حضرت محمدؐ کی پیدائیش سے لےکر شادی تک کی مکمل تاریخ۔
حضرت عبد اللہ کا عقد:۔
جب مکہ پر ابر ہہ نے چڑھائی کی تو اس وقت حضرت عبدالمطلب کی عمر تقریباً ستر سال تھی اور ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ کی عمر چوبیس برس تھی ۔ آپ نے اُن کی شادی کا ارادہ کیا اور اس کے لئے سید و حضرت آمنہ بنت وہب کا انتخاب فرمایا ۔ سیدہ حضرت آمنہ کا سلسلہ نسب بھی قبیلہ قریش ہی سے جاملتا ہے جو اس طرح ہے۔ :
"حضرت آمنہ بنت وهب بن زهره بن قصی بن کلاب حضرت عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب۔"
ایک مرتبہ حضرت عبد المطلب اپنے لخت جگر حضرت عبداللہ کو ساتھ لے کر بنوزہرہ کے ہاں تشریف لے گئے اور وہب سے ان کی صاحبزادی حضرت آمنہ کا رشتہ حضرت عبد اللہ کیلئے طلب فرمایا۔
بعض مورخین کے نزدیک اس وقت وهب ، وفات پا چکے تھے اس لئے حضرت عبدالمطلب نےان کے بھائی وہیب یعنی حضرت آمنہ کے چچا سے درخواست کی جو حضرت آمنہ کے سر پرست تھے۔ نکاح کے بعد حضرت عبداللہ تین دن حضرت بی بی آمنہ کے گھر رہے ۔ دراصل عرب میں ایک رسم یہ تھی کہ شادی کے بعد دولہا پہلے تین دن سسرال میں گزارتا تھا۔ چوتھے دن حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ ، حضرت عبد المطلب کے گھر آگئے۔
جس دن حضرت عبداللہ کی شادی ہوئی اسی دن حضرت عبد المطلب نے بھی حضرت آمنہ کی پھوپھی حالہ ( ہمشیرہ وہب دو ہیب ) سے عقد فرمالیا، اور جس برس حضرت محمد صلی الہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی اس سال بی بی حالہ کے بطن سے بھی فرزند سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ پیدا ہوئے ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ
آنحضورصلی الله علیه وسلم کے چچا اور رضاعی بھائی بھی تھے۔
شادی کے جلد ہی بعد حضرت عبداللہ ایک تجارتی سفر پر شام کی طرف تشریف لے گئے ۔ اس وقت تک حضرت سیدہ آمنہ امید سے تھیں۔ حضرت عبداللہ بھی اس سفر میں یہ بشارت اپنے ساتھ لے گئے۔ مختلف روایات کے مطابق حضرت عبداللہ کی اور بیویاں بھی تھی مگر ان روایات میں صداقت نہیں ہے ۔ حضرت عبد الله خوش جمال اور با کردار نو جوان تھے اور بہت سی حسین وجمیل عورتیں ان سے شادی کی خواہش مند تھیں اور انہوں نے اس کا بر ملا اظہار بھی کیا تھا۔ مگر حضرت عبداللہ نے کسی کی ایسی دعوت قبول نہیں کی تھی اور جب انہوں نے حضرت آمنہ سے عقد فر مالیا تو ان عورتوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا، اور وہ ان سے مایوس ہو گئیں ۔ حضرت عبداللہ کی زندگی میں حضرت آمنہ سے پہلے اور ان کی موجودگی میں کوئی دوسری عورت داخل نہیں ہوئی۔
حضرت عبداللہ کا انتقال:۔
حضرت عبد اللہ نے کئی ماہ غزہ ( فلسطین) میں رہنے کے بعد واپسی کی راہ لی۔ راستے میں وہ بیمار ہو گئے اور اس بنا پر انہوں نے سوچا کہ انہیں کچھ دن یثرب میں رہ کر سفر کی تھکن دور کرنی چاہیے اور کچھ آرام بھی کرنا چاہیے۔ یہاں ان کا ننھیال تھا۔ ان کے ساتھی چند دن تک ان کی صحت یابی کا انتظار کرتے رہے اور اس کے بعد مکہ روانہ ہو گئے ۔ حضرت عبدالمطلب نے جب اپنے لخت جگر کی علالت کے بارے میں سنا تو سخت فکرمند ہوئے اور فوراً اپنے بڑے بیٹے حارث کو مدینہ بھیجا کہ وہ حضرت عبداللہ کی خبر گیری کریں اور ان کے صحت یاب ہوتے ہی ان کو لے کر مکہ آجائیں مگر جب حارث مدینہ پہنچے تو ان کو یہ روح فرسا خبر ملی کہ حضرت عبداللہ اپنے ساتھیوں کے مکہ کی جانب جانے کے ایک ماہ بعد انتقال فرما گئے تھے اور مدینہ میں ان کی تدفین بھی کر دی گئی تھی ۔ حارث مدینہ سے یہ اندوہناک خبر لے کر مکہ پہنچے تو ان کے ضعیف العمر والد اور حضرت
عبد اللہ کی زوجہ پر یہ خبر بجلی کی طرح گری۔ حضرت آمنہ ، حضرت عبداللہ کی راہوں میں آنکھیں بچھائے بیٹھی تھیں اس خبر نے ان کی تمام امیدوں اور انتظار کا خاتمہ کر دیا اور حضرت عبدالمطلب کے شانے اس غم کے بوجھ سے مزید جھک گئے ۔ انہوں نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ کی جان بچانے کے لئے سو اونٹوں کی قربانی دی تھی مگر آج کسی بھی فدیے سے وہ اپنے پیارے بیٹے کو واپس نہیں لا سکتے تھے ۔ حضرت عبداللہ انہیں کس قدر پیارے تھے اس کی مثال یہ ہے کہ عرب میں اس وقت تک ان کے سواکسی کے فدیہ میں ایک سواونٹوں کی قربانی نہیں کی گئی تھی۔
حضرت عبداللہ کا وراثت:۔
حضرت عبداللہ نے اپنے پیچھے پانچ اونٹ ، بھیڑ بکڑیوں کا ایک ریوڑ اور ایک کنیز"اُمِ ایمن" ہی انکاترکہ تھا۔ حضرت ام ایمن ہی نے نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی دیکھ بھال کا فریضہ سرانجام دیا۔ حضرت عبداللہ کے اتنے کم تر کے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ امیرآدمی نہیں تھے۔ مگر اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ وہ غریب تھے کیونکہ وہ نو جوان تھے اور ان کے سامنے ابھی زندگی کی منزلیں پڑی ہوئی تھیں اور جو کچھ ان کے پاس تھا ایک قناعت پسند گھرانے کے لئے کافی تھا۔ پھر ابھی اُن کے والد بھی حیات تھے جنہوں نے اپنی دولت کو تا حال اپنے بیٹوں میں تقسیم نہیں کیا تھا۔
نحضور صلی الله علیه وسلم کی ولادت مبارک:۔
جب حضرت آمنہ نے حضرت محمدصلی الله علیه وسلم کو جنم دیا اور آپصلی الله علیه وسلم کی ولادت مبارک سے حضرت عبد المطلب کو آگاہ کیا گیا تو انہیں اپنے پیارے بیٹے کی اولاد کی خبر سے بے حد مسرت ہوئی ۔ وہ بھاگے بھاگے گھر تشریف لائے اور ننھے مولود کو اپنے دونوں ہاتھوں پر اٹھا کر خانہ کعبہ میں لے گئے جہاں انہوں نے ان کا نام محمد رکھا۔ یہ نام اہلِ عرب کے لئے مانوس تو تھا مگر آج سے پہلے کسی نے یہ نام نہیں رکھا تھا۔ اس کے بعد وہ واپس گھر تشریف لائے اور ننھے محمد ( صلی الله علیه وسلم) کو ان کی والدہ ماجدہ کے سپرد کر کے بنی سعد کی دائیوں کا انتظار کرنے لگے۔ جو نو زائیدہ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال اپنے صحرائی گھروں میں کرتی تھیں۔
یہ عرب کے معزز اور نمایاں گھروں میں ایک رواج تھا۔ مؤرخین میں آنحضورصلی الله علیه وسلم کے سنہ ولادت کے بارے میں اختلاف ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا خیال ہے کہ آنحضرت صلی الله علیه وسلم کی پیدائش عام الفیل ، یعنی 570ء میں ہوئی ۔ سید نا عبد اللہ بن عباس کا کہنا ہے کہ آنحضور صلی الله علیه وسلم عام الفیل کے دن پیدا ہوئے تھے۔ تا ہم زیادہ تر اس بات پر متفق ہیں کہ حضورصلی الله علیه وسلم ربیع الاول کے مہینے میں پیدا ہوئے۔
رسم عقیقہ:۔
حضرت عبدالمطلب نے آن حضور صلی الله علیه وسلم کی ولادت کی خوشی میں ساتویں روز اونٹ ذبح کر کے اہلِ قریش کی دعوت فرمائی اور ان سب کو کھانا کھلایا ۔
نام کے بارے میں قریش کا استفسار:۔
اس دعوت کے موقع پر قریش نے آن حضور صلی الله علیه وسلم کا نام مبارک سن کر حضرت عبد المطلب سے
دریافت کیا۔ آپ نے محمدصلی الله علیه وسلم نام میں کیا خوبی دیکھی ہے جو اپنے مروجہ ناموں کو نظر انداز کر کےیہ نام منتخب فرمایا ہے۔
اس پر حضرت عبد المطلب نے فرمایا:
"میں نے یہ نام اس لئے رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں پر اور زمین پر انسان ان کی مدح سرائی کریں۔“
آنحضرتصلی الله علیه وسلم کی دایہ:۔
حضرت آمنہ اب ایسی دایہ کی منتظر تھیں جو ان کے لختِ جگر کو پرورش کے لئے اپنے ساتھ صحرائی ماحول میں لے جائے ۔عرب میں شیر خوار بچوں کو دایہ کے سپرد کرنے کا رواج تھا ، ولادت کے سات روز بعد بچہ دایہ کے حوالے کر دیا جاتا اور آٹھ سے لے کر دس سال کی عمر سے قبل بچہ والدین کے پاس نہیں لوٹتا تھا۔ دودھ پلانے والی خواتین "بدیہ نشین" قبائل سے تھیں۔ جو ہر سال مکہ معظمہ میں اس غرض سے آتی تھیں۔ کہ وہ امراء کے بچوں کو پالنے کے لئے حاصل کریں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور اور مقبول قبیلہ بنی سعد ( بنی ہوازن کی شاخ) کا تھا اس لئے حضرت آمنہ بھی قبیلہ بنی سعد کی کسی دائیہ کی راہ دیکھ رہی تھیں جنہیں بچوں کی پرورش کرنے میں خاصی مہارت حاصل تھی۔
سب سے پہلے آپ صلی الله علیه وسلم نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کا دودھ پیا اور اس دوران حضرت آمنہ نے آنحضور صلی الله علیه وسلم کو "ثوبیہ اسلمیہ" کی رضاعت میں دے دیا جو ابولہب کی کنیز تھیں ۔ انہوں نے ہی جناب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی دودھ پلایا تھا جو آنحضور صلی سلام کے چچا تھے، اس طرح حضرت حمزہ آنحضور صلی السلام کے رضائی بھائی بھی بن گئے۔ ثوبیہ اسلمیہ نے اگر چہ آنحضور صلی الله علیه وسلم کو چند ہی روز دودھ پلایا تھا۔ مگر آنحضور صلی صلی الله علیه وسلم کی محبت ان کے دل میں اتر گئی اور وہ جب تک زندہ رہیں۔ آنحضور صلی الله علیه وسلم کو دیکھنے کے لئے تشریف لاتی رہیں۔ آنحضور صلی الله علیه وسلم ان کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک سے پیش آتے ۔ ثوبیہ کا انتقال ہجرت کے ساتویں سال ہوا۔
حلیمہ سعدیہ:۔
بالآخر بنو سعد کی دایہ عورتیں شہر مکہ میں پہنچ گئیں۔ مگر وہ یتیم بچوں کو قبول کرنے سے کتراتی تھیں، ان کا خیال تھا کہ یتیم بچوں کی بیوہ مائیں انہیں پرورش کے اخراجات ادا نہیں کر سکتیں ۔ جن بچوں کے باپ امیر اور زندہ تھے انہوں نے ان میں سے ایک ایک بچہ لے لیا۔ کسی بھی دائی نے حضرت آمنہ کے جگر گوشے کی جانب توجہ نہ کی ۔ ان خواتین میں حلیمہ سعدیہ بنت ابو ذویب بھی تھیں جو پہلی مرتبہ آپ کو یتیم جان کرچھوڑ گئی تھیں۔
لیکن جب حلیمہ سعدیہ کو جو کمزور بھی تھیں اور کوئی شیر خوار بچہ نہ مل سکا اور اہل قافلہ نے صحرا کی طرف لوٹنے کے لئے سامان باندھ لیا تو انہوں نے اپنے شوہر حارث بن عبدالعزی ، جو اس سفر میں ان کے ہمراہ تھےسے کہا:
مکہ سے خالی ہاتھ لوٹ کر جانا میرے لئے باعث ندامت ہے جب کہ دوسری عورتوں نے بچے حاصل کر لئے ہیں۔ خدا کی قسم میں تو خالی ہاتھ نہیں جاؤں گی اور واپس جا کراس یتیم بچے کو قبول کرلوں گی ۔
حلیمہ سعدیہ کے شوہر نے کہا:
اس بچے کو لینے میں کوئی حرج نہیں اور اُمید ہے کہ خدا تمہارے اس عمل کو پسند فرما کرتمہیں نواز دے اور اس میں ہمارے لیے برکت پیدا فرمائے ۔“
حلیمہ سعدیہ واپس آئیں اور خیر و برکت کے اس خزانے اور حضرت آمنہ کے اس در یتیم لخت جگر کواپنے دامن میں بھر کر گھر کو لوٹ گئیں۔
ابتدائی برکات:۔
حلیمه سعد یہ فرماتی ہیں کہ جونہی انہوں نے آپ صلی الله علیه وسلم کو گود لیا۔ ان کے گھر میں برکتوں اور رحمتوں کا نزول شروع ہو گیا۔ گھر پہنچیں تو ان کی بکریاں زیادہ صحت مند ہو گئیں ان کی خوب افزائش ہوئی اور وہ تعداد میں بھی زیادہ ہوگئیں ۔ اور ان کے گھر میں خوشحالی آگئی۔
آپ صلی الله علیه وسلم نے زمانہ شیر خوارگی کے ابتدائی دو برس صحرائی آب و ہوا میں بسر کئے۔ حضرت بی بی حلیمہ سعدیہ انہیں اپنا دودھ پلاتیں اور ان کی صاحبزادی شیما انہیں اپنی گود میں کھلاتی رہتیں۔ اس کھلی اور فطری فضا میں آپ سمسا اللہ ہمصلی الله علیه وسلم نے پرورش پائی، تو اس سے آپ صلی الله علیه وسلم کی نشو و نما خوب ہوئی اور آپ صلی الله علیه وسلم کےاعضاء مبارک نہایت متناسب اور تنومند ہو گئے ۔ صحرائی آب و ہوا نے آپ صلی الله علیه وسلم کے حسن و جمال اوروجاہت کو بھی خوبصورت کر دیا۔
رضاعت کے دو برس پورے ہو جانے کے بعد حلیمہ سعدیہ آپ صلی الله علیه وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ کےپاس لے کر آئیں ۔ مگر حضرت سیدہ آمنہ نے اُن سے فرمایا کہ وہ انہیں پھر اپنے ہمراہ لے جائیں تا کہ آپ صلی الله علیه وسلم ذرا اور بڑے ہو جائیں اور شہر مکہ کی اس وبا سے بھی محفوظ رہ سکیں جو اُس وقت مکہ میں انسانی جانوں سے کھیل رہی تھی۔ اس طرح پورے چار سال آپ صلی الله علیه وسلم نے صحرا کے فطری ماحول میں گزارے ۔
شق صدر کا واقعہ:۔
یہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ، ایک روز آپ صلی الله علیه وسلم صحرا میں خیمے کے عقب میں اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ بکریوں کے ریوڑ کے پاس کھیل رہے تھے کہ آپ کا رضاعی بھائی دوڑتا ہوا اندر آیا اور اپنےوالدین سے کہا: "جلدی آئیں میرے قریشی بھائی کو دو سفید پوشاکوں والے اشخاص نے زمین پر لٹا کر ان کا سینہ چاک کر دیا ہے اور اب انہیں ادھر ادھر لٹا رہے ہیں ۔ حلیمہ سعدیہ اور ان کے شوہر یہ سنتے ہی تڑپ کر باہر آئے ۔
حلیمہ سعدیہ اس چشم دید واقعہ کے بارےمیں فرماتی ہیں:
"جب ہم وہاں پہنچے تو آپ صلی الله علیه وسلم کھڑے تھے اور چہرے پر خوف کے تاثرات تھے۔ پہلے میں نے اور پھر ان کے رضاعی باپ نے انہیں چھاتی سے لگا لیا اور دونوں نےبیک زبان پوچھا:
اے بیٹے ! کیا معاملہ ہے؟“
آپ صلی الله علیه وسلمسی ایم نے جواب دیا:
سفید پوشاک پہنے ہوئے دو اجنبی شخص آئے اور مجھے زمین پر لٹا کر میرا سینہ چیر دیا۔ وہ میرے سینے کے اندر کچھ تلاش کر رہے تھے مگر مجھے پتہ نہیں کہ کون سی شے تلاش کر رہے تھے ۔ “
اس پر حلیمہ سعدیہ اور ان کے شوہر دونوں آپ صلی الله علیه وسلم کو لے کر خیمے کے اندر آ گئیں ۔ حلیمہ سعدیہ کے شوہر نے عالم خوف میں کہا کہ شاید بچے پر کوئی آسیب ہے وہ خائف ہو کر آپ صلی الله علیه وسلم کو حضرت سیدہ آمنہ کے پاس مکہ میں لے آئے ۔ یہ روایت ابن اسحاق نے بیان کی ہے مگر وہ خود ہی اس کے بارے میں کہتے ہیں۔
آپ صلی الله علیه وسلم کا مکہ معظمہ میں لے جانا تو ثابت ہے لیکن شق صدر کی وجہ سے نہیں بلکہ حلیمہ سعدیہ نے حضرت آمنہ سے عرض کی ۔ اے بی بی! اب ہمارے لئے آپ کے صاحبزادے کو اپنے پاس رکھنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ایک روز حبشہ کے نصاری کا ایک قافلہ ہمارے خیموں کے پاس سے گزار تو انہوں نے آپ صلی الله علیه وسلم کو دیکھ کر اپنے اونٹوں کی مہاریں کھینچ لیں اور آپ صلی الله علیه وسلم کی طرف نہایت غور سے دیکھنے کے بعد مجھ سے کئی سوالات کئے اور آخر میں مجھ سے کہا ہمیں اس بچے کو اپنے ملک میں لے جانے کی اجازت دیجیے اس بچے کی ذات کے ساتھ ایک عظیم الشان ظہور وابستہ ہے جسے ہم اہل کتاب ہی سمجھتے ہیں ۔
آغوش فطرت میں:۔
آپ صلی الله علیه وسلم نے قبیلہ بنی سعد میں پانچ سال تک پرورش پائی۔ صحرا کی کھلی اور پاکیزہ فضا نے آپ صلی الله علیه وسلم میں شخصی آزادی اور خود مختاری کو فروغ دیا۔ اس قبیلے سے آپ صلی الله علیه وسلم نے فصیح عربی میں کامل دسترس حاصل فرمائی کیونکہ اس قبیلے کی زبان ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک تھی۔
آپ صلی الله علیه وسلم اکثر صحابہ کرام دن اللہ سے فرمایا کرتے:
" میں عرب ہونے کی حیثیت سے تم سب سے کامل تر ہوں کیونکہ میں قریش میں سےہوں اور میری پرورش قبیلہ سعد بن بکر میں ہوئی ہے۔"
صحرا میں پانچ سالہ قیام کے دوران حلیمہ سعدیہ اور اُن کے پورے خاندان نے آپ صلی الله علیه وسلم کی دیکھ بھال نہایت احسن طریقے سے کی اور وہ آپ صلی الله علیه وسلم کی عزت کرتے اور آپ صلی الله علیه وسلم سے والہا نہ پیار کرتے تھے۔
ایک مرتبہ مکہ اور اس کے گردو نواح میں قحط پڑ گیا تو حضرت حلیمہ سعدیہ آپ صلی الله علیه وسلم کے ہاں تشریف لائیں۔
اس وقت آپ صلی الله علیه وسلم کی شادی حضرت سیدہ خدیجته الکبرٰی رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہو چکی تھی۔ آپ صلی الله علیه وسلم نے اپنی بیوی کے مال سے پانی کے مشکیزوں سے بھرا ہوا ایک اونٹ اور چالیس بکریوں کاڑ یوراپنی رضاعی والدہ کو پیش کیا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ جب بھی آپ صلی الله علیه وسلم کے پاس تشریف لاتیں آپ صلی الله علیه وسلم ان کے بیٹھنے کیلئے اپنی چادر بچھا دیتے ۔ حضرت حلیمہ سعدیہ کی صاحبزادی شیما جب قبیلہ "بنو ہوازن" کے اسیروں میں گرفتار ہو کر آئیں - تو آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے شیما کو نہایت عزت واکرام کے ساتھ آزاد فرمایا۔
مکہ مکرمہ میں واپسی:۔
بنی سعد میں پانچ سال پرورش پانے کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ صلی الله علیه وسلم کو حضرت سیدہ آمنہ کے سپرد کرنے کیلئے مکہ کی طرف روانہ ہوئیں تو مکہ سے باہر آپ صلی الله علیه وسلم گُم ہو گئے ۔ حضرت حلیمہ سعدیہ نے چاروں اطراف آپ صلی الله علیه وسلم کو تلاش کیا جب کہیں سراغ نہ ملا تو حضرت عبدالمطلب کو اطلاع دی ۔ انہوں نے کئی اشخاص آپ صلی الله علیه وسلم کو تلاش کرنے کے لئے بھیج دیئے۔ جنہوں نے آپ صلی الله علیه وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس پایا اور وہ آپ صلی الله علیه وسلم کو حضرت عبدالمطلب کے پاس لے آئے۔
حضرت عبدالمطلب کی شفقت:۔
حضرت عبدالمطلب نے اپنے پوتے کی تربیت اپنے ذمہ لے لی اور آپ صلی الله علیه وسلم ان کے پیار اورشفقت کا مرکز ومحور بن گئے ۔ حضرت عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ ان کے لئے خانہ کعبہ کے سائے میں ایک نہایت اعلیٰ قالین بچھایا جاتا تھا۔ حضرت عبدالمطلب اس قالین پر گاؤ تکیہ لگا کر بیٹھے اور ان کے بیٹے اس قالین کے ارد گرد بیٹھتے تھے۔ مگر جب آپ صلی الله علیه وسلم وہاں تشریف لاتے تو حضرت عبد المطلب آپ صلی الله علیه وسلم کواپنے پاس بلا لیتے اور قالین پر ساتھ بٹھاتے۔ جب بھی آپ صلی الله علیه وسلم وہاں آتے اپنے چچاؤں کے سامنے سے گزر کر سیدھے اپنے دادا جان کے پاس پہنچ جاتے۔
حضرت آمنہ کی مفارقت:۔
جب حضرت سیدہ آمنہ آپ صلی الله علیه وسلم کو ہمراہ لے کر اپنے میکے، قبیلہ بنی نجار میں تشریف لائیں، تو مدینہ پہنچ کر والدہ ماجدہ نے آپ صلی الله علیه وسلم کو سب سے پہلے وہ مکان دکھایا جہاں آپ صلی الله علیه وسلم کے والد ماجد نے داعی اجل کو لبیک کہا تھا۔ اس کے بعد وہ آپ صلی الله علیه وسلم کوان کی آخری آرام گاہ پر لے گئیں ۔ والد ماجد کی آخری آرام گاہ کی زیارت سے آپ کے دل میں پہلی مرتبہ اپنی یتیمی کا احساس پیدا ہوا۔ حضرت آمنہ پہلے بھی آپ صلی الله علیه وسلم کو آپ کے والد ماجد کے حالات اور وفات کے بارے میں واقعات سنایا کرتی تھیں۔ آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے اس پہلے سفر کے تمام واقعات صحابہ کرام کو اپنی زبان مبارک سے سنائے ، اس سفر میں بی بی اُم ایمن رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی الله علیه وسلم کے ہمراہ تھیں۔
مدینہ میں اپنے ننھیال کے ہاں ایک مہینہ قیام فرمانے کے بعد حضرت آمنہ نے مکہ کی طرف واپسی کا سفر شروع فرمایا ۔ مگر مدینہ سے 43 میل دور ایک مقام ابواء پر پہنچ کر وہ بیمار ہو گئیں اور اسی مرض سے ہی ان کا وصال ہو گیا۔ اس مقام پرآپ کو دفنایا گیا اور اس سانحہ عظیم کے بعد اُم ایمن ہی آپ صلی الله علیه وسلم کے ساتھ رہ گئ تھیں۔ وہ آپ صلی الله علیه وسلم کولے کر مکہ واپس آئیں۔ اس حادثے کی وجہ سے حضرت عبدالمطلب کے دل میں اپنے یتیم پوتے کی محبت اور بھی گہری ہوگئی اور ان کی شفقت مزید بڑھ گئی۔ والدہ ماجدہ کو اپنے سامنے دفن ہوتا دیکھ کر آپ صلی الله علیه وسلم کے لئے دنیا تاریک ہوگئی۔ کل تک وہ آپ کو آپ صلی الله علیه وسلم کے والد ماجد کے بارے میں بتایا کرتی تھیں مگر اب انہوں نے بھی آپ صلی الله علیه وسلم کو پوری طرح یتیم کر دیا تھا۔ اس سانحہ کے بعد حضرت عبدالمطلب کے دل میں آپ صلی الله علیه وسلم کیلئے جذبہ شفقت اور بھی زیادہ ہو گیا۔
مگر باپ اور اس کے بعد ماں دونوں کی جدائی کا صدمہ ایسا نہیں تھا جو جلد ہی بھول جاتا۔ ان مصائب میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیه وسلم کی تسلی فرمائیاُسکا قرآن مجید میں ان کا ذکر آتا ہے۔
" أَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيمًا فَأَوَى وَ وَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدَى"
ترجمہ " کیا اس نے تجھے یتیم پا کر جگہ نہیں دی ؟ اور تجھے راہ بھولا پا کر ہدایت نہیں دی؟
( سورة المحلی آیت 756)
حضرت عبدالمطلب کا انتقال:۔
ابھی آپ صلی الله علیه وسلم کا صدمہ تازہ ہی تھا۔ کہ آپ صلی الله علیه وسلم کے شفیق دادا بھی آپ صلی الله علیه وسلم کو چھوڑ کر وفات پا گئے ۔ اگر وہ زندہ رہتے تو شاید آپ صلی الله علیه وسلم کے غموں کا کچھ مداوا ہوتا۔ حضرت عبد المطلب نے اسی (80) برس کی عمر میں جبکہ اس وقت آپ صلی الله علیه وسلم صرف آٹھ برس کے تھے انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
والدین کا سایہ پہلے ہی سر سے اٹھ چکا تھا آج دادا بھی چھوڑ کر چلے گئے ۔ آپ صلی الله علیه وسلم نے جس طرح اپنی والدہ ماجدہ کو اپنے سامنے دم توڑتے دیکھا اسی طرح شفیق دادا کی روح آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے عالم بالا کو پرواز کر گئی۔ ابھی والدہ ماجدہ کے صدمہ سے آنکھیں خشک بھی نہ ہونے پائیں تھں، کہ دادا جان کی مفارقت سے آنسوؤں کا ایک اور سلسلہ شروع ہو گیا ۔ آپ صلی الله علیه وسلم نے حضرت عبدالمطلب کی تدفین کا منظر اشک آلود آنکھوں اور غمگین دل سے دیکھا۔
ابو طالب کی سر پرستی میں:۔
حضرت عبدالمطلب کی رحلت کے بعد ان کے صاحبزادے ابو طالب نے حضرت محمد صلی الله علیه وسلم کواپنی کفالت میں لے لیا۔ ابو طالب عبدالمطلب کے بڑے بیٹے نہیں تھے مگر بڑے بیٹے حارث اپنے خانگی و معاشی مسائل کی وجہ سے آپ صلی الله علیه وسلم کی سر پرستی کرنے سے قاصر تھے ۔ اس طرح حضرت عباس بھی خوشحال اور امیر تو تھے مگر وہ زیادہ مہمان نواز نہیں تھے اور اس لئے انہوں نے صرف سقایت کا منصب بھی بہ امرِ مجبوری قبول کیا تھا اور رفادت کا منصب ابو طالب کے سپرد کر دیا تھا۔ ابو طالب اپنی سخاوت ، مہمان نوازی اور دیگر کئی خوبیوں کی وجہ سے قریش میں ہر دلعزیز تھے۔ اس لئے اللہ تعالی نے اپنے محبوب نبی صلی الله علیه وسلم کی سر پرستی کا مقدس فریضہ انہیں کوسونپا۔ ابوطالب نے تھوڑی سی مدت میں دیکھ لیا کہ ذہانت، نیکی، شرافت اور حسن کردار تمام جوہر آپ صلی الله علیه وسلم میں بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ انہوں نے اپنے پیارے بھتیجے کی پرورش پوری توجہ سے کی۔
آنحضور صلی الله علیه وسلم کا پہلا سفرِ شام:۔
ابوطالب اسی طرح آپ صلی الله علیه وسلم سے شفقت فرماتے ، جس طرح عبد المطلب فرماتے تھے۔ ابو طالب آپ صلی الله علیه وسلم کو اپنی اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے اور اس وجہ سے جب بھی سفر پر جاتے توحضور صلی الله علیه وسلم کو گھر چھوڑ جاتے۔ ان کا خیال تھاکہ ان کا پیارا بھتیجا بھی سفر کی صعوبتیں برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن جب آپ صلی الله علیه وسلم کی عمر بارہ سال تھی اور ابوطالب نے تجارت کی غرض سے شام کا ارادہ کر لیا تو آپ صلی الله علیه وسلم نےنہایت اصرار کر کے ان کو ساتھ لے جانے پر آمادہ کر لیا۔
بحیرہ راہب سے ملاقات:۔
جب ان کا قافلہ بصرہ پہنچا جو شام کے جنوب میں واقع تھا۔ سیرت کی کتابوں میں درج ہے کہ یہ قافلہ بحیرہ راہب کے قریب ٹھہرا۔ کہ ایک راہب نے آپ صلی الله علیه وسلم کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور ابو طالب سےدریافت کیا کہ آپ صلی الله علیه وسلم ان کے کیا لگتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا یہ میرا بیٹا ہے۔
بحیرہ بولا :
نہیں یہ آپ کا بیٹا نہیں ہو سکتا مجھے حقیقت بتا ئیں ۔“
اس پر ابو طالب چونکے اور فرمایا :
یہ میرے مرحوم بھائی کی نشانی ہے ۔“
اس پر بحیرہ نے ان سے کہا کہ آپ صلی الله علیه وسلم میں وہ تمام نشانیاں موجود ہیں جو آنے والے نبی کی ہیں اسلئے میرا مشورہ ہے کہ آپ انہیں شام نہ لے جائیں کیونکہ اگر یہودیوں نے یہ علامات دیکھ لیں تو وہ ان کے درپے ہو جائیں گے۔ اس سفر کے دوران یقیناً آپ صلی الله علیه وسلم نے وسیع و عریض صحرا اور اس پر چمکتے ہوئے تارے دیکھے ہوں گے ۔ آپ صلی الله علیه وسلم نے وادی القریٰ اور مدائن جو ثمود کی بستیاں تھیں دیکھی ہوں گی۔ اور انہوں نے شام کے باغات کا بھی مشاہدہ کیا ہو گا۔ جو طائف کے باغات سے کہیں بڑے اور شاداب تھے۔ اور انہوں نے اس سرزمین کا موازنہ مکہ کی بے آب و گیاہ زمین سے بھی کیا ہوگا ۔ یہیں پر آپ صلی الله علیه وسلم نے عیسائیوں اور بازنطینیوں کے بارے میں سنا اور ان کی مذہبی کتب اور آتش پرستوں کے خلاف جدو جہد کا علم ہوا۔ نبی کریم صلی الله علیه وسلم بچپن ہی میں نہایت ذہین اور اعلیٰ ترین یاداشت کے مالک تھے اور انہوں نے اُن مشاہدات کے بارے میں تنہائی میں ضرور غور وفکر کیا ہوگا۔ ابوطالب نے اپنا مال تجارت اونے پونے داموں فروخت کیا
اور اپنے بھتیجے کو ساتھ لے کر واپس مکہ چلے آئے اور اس کے بعد انہوں نے کوئی تجارتی سفر نہ کیا اور پوری توجہ سے آپ صلی الله علیه وسلم اور اپنے بچوں کی پرورش میں مصروف رہے ۔
ابو طالب حرمت والے مہینوں میں ارد گرد منعقد ہونے والے میلوں میں صلی الله علیه وسلم کو بھی شرکت کے لئے لے جاتے ۔ ان میلوں میں " سوق العکاظ" اور طائف کے درمیان "سوق ذی المجاز" عرفات میں کبکب گاؤں کے پاس اور "سوق المجنہ “ تھے۔ ان میلوں میں داستان گو اور شعراء جمع ہوتے جو اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ۔ اشعار میں عشقیہ داستانوں، اسلاف کی مدح سرائی اور رزم کو اپنا موضوع سخن بناتے تھے۔ اس کے علاوہ اس موقع پر عیسائی اور یہودی مبلغین بھی اپنے اپنے مذہب کی توصیف بیان کرتے اور بت پرستی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہارکرتے ۔ ان سب باتوں میں آپ صلی الله علیه وسلم کے لئے غور و فکر کا بھر پور سامان موجود تھا۔
حرب الفجار:۔
جس طرح آپ صلی الله علیه وسلم نے اپنے چچا ابو طالب سے تجارتی صحرائی راستوں کا علم حاصل کیا ، مکہ کے بازاروں اور گرد و نواح میں شعراء اور مقررین کو سنا اسی طرح آپ صلی الله علیه وسلم نے ان سے فن حرب بھی سیکھا اور جنگ فجار میں آپ صلی الله علیه وسلم اپنے چچا کی صفوں میں دشمن کے ساتھ نبرد آزما ہوئے ۔ یہ جنگ حرب الفجار کہلاتی تھی۔ کیونکہ یہ جنگ ان مہینوں میں لڑی گئی تھی جن میں جنگ کرنا ممنوع تھا تا کہ ان مہینوں میں عرب کے چار مشہور میلے منعقد ہو سکیں اور لوگوں کو تفریح کے ساتھ ساتھ معاشی طور پہ بھی فائدہ پہنچے۔ لیکن ان مہینوں کا تقدس پامال کرتے ہوئے "براض بن قیس کنانی" نے "عروۃ الرحال بن عتبہ ہوازنی" پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا۔ اس کا محرک یہ تھا کہ نعمان بن منذر والی حیرہ کا ایک قافلہ ہر سال مشک لے کر "عکاظ" کے میلے میں آتا تھا اور یہاں سے چھڑا ، رسے ، یمنی پارچہ جات لے جاتا تھا۔ البراض الکنانی نے اس سے درخواست کی کہ وہ اس دوران اپنے قبیلے کنانہ کی حدود میں قافلے کی سلامتی کا ذمہ دار ہو گا لہذا اس کام کے لئے اسے محافظ مقرر کر دیا جائے ۔ اس وقت کچھ اسی قسم کی درخواست عروہ ہوازنی نے بھی کی اور پیشکش کی کہ وہ نجد سے حجاز تک اس قافلے کی پاسبانی کے فرائض سر انجام دینے کے لئے تیار ہے۔ بادشاہ نے عروہ کی درخواست منظور کر لی۔ اس پر براض غصے سے کھول اُٹھا اس نےقافلے پر حملہ کر دیا اور عروہ کو قتل کر کے قافلے کو لے کر غائب ہو گیا۔
اس کے ساتھ ہی بنی ہوازن کے ایک گروہ نے قریش کے ایک گروہ پر حملہ کر دیا وہ اس کے لئے تیار نہیں تھے اور بھاگ کر حرم میں پناہ گزیں ہو گئے۔ مگر بنوہوازن جاتے ہوئے اگلے سال جنگ کرنے کا اعلان کر گئے ۔ یہ جنگ دونوں قبیلوں میں ہر سال کے چند دنوں میں مسلسل چار برس تک لڑی جاتی رہی۔ اس کے بعد اس جنگ کا اختتام ایک معاہدے کے تحت ہوا۔ اس معاہدے کی سب سے بڑی شرط یہ تھی کہ جس قبیلے کے مقتولین کی تعداد زیادہ ہو دوسرا قبیلہ ان زائد مقتولین کا خون بہا ادا کرے۔ جب مقتولین کی تعداد شمار کی گئی تو بنو ہوازن کے بیس(20)مقتول زیادہ نکلے جن کا خون بہا ادا کر دیا گیا۔ اس لڑائی کے بعد "براض " کا نام ایک بدی کی علامت کے طور پہ لیا جانے لگا۔ اس جنگ میں نبی کریم صلی الله علیه وسلم نے بھی حصہ لیا تھا اور اس بارے میں مورخین کے درمیان اس جنگ کے متعلق مختلف آرا پائی جاتی ہیں کہ اس وقت آپ صلی الله علیه وسلم کی عمر مبارک کتنی تھی ؟ بعض کے نزدیک پندرہ اور بعض کے نزدیک میں بیس برس تھی۔ چونکہ یہ جنگ چار سال رہی تھی۔ اس لئے اگر آپ صلی الله علیه وسلم نے جنگ کے آغاز پر اس میں حصہ لیا تو آپ صلی الله علیه وسلم کی عمر پندرہ برس ہی ہوگی۔ اس جنگ میں آپ صلی الله علیه وسلم نے کیا خدمات سر انجام دیں اس کے بارے میں بھی دو آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ صلی الله علیه وسلم بنی ہوازن کی جانب سے آنے والے تیر جمع کر کے اپنے چچا ابو طالب کو دے دیتے تا کہ وہ انہیں پھر دشمن کے خلاف استعمال کر سکیں اور دوسرے یہ کہ آپ صلی الله علیه وسلم نے خود بھی بنی ہوازن پر تیر برسائے ۔
آپ صلی الہ وسلم نے عہد رسالت میں اس جنگ کے بارے میں فرمایا: میں نے بھی اس جنگ میں اپنے چچا جان کے ہمراہ حصہ لیا تھا اور اس میں چند تیر بھی چلائے تھے اور میری خواہش ہے کہ کاش ایسا نہ کیا ہوتا ۔
معاهدة حلف الفضول:۔
جب قریش فجار کی چار سالہ جنگ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اپنے ماضی اور حال کا موازنہ کیا۔ ماضی میں تو دیگر تمام قبیلے قریش سے ڈرتے تھے اور ان سے نہ صرف خائف رہتے تھے بلکہ ان کا دل و جان سے احترام بھی کرتے تھے۔ مگر جب قریش میں اپنے مناصب کی خاطر چپقلش ہونے لگی تو اب ہر قبیلہ قریش پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار تھا۔ قریش میں یہ انتشار اور زوال ہاشم اور عبدالمطلب کے بعد پیدا ہوا تھا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر ایک دن حضرت زبیر بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے بنو ہاشم، بنوزہرہ اور بنو تیم ( قریش) کو دعوت دی۔ یہ اجتماع عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ہوا۔ اس میں تمام حاضرین کے خوردونوش کا اہتمام کیا گیا اور اس کے بعد قریش کے حالات کا جائزہ لے کر ایک عہد کیا گیا جو "حلف الفضول“ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے
تحت اعلان کیا گیا کہ ہم سب لوگ ہر مظلوم کی مدد کریں گے اور اس کا حق اسے دلا کر رہیں گے۔"
اس معاہدے میں آنحضور صلی ا ہمصلی الله علیه وسلم بھی شریک تھے۔
قریش کے مشاغل:۔
حرب فجارا اگر چہ کہنے کو تو چار سال جاری رہی تھی مگر یہ جنگ ہر سال صرف چند دنوں کے لئے لڑی جاتی تھی اور اس کے بعد دونوں محاذوں پہ خاموشی چھا جاتی اور قریش سال کے بقیہ دن پھر عیش و عشرت میں مشغول ہو جاتے ۔ اس دوران وہ کاروبار تجارت کرتے ، سود کا لین دین ہوتا اور عیش و نشاط کی محفلیں برپا کی جاتیں۔ شراب نوشی کی جاتی اور عرب اپنی حسین کنیزوں کے ساتھ وقت گزارتے۔
نبی کریم صلی الله علیه وسلم بھی اسی ماحول میں رہتے تھے اور اسی ماحول میں پروان چڑھے تھے مگر وہ قریش کے ان عیوب اور برائیوں سے بالکل پاک وصاف تھے۔
انحضور صلی الله علیه وسلم کو قریش کے ان مشاغل سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
گله بانی:۔
آنحضورصلی الله علیه وسلم نے اپنے شباب میں بکریوں کی گلہ بانی بھی فرمائی ۔ آپصلی الله علیه وسلم فرماتے ہیں: "کہ اللہ نے جن کو نبوت سے سرفراز فرمایا ہے ان میں سے کوئی بھی نبی ایسا نہیں ہےجس نے گلہ بانی کا کام نہ کیا ہو۔"
مزید نبی کریم صلی الہ وسلم نے فرمایا:
"حضرت موسیٰؑ نے گلہ بانی کی اور حضرت شعیبؑ نےبکریوں کی گلہ بانی فرمائی ۔ حضرت داؤدؑ نے بھی بکریوں کی گلہ بانی کی اور میں نے بھی اپنےخاندان کی بکریوں کی گلہ بانی کی"
شغل تجارت:۔
جب آپ صلی الله علیه وسلم جوان ہوئے تو ابو طالب نے سوچا کہ اب آپ صلی الله علیه وسلم کو تجارت کی طرف
راغب کرنا چاہیے کیونکہ یہ پیشہ عرب میں نہایت اہمیت کا حامل تھا اور اس سے ان کے بڑے کنبے کی کفالت بھی
بآ سنی ہوسکتی تھی۔ جبکہ گلہ بانی کے پیشے میں بہت کم آمدن تھی۔
حضرت خدیجه الکبریٰ رضی اللہ عنہا:۔
حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا مکہ کی نہایت امیر خاتون تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ نہایت معزز اور شریف خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ وہ مکہ میں اپنی شرافت کی بناء پر "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا نے قبیلہ مخزوم میں عقد کیا تھا مگر اُن کے شوہر انتقال کر گئے اس کے بعد انہوں نےپھر اس قبیلے میں عقدِ ثانی فرمایا مگر ان کے اس شوہر کا عرصہ حیات بھی محدود تھا وہ بھی ان کو چھوڑ کر چلے گئے ۔ حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا کے والد کا نام خویلد تھا۔ جو کہ ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ اس کے بعد قریش کے کئی اشخاص نے ان سے عقد کی خواہش کا اظہار کیا مگر حضرت خدیجہ نے انکار کر دیا۔ ان کے خیال کے مطابق ان لوگوں کی نظر ان کے مال و دولت پر تھی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی پوری توجہ تجارت پر دینا شروع کر دی ۔ اپنے ذاتی مال کے علاوہ انہیں اپنے آنجہانی شوہروں سے بھی ترکہ میں بہت کچھ ملا تھا۔ تجارت کے لئے وہ لوگوں کو اُجرت پر مال دے کر روانہ کرتی تھیں ۔ جب ابو طالب کو علم ہوا کہ حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا پھر اجرت پر لوگوں کو نگران مقرر کر کے اپنا مال تجارت شام بھیج رہی ہیں۔ تو انہوں نے اس کا ذکر اپنے بھتیجے سے کیا اور فرمایا کہ حالات کا تقاضا ہے کہ آپؐ بھی تجارت کیلئے جائیں ۔ حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا نے ہر شخص کے لئے دو دو اونٹ بطور معاوضہ مقرر کئے ہیں۔ لیکن اگر آپ مالی می پر جانا چاہیں تو میں ان سے بات کروں مگر معاوضہ اس سے زیادہ ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا:
چچا جان! آپ کو اختیار ہے، مجھے کام کرنے سے کوئی انکار نہیں ۔ ابو طالب ، حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا
کے پاس تشریف لے گئے اور مقصد بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ہم دوسرے لوگوں کی طرح صرف دو اونٹ معاوضہ نہیں لیں گے۔ اگر آپ میرے بھتیجے کو چار اونٹ بطور اجرت کے دینا منظور کر لیں تو وہ بھی مال تجارت لے کر چلے جائیں گے۔ اس پر حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا نے عرض کیا :
اے سردار قریش ! اگر آپ کسی دشمن یا غیر قبیلہ کے شخص کے لئے بھی فرماتے تو مجھے انکار نہ ہوتا، آپ تو ہمارے قبیلے کے معزز اور شریف ترین انسان ہیں ۔ اس کے بعد ابو طالب گھر تشریف لائے اور آپؐ سے فرمایا کہ آپؐ کو یہ رزق اللہ تعالیٰ نے عنایت فرمایا ہے ۔“
سفر شام:۔
آپؐ حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا کا مال لے کر شام روانہ ہوئے تو انہوں نے آپؐ کے ہمراہ اپنے غلام میسرہ کو بھی روانہ کیا۔ حضرت ابو طالب نے بھی میسرہ کو آپؐ کے بارے میں خصوصی تاکید فرمائی ۔ اس سفر کے دوران ایک مرتبہ پھر آپؐ کا گزروادی القریٰ ( وادی الظهران ) ، مدین، اور قوم ثمود کی بستیوں کے کھنڈرات کے پاس سے ہوا۔ جہاں سے آپؐ پہلی مرتبہ بارہ برس کی عمر میں گزرے تھے اور ان کے نقوش ابھی آپؐ کے ذہن میں تازہ تھے۔ جب آپؐ بصریٰ پہنچے تو نصاریٰ کو بھی قریب سے دیکھا۔ ان کے پادریوں اور عالموں سے گفتگو بھی ہوئی ۔ آپؐ کی دیانت داری اور فراست کی وجہ سے مال تجارت سے کافی نفع ہوا ۔ اس کے علاوہ آپؐ کی دیانت ، راست بازی اور حسن سلوک سے میسرہ بھی آپؐ کا گرویدہ ہو گیا۔ شام سے واپسی کے وقت آپؐ نے حضرت خدیجہ کی کہی ہوئی اشیاء خریدیں اور واپسی کا سفر شروع کیا۔ جب آپؐ اپنے تجارتی قافلے کے ساتھ مکہ کے قریب ایک وادی مرالظہر ان کےمقام پر پہنچے تو میسرہ نے کہا:
اے محمدؐ ! آپؐ فوراً بی بی خدیجہ کے پاس جائیں اور ان کو اپنی کامیابی اور منافع کے بارے میں بتائیں۔ وہ آپکا انتظار کر رہی ہوں گی اورآپؐ کو انعام بھی دیں گی۔“
آپؐ اونٹ پر سوار ہو کر روانہ ہوئے اور دو پہر کے وقت حضرت خدیجہ کے گھر کے سامنے پہنچ گئے۔ وہ بالا خانے میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے آپؐ کو دیکھ لیا اور استقبال کے لئےآئیں۔ آپؐ نے اپنے مخصوص دلنشیں انداز میں ان کو اپنے سفر اور کامیابی سے آگاہ کیا اور ان کو بتا یا کہ آپؐ شام سے کون سی چیزیں خرید کر لائے ہیں۔
حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا سے عقد:۔
اس کے بعد میسرہ نے بھی آ کر تمام حالات سے حضرت خدیجہ کو آگاہ کیا۔ یہ ساری باتیں سن کر ان کے دل میں آپؐ کی محبت بڑھ گئی۔ آپؐ کے اخلاق حسنہ اور شرافت کی تو وہ پہلے ہی سے قائل تھیں اور اب آپؐ کی دیانت داری اور فراست نے ان پر اور بھی اثر کیا اور وہ جو مکہ کے کئی صاحب ثروت اور امراء کی شادی کی پیشکش کو ٹھکرا چکی تھیں دل میں آپؐ سے عقد کرنے کا سوچنےلگیں ۔ اس وقت ان کی عمر چالیس برس اور آپؐ کی عمر پچیس برس تھی۔ حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا نے اپنی ہمشیرہ اور بعض روایات کے مطابق اپنی سہیلی نفیسہ بنتِ منیہ
کے ہاتھ پیام بھیجا جیسا کہ عرب میں دستور تھا۔
نفیسہ نے کہا " " اس کا انتظام کرنا میرا کام ہے
بعض روایات کے مطابق آپؐ نے پہلے اپنے چچا ابو طالب سے اس کا ذکر فرمایا اور ان کی رضا مندی سے عقد کے لئے ہاں کی دی۔ اس کے بعد آپؐ کے چچا اور خاندان کے دیگر افراد حضرت خدیجہ الکبریٰ کے گھر میں جمع ہوئے۔حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا کے والد خویلد جنگ فجار سے قبل فوت ہو چکے تھے۔ اس لئے ان کی
ولایت کے فرائض ان کے چچا "عمرو بن اسد" نے سرانجام دیئے۔
حضرت خدیجہ الکبریٰ سے عقد کے بعد آپؐ کی زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ انہی کے بطن سے آپؐ کے لخت جگر حضرت قاسمؑ نے جنم لیا اور ان کی پیدائش پرآپؐ نہایت خوش ہوئے۔ مگر جب اسے موت نے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا تو آپؐ اپنےصاحبزادے کی رحلت پر نہایت غمگین ہو گئے۔
تبصرہ کریں