سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ کیسے مسلمانوں کے ہیرو بنے؟
صلاح الدین ایوبی ؒ جو مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھیں جاتے ہیں۔صلاح الدین ایوبی کا شمار قرونِ وسطیٰ کی مشہور اور طاقتور ترین شخصیات میں کیا جاتا ہے۔یہی وہ شخص ہیں جنہوں نے "ایوبی سلطنت" کی بنیاد رکھی تھی،اور یہ شرف بھی صلاح الدین ایوبیہی کو حاصل ہے کہ وہ پہلے سلطان ہیں جن کی سلطنت دونوں مقاماتِ مقدسہ تک پھیلی ہوئی تھی اور وہ محافظِ اسلام بھی تھے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کیسے کُرد گھرانے کا ایک عام سا بچہ "سلطان صلاح الدین ایوبی" بنا؟
صلاح الدین ایوبی1138ءمیں پیدا ہوئے اور آپکی وفات 1193ءمیں ہوئی۔صلاح الدین ایوبی مصر اور شام کے سلطان تھے۔اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی شہرت کی خاص وجہ حطین کی جنگ میں عیسائیوں کی متحدہ افواج کو شکست دینا تھی۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ءمیں یروثلم کو عیسائیوں سے آزاد کروایا تھا۔سلطان نے اقتدار میں آتے ہی مشرقی مصر سے انہوں نے اسلامی فوج کو جمع کیا،اور اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا۔سلطان صلاح الدین ایوبی کی وجہ شہرت انکی جنگی حکمتِ عملی اور سیاسی پوزیشن تھی۔لیکن ان دونوں سے زیادہ وہ اپنی شخصیت کی وجہ سے مشہور تھے۔سلطان صلاح الدین ایوبی کے والد نجم الدین ایوب بغداد کے قریب تکریت کے ایک قلعے کےگورنر مقرر تھے۔سلطان صلاح الدین ایوبی اپنی جوانی میں پولو کے بہترین کھلاڑی تھے،اورگھڑ سواری میں انکا کوئی ثانی نہ تھا۔اپنی بے پناہ بہادری کی بنا پر وہ اپنے چچا "شیرِ کوہ" کے ساتھ ایک جنگی مُہم میں چلے گئے جہاں انہوں نے بے پناہ بہادری کی مثال قائم کی۔اس جنگی مُہم میں کامیابی کے بعد سلطان نور الدین زنگی نے انہیں 1169ءمیں مصر کا حاکم بنا کر روانہ کیا۔اور بہت جلد سلطان نور الدین زنگی کی جانب سے سلطان ایوبی کو مصر کا گورنر بنا کر بھیجاگیا۔اُس وقت کے لوگوں کے مطابق سلطان صلاح الدین ایوبی درمیانے قد،گول چہرے ،کالی آنکھوں اور کالے بالوں کے مالک تھے۔
سنہ1174ءمیں جب سلطان نور الدین زنگی کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔تو انکی وفات کے بعد بہت سے حاکم اور اُمرا خود مختار ہو گئے اور زنگی سلطنت خانہ جنگی کا شکار ہو گئی۔یہاں سلطان صلاح الدین ایوبی نے خود کو سلطان ڈکلئیر کیا اور انہوں نے باغی سرداروں اور امیروں کی بغاوت کو کچل ڈالا۔سلطان بننے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے مصر میں اپنی حکومت کو مستحکم کیا اور انہوں نے1174ءمیں دمشق کو فتح کر کے اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔
پھر سلطان صلاح الدین ایوبی نے قاہرہ میں قائم فاطمی خلافت کا خاتمہ کیا جو آئے دن سلطان کے خلاف سازشیں کیا کرتی تھی۔قرون وسطیٰ کے مسلمان انہیں مقاماتِ مقدسہ کا محافظ کہا کرتے تھے۔ پھر سلطان نے تمام اُمتِ مسلمہ کو ایک جھنڈے تلے متحد کیا ،اور باغی امیروں کو مطیع کر کے ان سے اتحاد کر لیا۔شروع شروع میں سلطان صلاح الدین ایوبی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن سلطان ہار ماننے والوں میں سے ہر گز نہیں تھے۔1175ءمیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے حمس کے قریب ایک عیسائی فوج کو شکست دی۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی حکومت کی سند بغداد کے عباسی خلیفہ سے حاصل کی۔ جہاں انہیں یمن،مصر اور شام کے سلطان کی حیثیت سے سند عطا کی گئی،لیکن حلب کو آپکی سلطنت میں شامل کرنے کی بجائے اسے آزاد شہر تسلیم کیا گیا۔جو سلطان نور الدین زنگی کے بیٹے کے دائیرہ اختیار میں آتا تھا۔سلطان نور الدین زنگی کےبیٹے صالح نے ہمیشہ سلطان صلاح الدین ایوبیکی لیے مشکلات ہی کھڑی کیں ،الصالح نے عیسائیوں سے اتحاد کر لیاتھا اوراُن ہی کے اشاروں پر جب سلطان عیسائیوں سے جنگ کرنے لگتے تو وہ بغاوت کر دیتا۔
جب عیسائیوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی پر حشاشین کے زریعے 2 قاتلانہ حملے کرائے تو سلطان نے ان کرائے کے قاتلوں سے نمٹنے کے لیے ان کے قلعے پر حملہ کر دیا،اور طویل محاصرے کے بعد اس قلعے کو زمین کے برابر کر دیا گیا۔1177ءمیں سلطان کو ایک فرنگی لشکر نے شکست دی،لیکن سلطان نے یہاں عقلمندی سے کام لیتے ہوئے اُردن کے ایک عیسائی قلعہ دار کو گرفتار کرتے ہوئے اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کر دیا۔سلطان نے عیسائیوں کو باور کروا دیا تھا کہ اب وہ بیت المقدس کو آزاد کر کے رہیں گے۔لیکن عیسائی سلطان کی فیاضی اور فراخ دلی سے بھی متاثر تھے۔مسلمان سلطان صلاح الدین ایوبی کو عالمِ اسلام کا محافظ سمجھتے تھے،خاص کر صلیبی عیسائیوں کے خلاف جنگوں میں سلطان کی بہادری پر تو عرب اور غیرِ عرب سلطان پر جان نچاور کیا کرتے تھے۔1183ءمیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے حلب پر حملہ کر کے اسے بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے مصر میں ایک مضبوط فوج تیار کی جو عیسائیوں کے حملوں کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی تھی۔1185ءکے آس پاس سلطان صلاح الدین ایوبی نے موصل شہر پر بھی اپنا کنٹرول حاصل کر لیا ۔اس دوران یروثلم پر تخت کے لیے کھینچا تانی ہو رہی تھی۔فرنگیوں نے 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے ایک قلعے کرک پر حملہ کر دیا ۔اس قلعے کا کماندار سلطان صلاح الدین ایوبی کا بیٹا تھا۔
عیسائیوں کے اس حملے کی وجہ سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے فوجوں کو جمع کرنا شروع کر دیا ،یہ فوجیں جزیرہ،حلب،شام اور مصر سے جمع کی گئیں تھیں۔عیسائیوں نے بھی اپنی فوجوں کو جمع کیا اور انہوں نے حطین کی طرف پیش قدمی شروع کی۔جولائی کے شروع میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے ابتدائی دستوں نے صلیبی ہر اول دستوں پر حملہ کر کے انہیں شکست دی۔4جولائی کو سلطان صلاح الدین ایوبی مرکزی لشکر کے ساتھ حطین کے مقام پر جا پہنچے۔سلطان کے ساتھ 60ہزار کا طاقتور ترین لشکر تھا ،جسکا سامنا عیسائیوں کے اُس لشکر سے تھا جس کی کمان"گی آف لوزنیان"کر رہا تھا۔جو اُس وقت یروثلم کا بادشاہ تھا۔اس کے ساتھ 1300نائیٹس اور 38ہزار کاباقی لشکر تھا۔سلطان نے یہاں حاضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے بہترین جگہ کا انتخاب کیا اور پانی پر قبضہ کر لیا۔پھر سلطان کی فوج نے میدان میں لگے گھاس کو آگ لگا دی جس سے کہ میدانِ جنگ عیسائیوں کے لیے بد سے بد تر ہو گیا۔لیبیا کے بادشاہ"ریمانڈ" نے اپنے دستوں کے ساتھ سلطان کے محاصرے کو توڑنا چاہا، جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوا،لیکن اب باقی لشکر سلطان صلاح الدین ایوبی کے رحم و کرم پہ تھا۔یہاں خون ریز جنگ ہوئی اور سلطان صلاح الدین ایوبی فاتح کرار پائے۔اس جنگ میں تمام عیسائی بادشاہ اور گورنر سلطان کے قیدی بنے ۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے ان کے ساتھ نہایت رحمانہ سلوک کیا اور ان سب کو آزاد بھی کر دیا،لیکن انہوں نے رینالڈ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا جو کہ اسی کا حقدار تھا۔صلیبی نائیٹس جو مسلمانوں کااصل قاتل تھے سلطان نے انہیں بھی قتل کرنے کا حکم دیا۔
ستمبر1187ءمیں فاتح سلطان اپنی فوجوں کے ساتھ یروثلم جا پہنچے ،اور وہاں تھوڑی بہت مزاحمت کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی اپیل کی۔سلطان نے تمام اہل شہر کی جان بخشی کی اور سلطان مسجد ِ اقصیٰ داخل ہوئے۔اس فتح کے بعد تیسری صلیبی جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔جیسے ہی سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتح کی خبر یورپ پہنچتی ہے تو عیسائی پوپ"گریگری"تیسری صلیبی جنگ کا اعلان کرتا ہے۔تاکہ وہ مسلمانوں سے یروثلم واپس چھین لے۔پوپ کے اس اعلان پر انگلینڈ،جرمنی اور فرانس کے بادشاہ متحد ہو کر سلطان کے خلاف یورپ سے روانہ ہوتے ہیں۔مشرقِ وسطیٰ پہنچ کر وہ گی آف لوزنیان کے ساتھ مل کر سلطان کے ایک شہر عکہ کا محاصرہ کرتے ہیں۔اور جولائی 1191ء کو یہ شہر عیسائی فتح کر لیتے ہیں۔اب انکا اگلا نشانہ بہت المقدس ہو تا ہے،اور اس دوران انکی سلطان سے بے شمار جنگیں ہوتی ہیں۔
ستمبر 1191ءمیں ارسوف کے میدان میں سلطان کی عیسائیوں کے ساتھ جنگ ہوئی۔جس میں سلطان کو شکست ہوئی۔اور پھر جعفہ کے میدان میں بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ان سب کے باوجود سلطان نے سوائے عکہ شہر کے عیسائیوں کو کسی اور شہر پرقبضہ نہ کرنے دیا ،اور عیسائی بیت المقدس کو بنا فتح کیے ناکام واپس یورپ چلے گئے۔
اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی تقریباً2 سال زندہ رہے،اور آخر کار 4مارچ1193ء کو سلطان صلاح الدین ایوبی کا انتقال ہوا۔اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی کی عمر 56 سال تھی۔سلطان نے اپنے پیچھے ایک طاقت ور ترین سلطنت چھوڑی جو"ایوبی سلطنت"کہلاتی تھی۔اس سلطنت کی بنیاد 1174ءمیں پڑی اور اسکا اختتام 1250ء میں مملوکوں کے ہاتھوں ہوا۔سچ تو یہ ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو آج بھی نہ صرف مسلمان بلکہ یورپ کے متعصب عیسائی بھی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
تبصرہ کریں