/ تاریخِ اسلام / خلافتِ اُندلس

طارق بن زیاد،عظیم مسلمان جرنیل جنہوں نے اسپین فتح کیا تھا۔

"تاریخ کے صفحات میں چند نام ایسے ہیں جو اپنے کارناموں سے نسلوں تک زندہ رہتے ہیں، اور ان میں سے ایک نام ہے طارق بن زیاد کا۔ وہ سپین کے ساحلوں پر اتر کر نہ صرف یورپ کی تقدیر بدلنے والے عظیم فاتح بنے، بلکہ اپنی جرات، حکمتِ عملی اور بے خوف قیادت سے تاریخ میں سنہری حروف سے درج ہو گئے۔ 711 عیسوی میں جب طارق بن زیاد نے ایک بے مثال فتح کی، تو وہ صرف ایک فوجی نہیں، بلکہ ایک ایسے رہنما بنے جنہوں نے مسلمانوں کی عظمت کی نئی تاریخ رقم کی۔ ان کا سفر، ان کی جنگ، اور ان کی قیادت ایک ایسا داستان ہے جو آج بھی ہر دل میں جوش اور جذبہ پیدا کرتی ہے۔"

اس انوکھی سحر کو تصور کی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے ہمیں تقریباً تیرہ سو برس پیچھے جاتا ہو گا، جب اندلس اپنی سرسبزی اور شادابی کے اعتبار سے یورپ کا ممتاز ترین ملک تھا۔ یہ جنوب مغربی یورپ کے آخری سرے کا وہی جزیرہ نما علاقہ ہے جہاں آج کل اسپین اور پرتگال کے نام سے دو ملک قائم ہیں۔ دور حاضر کے محققین کا کہنا ہے کہ 411ء سے 429ء کے دوران اندلس پر ایک جرمن قوم واند السید یا واندال قابض رہی تھی، اسی قوم کے نام پر اس جزیرہ نما کا جنوبی حصہ واندلسیہ کہلاتا تھا۔ جب عربوں نے یہاں قدم جمائے تو وہ واندلسیہ کو عربی تلفظ کے مطابق اندلس کہنے لگے، پھر پورے علاقے کا نام یہی پڑ گیا۔

اندلس کی سرزمین بہت زرخیز تھی۔ یہاں کی آب و ہوا یورپ بھر میں سب سے اچھی تھی۔ معد نیاتی اعتبار سے بھی یہ خطہ زمین بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ اس کی تین سمتوں میں تین سمندر تھے۔ مشرق میں بحیرہ روم، مغرب میں بحر اوقیانوس، جنوب میں آبنائے جبرالٹر (جسے عرب، بحر ز قاق کہتے ہیں) یہی آبنائے اس مقام پر یورپ اور افریقہ کے درمیان حد فاصل کا کام دیتی ہے۔

سرزمین اندلس، قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود، سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے بے حد تنزل اور گراوٹ کا شکار تھی۔ آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل تک یہاں گاتھ خاندان کی حکومت تھی۔ گاتھ خاندان کے آخری فرمانروا و شیزا کو معزول کر کے جو بوڑھا اور تجربہ کار فوجی بر سر اقتدار آیا، اس کا نام راڈرک تھا، جسے عرب، رزریق یا لذریق کہتے ہیں۔

گاتھ خاندان کے دستور کے مطابق اندلس کے امرا اور جاگیر داروں کے بچے شاہی محل میں پرورش پاتے تھے تاکہ وہ شاہی آداب سیکھ لیں۔ دراصل یہ امر آ اور جاگیر داروں کو بغاوت سے باز رکھنے کا اچھا طریقہ تھا۔ انہی امر آ میں سے ایک یونانی سردار کاؤنٹ جولین کی بیٹی فلور نڈا بھی شاہی محل میں تربیت پا رہی تھی۔ کاؤنٹ جولین، گاتھ خاندان کے آخری فرمانروا کا داماد تھا۔ فلورنڈا بے حد حسین تھی اور اس کا یہی حسن و جمال اندلس کے فرمانروا راڈرک کودیوانہ کر گیا۔ فلورنڈا بے بس تھی، وہ اپنے گوہر عصمت کو راڈرک کے ان ہاتھوں داغدار ہونے سے نہ بچا سکی۔فلورنڈا غم و غصے سے پیچ و تاب کھا رہی تھی۔ اس کی نظروں میں دنیا اندھیر ہو چکی تھی۔ اس نے اپنے والد کاؤنٹ جولین کو راڈرک کی زیادتی سے کسی نہ کسی طرح آگاہ کر دیا۔کائونٹ جولین کو جب یہ خبر ملی تو وہ سکتے میں رہ گیا، تاہم اس نے خود پر قابو پالیا اور اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے، راڈرک کی حکومت کا تختہ الٹنے کا عزم کر لیا۔ 

کاؤنٹ جولین سبطہ کا حکمراں تھا اور افریقہ میں واحد عیسائی حکمراں تھا۔ قلعہ سبطہ شمالی افریقہ کے ساحل پر تھا، تاہم کاؤنٹ اندلس کی حکومت کے ماتحت تھا۔ کاؤنٹ، راڈرک کے دربار میں پہنچا، جہاں اس نے راڈرک کو بے حد پریشان لہجے میں بتایا کہ فلورنڈا کی ماں سخت بیمار ہے اور وہ آخری لمحات میں اپنی بیٹی سے ملنا چاہتی ہے۔ راڈرک نے فلورنڈا کو لے جانے کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا:۔

"میں نے سنا ہے افریقہ کے باز بہت اچھے ہوتے ہیں، چند باز مجھے بھیج دینا۔“

کاؤنٹ جولین نے کہا:۔

"اگر میں زندہ رہا تو ایسے باز بھیجوں گا، جن کو آپ نے کبھی نہ دیکھا ہو گا۔“

کاؤنٹ جولین، راڈرک کے دربار سے ان بازوں کی تلاش میں نکلا، جنہیں اندلس کی سر زمین کو تسخیر کرنا تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب افریقہ میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ شمالی افریقہ میں موسٰی بن نصیر گورنر تھے۔ شمالی افریقہ میں اسلامی حکومت مستحکم ہو جانے کے بعد موسٰی بن نصیر کی نظریں یورپ کی جانب اٹھ رہی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ یورپ میں بھی اسلام کی روشنی پھیلائی جائے۔روشنی پھیلائی جائے۔یورپ میں داخل ہونے کا قریب ترین راستہ اندلس کا تھا۔اندلس اور شمالی افریقہ کے درمیان صرف 10 میل کی ایک آبنائے تھی۔ موسٰی بن نصیر ابھی ان امکانات پر غور کر ہی رہے تھے کہ جیسے قدرت نے یورپ کے دروازےاسلام کے لیے کھول دینے کی واضح سبیل پیدا کردی۔ کاؤنٹ جولین، موسٰی بن نصیر کے ماتحت، طنجہ کے حکمراں طارق بن زیاد کے پاس پہنچا اور انہیں اندلس پر حملے کی دعوت دی۔ انہوں نے کاؤنٹ کو موسٰی بن نصیر کے پاس بھیج دیا۔ کاؤنٹ نے موسٰی بن نصیر سے مل کر دعوت دہرائی اور ہر ممکن حمایت کا وعدہ کیا۔

موسٰی بن نصیر نے خلیفہ ولید بن عبد الملک کو پیغام بھیج کر اندلس پر حملے کی اجازت طلب کی۔ خلیفہ کا جواب آیا کہ مسلمانوں کو سمندر کے خطرات میں پھنسانا مناسب نہیں ہے۔ پہلے وہاں کے حالات معلوم کیے جائیں۔ موسٰی نے جواب بھجوایا کہ راہ میں سمندر نہیں بلکہ ایک چھوٹی آبنائے حائل ہے اور دوسرے کنارے کی چیزیں صاف نظر آتی ہیں۔ اس پر خلیفہ نے اجازت دے دی۔ موسیٰ ایک تجربہ کار جرنیل تھے، انہوں نے پہلے کاؤنٹ کو آزمانے کی خاطر انہیں ہدایت کی کہ وہ خودایک مختصر سا لشکر لے کر اندلس میں کسی مقام پر حملہ کرے۔ جولین نے مختصر لشکر، اندلس کے ساحلی شہر جزیره خضرا بھیجا، جہاں معمولی چھیڑ چھاڑ کر کے لشکر واپس آگیا۔

موسٰی نے اب اپنے غلام طریف بن مالک کو 91ھ /بمطابق 710ء میں پانچ سو سپاہیوں کے ساتھ اندلس بھیجا۔ طریف نے آبنائے پار کی اور چند شہروں پر کامیاب حملے کرنے کے بعد لوٹ آئے۔ان آزمائشی حملوں کے بعد اب وقت آگیا تھا کہ اسلامی لشکر اندلس پر باقاعدہ فوج کشی کرے۔ اس لشکر کی قیادت کے لیے موسیٰ بن نصیر کی نگاہ انتخاب طارق بن زیاد پر پڑی۔

طارق بن زیاد بن عبد اللہ طنجہ کے حکمراں تھے۔ نہایت متقیٰ، فرض شناس اور بلند ہمت۔ مؤرخین نے طارق کے بارے میں مختلف باتیں کہی ہیں۔ الادریسی کے نزدیک طارق بربر تھے۔ بربر قبائل عرصہ دراز سے شمالی افریقہ کے علاقے بربر میں آباد تھے۔ ابن خلدون نے طارق کو للیثی خاندان سے بتایا ہے۔ بعض مورخین کے نزدیک طارق ایرانی النسل  اور ہمدان کے باشندے تھے۔ بہر حال یہ بات یقینی ہے کہ وہ موسٰی بن نصیر کے آزاد کردہ غلام اور نائب تھے اور موسیٰ جیسے ماہر فنِ حرب کی زیر نگرانی طارق کی تربیت ہوئی۔ طارق جنگی منصوبہ بندی کےبڑے ماہر تھے اور خود کو غیر معمولی طور پر ذہین ثابت کر چکے تھے۔

 

طارق کو اندلس پر حملے کے لیے فوج کا سپہ سالار چن لیا گیا۔ یہ فوج سات ہزار بربری مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ 92ھ میں رجب کی پانچویں تاریخ (28) اپریل 711ء تھی، جب اسلامی لشکر اندلس کے ساحل پر اترا۔ طارق نے ایک پہاڑ کے قریب پڑاؤ ڈال دیا۔ یہ پہاڑ ” جبل الطارق“ کہلایا۔ آج یہی نام بگڑ کر جبرالٹر کہلاتا ہے۔ طارق نے پڑاؤ ڈالنے کے بعد ایک انوکھا کام کیا۔ انہوں نے ان جہازوں کو آگ لگوادی، جن کے ذریعے اسلامی فوج اندلس کے ساحل پر اتری تھی، گویا اب واپسی کی راہ مسدود تھی، اسلامی لشکر کو آگے ہی بڑھتا تھا۔

 

اندلس کے گاتھ خاندان کا ایک جاگیردار تھیوڈو میر (عربی تلفظ تدمیر) اس وقت اس علاقے میں موجود تھا۔ اس نے جو اجنبی فوج دیکھی تو اپنے حامیوں کے ساتھ اس سے الجھ پڑا، لیکن شکست کھائی۔ تھیوڈو میر نے گھبرا کر اندلس کے فرمانر وارا ڈرک کو پیغام دیا، ہمارے ملک پر ایسے آدمیوں نے حملہ کیا ہے کہ نہ ان کا وطن معلوم ہے، نہ اصلیت ، یہ کہاں سے آئے ہیں۔ زمین سے نکلے ہیں یا آسمان سے اترے ہیں،کچھ معلوم نہیں؟“

راڈرک کو خبر ملی تو اس نے ایک لاکھ سپاہی جمع کیے اور اجنبی لشکر خبر کے مقابلے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ طارق کو اطلاع مل گئی تھی کہ راڈرک ایک لاکھ سپاہی لے کر آرہا ہے۔ انہوں نے موسٰی بن نصیر سے مزید کمک طلب کی۔ موسٰی نے پانچ ہزار سپاہی اور بھیج دیے۔ طارق کی جنگی حکمت عملی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انہوں نے ایسی جگہ منتخب کی جو فوجی لحاظ سے اسلامی لشکر کے لیے محفوظ تھی۔ اس کے قریب پانی اور رسد کی سہولتیں تھیں۔ یہ جگہ وادی رباط کے کنارے تھی جس کا دوسرا نام وادی الکبیر تھا۔ اسلامی لشکر کے عقب میں جھیل لا جندا تھی جسے وہ الجیرہ کہنے لگے تھے۔راڈرک شاہی آن بان کے ساتھ لاؤ لشکر لیے مقابلے پر آپہنچا۔

تاحد نگاہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا انسانوں کا سمندر تھا۔ راڈرک خود ایک تجربہ کار فوجی جرنیل تھا۔ فوج کے آگے آگے سجے بنے تخت پر سوار تھا اور اس کے سر پر خوبصورت چھتری سایہ کیسے ہوئے تھی۔ اگر چہ اندلس میں تین سال سے قحط پڑا ہوا تھا، لیکن راڈرک کی فوج کے پاس رسد کی کمی نہ تھی۔

طارق سمجھ چکے تھے کہ یہ وہ وقت ہے جب اسلامی فوج کا حوصلہ بلند کرنے اور اس کا ولولہ تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بارہ ہزار سپاہیوں کے مقابلے میں ایک لاکھ سپاہی۔ گویا ایک اور دس کی نسبت تھی۔ امیر لشکر طارق بن زیاد نے اپنے مجاہدین کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے نہایت جو شیلی تقریر کی جو تاریخ کے صفحات میں مثبت ہو گئی۔

طارق کے الفاظ تھے:۔

"خبردار! ذلت پر راضی نہ ہونا۔ خود کو دشمن کے حوالے نہ کرنا۔ اللہ نے مشقت اور جفاکشی کے ذریعے تمہارے لیے دنیا میں جو عزت و شرف اور آخرت میں شہادت کا جو ثواب مقرر کر دیا ہے اس کی طرف بڑھو۔ اللہ کی پناہ اور حمایت کے باوجود اگر تم ذلت پر راضی ہو گئے تو بڑے گھاٹے میں رہو گے۔ دوسرے مسلمان، تم کو برے الفاظ سے یاد کریں گے۔ جیسے ہی میں حملہ کروں تم بھی حملہ آور ہو جاؤ۔“

رمضان المبارک الوداع ہونے کو تھا۔ 28 رمضان 92ھ/ 18 جولائی 711ء کی تاریخی صبح تھی، جب دونوں حریف میدانِ جنگ میں نے صف آرا ہوئے۔ جنگ کا آغاز ہوا۔ دنیاوی آسائشوں سے بے پروا اورجنت کی نعمتوں کے طلب گار، اللہ کی رضا کے دیوانے، دشمن پر بے خوف و خطر ٹوٹ پڑے۔ گھمسان کا رن پڑا، ہر طرف خون ہی خون، لاشیں ہی لاشیں، کراہتے، زخمی، آہ و بکا کا طوفان، آسمان کے وسیع صحرا میں سفر کرتے ہوئے سورج نے یہ منظر دیکھا اور دور افق کے پار جا چھپا۔

کفر و اسلام کی یہ جنگ آٹھ روز جاری رہی۔ طارق اپنے رب کے آگے گڑ گڑاتے تھے، دعائیں کرتے تھے اور اپنی فوج کو جوش دلاتے تھے۔ بالآخر امیر لشکر نے فیصلہ کن وار کرنے کا ارادہ کیا۔ طارق بن زیاد خود اپنا گھوڑا بڑھا کر دشمن کی فوج کے قلب میں گھس گئے۔ سر سے کفن باندھے ہوئے مسلمان مجاہدین ان کے پیچھے تھے۔ وہ برق کی مانند راڈرک کی فوج پر گرے اور راڈرک کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔

راڈرک نے جو یہ رنگ دیکھا تو اسے فرار ہوتے ہی بنی۔ اس سے پہلے کہ طارق، راڈرک تک پہنچتے وہ اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر فرار ہو چکا تھا، لیکن موت راڈرک کا تعاقب کر رہی تھی۔ گمنامی کی موت،مسلمانوں نے راڈرک کا پیچھا کیا۔ کچھ دور جا کر دریائے رباط کے کنارے راڈرک کا سفید گھوڑا جس پر یا قوت و زبرجد ( ایک قسم کا زمرد) سے مرع ساز کسا ہوا تھا، دلدل میں پھنسا ملا۔ وہیں راڈرک کے پاؤں کا موزه ملا، جس میں یا قوت و موتی جڑے ہوئے تھے۔ ایک زر تا رحلہ (جبہ )بھی ملا جو بیش قیمت جواہرات سے مزین تھا۔دریائے رباط کی دلدل اندلس کے اس فرمانروا کو نگل چکی تھی جسے ایک لاکھ سپاہیوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔

راڈرک کا فرار ہونا تھا کہ میدان صاف ہو گیا، رہی سہی عیسائی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس جنگ میں تین ہزار مسلمان سپاہیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ بے شمار عیسائی سپاہی تہ تیغ کر دیے گئے، ان کی بے گور و کفن لاشوں سے میدان اٹا پڑا تھا۔ ان میں امر آ، متوسط حال اور غلاموں کی لاشیں تھیں، جنہیں ان کی انگلیوں میں پڑی سونے، چاندی اور تانبے کی انگوٹھیوں کی مدد سے پہچانا جا سکتا تھا۔ یہ اندلس میں مسلمانوں کی کامیابیوں کا شاندار آغاز تھا، سحر طلوع ہو چکی تھی اور اس کا اُجالا چار سو پھیل رہا تھا۔

دریائے رباط کے کنارے ہونے والی یہ جنگ اس اعتبار سے نہایت فیصلہ کن تھی کہ ہسپانوی فوج پھر کہیں بھی متحد ہو کر اسلامی لشکر کا کامیابی سے مقابلہ نہ کر سکی۔طارق بن زیاد نے اب اندلس کے جنوب مغربی علاقے کا رخ کیا اور صوبہ قادس کے مشہور شہر شذونہ کو فتح کر لیا، پھر حصن المدور پر قبضہ کیا جو قرطبہ کے مغرب میں ہے۔ اس کے بعد اسلامی لشکر اشبیلیہ سے 25 میل مشرق میں شہر قرمونہ جا پہنچا۔ پھر طارق نے استجہ کا محاصرہ کر لیا۔ سخت مقابلہ کے بعد استجہ فتح ہو گیا۔ طارق نے شہر میں میٹھے پانی کی ایک نہر کھدوائی اور اسے چار میل دور واقع دریا سے منسلک کر وا دیا۔ یہ شہر عین الطارق“ کے نام سے موسوم ہوئی۔

استجہ کی فتح کے بعد اندلس کے عوام پہاڑی علاقوں میں چلے گئے اور امر آنے طلیطلہ میں پناہ لی۔ اسی اثنا میں طارق کے حکم سے مغیث بن وائل کی قیادت میں 700 سواروں نے قرطبہ کے اہم شہر کو فتح کیا۔ طارق اب اریولہ کی طرف بڑھے۔ تھیوڈو میر نے جو اریولہ میں پناہ گزین ہو گیا تھا، ایک نرالی ترکیب سوچی۔ اس نے خواتین کو فوجی لباس پہنا کر فصیل پر کھڑا کر دیا اور صلح کی پیشکش کی۔ مسلمانوں نے آسان شرائط پر صلح کر لی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ تھیوڈو میر نے کیا چال چلی تھی۔ بہر حال یہ پورا علاقہ آگے چل کر تھیوڈو میر کے نام پر "تدمیر " کہلایا۔ پھر طارق نے مالقہ ، البیرہ، ریہ اور پھر شمالی اسپین میں استرقہ اور صوبہ جنقہ کو فتح کر لیا۔ اگر یہ طارق کے طلیطلہ پہنچنے سے پہلے ہی اندلس کے امر اطلیطلہ خالی کر کے دوسرے علاقوں میں جاچکے تھے اور اپنا قیمتی مال و دولت سمیٹ کر ساتھ لے گئے تھے ، تاہم پھر بھی یہاں دولت کا انبار ملا۔ ایک کلیسا سے 24 زرنگار تاج ملے ، قسم قسم کے نقرئی اور طلائی ظروف ہاتھ آئے۔

مسلمانوں کی پیش قدمی کو موثر بنانے کے لیے طے یہ ہوا کہ مشرقی سمت سے طارق آگے بڑھیں اور مغرب کی طرف سے موسیٰ بن نصیر اپنی فوج لے کر چلیں۔ 94ھ / 713ء میں موسیٰ اور طارق کی ملاقات طلیطلہ میں ہوئی۔ دونوں قائدین نے مفتوحہ علاقوں کی انتظامی صورت حال کا جائزہ لیا، داخلی حکمت عملی کا خاکہ تیار کیا اور مزید پیش قدمی کی منصوبہ بندی کی۔ مزید مہمات پر روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے اپنی فوج کو جو احکام جاری کیے وہ عسکری لٹریچر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس منصوبے کے مطابق دونوں سپہ سالاروں نے نئی مہمات کا آغاز کیا اور شمال مشرقی اندلس کے علاوہ جنوبی فرانس پر پیش قدمی کر کے تین اہم شہروں اربونہ، لودون اور ادینوں پر قبضہ کر لیا۔ پھر انہوں نے اندلس کے شمال مغربی حصوں پر فوج کشی کی اور سرسطہ کی طرف بڑھے۔

یہ سلسلہ جاری تھا اور اندلس تقریباً تمام کا تمام فتح ہو چکا تھا کہ خلیفہ ولید بن عبد الملک کی طرف سے پیغام آیا کہ دونوں رہنما جلد از جلد دارالخلافہ مشق پہنچ جائیں۔ چنانچہ 95ھ/ 713ء میں موسیٰ اور طارق واپس و مشق چلے گئے، لیکن طارق نے اندلس کو فتح کر کے اسلام کی جو شمع روشن کر دی تھی وہ تاریک یورپ میں صدیوں تک روشنیاں بکھیرتی رہی۔

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

دولت موحدین کے بانی "عبد المئو من "جنہوں نے خلافتِ راشدہ کے دور کی یاد تازہ کر دی۔

عبد المئو من جنہوں نے شمالی افریقہ میں ایک ایسی وسیع و عریض مسلم سلطنت قائم کی جو نہ اس سے پہلے تھی اور نہ اس کے بعد قائم ہو سکی۔عبد المئو من  نے افریقہ کو صلیبیوں سے پاک کیا…

مزید پڑھیں
عبد الرحٰمن الداخلاندلس کے پہلے اموی حکمران جنہوں نے مسجد قرطبہ میں مزدوروں کی طرح کام کیا

عبد الرحٰمن الداخل113ھ/بمطابق731عیسویٰ کو دمشق میں پیدا ہوئے تھے۔آپ کا لقب الداخل ہے اور آپ کو یہ لقب اس وقت ملا جب آپ نے سر زمین اُندلس میں قدم رکھا  اور اموی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔5 سال کی عمر میں…

مزید پڑھیں
ابو عبد اللہ محمد جنہوں نے عیسائی بادشاہوں کو "غرناطہ"شہر کی کنجیاں پیش کیں۔

ابو عبداللہ محمد بارہویں، جو ہسپانوی تاریخ میں بوابدل کے نام سے معروف ہیں، غرناطہ کے امارات کے 22ویں اور آخری نصری حکمران تھے۔ ان کا دور حکمرانی پندرہویں صدی کے آخر میں تھا اور یہ عہد اندلس میں مسلم…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں