ہندستان میں اسلامی پرچم لہرانے والے پہلے غوری سلطان " شہاب الدین محمد غوری" کی لازوال داستان۔
شہاب الدین غوری کا اصل نام محمد غوری ہے۔بچپن میں آپ کو شہاب الدین کہا جاتا تھا۔جب 569ھ/1173ء میں شہاب الدین کے بڑے بھائی غیاث الدین غوری نے غزنی فتح کیا تو انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی شہاب الدین کو غزنی کا حکمران بنا دیا،اور انہیں معز الدین کا لقب دیا،لیکن تاریخ نےمعز الدین کو شہاب الدین کے نام سے یاد رکھنا زیادہ پسند کیا۔چناچہ آپ کو آج بھی اسی نام سے جانا جاتا ہے۔غور سے تعلق رکھنے کی بنا پر آپ کو غوری کہتے ہیں،غور کو غورستان بھی کہتے ہیں،یہ علاقہ موجودہ افغانستان کے شہر ہرات سے 120 کے فاصلے پر واقع ہے۔غور کے علاقے پر غزنوی خاندان کی حکومت تھی۔ اس کے بعد یہاں غوریوں نے اقتداد سنبھال لیا۔ پہلے غوری حکمران سیف الدین محمد سوری تھے۔
شہاب الدین،کو علمِ دین سے بڑا لگاو تھا۔اس کے ساتھ ساتھ اُنہیں جہاد سے بھی بہت پیار تھا۔شہاب الدین کی مستقبل کے حالات پر بھی گہری نظر ہوتی تھی۔آپ نے دیکھ لیا تھا کہ ملتان کے علاقے میں قرامطہ کی سر گرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہ ملحد لوگوں کا ایک گروہ تھا۔ جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر وقت سازشیں کرتا رہتا تھا۔اس سے پہلے سلطان محمود غزنوی نے ان کفار کے خلاف جہاد کیا تھا لیکن ان کی وفات کے بعد یہ فتنہ پھر سر اُٹھانے لگا۔شہاب الدین نے جہاد کا آغاز انہی قرامطہ گروہ کے خلاف کیا۔آپ لشکر لے کر ملتان پر حملہ آور ہوئے۔شہاب الدین کی قرامطہ سے زبردست جنگ ہوئی اور آخر کار شکست قرامطہ کو ہوئی۔قرامطہ وہاں سے بھاگ کر اُچ کے قلعے میں محصور ہو گئے۔
ملتان 571ھ/1175ءمیں فتح ہوا ،شہاب الدین نے اپنے سالار علی کرماخ کو ملتان کا حاکم مقرر کیا،پھر اُچ(پہاولپور) پر حملہ کیا۔اُچ پر بھٹی قبیلے کا ایک راجہ حکومت کر رہا تھا۔شہاب الدین کی فوج نے اُچ کے قلعے کا محاصرہ کر لیا اور یہ قلعہ شہاب الدین کے ہاتھوں فتح ہو گیا۔یوں قرامطہ فرقے کی شورشیں کسی حد تک کم ہو گئیں۔جب شہاب الدین نے علی کرماخ کو ملتان کی حکومت سونپ کر واپس غزنی چلے گئے تو ،گجرات کے علا قہ نہر والہ(انہلواڑہ) کے راجہ بھیم دیو اور قرامطہ نے آپس میں ساز باز کر لی اور انہوں نے مل کر حملہ کیا اور علی کرماخ سے ملتان چھین لیا۔یہ اطلاع ملتے ہی شہاب الدین نے 573ھ/1177ءکے آخر میں غزنی سے روانہ ہو کر ملتان پہنچے اور یہاں سے انہوں نے نہر ولہ کا رخ کیا،تاکہ راجہ بھیم دیو کو اس کی سازشوں کی سزا دیا جا سکے۔شہاب الدین گجرات تک کے سفر کی مشکلات کا اندازہ نہ کر سکے۔راستے میں گرم صحرا تھا جس سے اسلامی لشکر کو بہت سی مشکلات پیش آئیں۔گجرات پہنچ کر شہاب الدین نے راجہ بھیم دیو سے جنگ لڑی اور ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن اس جنگ میں شہاب الدین کو کامیابی حاصل نہ ہو سکی،اور انہیں غزنی واپس لوٹ آنا پڑا۔575ھ/1179ء میں شہاب الدین نے بکرام ،پرشور اور فرسور کے علاقوں کو فتح کیا،یہ وہ علاقے ہیں جہاں اب پشاور موجود ہے۔اس سے اگلے سال شہاب الدین نے یہ اندازہ لگایاکہ قرامطہ فرقے کو گجرات کے ہندو راجہ سے جو امداد ملتی ہے اس کو روکنے کا واحد حل سندھ کو فتح کر لیا جائے۔چناچہ شہاب الدین نے جنگی تیاریاں کیں اور576ھ/1180ء میں شہاب الدین کی فوج سندھ کے مشہور شہر دیبل پر حملہ آور ہوئی۔یہ شہر سمندر کے کنارے آباد تھا۔دیبل کے ساتھ ساتھ شہاب الدین نے دریائے سندھ کے مغربی کنارے کا سارا علاقہ فتح کر لیا،اور دیبل میں ایک ماتحت مقرر کر کے شہاب الدین واپس چلے گئے۔اس فتح کا یہ اثر ہوا کہ گجرات کے راجہ کی طرف سے جو مالی امداد قرامطہ فرقے کو ملتی تھی وہ ملنا بند ہو گئی۔
سنہ582ھ/1186ءمیں شہاب الدین نے لاہور کو فتح کر لیا۔آپ نے ملتان کے ساتھ لاہور کا شہر بھی ان کے حوالے کر دیا۔اب وہ پورا علاقہ شہاب الدین کی سلطنت میں شامل ہو چکا تھا جو موجودہ پاکستان پر مشتمل ہے۔شہاب الدین دیکھ رہے تھے کہ قرامطہ مسلسل ہندو راجہ کے ساتھ سازشیں کر کے مسلمانوں کے خلاف کاروائی کر تے رہتے ہیں ۔ اور ان ہندو راجاؤں نے شمالی ہندستان کے تمام علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے،جنہیں سلطان محمود غزنوئی نے فتح کیا تھا۔اسی لیے شہاب الدین نے یہ ضروری سمجھا کہ ان سر کش ہندو راجاؤں کے خلاف جہاد کا پر چم بلند کیا جائے،اور ان سے وہ تمام علاقے واپس لیے جائیں جو کبھی مسلمانوں کے پاس ہوا کرتے تھے۔اس سلسلے میں شہاب الدین نے سب سے پہلے587ھ/1192ءمیں بھٹنڈہ پر حملہ کیا اور قلعہ فتح کر لیا۔ بھٹنڈہ کی فتح کے بعد انہوں نے یہاں ضیا الدین کو حاکم مقرر کیا اور واپس روانہ ہوئے ہی تھے کہ انہیں اطلاع ملی کہ دہلی اور اجمیر کا راجہ پرتھوی راج ایک بہت بڑا لشکر لے کر بھٹنڈہ واپس لینے کے لیے آ رہا ہے۔اگرچہ اس وقت سلطان شہاب الدین کے پاس فوج بہت کم تھی لیکن وقت کی نزا کت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ہندو راجہ سے جنگ کرنا مناسب سمجھا۔پرتھوی راج کوئی معمولی راجہ نہ تھا۔وہ ایک بہاد اور کامیاب سپاہی تھا۔اس کی حکومت دہلی اور اجمیر سمیت بڑے علاقوں پر قائم تھی۔ہندو اس کے قصے اپنے گیتوں میں گایا کرتے تھے۔لیکن سلطان شہاب الدین اس سے بلکل بھی پریشان نہ ہوئے بلکہ انہوں نے خود اس جانب پیش قدمی شروع کی جہاں سے پرتھوی راج آ رہا تھا۔
تڑائن کے میدان میں دونوں فوجیں آمنے سامنے صف آرا ہوئیں۔پرتھوی راج کی فوج کیا تھی ،لشکریوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ 3ہزار جنگی ہاتھیوں نے لشکر کو مزید خوفناک بنا دیا تھا۔جنگ شروع ہوئی،شہاب الدین کے سپاہی ڈٹ کر لڑے،لیکن راجپوتوں کی تعداد بہت زیادہ تھی ،جس کی وجہ سے بہت سے مسلمان شہید ہوئے۔شہاب الدین نے تمام لشکر کو جمع کیا اور وہاں حملہ کیا جہاں پرتھوی راج کا بھائی اور اسکی فوج کا سپہ سالار "کھانڈے رائے"ہاتھی پر براجمان تھا۔شہاب الدین نے نیزہ سنبھال کرکھانڈے رائے پر حملہ کیا،یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ کھانڈے کہ دانت ٹوٹ گئےلیکن وہ سنبھل گیا اور اس نے پلٹ کر ایسا وار کیا کہ شہاب الدین غوری زخمی ہو گئے۔قریب تھا کہ شہاب الدین گھوڑے سے گر جاتے۔کہ ایک وفادار غلام نے آگے بڑھ کر شہاب الدین کے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور اس نے ایک ہاتھ میں گھوڑے کی لگام ار دوسرے ہاتھ سے شہاب الدین کو سنبھالا اور تلواروں کی پرواہ کیے بغیر میدان جنگ سے گھوڑا بھگا کر لے گئے۔
اگرچہ تڑائین کی اس جنگ میں شہاب الدین غوری کو کامیابی حاصل نہ ہو سکی،لیکن مسلمان سپاہیوں کی بہادری اور موت سے بے خوفی نے دشمن کو کافی ڈرا دیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ جب ترائین کی جنگ کے بعد پرتھوی راج نے "ہانسی"قلعے کا محاصرہ کیا تو وہاں کے حاکم " قاضی ضیا الدین"نے 13 ماہ تک دسمن کا ڈت کر مقابلہ کیا اور پھر کہیں جا کر ہتھیار ڈالے۔
سلطان شہاب الدین غوری کو ترائین کی جنگ میں ناکامی کا بڑا دکھ تھا۔کچھ ماہ ان کے زخم ٹھیک ہونے میں لگ گئے،لیکن وہ اس دوران چوٹ کھائے ہوئے شیر کی طرح بے چین رہے۔بعض تاریخی روایت کےمطابق ایک سال تک سلطان شہاب الدین غوری نے نیا لباس تک نہ پہنا،اور ہر طرح کے آرام کو ترک کر دیا۔سارا سال وہ جنگ کی تیاریاں کرتے رہے۔
588ھ/1193ء میں سلطان شہاب الدین غوری ایک بار پھر ترائین کے میدان میں جا پہنچے۔اس بار سلطان شہاب الدین غوری کے ساتھ 1لاکھ 20ہزار سپاہی موجود تھے۔جن میں سواروں کی تعداد 40 ہزار تھی۔سلطان شہاب الدین غوری کا لشکر جب لاہور پہنچا تو سلطان نے رکن الدین حمزہ کو سفیر بنا کر اجمیر بھیجا تاکہ وہ ہندو راجہ کو اسلام کی دعوت دے سکیں۔سلطان شہاب الدین غوری کا یہ طرزِ عمل ایک مسلمان جرنیل کے شایان شان تھا۔کہ انہوں نے جنگ سے پہلے دشمن کو اسلام کی دعوت دی۔لیکن پرتھوی راک نے اس دعوت کا جواب سخت الفاظ میں دیا اس کے علاوہ اس نے سلطان کو دھمکی دی کہ وہ لشکرکے کسی مسلمان سپاہی کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔پرتھوی راج نے ڈیڑھ سو ہندو راجاؤں کو مدد کے لیے بلا لیا تھا۔ چنانہ اب ہندو لشکر کی تعداد تین لاکھ تک جا پہنچی۔گزشتہ جنگ میں کامیابی کے باعث پرتھوی راج نے تڑائین کے میدان ک مبارک سمجھ کر اسی میدان میں جنگ لڑنےکا فیصلہ کیا۔
دریائے سرستی(سُرسوتی) کے دونوں کناروں پر دونوں فوجیں خیمہ سن ہو گئیں۔سلطان شہاب الدین غوری نے حجت کے لیے ایک بار پھر اپنے ایلچیوں کے زریعے پرتھوی راج اور اسکی فوج کو اسلام کی دعوت دی۔لیکن پرتھوی راج نے انکا کر دیا۔سلطان شہاب الدین غوری دیکھ رہے تھے کہ دشمن کا لشکر بہت بڑا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ جبکہ مسلمانوں کے لشکر میں اضافے کا کوئی امکان باقی نہیں ہے۔لیکن سلطان شہاب الدین غوری بلکل بھی نہ گھبرائے۔آپ نے اس جنگ میں غیر معمولی حکمتِ عملی کا ثبوت دیا۔انہوں نے فوج کو 5 حصوں میں تقسیم کیا اور حکم دیا کہ پہلے ایک حصہ حملہ کرے گا،اور پھر پسپائی اختیار کرتے ہوئے پیچھے ہٹ جائے گا اس دوران دشمن جوش میں تعاقب کرے گا جس سے دوسرا حصہ حملہ کر کے انہیں ختم کر دے گا۔سلطان شہاب الدین غوری نے ایک اور بہترین فیصلہ یہ کیا کہ راتوں رات انہوں نے اپنی فوج کو دریا عبور کروا ڈالا۔اگلے دن پرتھوی راج کےسپاہی ابھی سہی طرح سے اُٹھے بھی نہیں تھے کہ انہیں مسلمان لشکر نظر آیا اور اچانک سلطان شہاب الدین غوری نے حملہ کر دیا۔پرتھوی راج نے فوج کو ہنگاہی حالت میں منظم ہونےکا حکم دیا۔مسلمانوں کے نعروں سے میدان ِ جنگ گھونج اُٹھا۔سلطان شہاب الدین غوری کی جنگی حکمتِ عملی کام کر گئی۔سلطان شہاب الدین غوری کی فوج کا پہلا حصہ حملہ آور ہوا اورایک منصوبے کے تحت پسپا ہونے لگا۔پرتھوی راج کے سپاہی جوش میں آگے بڑھتے ہی چلے گئے، جوں ہی انکی فوج کی صفیں بے تر تیب ہوئیں سلطان کی فوج کے دوسرے حصے نے حملہ کر دیا،لڑائی مسلسل جاری تھی اور جنگ کا فیصلہ کسی ایک فریق کے حق میں ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا تھا۔دوپہر کے وقت پرتھوی راج نے ڈیڑھ سو ہندو را جاؤں کو ساتھ لیا اور ایک درخت کے سائے میں لے آیا۔سب نے تلواروں کے قبضوں پر ہاتھ رکھ کر قسمیں کھائیں کہ ماریں گے یا مر جائیں گے۔اور پھر یہ میدان جنگ میں اترے۔عصر کے قریب سلطان شہاب الدین غوری نے فوج کے پانچویں حصے کے خاص 12 ہزار سواروں کو میدان میں اتارا،اور ایک فیصلہ کُن حملے کا حکم دیا۔ سلطان کے اس دستے کا یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ اس میں پرتھوی راج کی فوج کا سالار کھانڈے رائے مارا گیا۔اس کے بعد پرتھوی راج بھی میدان سے بھاگ کھڑا ہوا۔لیکن مغرب کےقریب مسلمان سپاہیوں نے اسے قلعہ سر ستی کے قریب پکڑ کر قتل کرڈالا۔اس کے ساتھ ہی پرتھوی راج چوہان کاسورج غروب ہو گیا۔
یہ ایک فیصلہ کُن جنگ تھی۔مسلمانوں کی اس فتح کے بعد ان کے لیے وادی گنگا اور شمالی ہند کی فتوحات کا راستہ کھل گیا۔سلطان شہاب الدین غوری نے سر ستی،ہانی ،سامانہ،اور کہرام وغیرہ کے قلعے فتح کیے۔پھر سلطان نے اجمیر کو فتح کیا ۔لیکن یہاں سلطان نے رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے اجمیر میں پرتھوی راج کے بیٹے "اکولہ جی"کو اجمیر کا راجہ بنا دیا،اور ان سے سالانہ خراج کا وعدہ لے لیا۔یہاں سے سلطان شہاب الدین غوری دہلی پہنچے۔وہاں پرتھوی راج کا دوسرا بیٹا "رپن جی"حکمران تھا۔اس نے بڑی عاجزی کا ثبوت دیا۔سلطان شہاب الدین غوری نے عالیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا اور پرتھوی راج کے اس دوسرے بیٹے کو دہلی میں حکومت کرنے کی اجازت دے دی۔سلطان شہاب الدین غوری دہلی میں داخل تک نہ ہوئے اور کہرام(دہلی سے 70میل دور شہر) میں اپنے تربیت کردہ غلام "قطب الدین ایبک" کوحکمران بنا کر خور دہلی واپس چلے گئے۔سلطان شہاب الدین غوری نے قطب الدین ایبک کو دہلی میں اپنا نائب مقرر کیا۔
میرٹھ میں پرتھوی راج کا کوئی رشتے دار حکومت کر رہا تھا۔سلطان شہاب الدین غوری چاہتے تو میرٹھ پر قبضہ کر سکتے تھے ,لیکن آپ نے میرٹھ کے راجہ کو حکومت کرنے دی۔بدلے میں میرٹھ کے راجہ نے دہلی کے راجہ کے ساتھ اتحاد کر کے سلطان کے خلاف ایک محاز قائم کر لیا۔جب قطب الدین ایبک کو خبر ملی تو انہوں نے آگے بڑھ کر میرٹھ اور دہلی پر کو فتح کر لیا۔پھر جب علی گڑھ کے ہندو راجہ نے حملےکی تیاری کی تو ایبک نے علی گڑھ بھی فتح کر لیا۔اب مسلمانوں کی سرحدیں قنوج کے ہندو راجہ کی سرحد کو چھو رہی تھی۔ ہندو راجہ جے چند نے خطرے کو سر پر منڈلاتا دیکھ کر گوالیار،اودھ، بہار وغیرہ کے راجاؤں سے مدد مانگی اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں کرنے لگا۔جب قطب الدین ایبک نے یہ صورتحال دیکھی تو انہوں نے سلطان شہاب الدین غوری کو خبر دی۔سلطان شہاب الدین غوری اطلاع ملتے ہی دہلی کی طرف روانہ ہو گئے۔دہلی پہنچ کر سلطان شہاب الدین غوری نے کچھ فوج قطب الدین ایبک کو دے کر ہر اول دستے کے طور پر روانہ کیا،اور باقی لشکر لے کر روانہ ہو گئے۔قطب الدین ایبک ایک ماہر سپہ سالار تھے۔ انہوں نے باقی فوج کا بھی انتظار نہ کیا اور فوج لے کر جند واڑہ کے مقام پر جہاں جے چند کی فوج جمع تھی۔ وہاں دشمن پر حملہ کر دیا اس جنگ میں ہندو راجہ جے چند "قطب الدین ایبک"کے تیر سے مارا گیا،اور اس کا لشکر بھاگ کھڑا ہوا۔یوں مسلمانوں کا قنوج پر بھی قبضہ ہو گیا۔یہ واقعہ591ھ/1194ء کاہے۔ اس کے بعد سلطان شہاب الدین غوری نے بنارس پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔
592ھ/1195ءمیں سلطان شہاب الدین غوری پھر ہندستان آئے اور انہوں نے تھنکر(بیانہ) کا قلعہ فتح کیا۔ پھر سلطان شہاب الدین غوری نے قلعہ گوالیار کا محاصرہ کیا لیکن کسی وجہ سے سلطان شہاب الدین غوری کو واپس غزنی جانا پڑا ،اور انہوں نے یہ زمہ داری بہاالدین ظفر کو دے دی۔اس دوران قطب الدین ایبک نے گجرات ،بند یلکھنڈ میں کالنجر، کالپی اور روہیلکھنڈ میں بدایوں فتح کیا۔دوسری جانب قطب الدین ایبک کے ایک اور عہدے دار محمد بختیار خلجی نے بہار،بنگال اور آسام کو فتح کر کے ان علاقوں کو بھی اسلامی سلطنت میں شامل کر لیا ۔یوں چند سالوں کےاندر اندر مسلمانوں کی سلطنت غزنی سے مشرقی خلیج بنگال اور جنوب میں بحیرہ عرب تک پھیل چکی تھی۔
599ھ میں سلطان شہاب الدین غوری کے بھائی غیاث الدین کا انقال ہوا۔ ان کی وفات کے بعد پوری غوری سلطنت کی زمہ داری سلطان شہاب الدین غوری کے شانوں پر آ پڑی۔غیاث الدین غوری خوارزم کے محاز پر لڑ رہے تھے سو سلطان شہاب الدین غوری کو بھی اس محاذ پر جانا پڑا۔ ان کےمقابلے میں کفار جو کہ ترکستان،قرہ خطائی اور بعض دیگر طاقتیں تھیں۔601ھ/1204ءمیں سلطان شہاب الدین غوری اند خود( آج کل اند خوئی کہلاتا ہے،جو کہ بلخ کے مغرب میں ہے) پہنچے تو کفارِ ترکستان کا لشکر آ پہنچا۔مسلمانوں کی فوج کے سالار عزالدین حسین خرمیل تھے۔انہوں نے حملہ کر کے دشمن کو مار بھگایا اور دشمن کا تعاقب کرنے کے لیے انہوں نے سلطان شہاب الدین غوری سے اجازت طلب کی۔سلطان شہاب الدین غوری نے اس موقع پر کہا کہ:)
"میں سالہا سال سے ایسے ہی جہاد کا آرزو مند تھا،اب میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہم جنگ لڑیں گے اور ہم دیکھیں گے کہ،اللہ کی ذات کسے فتح دیتی ہے،مجھے کم از کم سنت کے مطابق جہاد کرنے کا ثواب تو مل جائے گا"
اس دوران کفار کو کُمک مل گئی لیکن سلطان شہاب الدین غوری نے پھر بھی جنگ لڑی ،جس سے بہت سے مسلمان شہید ہوئے۔بہت تھوڑے سے سپاہی سلطان شہاب الدین غوری کے ساتھ رہ گئے تھے۔ آخر کار سلطان شہاب الدین غوری کے ایک غلام "اوریبیہ"نے آگے بڑھے اور سلطان شہاب الدین غوری کو کھینچ کر قلعے میں لے گئے۔اگلے دن ترکستان کے بعض سرداروں (جو کہ مسلمان ہو گئے تھے) کی کوششوں سے صلح ہو گئی،اور قرہ خطائی واپس چلے گئے۔
16رجب 602ھ/26فروری 1206ء کو سلطان شہاب الدین غوری لاہور سے غزنی واپس روانہ ہوئے۔اس سے پہلے سلطان شہاب الدین غوری حکم دے چکے تھے کہ ترکستان پر حملے کی تیاریاں کی جائیں۔سلطان شہاب الدین غوری قرہ خطائیوں پر حملے کا ارادہ کر چکے تھے۔ لاہور سے روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے بامیان کے حاکم ملک بہا و الدین کے نام خط لکھا کہ"ہم ترکستان کی غیر مسلم آبادی پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ۔تم بامیان کی فوج کو جمع کر ک ے روانہ ہو جاؤ اور دریائے جیحوں کے کنارے خیمے گاڑ کر دریا پر پل باندھ دو"ممکن تھا کہ آنے والے چند سالوں میں سلطان شہاب الدین غوری اسلام کا پر چم ترکستان تک پھیلا دیتے۔لیکن جب آپ پنجاب کے ضلع جہلم میں دمیک کےمقام پر پہنچے،اور سلطان کے قافلے نے دریا کے کنارے خیمے گاڑھ دیے تو کہا جاتا ہے کہ"رات کے وقت ملاحدہ سے تعلق رکھنے والے چند افراد نےسلطان شہاب الدین غوری کے خیمے پر حملہ کر دیا،اس وقت سلطان شہاب الدین غوری عشا کی نماز ادا کر رہے تھے۔حملہ آوروں نے عالم اسلام کے اس عظیم جرنیل کو حالتِ نماز میں ہی شہید کر دیا،یہ 602ھ/14مارچ 1206ء کا دن تھا"سلطان شہاب الدین غوری کا میت کو غزنی لے جایا گیا۔ انہیں اس عمارت میں دفن کیا گیا جو کہ انہوں نے اپنی بیٹی کے لیے بنوای تھی۔ سلطان شہاب الدین غوری نے 63 برس کی عمر پائی،اور تقریباً 33 سال حکومت کی۔
سلطان شہاب الدین غوری کا کوئی بیٹا نہ تھا۔آپ کی صرف ایک بیٹی تھی۔کسی نے ایک بار اس پر افسوس کا اظہار کیا تو سلطان شہاب الدین غوری نے خوبصورت جواب دیتے ہوئے کہا کہ:۔
"میرا اگر بیٹا نہیں تو کیا ہوا ،میرے اتنے سارے غلام ہیں جن کو میں نے بیٹوں کی طرح پالا ہے،جن کی تعلیم و تربیت پر میں نے بے حد محنت کی ہے،وہ سب فرزندوں کی طرح میرا نام روشن کریں گے"
سلطان شہاب الدین غوری یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ان کے جانشین(خاندانِ غلاماں کے حکمران) ان کا نام خطبے میں لیتے رہے۔
تبصرہ کریں