انگریزوں کے خلاف اور ہندستان کی آزادی پر جاں نثار کرنے والے عظیم حکمران ٹیپو سلطان شہید۔

ٹیپو سلطان کا پورا نام فتح علی ٹیپو سلطان ہے۔ ان کے والد کا نام حیدر علی اور والدہ کا نام فخر النساء ( فاطمہ) ہے۔ ٹیپو سلطان کے نام ”فتح کی علی" میں ان کے والد حیدر علی اور دادا فتح محمد دونوں کے نام شامل ہیں۔

ان کے والد حیدر علی نے ان کے نام میں ”ٹیپو سلطان“ کا اضافہ ارکاٹ کے ایک بزرگ حضرت ٹیپو مستان ولی سے عقیدت کے باعث کیا۔ ٹیپو سلطان کی پیدائش 13صفر المظفر 1165ھ/بمطابق21 دسمبر1751ء میں ہوئی۔ عالم اسلام کے اس عظیم جرنیل کی پیدائش بنگلور سے تقریباً22میل دور دیون ہلی میں عمل میں آئی۔

"ٹیپو سلطان کی خیالی تصویر"

 ٹیپو سلطان کے آبا واجداد کے متعلق روایت ہے کہ وہ قریشی النسل تھے اور غالباً 16 ھویں صدی عیسوی کے اواخر میں برصغیر پاک وہند پہنچے۔ اس خاندان کے ایک فرد شیخ ولی محمد گلبرگہ (جنوبی ہند) آئے۔ شیخ ولی محمد کے بیٹے محمد علی تھے۔ جو ٹیپو سلطان کے پر دادا تھے۔ محمد علی کے بیٹوں نے، جن میں ٹیپو سلطان کے دادا فتح محمد بھی شامل تھے ،نے فوج کی ملازمت کا پیشہ اختیار کیا۔ جب فتح محمد کا انتقال ہوا تو ان کے بیٹے شہباز اور حیدر (ٹیپو سلطان کے والد) کمسن تھے۔ ان بچوں کی والدہ بنگلور اور پھر سرنگا پٹم منتقل ہو گئیں۔ حیدر علی نے بھی بڑے ہو کر فوج کی ملازمت اختیار کی۔ ان کےجوہر خاص طور پر 1162ھ /بمطابق1749ء میں (28) برس کی عمر میں کھلے، جب انہوں نے ایک جنگ میں غیر معمولی شجاعت کا ثبوت دیا۔ اس جنگ کے تقریباً دو برس بعد ٹیپو سلطان کی پیدائش عمل میں آئی۔ حیدر علی نے اپنے پیارے فرزند کی تعلیم و تربیت کا بہترین انتظام کیا۔ ننھے ٹیپو کو قرآن کریم، فقہ، عربی، فارسی، فرانسیسی، انگریزی اور کنٹری (مقامی زبان) کی تعلیم دی گئی۔ اس زمانے میں اردو بھی رائج ہورہی تھی اس کا بھی علم حاصل کیا۔

دینی اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنونِ حرب کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا گیا۔ ان تمام علوم و فنون کے نامور اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ان اساتذہ کی خصوصی توجہ ، لگن اور محنت کے نتیجے میں ٹیپو نے بہت جلد شہ سواری، نیزہ بازی، تیر اندازی بندوق چلانے، کشتی اور دو بد و جنگ لڑنے میں مہارت حاصل کرلی۔ ٹیپو سلطان نے ایسے عہد میں ہوش سنبھالا جب برصغیر پاک وہند کی عظیم اسلامی مملکت سیاسی خلفشار کا شکار ہو چکی تھی۔ مغل حکمران اور نگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد جگہ جگہ خود مختار ریاستیں وجود میں آچکی تھیں اور ان میں کشاکش جاری تھی۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر انگریز ایک تجارتی ادارے ایسٹ انڈیا کمپنی کے بھیس میں اپنا جال پھیلا چکے تھے۔

"ٹیپو سلطان کم عمری میں"

سنہ 1178ھ /بمطابق 1764ء میں بنگال سے اودھ تک انگریزوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی کی دور رس نظروں نے اس مہیب خطرے کو بھانپ لیا تھا۔ جو بعد میں 1857ء کی جنگِ آزادی کا باعث بنا اور جس کے نتیجے میں انگریز برصغیر کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے، چنانچہ انہوں نے نو آبادیت پسند سامراج کی راہ روکنے کے لیے خود بھی جد و جہد شروع کر دی تھی اور اپنے باصلاحیت فرزند ٹیپو سلطان کو بھی اس عظیم مقصد کے لیے تیار کرتے رہے۔ ٹیپو سلطان کو اپنی غیر " معمولی شجاعت کا مظاہرہ کرنے کا موقع کمسنی ہی میں مل گیا۔ ان کے والد حیدر علی نے 1180ھ / 1766ء میں مالا بار پر حملہ کیا تو انہوں نے نوجوان ٹیپو کو بھی اس مہم میں ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ اس وقت ٹیپو کی عمر صرف 15 برس تھی۔ حیدر علی نے بڈنور کے جنوب میں کوہستانی علاقے بالم پر حملہ کیا۔وہاں کے حاکم کو شکست ہوئی لیکن اس نے اطاعت قبول کرنے سے انکارکر دیا اور گھنے جنگل میں پناہ لے لی۔ اس موقع پر ٹیپو صرف ہزار سپاہی لے کر گھنے اور تاریک جنگل میں بے دھڑک داخل ہو گئے اور بالم کے حاکم اور اس کے ساتھیوں کو جالیا۔ یہ لوگ “پالیگار" کہلاتے تھے۔ پالیگاروں نے مجبوراً اطاعت کا یقین دلایا۔ ان کی دیکھا دیکھی مالا بار کے دیگر جاگیر داروں نے بھی حیدر علی کو اپنا فرمانروا تسلیم کر لیا۔ حیدر علی اپنے بہادر فرزند کی اس کار کردگی سے اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نےنوجوان ٹیپو کو دو سو سواروں کا کماندار مقرر کر دیا۔ انگریز حیدر علی کی بڑھتی ہوئی طاقت سے سخت خائف تھے۔انہوں نے مرہٹوں اور نظام حیدر آباد دکن کو ساتھ ملا کر سلطنت میسور پر چڑھائی کر دی۔

"پہلی اینگلو میسور جنگ"

 پہلی اینگلو میسور جنگ کا آغاز 1181ھ / بمطابق 1767ء میں ہوا۔ حیدر علی مرہٹوں کو اس اتحاد ثلاثہ سے الگ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ پھر انہوں نے محرم 1181ھ / بمطابق جون1767ء میں ٹیپوسلطان کو نظام

حیدر آباد دکن کے پاس تحائف دے کر بھیجا۔ ٹیپو سلطان نے اتنے سلیقے سے گفتگو کی کہ نظام، حیدر علی کے ساتھ مل کر انگریزوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ ٹیپو کو مدراس کی طرف پیش قدمی کا حکم ملا۔ وہ مدراس پہنچ کر مخالفوں کی سرکوبی کر رہے تھے کہ انہیں ان کے والد نے واپس بلا لیا۔ جب انگریزوں نے بندر کوڑیال (بینگلور) پر قبضہ کر لیا تو ٹیپو کو ان کا راستہ روکنے کے لیے بھیجا گیا۔ پھر حیدر علی بھی پہنچ گئے۔ دونوں بہادر باپ بیٹے نے مل کر پوری قوت سے حملہ کیا۔ ٹیپو کے حملوں میں ایسی شدت تھی کہ انگریز تو پیں یں چھوڑ کر بھاگے اور قلعے میں محصور ہو گئے۔ ٹیپو ان کا تعاقب کرتے ہوئے قلعے میں جاپہنچے۔ انگریز قلعہ چھوڑ کر ساحل کی طرف بھاگے اور راستے میں ٹیپو کی فوج کےہاتھوں یا تو مارے گئے یا قیدی بنا لیے گئے۔ 

انگریزوں سے لڑائی ختم ہوئی تو مرہٹوں نے رجب 1183

ھ / بمطابق نومبر 1769ء میں میسور پر حملہ کردیا۔ حیدر علی نے ٹیپو سلطان کو حکم دیا کہ دشمن کو زچ کر دیا جائے چنانچہ ٹیپو سلطان نے مرہٹوں کے رسد کے راستے بند کر دیے، دشمن کو نہ پانی مل سکا نہ گھوڑوں کے لیے چارہ۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، لیکن شوال1183ھ / بمطابق فروری 1770ء میں حیدر علی نے مرہٹوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے ٹیپو کو واپس بلا لیا۔ مرہٹوں نے جنگ شروع کر دی۔ حیدر علی ملکوٹہ میں تھے، وہ سرنگا پٹم پہنچ گئے لیکن افراتفری میں ٹیپو ان سے الگ ہو گئے ۔ حیدر علی سرنگا پٹم میں سخت بے چین تھے کہ ٹیپو کی کوئی خبر نہیں مل رہی تھی۔ لیکن آخر کار ٹیپو ایک مفلس سبزی فروش کے بھیس میں سرنگا پٹم پہنچ گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیپو موقع کی مناسبت سے کس قدر درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔مرہٹوں نے تقریباً 33 دن تک سرنگا پٹم کا محاصرہ کیے رکھا، آخر مرہٹے رسد کی کمی کی وجہ سے محاصرہ اٹھانے پر مجبور ہوگئے۔

 شعبان1182ھ / بمطابق نومبر1772ء میں مرہٹوں کے پیشوا مادھوراؤ کی وفات کے بعد حیدر علی نے ٹیپو کو مرہٹوں سے مقابلے کے لیے پھر بھیجا۔ ٹیپونے مرہٹوں سے سیرا، مداگری، گوام کو نڈا، چھنا را ہادر گا، ہو 

سکوٹ، بلاری کے علاقے چھین لیے۔

انگریزوں سے دوسری لڑائی 1194ھ / بمطابق 1780ء میں ہوئی جو دوسری اینگلو میسور جنگ کہلاتی ہے۔اس جنگ میں حیدر علی90 ہزار سپاہیوں کے ساتھ کرناٹک پہنچ  گئے۔ ٹیپو سلطان بھی انکے  ساتھ تھے۔ انگریز سپہ سالار ہیکٹر منرو کا نجی پہنچ کرکرنیل بیلی کی فوج کا انتظار کرنے لگا۔ حیدر علی نے ٹیپو کو دس ہزار سپاہی دے کر کر نیل بیلی کی فوج پر حملے کے لیے بھیج دیا۔ ٹیپوسلطان نےکانجی ورم سے پندرہ میل پہلے ہی کر نیل بیلی کی فوج پر حملہ کر دیا۔ کانجی ورم سے نومیل دور دن رات میں اس قدر شدید گولہ باری کی گئی،کہ کر نیل بیلی نے ہتھیار ڈال دیے۔ چار ہزار یورپی سپاہیوں میں سے صرف 200 سپاہی زندہ بچے جنہیں قیدی بنا لیا گیا۔ انگریزوں نے اعتراف کیا کہ اس وقت تک انگریزوں پر ہندوستان میں لگنے والی یہ شدید ترین ضرب تھی۔ ٹیپو سلطان نے انگریز قیدیوں سے بڑا نرم سلوک کیا۔ ہر قیدی کو کپڑے اور رقم دی، پھر انہیں سرنگا پٹم بھیج دیا۔ انگریز سپہ سالار ہیکٹر منرو نے مایوس ہو کر مدراس واپسی کا فیصلہ کیا۔ بھاری تو پیں اور گولہ بارود واپس لے جانا مشکل تھا چنانچہ انگریز یہ سامان ایک بڑے تالاب میں پھینک گئے۔

"دوسری اینگلو میسور جنگ جس میں ٹیپو سلطان نے انگریزوں کی طاقت کو کچل ڈالا تھا"

اس کے بعد ٹیپو نے ارکاٹ ، ست گڑھ، تیاگ گڑھ کے علاقے فتح کیے۔ دریں اثناء میں مغربی محاذ پر مالا بار میں انگریزفوج کی کامیابیوں کی خبریں ملنے لگیں۔ ٹیپو کو اس محاذ پر بھیج دیا گیا۔ ٹیپو نے انگریزوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا، وہ انگریزوں پر دن بھر گولہ باری کرتے رہے، حتی کہ شام کو دریائے پونانی پر پہنچ گئے۔ انگریز دریا عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ٹیپو نے بھی دریا پار کیا اور شہر پونانی کی ناکہ بندی کر دی۔ اسی دوران میں ٹیپو کو اپنے والد حیدر علی کی وفات کی اندوہناک اطلاع ملی۔ 30 ذی الحجہ1196ھ /6 دسمبر 1782ء کو حیدر علی کا انتقال ہوا۔ ٹیپو سلطان اطلاع ملنے پر خاموشی کے ساتھ چکملور پہنچ گئے۔ جہاں حیدر علی کا لشکر تیارکھڑا تھا۔ ٹیپو سلطان نے خود ہدایت کی تھی کہ ان کا رسمی استقبال نہ کیا جائے۔ 20 محرم1197ھ / بمطابق26 دسمبر 1782ء کو ٹیپو سلطان کی تخت نشینی عمل میں آئی۔ اب وہ اس وسیع سلطنت کے حکمراں تھے ، جسے ان کے والد حیدر علی نے بڑے حوصلے اور جرات کے ساتھ حاصل کیا تھا۔

ٹیپو سلطان نے اقتدار سنبھالتے ہی حکم دیا کہ فوجیوں کی تنخواہیں اور واجبات فورا ادا کر دیے جائیں۔ انہیں اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ ابھی انہیں بہت سے حریفوں سے برسرِ پیکار ہونا ہے اور آئندہ تمام معرکوں میں کامیابی کے لیے انہیں مضبوط فوج درکار ہو گی۔ چنانچہ ٹیپو سلطان نے ایک فرانسیسی افسر کو خصوصی ذمے داری سونپی کہ وہ ان کی فوج کو جدید خطوط پر منظم کرے۔ ٹیپو سلطان نے ایک اور اہم فیصلہ یہ کیا کہ سامان خور و نوش اور دیگر اشیا کی قیمتیں از خود مقرر کرنے کا پرانا دستور منسوخ کر دیا، اس کے نتیجے میں فوج کو رسد کی فراہمی افراط کے ساتھ ہونے لگی۔

جب مشرقی محاذ پر انگریزوں نے پیش قدمی کی تو ٹیپو خود فوج لے کر روانہ ہوئے اور زبر دست حملہ کر کے دشمن کو ونڈی واش اور کر نگولی سے پسپائی پر مجبور کر دیا۔ انگریزوں نے تیاری کر کے بڈنورکے قلعے پر قبضہ کر لیا۔ شعبان 1197ھ / بمطابق جولائی 1783ء میں ٹیپو ایک بڑی فوج کے ساتھ آندھی اور طوفان کی مانند بڈنور کی سرحد پر جا پہنچے۔ انہوں نے حیدر گڑھ اور کیول درگ پر قبضہ کر لیا۔ پھر بڈ نور شہر پر تسلط قائم کر کے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ تیرہ مقامات پر تو پیں نصب کر دیں اور گولہ باری شروع کر دی۔ چند ہی دنوں میں انگریز فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ انگریزوں نے ایک معاہدہ کر کے قلعہ چھوڑنا چاہا لیکن خود ہی اس معاہدے کی خلاف ورزی کی جس پر ٹیپو کی فوج نے دشمن کو گھیر کر مارنا شروع کیا۔ آخر انگریز فوج معافی کی خواستگار ہوئی۔ لیکن انگریزوں نے چالا کی یہ دکھائی کہ قلعہ میں جتنا خزانہ تھا اسے بھیڑ، بکریوں، مرغوں، کتوں تک کے جسموں میں چھپا کر لے جانے کی کوشش کی۔ ٹیپو کو یہ اطلاعات مل گئیں۔ انہوں نے تلاشی لینے کا حکم دیا اور تقریباً چالیس ہزار چگوڑے (سونے کے سکے) صرف افسروں ہی کے پاس سے برآمد کر لیے گئے۔ انگریزوں نے معاہدے کی پھر خلاف ورزی کی اور عوامی ذخائر لوٹ لیے، سرکاری دستاویزات جلائیں اور میسور کے جنگی قیدیوں کو آزاد نہ کیا چنانچہ ٹیپو نے انہیں ہتھکڑیاں لگوا کر چیتل درگ بھیج دیا۔ بڈنور سے ٹیپو سلطان بنگلور پہنچے۔ وہاں انگریزوں نے خود کو قلعے میں محصور کر لیا۔ قریب تھا کہ یہ قلعہ بھی فتح ہو جاتا، انگریزوں اور فرانسیسیوں میں جنگ بندی ہوگئی۔ چنانچہ فرانسیسی فوج ٹیپو کی مدد سے پیچھے ہٹ گئی۔ 18 ربیع الثانی 1198ھ /بمطابق1 مارچ 1784ء کو ٹیپو سلطان اور انگریزوں کے مابین صلح کا معاہدہ ہوا۔ ایک ذمہ دار انگریز افسر لارڈ میکارٹی نے خود اعتراف کیا کہ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو ہم اپنے مصارف کے بوجھ تلے ڈوب جاتے۔ معاہدے کے مطابق فریقین نے مفتوحہ علاقے واپس کر دیے۔

ادھر انگریزوں سے جنگ ختم ہوئی ادھر مرہٹوں کے مذہبی پیشوا نانا فرنویس نے میسور پر حملے کے لیے نظام حیدر آباد دکن کو ترغیب دینا شروع کر دی۔ ٹیپو سلطان نے نانا فرنویس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمیں تو مل کر انگریز کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن وہ نہ مانے۔ ادھر نظام حیدر آباد نے مرہٹوں سے اتفاق کر لیا کہ حیدر علی نے جتنے علاقے پر قبضہ کیا تھا، وہ واپس لے لیا جائے۔ ٹیپو نے ان دونوں رہنماؤں کو بہت کچھ سمجھایا لیکن انہوں نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا۔ مجبور ہو کر ٹیپو کو بھی فوج لے کر مقابلے کے لیے نکلنا پڑا۔ چند معرکوں کے بعد آخر کار جمادی الاول1201ھ / بمطابق فروری 1787ء میں صلح نامے پر دستخط ہو گئے جس کی رو سے ٹیپو سلطان اپنے بعض علاقوں سے دستبردار ہو گئے اور کچھ نئےعلاقے انہیں مل گئے۔

ٹیپو سلطان نے اس زمانے میں خطبے میں مغل بادشاہ کی جگہ اپنا نام شامل کیا اور نیا روپیه جاری کیا جسے "امامی" کہتے تھے۔ سنہ ہجری کی جگہ سنہ محمدی اس زمانے میں رائج کیا۔ یہ سنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت کے سال سے شروع ہوتا تھا۔ ٹیپو کے حکم پر ہر شہر، قصبے اور قلعے سے ایک ایک فرسنگ (تین تین میل) کے فاصلے پر خاردار تاروں کا انتظام کر دیا گیا۔

ٹیپو سلطان نے 1198ھ / بمطابق 1784ء میں عثمانی خلیفہ سے اپنی حکمرانی کی توثیق حاصل کی اور قسطنطنیہ میں اپنا سفارت خانہ قائم کیا۔ اس غرض سے ٹیپو سلطان نے جو سفارتی وفد قسطنطنیہ روانہ کیا اس کے ارکان کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارتی اشیاء بھی تھیں۔ جن میں کپڑا، صندل کی مصنوعات، مسالے، سونے چاندی کے میسوری سکے، ملبوسات، جواہرات اور ہاتھی شامل تھے۔ گویا اس سفر سے ہر ممکن مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ سفر آنے راستے میں کچھ سامان فروخت کیا۔

وفد کے ارکان کو ٹیپو نے ہدایت کی تھی کہ خلیج فارس سے گزرتے ہوئے ہو شہر میں اتریں اور شاہ فارس سے تجارتی مراعات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے علاوہ وہ جن مقامات سے گزریں وہاں کے جغرافیائی، سماجی اور معاشی حالات کا مطالعہ کریں اور اپنے تجربات کو قلم بند کرتے رہیں۔ ٹیپو نے یہ ہدایت بھی کی کہ عثمانی حکومت سے ترکی مقبوضات میں کارخانوں کے قیام کا معاہدہ کرنے کی کوشش کریں اورعثمانی حکومت سے معاہدہ کریں کہ عثمانی حکومت ٹیپو کی مدد کے لیے فوج بھیجے۔ ایسے صنعت کار بھی بھیجیں جو بندوقیں اور تو پیں ڈھال سکیں، شیشے اور چینی کے برتن بنا سکیں۔ ان کے بدلے ٹیپو اپنے ایسے کاریگر بھیجیں گے جن کی عثمانی خلیفہ کو ضرورت ہوگی، تاہم وفد ٹیپو کی حکومت کے لیے یہی اسناد حاصل کر سکا کہ عثمانی حکومت نے ٹیپو کو خود مختار بادشاہ تسلیم کیا اور انہیں اپنے سکے جاری کرنے اور اپنے نام کا خطبہ پڑھوانے کا حق حاصل ہو گیا۔

"ٹیپو سلطان کا وفد عثمانی دربار میں"

ادھر انگریز بڑی شدت سے محسوس کر رہے تھے کہ بر صغیر میں ان کی توسیع پسندی کی راہ میں اگر کوئی موثر قوت حائل ہے تو وہ ٹیپو سلطان کی میسوری ریاست ہے۔ چنانچہ انگریزوں نے مرہٹوں اور نظام حیدر آباد دکن کے ساتھ مل کر ٹیپو کے خلاف اتحاد قائم کر لیا۔ فریقین کے درمیان لڑائی کے تین دور ہوئے، آخر جمادی الثانی 1206 ھ / بمطابق فروری 1792ء میں سرنگا پٹم کا محاصرہ کر لیا گیا اور صلح نامے پر دستخط ہو گئے۔ اس صلح نامے کی رُو سے ٹیپو سلطان کو اپنی نصف مملکت سے دستبردار ہونا پڑا۔ یوں جنگوں کے اس سلسلے کا اختتام ہوا جس کا آغاز رمضان المبارک 1204 ھ / بمطابق 24 مئی 1790ء کو ہوا تھا۔ ٹیپو سلطان کو تین کروڑ ۳۰ لاکھ روپے کا تاوان ادا کرنا تھا۔ مخالفین کے قیدی رہا کرنے پڑے۔ معاہدے کی ضمانت کے طور پر ٹیپو کے دو کمسن بیٹوں عبد الخالق اور معز الدین کو یر غمال بنایا گیا۔ جب دونوں شہزادے پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ انگریز سالار کار نوالس کے کیمپ میں پہنچے تو انہیں ۲۱ توپوں کی سلامی دی گئی اور کار نوالس نے انہیں گلے لگا لیا۔

"تیسری اینگلو میسور جنگ کے بعد ٹیپو سلطان کے بیٹوں کو بطورِ یرغمال انگریزوں کے حوالے کیا جا رہا ہے"

ٹیپو سلطان کی شکست ان کی ریاست پر انگریزوں، مرہٹوں اور نظام کے اتحاد کی بڑی کاری ضرب تھی، تاہم ٹیپو نے معاہدے کی شرائط کی پوری پابندی کی اور مطلوبہ رقم مقررہ وقت پر اتحادیوں کو ادا کر دی۔ اس کے باوجود شہزادے واپس نہیں آئے بلکہ انھیں کلکتہ بھیج دیا گیا۔ ٹیپو سلطان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید بقیہ نصف مملکت بھی جلدہی گنوا بیٹھتا، لیکن ٹیپو ایک نئے عزم کے ساتھ اپنے نقصانات کی تلافی میں مصروف ہو گئے۔ یہ ان کی غیر معمولی خداداد ذہانت، لیاقت، تدبر اور حُسنِ انتظام کی صلاحیت تھی کہ صرف چھ سال کے عرصے میں ٹیپو سلطان نے اپنی مملکت کو پھر سے خوشحال بنا دیا۔ اس غرض سے انہوں نے زراعت کو خصوصی ترقی دی۔ جنگی محاذ پر انہوں نے تمام قلعوں کی مرمت کروائی، فوج کی تنظیم نو کی۔ اس کے علاوہ اس عرصے میں ٹیپوسلطان نے اسلامی مملکت کو متحد کرنے کی غرض سے زمان شاہ والی کابل سلطان روم، شاہ ایران اور خود بر صغیر کے تمام حکمرانوں کے پاس سفیراور خطوط ارسال کیے۔

لارڈ ویلز لی 1212ھ / بمطابق 1797ء میں گورنر جنرل مقرر ہو کر بر صغیر آئے۔ انہیں ٹیپو سلطان کے اس قدر کم مدت میں سنبھالا لینے پر شدید تشویش تھی۔ ادھر انگریزوں کو یہ بھی فکر تھی کہ فرانسیسی سالار نپولین بونا پارٹ مصر فتح کر چکے تھے اور اصل بات جس نے انگریزوں کو ٹیپو سلطان کی طرف سے سخت پریشان اور خوفزدہ کر دیا تھا وہ یہ تھی کہ نپولین بونا پارٹ نے ٹیپو سلطان کے نام چند خطوط لکھے تھے، بد قسمتی سے یہ خطوط ٹیپو تک پہنچنے کی بجائے انگریزوں کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ ان میں سے ایک خط نپولین نے 19 شعبان 1213ھ / بمطابق 26 جنوری1799ء کوقاہرہ سے ٹیپو سلطان کے نام بھیجا تھا۔ اس خط میں نپولین نے لکھا: 

"بنام جلیل القدر سلطان ہمارے عزیز ترین دوست ٹیپو صاحب ایک لا تعداد اور ناقابل شکست فوج کے ساتھ آپ کو انگلستان کے آہنی پنجے سے نجات دلانے کی خواہش کے ساتھ بحیرہ احمر کے کنارے آیا ہوں۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کا سیاسی موقف کیا ہے ؟ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے کسی قابل اعتبار آدمی کو سویز جلد روانہ کر دیں جس سے میں گفتگو کر سکوں۔“

لارڈ ویلزلی نے آتے ہی جنگی تیاریاں شروع کر دیں۔ ساتھ ساتھ وہ مرہٹوں اور نظام سے اتحاد قائم کرنے کی کوششیں بھی کرتے رہے۔ دوسری جانب انہوں نے ٹیپو سلطان کو بے دست و پا کرنے اور انہیں ہر قسم کی امداد سے محروم کرنے کی کوششوں کا بھی آغاز کر دیا۔ داخلی طور پر بھی سازشوں کا ایک جال بچھایا گیا۔ عوام کو یہ باور کروا دیا گیا کہ انگریز اسلامی رسوم کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اس غرض سے ان غیر ضروری رسوم کا انگریزوں نے بڑا احترام کیا جنہیں غیر اسلامی قرار دے کر ٹیپو سلطان نے ممنوع قرار دے دیا تھا۔ دوسری طرف سب سے زیادہ افسوس ناک اور سنگین بات یہ ہوئی کہ انگریزوں کی ترغیب کے نتیجے میں کچھ مسلمان امرا اور ایک ہندو افسر در پر وہ بغاوت پر آمادہ ہو گئے۔ ان باغیوں میں سر فہرست میر صادق تھا۔ جو مجلس (پارلیمنٹ جسے ”جماعت خاص کہتے تھے) کا صدر اعظم تھا۔ دیگر باغیوں میں میر غلام علی، میر قمر الدین، میر قاسم علی، بدر الزماں اور ہندو وزیر مالیات و دیوان، پورنیاشامل تھے۔

لارڈ ویلزلی نے ٹیپو سے مذاکرات شروع کر دیے کہ وہ نیا معاہدہ کریں جس کی شرائط نہایت توہین آمیز تھیں۔ آخر لارڈ ولزلی نے 28 شعبان1213 هـ / بمطابق3 فروری 1799ء کو جنرل ہیرس کو حکم دیا کہ وہ ٹیپو سے مذاکرات مختم کر کے میسور پر حملہ کر دیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ٹیپو سلطان فرانسیسیوں سے مل کر برصغیر میں انگریزوں کو تباہ کر دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کے لیے ٹیپو کو صرف 24 گھنٹے کا وقت دیا اور جواب کا انتظار کیے بغیر اعلانِ جنگ کر دیا۔ اس سے قبل وہ ٹیپو سلطان سے دوستانہ ماحول میں بات چیت کرتے رہے تھے، جو در حقیقت ان کی ایک چال تھی۔ وہ گزشتہ کئی ماہ سے جنگی تیاریوں میں مصروف تھے۔

جنرل ہیرس کی قیادت میں21 ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک فوج نے 9 رمضان المبارک1213 / بمطابق14 فروری سنہ 1799ء کو میسور کی طرف کوچ کیا ۔28 رمضان /5 مارچ کو جنرل ہیرس میسور میں داخل ہوئے ۔ اور 7شوال /14 مارچ کو بنگلور پر قبضہ جمالیا۔ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کی اس پیش قدمی کے پیش نظر مقابلے کی تیاری شروع کر دی تھی۔ وہ پورنیا نہ اور سید غفار کی قیادت میں کچھ فوج چھوڑ کر مشرق کی سمت بڑھے۔ انگریزوں کی فوج میں جانوروں کی کثرت تھی۔ جنرل ہیرس کی فوج میں60 ہزار بیل تھے اور نظام کی فوج میں 36 ہزار۔ نجی افراد کے بیلوں، اونٹوں اور ہاتھیوں کی تعداد اس کے علاوہ تھی۔ نتیجہ یہ کہ چارے کی کمی کی وجہ سے بیل مرنے لگے ۔ ٹیپو سلطان کی فوج دشمن کی اس کمزوری سے سے فائدہ اٹھا سکتی تھی لیکن چونکہ اس کے اعلیٰ افسر انگریزوں سے جاملے تھے۔ اس لیے انہوں نے انگریزوں سے کوئی تعرض نہ کیا۔

جزل ہیرس نے18 ذی قعدہ 1213ھ / بمطابق22 اپریل 1799ء کو دوسرا مسودہ مصالحت ٹیپو سلطان کے حوالے کیا۔ اس کی شرائط پہلے سے بھی زیادہ سخت تھیں۔ یعنی کہ یہ نصف سلطنت سے دستبردار ہو جاؤ، دو کروڑ روپے تاوان دیا جائے، چار بیٹے اور چار جرنیل بطور یرغمال دیے جائیں۔ ٹیپو نے ان شرائط کو مسترد کر دیا۔ 23 ذی قعدہ 1213 ھ/ 28 اپریل 1799ء کو سرنگا پٹم کے باہر

تو پیں نصب کر دی گئیں اور گولہ باری شروع کر دی گئی۔ 3 مئی کو قلعے کی فصیل میں چھوٹا شگاف پڑ گیا۔ جنرل ہیرس نے فوراً حملے کا فیصلہ کیا کیونکہ رسد کی کمی کی وجہ سے ان کی فوج فاقے کر رہی تھی اور وہ مزید انتظارنہیں کر سکتے تھے۔ ایسے موقع پر غدارانِ ملت انگریزوں کے کام آئے۔ میر صادق نے صلاح دی کہ 4 مئی کو دو پہر کے وقت حملہ کیا جائے۔ میر صادق نے تنخواہیں دینے کے بہانے ان سپاہیوں کو واپس بلا لیا جو قلعے کی فصیل کے شگاف کی حفاظت پر متعین تھے، چنانچہ انگریز فوج بلا تکلف اور بلا مزاحمت شگاف کے راستے قلعے میں داخل ہو گئی۔ البتہ ایک اور سمت سے حملہ کرنے والی انگریز فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیپو سلطان دفاعی انتظامات میں بری طرح مصروف تھے۔ 29 ذی قعدہ1213ھ /بمطابق مئی 1799ء کو دو پہر کا کھانا ان کے سامنے لایا گیا۔ انہوں نے لقمہ اٹھایا ہی تھا کہ انہیں اپنے نہایت وفادار افسر سید غفار کی شہادت کی اطلاع ملی۔ وہ کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا:

 "ہم بھی عنقریب جانے والے ہیں۔“

 ٹیپو سلطان پیادہ دوڑے اور اپنی منتشر فوج کو مجتمع کرنے کی سر توڑ کوشش کی، لیکن جب سپاہی اپنی قوت کھو بیٹھے تو ٹیپو سلطان گھوڑے پر سوار ہوئے اور ڈڈی دروازے ( پانی کے دروازے) کی طرف بڑھے۔ اسے میر صادق نے بند کر وا دیا تھا، تا کہ ٹیپو سلطان باہر نہ جاسکیں۔ میرے صادق کہتے ہوئے  ہوئے نکلا کہ "

میں کمک لاتا ہوں لیکن سلطان کے وفادار ساتھی میر صادق کی غداری کو بھانپ چکے تھے، انہوں نے تلواروں کے وار کر کے اس قابل نفرین شخص کو اسی وقت موت کے گھاٹ اتار ڈالا"۔

ٹیپو سلطان اس دروازے کی طرف بڑھے جہاں سے قلعے کے اندرونی حصے کو راستہ جاتا تھا۔ اس دروازے سے گزرنے کی کوشش میں وہ تین بار زخمی ہوئے۔ ان کے گھوڑے نے بھی زخمی ہو کر دم توڑ دیا۔ ٹیپو اب بھی مردانہ وار لڑ رہے تھے۔ اتنے میں چند انگریز سپاہی ادھر کو آئے۔ ایک نے ٹیپو کی تلوار کی قیمتی پٹی چھینے کی کوشش کی۔ زخمی سلطان نے تلوار کا وار کیا۔ ایک انگریز زخمی ہوا۔ انگریز سپاہیوں نے گولی چلادی۔ سلطان ایک تنگ جگہ میں لڑتے رہے۔ تین افراد کو ہلاک کیا۔ اس اثنا میں ان کی کنپٹی پر گولی لگی اور یہ عظیم مردِمومن مقامِ شہادت پر فائز ہو گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ٹیپو کے چہرے پر غیر معمولی طمانیت تھی اور کسی قسم کے جذباتی ہیجان یا غضب کا تاثر نہ تھا۔

 

"چوتھی اینگلو میسور جنگ جس میں ٹیپو سلطان کی شہادت ہوئی"

دوسرے دن سہ پہر کو محل سے اس دلیر و جانباز جرنیل کا جنازہ اٹھایا گیا۔ چار یورپین کمپنیاں ساتھ ساتھ تھیں۔ جنازے کا جلوس جس راستے سے گزرتا وہاں دونوں جانب کھڑے شہریوں کا جم غفیر دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ لال باغ کے مقبرے میں ٹیپو سلطان کو ان کے والدحیدر علی کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ٹیپو سلطان ایک ہمہ جہت وہمہ صفت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ سلطنت کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ فوج کے سربراہ اعلیٰ بھی تھے۔ دیگر ممالک کے حکمرانوں سے اہم مراسلت وہ خود کرتے تھے۔ گویا وہ وزیر خارجہ بھی تھے۔ منصف اعلیٰ بھی وہی تھے۔ اہم معاملات میں وہ فوجی اور غیر فوجی افسروں سے مشورہ بھی لیتے تھے لیکن جب فیصلہ ہو جاتا تو سختی سے اس پر عملدرآمد کرواتے۔ ان کی اسی سخت پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب کبھی ان کا کوئی فرمان جاری ہو تا تو تمام ضلعی افسران (عالمین) اس فرمان کی روح کو سمجھتے ہوئے اس پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

"وہ مقام جہاں ٹیپو سلطان شہید ہوئے تھے"

ٹیپو سلطان روزانہ علی الصباح بیدار ہو جاتے تھےغسل اور نماز فجر کے بعد ایک گھنٹے تک قرآن پاک کی تلاوت لازماً کیا کرتے تھے۔ٹیپو سلطان ہر وقت باوضو رہتے تھے۔ حیادار اس قدر تھے کہ عمر بھر میں کسی نے ان کے پاؤں اور ہاتھوں کے سوا کوئی حصہ جسم برہنہ نہ دیکھا۔ ان کا لباس سادہ ہوتا تھا۔ اپنی دستار پر ایک سفید رومال رکھ کر ٹھوڑی کے نیچے باندھ لیتے تھے۔ آخری دور میں سبز شملے والی دستار باندھنے لگے تھے۔

کمر کی پیٹی میں ایک پیش قبض (خنجر) اور تلوار رہتی تھی۔ ٹیپو سلطان نہایت منکسر المزاج تھے۔ اتنی بڑی سلطنت کے حکمراں ہونے کے باوجود وہ اس بات کو پسند نہ کرتے تھے کہ کوئی ان کے احترام کے لیے کھڑا ہو جائے یا جھک کر سلام کرے۔ حتیٰ کہ وہ مسجد اعلیٰ میں پانچوں وقت نماز ادا کرنے کے لیے بھی اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ ان کی وجہ سے کسی کی عبادات میں خلل واقع نہ ہو یا لوگ ان کی تکریم کا اہتمام شروع نہ کر دیں۔

ٹیپو سلطان کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی رعایا کو ایک مکمل آئین دیا جو آئین سلطانی“ کہلایا۔ اس آئین میں مملکت میں نفاذ کے لیے تمام قوانین کی تفصیل موجود ہے۔ صرف عدلیہ کے قوانین اس میں شامل نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ا انصاف کی فراہمی کے لیے ہر گاؤں میں پنجایتیں موجود تھیں۔ لوگ ان سے مطمئن تھے۔ دیہات میں پٹیل اور شہروں میں آصف، عامل اور فوجدار، پنچایتوں کے فیصلے کرتے تھے۔ اگر کوئی ان کے فیصلوں سے مطمئن نہ ہوتا تو ہر شہر میں قاضی اور پنڈت موجود تھے۔ مسلمان اور ہندو ان سے رجوع کر سکتے تھے اگر پھر بھی کوئی مطمئن نہ ہوتا تو سرنگا پٹم کی عدالت عالیہ میں اپیل کر سکتا تھا۔ آخری اور سب سے بڑی اپیل خود ٹیپو سلطان سے کی جا سکتی تھی۔

ٹیپو سلطان نے مسلم ممالک کے مابین اتحاد اور یک جہتی قائم کرنے کے لیے بھی کوششیں کیں۔ ان کی آرزو یہ تھی کہ دنیا بھر کے مسلمان متحد ہو جائیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترکی کے سلطان سلیم، ایران کے فرماں روا کریم خان زند، افغانستان کے بادشاہ زمان شاہ کو خطوط ارسال کیے تھے۔ خود بر صغیر پاک وہندکی ہر ریاست میں خواہ وہاں مسلمان حکمراں ہوں یا ہندو، ٹیپو سلطان نے اپنے سفیر اور خطوط بھیجے اور برصغیر کے تمام باشندوں کے مابین اتحاد اور بھائی چارہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں کو برصغیر سے نکالنے کے لیے انہوں نے مرہٹوں، دہلی کے بادشاہ، راجپوت حکمرانوں حتیٰ کہ نیپال کے راجا تک کوخط لکھے۔

ٹیپو سلطان جدت فکر کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنے زیر انتظام ہر شعبے میں اصلاحات کیں اور نئی اصطلاحات کو متعارف کروایا۔ وہ انتہائی اعلیٰ درجے کے منتظم تھے ۔ ٹیپو سلطان اپنی مملکت میسور کو "سلطنت خداداد" یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی بخشی ہوئی سلطنت کہا کرتے تھے۔ یہ سلطنت تقریباً 80 ہزار مربع میل کے رقبے پر محیط تھی۔ یہ شمال میں دریائے "کرشنا" اور جنوب میں ریاست "ٹروا نکور" اور ضلع تناولی تک وسیع تھی۔

ٹیپو سلطان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی سلطنت میں زمینداری نظام کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس طرح معمولی کسانوں کو زمینداروں کے ظلم و ستم سے نجات مل گئی تھی۔ دور افتادہ زمینیں نرم شرائط پر کسانوں کو دے دی جاتی تھیں۔ آبیاری کے لیے جگہ جگہ تالاب بنوائے، غریب کاشتکاروں کو تقاوی پر رقم دی جاتی تھی۔ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی نے بحری فوج تیار کرنے کی دو ہار کوشش کی تھی۔ ایک بار تو ان کے بحری کمانڈر اسٹین نٹ، انگریزوں سے جاملے اور دوسری بار جب انہوں نے یورپی ماہرین کی مدد سے بحری بیڑا تیار کیا تو فرانسیسی ایڈ مرل نے اسے انگریزوں کے سپرد کر دیا۔ٹیپو سلطان نے ابتدا میں اپنی بحریہ کو مضبوط بنانے پر توجہ نہ دی،اس وجہ سے انہیں تیسری اینگلو میسور جنگ میں خاصا نقصان اٹھانا پڑا۔

ٹیپو سلطان نہایت صحیح اور جرات مند رہنما تھے۔ ان کی شجاعت وبسالت کے کارنامے تو ان کے بچپن ہی سے مشہور ہیں۔ آپ گھوڑے بہت پسند کرتے تھے۔ پالکی اور اس قسم کی سواریاں سخت ناپسند تھیں۔ شیر کا شکار ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ ان کی نوجوانی کے دور کا ایک واقعہ تاریخ کی کتب میں مذکور ہے کہ ایک بار وہ ایک فرانسیسی افسر کے ساتھ شیر کے شکار کے لیے جنگل میں گئے۔ جب شیر نمودار ہوا تو فرانسیسی افسر نے بندوق تان لی۔ ٹیپو سلطان نے افسر سے بندوق چھین لی اور اپنی دو دھاری تلوار سونت کر شیر پر پل پڑے۔ ان کا حملہ اتنا برق رفتار تھا کہ شیر کو مدافعت کا موقع نہ مل سکا اور آن کی آن میں شیرکے چاروں پاؤں اس کے جسم سے کٹ کر الگ ہو چکے تھے۔ ٹیپو سلطان شیر کو بہت پسند کرتے تھے۔ انہیں شیر کا رنگ اتنامرغوب تھا کہ ان کے محل، ان کی تعمیر کردہ مسجد اور گنبد ، سب کا رنگ شیر کے رنگ سے ملتا جلتا رکھا گیا تھا۔ انہوں نے ایک خاص کپڑا رائج کیا تھا جو "بری کپڑا کہلاتا تھا۔ اس کپڑے کا رنگ شیر کے رنگ جیسا تھا،اور اس پر دھاریاں ہوتی تھیں۔ سلطان نے کئی شیر پال رکھے تھے۔

 ایک بار حیدر آباد دکن سے چند ماہر مصور سرنگا پٹم آئے اور ٹیپو سلطان کی تصویر بنانے کی اجازت چاہی۔ ٹیپو سلطان مصوروں کو دریادولت باغ لے گئے، وہاں چند شیر طلب کیے اور ان سے زور آزمائی کرنے لگے۔ مصور حیران تھے کہ سلطان جب سکون سے کسی جگہ بیٹھتے نہیں ہیں تو ان کی تصویر کس طرح بنائیں۔ یہ سلسلہ تین دن تک چلتا رہا۔

مقررہ وقت پر سلطان شیروں سے زور آزمائی کرتے اور مصوروں کو تصویر بنانے کے لیے بٹھا دیا جاتا۔ مصوروں نے ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی سے واقعہ عرض کیا۔ حیدر علی نے ٹیپو سلطان کو طلب کیا تو ٹیپو سلطان نے مصوروں سے بڑی خوبصورت بات کہی:

 "مرد کی عمدہ تصویر اس کی شجاعت اور جوانمردی ہے۔“

حیدر علی اس بات سے بڑے خوش ہوئے اور انہوں نےمصوروں سے کہا کہ جائیے یہ بات نظام الملک حیدر آباد کو سناد ییجیے۔ ٹیپو سلطان دوست اور خوش خلق حکمراں تھے۔ اپنے ماتحتوں سے ان کا سلوک بہت شفقت آگیں ہوتا تھا۔ انہیں خطوط لکھتے ہوئے محبت آمیز انداز اختیار کرتے تھے۔ ان کی صحت کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ ان میں سے کوئی بیمار پڑ جاتا تو اس کے لیے دوائیں بھی تجویز کرتے تھے۔ اپنی فوج کے سپاہیوں کا خیال رکھتے تھے۔ طویل سفر کے بعد انہیں آرام کا وقفہ دینے کی ہدایت کرتے تھے۔ زخمیوں کے علاج کا اہتمام کرتے تھے۔ جنگ میں جاں بحق ہو جانے والے سپاہیوں کے لواحقین کو وظائف جاری کرتے تھے۔ بعض وظائف نسل در نسل جاری رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیپو اپنی فوج میں بہت مقبول تھے اور ان کےاشارے پر سپاہی جان لڑانے کے لیے تیار رہتا تھا۔

ٹیپو اصول پسند اور محکم آمیز شخصیت کے مالک ہونے کے باوجود مزاجاً بہت رحم دل اور وسیع القلب تھے۔ انہوں نے بد عہدی کے یا مرتکب ہونے والے اپنے اہم افسران میر صادق، پور نیا اور قمر الدین خان تک کو اس وقت معاف کر دیا جب انہوں نے معافی مانگی۔ گو کہ یہی معانی خود ٹیپو سلطان کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہوئی، تاہم مسلسل بغاوت یا غداری کرنے والوں کو ٹیپو سلطان نے معاف نہیں کیا اور سخت یا سزائیں دیں لیکن انہیں انسانوں کو قتل کرنے یا انہیں ایذائیں دینے کا کی کوئی شوق نہ تھا۔ ہم اس عظیم، دلیر ، ضیاء افروز، علم پرور اور عہد ساز شخصیت کے -- لیے اللہ رب العزت سے رحمت اور مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔

 

 

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

برطانوی راج کے خلاف اور وطن کی آزادی پر جاں نثار کرنے والے شیر دل حکمران کی داستان۔

برطانوی تسلط کےخلاف جہاد کرنے والے عظیم حکمران "ٹیپو سلطان"شہیدؒ۔ ٹیپو سلطان  نے عالم اسلام کو ہر ممکن متحد کرنے کی کوشش کی۔آپ کا اصل نام فتح علی ٹیپو سلطان ہے،آپ کے والد کا نام حیدر علی جبکہ والدہ کا…

مزید پڑھیں
سلجوقی سلطنت کے قیام اور زوال کی مکمل داستان

سلجوقی سلطنت کو عالم اسلام کی چند عظیم سلطنتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سلجوقی سلطنت کا قیام "گیارہویں" صدی عیسوی میں ہوا۔ سلجوق در اصل نسلاََ    اُغوز ترک تھے۔اس عظیم سلطنت کا قیام"طغرل بے"اور"چغری…

مزید پڑھیں
سپین میں مسلمانوں کا 800 سالہ دور حکومت

جزیرہ نما آیبیریا   جو کہ ہسپانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مغربی رومی سلطنت کے ختم ہو جانے کے بعدیہاں پر مکمل طور "گاتھک" خاندان کی حکومت قایم ہو گی۔لیکن انکی یہ حکومت زیادہ عرصہ…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں