگجوؤں کو شہد اور تیل کے بیرل میں رکھ کر انہیں چھپا دیا اور وہ اپنے 30 سپاہیوں کے ساتھ اس شادی میں شرکت کے لیے اپنے شہر سوغوت سے روانہ ہوئے۔ عثمان غازی کے منصوبے کے مطابق سب سے پہلے خواتین کے بھیس میں سپاہی جو کہ اس شادی کے لیے بیلجیک قلعے میں تحفے اور تحائف لے کر جا رہے تھے وہ خواتین یعنی کہ عثمان غازی کے سپاہی بیلجیک قلعے میں ہتھیاروں کے ساتھ جو کہ انہوں نے چھپائے ہوئے تھے داخل ہوئے ۔یوں خواتین کے بھیس میں چھپے عثمان غازی کے سپاہیوں نے ہتھیاروں سے لدے جھگڑے شہر میں داخل کیے ۔اب چونکہبیلجیک قلعے کے ٹیکفر کی شادی تھی، اس لیے زیادہ تر لوگ اور سپاہی شادی میں گئے ہوئے تھے اوربیلجیک قلعے میں سپاہیوں کی تعداد بہت کم تھی ۔یوں بیلجیک قلعے کو فتح کرنا مجاہدین کے لیے اب زیادہ آسان ہو گیا تھا۔
شہر میں داخل ہونے کے بعد خواتین کے بیس میں چھپے عثمان غازی کے سپاہیوں نے شہر کے محافظوں پر حملہ کر دیا اور اس دوران انہوں نے شہر کے دروازے کھول دیے اور باہر چھپے عثمان غازی کے مزید سو مجاہدین شہر میں داخل ہو گئے ۔یوں بیلجیک قلعے کو بہت جلد فتح کر لیا گیا ۔کیونکہ اس دوران قائی سپاہیوں کو کسی بھی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
ادھر دوسری جانب رومی ٹیک فوربیلجیک قلعے کی فتح کی خبر سے بے خبر اپنی شادی میں عثمان غازی کو قتل کرنے کے موقع کا انتظار کر رہا تھا ۔تاہم وہ نہیں جانتا تھا کہ یہاں جال کے اندر ایک اور جال ہے اور عثمان غازی نے اس کے لیے بہترین جال بچھایا ہوا ہے اس شادی کے دوران جب لوگ شراب کے نشے میں مدہوش ہونے لگے تو عثمان غازی نے اپنے سپاہیوں کو شہد اور تیل کے ڈرموں میں سے نکالا اور اپنے مجاہدین کے ساتھ انہوں نے اچانک شادی پہ آئے ہوئے ان لوگوں پر حملہ کر دیا ۔بیلجیک قلعے کے ٹیکفور کو مجاہدین نے پکڑ کر اس کا سر دھر سے الگ کر دیا اور یوں عثمان غازی کے منصوبے کے مطابق پہلےبیلجیک قلعے پر قبضہ ہو گیا اور اس کا ٹیکفور بھی مارا گیا ۔
اس دوران اناگول شہر میں ترگت الپ نےسلجوقی سلطان کی طرف سے بھیجے گئے ہتھیاروں کے ساتھ انا گول شہر کا محاصرہ کر لیا تھا ۔ادھر عثمان غازی نے بھی وقت ضائع کیے بغیر یار حصار شہر کا محاصرہ کر لیا۔ ادھر ا ناگول شہر میں جہاں پر ترگت الپ اپنے سپاہیوں کے ساتھ شہر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے انہوں نے جب محاصرے میں شدت اختیار کی تو انا گول کے شہری جو کہ اپنے ٹیکفور آیا نکولا کہ ظلم کی وجہ سے پریشان تھے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ کار چاہیسار کےعیسائیوں کے ساتھ عثمان غازی کس قدر ہمدردی رکھتے ہیں اور وہ کس قدر خوشحال ہیں ۔اس لیے وہ چاہتے تھے کہ انا گل شہر پر بھی عثمان غازی کا قبضہ ہو جائے تاکہ وہ آیا نکولا کے ظلم سے بچ جائیں اور ایک پرسکون زندگی گزار سکیں ۔
اس دوران عثمان غازی یار حصار قلعے کو فتح کرنے کے بعد اپنی فوجوں کے ساتھ انا گول کی جانب بڑھنے لگے تاکہ وہ ترگت الپ کی مدد کر سکیں اور انا گول پر بھی عثمان غازی کا قبضہ ہو جائے۔ عثمان غازی کے آنے پر اہل شہر نے ہتھیار ڈال دیے اور انا گول شہر عثمان غازی کی سلطنت میں شامل ہو گیا اور اس محاصرے کے دوران انا گول ٹیک فور مارا گیا اس طرح عثمان غازی نے تین شہروں کو فتح کر لیا اور انا گول بیلیجک اور یار حصار قلعے پر اسلامی پرچم لہرانے لگا اور یوں عثمان غازی کی سلطنت کی سرحدیں تیزی سے پھیلنے لگیں۔
ادھر ایلخانی سلطنت میں کہا جاتا ہے کہ اسی سال جب عثمان غازی نے یہ فتوحات حاصل کی تھیں، تو سلجوقی سلطان علاؤالدین کیعکوباد صوم کو منگولوں نے اپنے پایہ تخت تبریز میں انہیں پھانسی دے دی ۔سلجوقی سلطان کی موت کے بعد سلجوقیوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور اناطولیہ میں موجود سلجوقیوں کی یہ آخری سلطنت یعنی کہ سلاجقہ روم کا خاتمہ ہو گیا اور اناطولیہ میں امرا اور گورنروں نے اپنی خود مختار ریاستیں قائم کر لیں۔
اس طائف الملوکی کے دور میں عثمان غازی نے اپنی ایک آزاد ریاست یعنی کہ” سلطنت عثمانیہ” کی بنیاد رکھی اور انہوں نے اپنے نام کے سکے جاری کیے اور یوں 1299 عیسوی میں سلطنت عثمانیہ کا باضابطہ طور پر قیام عمل میں آیا۔
Check Also
ابراہیم پاشا: عثمانی سلطنت کے گرینڈ وزیر کی مکمل تاریخ
ابتدائی زندگی اور پس منظر:۔ ابراہیم پاشا 1495ء کے آس پاس یونان کے علاقے پارگا …