قسطنطنیہ کی فتح
سلطنت عثمانیہ نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔
لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے حملے کی وجہ سے ناکام رہے۔
تاہم 15ھرویں صدی کے درمیان میں عثمانیوں نے بغاوتوں کو ختم کرتے ہوےانہوں نے سلطنت کو مضبوط کیا ۔اور اب عثمانی قسطنطنیہ پر ایک فیصلہ کن حملے کی تیاری کر رہے تھے
1444میں "سلطان مراد" ثانی نے "وارنا" کی جنگ میں یورپ کی صلیبی افواج کو شکست دی۔اس جنگ میں پولینڈ اور ہینگری کا بادشاہ"ولادیسلاو" مارا گیاتھا۔اور سلطنت عثمانیہ وسطیٰ یورپ میں ایک طاقت بن کر اُبھری۔
لیکن عثمانیوں کو اب بھی الباینا کے حاکم "سکندر بیگ" اور ٹرانسلوینیا کے"جان ہونیاڈے" سے مزاہمت کا سامنا تھا۔
جان ہونیاڈے نے یورپی بادشاہوں اور پوپ کو مدد کے لیے کی خط بھیجے ،تاکہ عثمانیوں کے خلاف ایک نی صلیبی جنگ کا آغاز کیا جا سکے ، لیکن کوی بھی اس جنگ کے لیے تیار نہ ہوا۔جس پر ہونیاڈے نے صرف عثمانی علاقوں میں چھاپے مارنے پر ہی اکتفا کیا۔
ادھرسکند ر بیگ پہلے بھی عثمانی علاقوں پر حملے کر چکا تھا سو اب سلطان مراد نے اسے سبق سکھانے کے لیے تین لشکر روانہ کیے ،لیکن بد قسمتی سے ان تینوں لشکروں کو سکندر بیگ نے شکست دی۔اس دوران سلطان سلطنت میں ایک چھوٹی سی بغاوت کو ختم کرنے میں مصروف تھے۔
بغاوت کو کچلنے کے بعد سلطان مراد1446 عیسوی میں موریا پر حملے کے لیے روانہ ہوے۔سلطان نے اس مہم کے دوران موریا کے حاکم اور مستقبل کے بازنطینی بادشاہ "قسطنطین" کو مجبور کیا کہ وہ سلطان کو خراج ادا کرے۔
اور اب سلطان نے سکندر بیگ کے خلاف پیش قدمی شروع کی اور1448 عیسوی میں "سویٹ گراڈ" کی جنگ میں سلطان نے سکندر بیگ کو شکست دی۔ سکندر بیگ اس جنگ میں زندہ بچ گیا ، جبکہ سلطان اپنی فوج کے ساتھ "اِدرنہ" واپس چلے آے۔
اس دوران " جان ہونیاڈے" ایک اور صلیبی جنگ کی تیاریاں کر رہا تھا۔
اس نے 30ہزار کی فوج جمع کی اسے امید تھی کہ عثمانیوں کے خلاف اس جنگ میں سربیا بھی اس کے ساتھ ہے لیکن سربیا نے ہونیاڈے کو صاف صاف انکار کر دیا کہ وہ عثمانیوں کے خلاف اس جنگ میں شرکت نہیں کرے گا۔
جس پر ہونیاڈے سربیا پر حملہ کرتے ہوے البانیا کے سکندر بیگ کی فوج سے ملنا چاہتا تھا تاکہ وہ مل کر سلطنت عثمانیہ پر حملہ کر سکے۔
سلطان مراد یہ سب جانتے تھے سو اس سے پہلے کہ ہونیاڈے سکندر بیگ سے مل جاتا سلطان مراد اپنی فوج کے ساتھ نکل پڑے۔
اکتوبر میں ہونیاڈے "کوسوو" کے میدان میں سکندر بیک کا انتظار کر رہا تھا۔
کہا جاتاہے کہ سلطان کے جاسوسوں نے ہونیاڈے کا خط سکندر تک پہنچنے ہی نہ دیا خیر جو بھی ہو17 آکتوبر1448 کو سلطان مراد 50 ہزار کے لشکر کے ساتھ کوسوو کے اس میدان میں پہنچے جہاں انہوں نے کوسوو کی پہلی جنگ لازار کو شکست دی تھی۔
جنگ کے پہلے دن ہونیاڈے کا ہر اول دستہ جس میں ہنگری،ولاچیا،پولینڈاور مالڈوا کے سپاہی شامل تھے عثمانی لشکر کے ابتدای دستوں پر حملہ آور ہوے۔
اس حملے مین انہیں فتح حاصل ہوی لیکن جلد ہی عثمانی دستوں نے انہیں پیچھے دکھیل دیا۔
ہونیاڈے نے رات کے وقت چند گھڑ سواروں کو عثمانیوں کے بایں جانب دستوں پر حملے کے لیے بھیجا۔لیکن عثمانی گھڑ سواروں نے انہیں پچھے دکھیل دیا۔
دوسرے دن سلطان مراد نے تمام گھڑ سواروں کو کی میل دور بھیج دیا ہونیاڈے کو لگا کہ عثمانی گھڑ سوار بھاگ رہے ہیں۔سو وہ اپنے تمام لشکر کے ساتھ بچے کچھے ینر دستوں کو ختم کرنے کے لیے آگے بڑھا،اسکے اس حملے سے عثمانی تیر انداز مارے گیے لیکن ینی چری دستہ سلطان کی حفاظت میں ڈت گیا۔
اسی دوران وہ گھڑ سوار جو بظاہر بھاگ گے تھے تھے برق رفتاری کے ساتھ میدان میں داخل ہوے اور عثمانی گھڑ سواروں نے ہونیاڈے کی فوج کوتینوں اطراف سے گھیر لیا۔ہونیاڈے سمجھ گیا کہ یہ سلطان مراد کی ایک چال تھی سو ہونیاڈے بمشکل چند دستوں کے میدان جنگ سے جان بچا کر بھاگنے پر کامیاب ہوا ۔کوسوو کا میدان صلیبی سپاہیوں کی لاشوں سے بھرا پرا تھا جبکہ سلطان مراد کے صرف 5ہزار سپاہی شہید ہوے۔
کوسوو کی فتح کے بعد سلطان نے سکندر بیگ کے خلاف کی ایک لشکر روانہ کیے لیکن انہیں زیادہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
لیکن ابھی اس سے زیادہ اہم عثمانیوں کے لیے قسطنطنیہ تھا ۔
جب سلطان مراد ثانی وفات پا گے تو انکا بیٹا" محمت، جنہیں محمد فاتح کے نام سے بھی جانا جاتا ہے1451عیسوی میں تخت نشین ہوا۔
اب سےعثمانی سلطان کا اب صرف ایک ہی مقصد تھا کہ وہ تھاقسطنطنیہ کی فتح ۔
قسطنطنیہ کوی عام یا چھوٹا شہر نہیں تھا۔اس شہر کی آبادی 50ہزار سے 1لاکھ تک تھی۔ جبکہ بے شمار جگہ ایسی تھی جہاں پر شہری کاشت کاری کیا کرتے تھے۔
اس شہر کا بادشاہ "کانسٹنٹاین الیون"تھا جو عثمانی سلطان کو خراج دیا کرتا تھا۔
سلطان محمد فاتح زہین سلطان تھے انہوں نے جینیوا،وینس اور ہینگری سے ایک معاہدہ کیا کہ وہ عثمانی سلطنت پر حملہ نہیں کریں گے۔ سلطان محمد فاتح یہ اس لیے چاہتے تھے کہ اب قسطنطنیہ کی فتح میں کوی بھی حایل نہ ہو سکے۔لیکن اسی لمہے امیر کرمانیہ نے بغاوت کر دی اور اناطولیہ کی طرف برھنے لگا۔
لیکن سلطان محمد نے برق رفتاری کے ساتھ اسے رستے میں ہی جا لیا اور بغاوت کو ختم کر دیا۔
ادھر قانسٹنٹاین نے سلطان محمد فاتح کو مذید خراج دینے سے انکار کر دیا اور اس نے سلطان محمد کو دھمکی دی کہ وہ "اورحان" کو عثمانیوں کا نیا سلطان بنا دے گے۔
دراصل اورحان سلطان محمد کا کزن تھا جو نےسلطان مراد کے خلاف بغاوت کی تھی اور وہ جان بچا کر قسطنطنیہ چلا گیا تھا۔ اب قاسٹنٹاین اسے سلطان محمد فاتح کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا۔
سلطان محمد نے "قاسٹن ٹاین" کے اس رویے پر معاہدہ طور دیا اور قسطنطنیہ کو فتح کرنے کی تیاریا کرنے لگے۔
سلطان محمد فاتح نے اپریل 1452عیسوی کو آبناے باسفورس کے کنارے ایک قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا ،یہ قلعہ تعمیر کرنا اس لیے بھی ضروری تھا تاکہ قسطنطنیہ کی ناکہ بندی کی جا سکے۔
آگست کے آختتام تک عثمانی اس قلعے کو تعمیر کر چکے تھے۔
قانسٹنٹاین کو اب احساس ہوا کہ اس نے کیا حماقت کر دی ہے ،اس نے خوراک زخیرہ کی اور مختلف یورپی بادشاہوں کو مدد کے لیے خطوط لکھے،لیکن سواے وینس کے قسطنطنیہ کی مدد کے اور کوی نہ آیا۔
وینس سے "گیوانی جسٹنیانی"1 ہزار سپاہیوں کے ہمراہ قسطنطنیہ پہنچا۔
عثمانیوں کے پاس 1 لاکھ کی مضبوط طاقتور فوج ،69 توپیں ،اور 126 بھری جنگی جہاز تھے جو کہ سلطان محمد فاتح کی کمان میں تھے۔
جبکہ سلطان محمد فاتح کے مد مقابل " بازنطینیوں کے پاس 7 ہزار فوج،ادرنہ سے آے تھے۔اور اسکے علاوہ انکے پاس 15 توپیں اور 26 بھری جنگی جہاز تھے۔
اگرچہ عثمانیوں کے مقابلے اظالوی جنگی جہاز زیادہ مضبوط تھے لیکن ان مین لگی توپین پرانی تھیں۔
ان سب کے علاوہ عثمانیوں کے پاس ایک ایسے توپ تھی جس نے قسطنطنیہ کی فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
قسطنطنیہ کی فوج کی کمان جسٹنیانی کے ہاتھ مین تھی۔ جبکہ بادشاہ خود زاتی محافظوں اپنے محل میں تھا۔
بازنطینی جنگ کے لیے تیار تھے انہوں نے دریا کی جانب ایک مضبوط لوہے کے سنگل سے راستہ روک دیا تاکہ عثمانی یہاں سے حملہ نہ کر سکیں۔
1453عیسوی کو سلطان محمد فاتح اپنی فوج کے ساتھ 1st Apral
قسطنطنیہ کی دیوار کے سامنے پہنچےاور خیمہ زن ہو گے۔5 اپریل کو سلطان نے محاصرے کا حکم دیا۔
سلطان محمد فاتح نے جو توپ تیار کرای تھی اسے میدان جنگ مین لایا گیا جس نے قسطنطنیہ کی دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا ،لیکن اس توپ کے ساتھ ایک مسلہ تھا،وہ یہ کی چونکہ یہ بھاری برکم وزنی توپ تھی اس لیے اسے دوبارہ حملے کے لیے تیار ہونے میں 3 گھنٹے لگتے تھے۔
اور اس دوران بازنطینی ٹوٹی دیواروں کی مرمت کردیتے۔
7تویں دن سلطان نے پیدل فوج کو دیواروں پر چھڑنے کا حکم دیا۔لیکن محافظوں نے آسانی سے عثمانیوں کو دکھیل دیا۔
اس دوران عثمانیوں کی سب سے بری بری توپ خراب ہو گی اور باقی توپیں اس قابل نہیں تھیں کہ دیوار کو تور سکیں ۔
8اور9ایپرل کو بازنطینی فوج نے قلعے سے نکل کر عشمانیوں سے جنگ لڑی لیکن اس جنگ کا کوی نتیجہ نہ نکلا۔
لیکن اب سلطان محمد فاتح کے لیے ایک خوشی کی خبر تھی وہ یہ کہ عثمانی انجینیرز نے سلطان کی بنوای ہوی توپ کو ٹھیک کر لیا تھا اور دیوار پر حملے پھر سے شروع کر دیے گیے اور اس توپ سے قسطنطنیہ کی فتح تک بمباری ہوتی رہی۔
سلطان نے17ایپرل کو رات کے وقت حملہ کرنا چاہا لیکن بازنطیوں نے سلطان کے اس حملے کو ناکام کر دیا.
دوسری طرف سلطان کی بحری فوج اب تک زنجیر کو توڑنے میں ناکام رہی۔
20 آیپریل کو وینس کے کچھ جنگی جہاز قسطنطنیہ کی مدد کے لیے آے اور عثمانی ان جہازوں کو روکنے مین ناکام رہے۔
لیکن سلطان محمد فاتح ہار ماننے والے بلکل بھی نہ تھے انہوں نے ایک تر کیب سوچی، سلطان نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ جہازوں کو خشکی کے رستےزنجیر کے اس پار لے جایں ،۔
چناچہ عثمانی فوج بری محنت کے بعد کشتیوں کو خشکی کے رستے دریا کے اس پار لے جانے مین کا میاب ہوی۔
سلطان محمد فاتح نے یہ چال اتنی خاموشی سے چلی کہ اہل شہر کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوی،سو جیسے ہے سلطان کی فوج دریا مین داخل ہوی تو چند ہی لمہوں میں وہاں کھرے بازنطینی جہاز غرق کر دیے گے۔
اس پر قانسنٹاین نے مغرب کی دیوار سے چند دستے شمال کی دیوار کی طرف روانہ کیے لیکن اس کی اس غلطی کی وجہ سے مغربی دیوار پر عثمانیوں کے لیے حملہ آسان ہو گیا۔
6کو عثمانیوں کی بڑی توپ نے سینٹ رومانوس دروازے پر May
حملہ کیااور رات کے وقت عثمانی فوج کے چند دستے شہر مین داخل ہو گے۔لیکن جسٹنیانی نہ ان کا مقابلہ کیا اور انہین شہر سے نکال دیا۔
11May
کوعثمانیوں نے شہر کے ایک اور دروازے کو طور دیا۔عثمانیوں نے شہر مین داخل ہونا چاہا لیکن یہاں خود بادشاہ اپنے دستے کے ساتھ موجود تھا اسنے عثمانی فوج کو شہر مین داخل نہ ہونے دیا۔
29می کو سلطان نے ایک دستہ شہر میں داخل کرنا چاہے لیکن جسٹنیانی نے انہیں پیچے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔
عثمانیوں کی بمباری سے سینت رومانوس گیٹ ٹوٹ گیا سلطان نے3ہزار ینی چری سپاہوں کو شہر مین داخل ہونے کے لیے بیجھا۔
بازنطینی فوج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن ینی چڑی دستہ قلعہ کے ایک برج پر عثمانی پرچم لہرا چکا تھا۔
اس حملے میں جسٹنیانی شدید زخمی ہو گیا اور اسے میدان جنگ سے دور لے جایا گیا ،جسٹنیانی کا جانا تھا کہ بازنطینی فوج کے حوصلے پست ہو گے۔
اب مزید ینی چریز رومانوس دروازے سے شہر مین داخل ہوے تو بازنطینی فوج بھاگ کھڑی ہوی۔
تاریخی حوالوں کے مطابق خود بادشاہ اپنے زاتی محافطوں کے ساتھ سینٹ رومانوس دروازے پر عثمانی فوج سے لڑتے مارا گیا۔
قسطنطنیہ جو کی ہزار سالوں سے ناقابل فتح تھا اب سلطان محمد فاتح اسے فتح کر چکے تھے اور اس کے ساتھ ہی ہزار سالہ بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا ۔
تبصرہ کریں