ملک الظاہر بیبرس

جب سلطان صلاح الدین ایوبی کے  تخت پر ملک الصالح نے 637ھ/بمطابق1274عیسویٰ کو   اقتدار سنبھالا تو ان کے حکمراں بننے سے پہلے ہی ساتویں صدی ہجری کے دوسرے عشرے میں تاتاریوں نے  دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھ لیا تھا۔ بے شمار  مسلمانوں کو غلام بنا کر تاتاریوں نے فروخت کیا۔تاتاریوں کے ہاتھوں جو غلام فروخت ہوتے  تھے وہ مملوک کہلاتے تھے۔

ملک الظاہر بیبرس کو بھی سلطان ملک الصالح نے خرید کر انہیں جنگی علوم و فتون کی اعلیٰ تعلیم دلوائی ۔ملک الظاہر بیبرس کی اعلیٰ ذہانت سے متاثر ہو کر ملک الصالح نے انہیں ایک دستے کی کمان سونپ دی۔اسی زمانے میں ساتویں صلیبی جنگ شروع ہو گئی،یہ جنگ فرانس کے "لوئی نہم" کی قیادت میں شروع ہوئی تھی،اور صلیبیوں نے اس بار مصر کو خصوصی طور  پر نشانہ بنایا تھا۔ان کا خیال تھا کہ وہ مصر پر قبضہ کر کے بیت المقدس کو فتح کر لیں گے۔وہ اس لیے کہ اس زمانے میں مصر ہی عالم اسلام کا سب سے بڑا مرکز تھا۔مسلمانوں اور صلیبیوں کے مابین منصورہ کے مقام پر ایک خونریز جنگ ہوئی جس میں ملک الظاہر بیبرس نے کمال بہادری کا ثبوت دیا۔

پھر 652ھ/بمطابق  1254عیسویٰ کو مملوک مصر پر قابض ہوگئے۔مملوکوں کا مصر پر یہ عہدِ ذریں پونے تین سو سال کے عرصے پر محیط ہے۔مملوک سلطنت کے پہلے سلطان کا نام "معز الدین ایبک"تھا۔ان کے بعد حکومت  "الملک منصور " نے سنبھالی۔ان کے دور میں تاتاریوں کا فتنہ عروج پہ تھا۔کیونکہ منگول اب مصر اور شام کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے۔منگولوں کے ان حملوں کے پیشِ نظر "سلطان منصور" کےکم عمر ہونے کی وجہ سے  اجلاس نے "سیف الدین قطز" کو 657ھ/بمطابق 1259 عیسویٰ میں  انہیں مصر کا سلطان بنا دیا۔انہوں نے اپنے لیے ملک مظفر کا لقب  پسند کیا۔

کچھ ہی عرصے بعد منگولوں کا طوفان قاہرہ میں ایک دھمکی آمیز خط کی صورت میں مملوک سلطان کے سامنے تھا۔اس خط کے جواب میں  سلطان بیبرس نے منگول سفیر کو قتل کر کے ان کی لاشیں قاہرہ کے بازاروں میں لٹکا دیں ۔سلطان کے جواب سےصاف ظاہر تھا کہ منگول مصر پر حملہ کریں گے سو ایسا ہی ہوا ،منگول سفیروں کے قتل کی خبر سنتے ہی "ہلاکو خان" اپنے ٹڈی دل لشکر کے ساتھ مصر کی طرف روانہ ہوا۔اس پیش قدمی کے دوران اچانک ہلاکو خان کو اس وقت کےمنگول خان اور ہلاکو کے بڑے بھائ"منگو خان"کی موت کی خبر ملی  جس کی وجہ سے ہلاکو  خان  کو منگولیا واپس جانا پڑا۔ہلاکو خان نے اپنے سالار "کتبغا" کی قیادت میں ایک بڑی فوج کو چھوڑا اور باقی فوج کے ساتھ وہ منگولیا چلا گیا۔اس کے سالار نے  مشہور فلسطینی شہر منصورہ کے پاس "عین جالوت"کے مقام پر پڑاو ڈالا۔

یہاں اچانک مملوک سلطان  بیبرس نے ایک فیصلہ کیا  انہوں نے اعلان کیا کہ  ہم بجائے مصر کا دفاع کریں ہم میدان میں منگولوں سے لڑنے جا رہے ہیں ۔ یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ سلطان بیبرس کے اس اعلان نے مسلمانوں  کے اندر ایک بجلی بھر دی تھی۔

جمعہ کے دن  15رمضان المبارک 658 ھ/بمطابق 25اگست 1260 عیسویٰ کا وہ تاریخی دن تھا جب مسلمان لشکر منگولوں کا ناقابل شکست ہونے کا غرور توڑنے کے لیے عین جالوت کے مقام پر پہنچ چکے تھے۔عین جالوت کے مقام پر مسلمانوں اور منگولوں کے درمیان ایک خون ریز معرکہ ہوا جس میں منگولوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔اس جنگ میں منگول سالار "کتبغا" بھی  بیبرس کے ہاتھوں مارا گیا ،ہزاروں منگول مسلمانوں کے قیدی بنے۔عین جالوت کی یہ جنگ اسلامی تاریخ کی مشہور ترین جنگوں میں شامل ہوتی ہے۔اس عظیم فتح کے بعد مملوک سلطان نے دمشق،شام،حلب اور حماۃ کے شہروں پر حملہ کر کے منگولوں کو مار بھگایا۔

جب بیبرس واپس قاہرہ پہنچے تو  مملوکوں نے انہیں  مصر کا نیا فرمانروا منتخب کر لیا۔بیبرس نے حکومت سنبھالنے کے بعد  اپنے نام کے ساتھ ملک الظاہر کا  لقب پسندکیا۔کچھ ہی عرصے کے بعد اہل شام والوں نے بھی بیبرس کو اپنا حکمران تسلیم کر لیا۔یوں شام بھی مملوکوں کی سلطنت کا حصہ بن گیا۔

جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تھا  تو اس کے ساتھ ہی "عباسی خلافت" کا خاتمہ ہو گیا تھا۔سلطان بیبرس نے خلافت کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوے عباسی خاندان کے کسی فرد کو تلاش کروایا۔ تلاش کے دوران اس خاندان کے ایک فرد "ابو القاسم احمد"کا سراغ ملا،سلطان نے انہیں قاہرہ بلوایا اور ان کا شاندار استقبال کیا،اور تمام شہادتوں کے بعد  انہیں خلیفہ منتخب کیا گیا۔سلطان بیبرس نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور سکے اور خطبے میں خلیفہ کا نام شامل کیا گیا۔یوں سلطان بیبرس کی حکومت میں  مسلمان پھر خلافت کی نعمت سے نوازے گئے۔لیکن چند ماہ بعد  ابو القاسم احمد بغداد کو تاتاریوں کے ہاتھوں واپس لینے کی ایک مہم کے دوران لاپتہ ہو گئے،سلطان بیبرس نے خاندانِ عباسیہ کے ایک اور  رکن  ابو العباس احمد کو خلیفہ متخب کیا ۔وہ مجاہدانہ  مزاج کے انسان تھے کیوں کہ انہوں نے منگولوں کے خلاف بہت سی جنگوں میں حصہ لیا  تھا۔ وہ مصر کے دوسرے خلیفہ تھے۔آپ کو الحاکم امر بااللہ کا لقب دیا گیا۔ ان کی  خلافت 40 سال کے عرصے پر محیط ہے۔مصر میں عباسی خلافت مملوکوں  کے دورِ اختتام 923ھ/بمطابق 1517عیسویٰ تک قائم رہی اس کے بعد خلافت  ترکوں(سلطنت عثمانیہ) میں چلی گئی۔

سلطان بیبرس کے سلطان بننے کے بعد  چنگیز خان کے ایک پوتے "برکہ خان " نے اسلام قبول کر لیا اور منگولوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ سلطان نے بیدار مغز ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے برکہ  خان سے دوستانہ تعلقات قائم کر لیے۔یوں برکہ خان کی سلطنت میں لوگ مسلمان ہونے لگے۔جب ہلاکو خان  نے مصر اور شام پر حملے کا ارادہ کیا تو برکہ خان نے ہلاکو خان کی سلطنت پر حملہ کر دیا۔اس طرح ہلاکو خان  کی توجہ بٹ گئی اور وہ اپنی سلطنت کی حفاظت میں الجھ گیا۔

اُدھر سلطان بیبرس نے  قسطنطنیہ کے بادشاہ قیصر روم کو منگولوں کی معاونت سے روک دیا تھا۔  کچھ ہی عرصے کے بعد ہلاکو خان اور اس کی بیوی کی موت ہو گئی۔ اس طرح تاتاریوں کی قوت کا  کسی حد تک خاتمہ ہو گیاتھا۔پھرسلطان بیبرس نے صلیبیوں کی طرف توجہ دی۔

662ھ/بمطابق1263عیسویٰ  میں سلطان نے عیسائیوں کے خلاف زبر دست تیاریاں شروع کیں ۔ سلطان کا پہلا نشانہ"کرک" کا مضبوط قلعہ تھا۔ جہاں کے صلیبی حج کے لیے جانے والے مسلمان قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔اس قلعہ کو فتح کرنے کے بعد سلطان بیبرس نے  "قیساریہ"  قلعہ فتح کیا۔ اس کے بعد ارسوف اور یافا(موجودہ تل ابیب) پر بھی سلطان نے اسلام کا چھنڈا نصب کیا۔اس کے بعد سلطان نے صلیبیوں کے مضبوط مرکز انطاکیہ پر حملہ کیا 6 دن کی خون ریز جنگ کے بعد یہ شہر فتح ہوا تھا۔اس کے بعد سلطان نے ارمینیہ کو فتح کیا۔

سلطان کی  ان پے درپے فتوحات سے صلیبی لرز کر رہ گئے۔ انہوں نے سلطان کے پاس صلح کی درخواستیں بھیجنا شروع کر دیں ۔ سلطان بیبرس نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوے چند شرائط پر صلیبیوں سے صلح کر لی۔یہ معاہدہ 10سال10ماہ اور10دن کے لیے کیا گیا تھا۔

675ھ/بمطابق 1277عیسویٰ میں ہلاکو خان کے بیٹے اباقا خان نے  ایک زبر دست لشکر کے ساتھ فلسطین ،اور شام  کو فتح کرنے کی غرض سے نکلا ،سلطان نے بھی ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا اور پیش قدمی کرتے ہوے شام اور فلسطین کی سرحد کے پاس "ابلستین"کے مقام پر پڑاو ڈالا۔"بئرالتاب"کے میدان میں تاتاریوں اور مملوکوں کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ ہوئی جس میں تاتاریوں کو ذلت آمیز شکستکا سامنا کرنا پڑا۔

676ھ/بمطابق 1277 عیسویٰ کو سلطان بیبرس دمشق میں  مقیم تھے۔ان ہی دنوں میں سلطان کو بخار ہو گیا۔بعض مئورخین کے مطابق "ابلستین"کی جنگ مین سلطان کو  ایک کاری زخم آیا تھا،یہ اسی کا اثر تھا کہ اب انہیں بخار ہو گیا تھا۔اطباء نے اپنے محبوب سلطان کی جان بچانے کی سر توڑ کوشش کی،لیکن اب سلطان کی زندگی کے دن پورے ہو چکے تھے۔27محرم 676ھ/بمطابق 30 جون 1277 عیسویٰ کو  عالم اسلام کے عظیم سلطان "بیبرس"اس دنیا سے انتقال فر ماگئے۔اس وقت سلطان کی عمر 57 برس تھی۔ سلطان بیبرس کو دمشق میں دفنایا گیا تھا،یہ وہ عظیم شہر ہے جہاں 2 اور محبوب شخصیات "سلطان صلاح الدین ایوبی اور سلطان  نور الدین زنگیؒ"آرام فرما رہے ہیں ۔

 

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

سلجوقی سلطنت کے قیام اور زوال کی مکمل داستان

سلجوقی سلطنت کو عالم اسلام کی چند عظیم سلطنتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سلجوقی سلطنت کا قیام "گیارہویں" صدی عیسوی میں ہوا۔ سلجوق در اصل نسلاََ    اُغوز ترک تھے۔اس عظیم سلطنت کا قیام"طغرل بے"اور"چغری…

مزید پڑھیں
سپین میں مسلمانوں کا 800 سالہ دور حکومت

جزیرہ نما آیبیریا   جو کہ ہسپانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مغربی رومی سلطنت کے ختم ہو جانے کے بعدیہاں پر مکمل طور "گاتھک" خاندان کی حکومت قایم ہو گی۔لیکن انکی یہ حکومت زیادہ عرصہ…

مزید پڑھیں
قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں