سلطان نور الدین زنگیؒ جنہوں نے سب سے پہلے صلیبیوں کے خلاف جہاد شروع کیاتھا۔
زنگی سلطنت کے دوسرے سلطان "سلطان نور الدین زنگی" عالم اسلام کے قابلِ فخر جرنیل تھے۔"سلطان نور الدین زنگی" 13شوال 511ھ/7فروری 1118ء کو موصل میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد عماد الدین زنگی زنگی سلطنت کے بانی تھے۔سلطان نور الدین زنگی جب چار سال کے ہوئے تو آپ کو مدرسے میں داخل کروا دیا گیا۔اس دوران عماد الدین زنگی واسط کے حکمران تھے۔سلطان نور الدین زنگی جب سولہ برس کے ہوئے تو اُنہوں نے قرآن کریم،فقہ اور حدیث میں کمال مہارت حاصل کر لی تھی ۔اس کے ساتھ ساتھ سلطان نور الدین زنگی نے گھڑ سواری،نیزہ بازی، تلوار بازی اور جنگی چالیں بھی سیکھ لی تھیں۔ انہوں نے اپنی سپاہیانہ تربیت کا ثبوت عکہ،شیزر، بعرین، اور ایڈیسہ(الرہا) کی جنگوں میں شامل ہو کر دیا۔
541 ہجری میں جب سلطان نور الدین زنگی کے والد کا انتقال ہوا تو اس وقت سلطان نور الدین زنگی کی عمر 30 برس تھی۔اپنے والد عماد الدین کے وفات کے بعد حکومت کی باگ ڈور ان کے پاس آ گئی تھی۔ اب سلطان نور الدین زنگی کا بڑا مقصد بیت المقدس کو فتح کرنا تھا۔الرہا(ایڈیسہ) کا عیسائی حکمران"جوسلن ثانی" الرہا سے فرار ہو کر دریائے فرات کے مغرب میں موجود شہر تل باشر میں جا چھپا تھا۔لیکن سلطان عماد الدین کی وفات کی خبر کو سن کر جوسلن ثانی نے الرہا کی عیسائی عوام سے ساز باز کر لی اور 541ھ/بمطابق نومبر 1146ء میں اس نے الرہا پر حملہ کر دیا۔یہ حملہ رات کے اندھیرے میں مکر و فریب سے کیا گیا تھا۔ لیکن خوش قسمتی سے اس وقت الرہا کے مسلمان شہر میں چوکس تھے انہوں نے شہر کے دروازوں کو بند کر دیا۔ادھر جب سلطان نور الدین زنگی کو عیسائی بادشاہ کے اس حملے کی خبر ملی تو انہوں نے فوراً 10 ہزار کا لشکر تیا کیا اور آندھی اور طوفان کی طرح الرہا پہنچ گئے۔
جب اگلے دن جوسلن ثانی نے سلطان کی فوج کو دیکھا تو ان کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔کیونکہ شہر کے اندر سے مسلمانوں نے حملہ کر دیا تھا اور عقب سے سلطان نور الدین زنگی کی فوج نے حملہ کر دیا تھا۔شام تک خون ریز جنگ ہو تی رہی۔اس خون ریز معرکے میں 10 ہزار عیسائی فوجی مارے گئے تھے،جوسلن ثانی سخت پریشان ہوا کیونکہ اس کے ساتھ اب صرف 20 وفادار افسر رہ گئے تھے۔ اس نے ان بچے کچھے افسروں کے ساتھ قلعے کے ایک برج میں پناہ لے لی ،جب مسلمانوں کو اس کی خبر ملی تو انہوں نے اس برج کو بارود کی سرنگ سے اڑا دیا لیکن پھر بھی جوسلن ثانی کسی طرح جان بچانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس شہر کی فتح سے عیسائی دنیا میں ماتم بچھ گیا۔چناچہ عیسائی بادشاہوں نے صلیب کے نام پر عوام کو مشتعل کیا اور مسلمانوں کے خلاف ایک فوج تیار کی گئی۔ فرانس کے بادشاہ "لوئی ہفتم" اور جرمنی کے بادشاہ "کانرڈسوم" کی قیادت میں لاکھوں کا لشکر بیت المقدس روانہ ہوا۔بیت المقدس پہنچنے کے بعد ان دونوں عیسائی بادشاہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کی فوجی طاقت کو کچلنے کے لیے دمشق پر قبضہ کیا جائے۔سلطان نور الدین زنگی کی بصیرت افروز نگاہیں دیکھ چکی تھیں کہ عیسائی دمشق پر قبضہ کا ارادہ رکھتے ہیں ۔سلطان نور الدین زنگی نے دمشق کے بااثر اُمرا سے رازداری سے بات چیت کر کے 549ھ/بمطابق 1154 ء میں سلطان نور الدین زنگی نے دمشق پر قبضہ کر لیا۔اب بیت المقدس تک مسلمانوں کے لیے راستہ صاف ہو چکا تھا۔بعد کے سالوں میں حارم،شیزر اور جیش کے معرکے پیش آئے۔ رمضان المبارک 559ھ/بمطابق اگست 1164 ء میں ایک خون ریز جنگ میں سلطان نور الدین زنگی نے حارم کو فتح کیا تھا۔صلیبیوں کا یہ مضبوط قلعہ حلب کے مغرب میں انطاکیہ کے قریب واقع تھا۔ اس فتح کی خاص بات یہ تھی کہ سلطان نور الدین زنگی کے پاس صرف 4 ہزار مجاہدین تھے،جبکہ مقابلے میں 32 ہزار کا عیسائی لشکر تھا ،لیکن سلطان نور الدین زنگی کی ایمانی طاقت کے سامنے یہ لشکر ڈھیر ہو گیا۔
اب عیسائیوں کی خواہش تھی کہ کسی طرح مصر پر قبضہ کر لیا جائے۔ان دنوں مصر پر فاطمی خلیفہ"فائز بنصر اللہ(549ھ-556ھ) حکمران تھے۔ کہ یروثلم کے صلیبی بادشاہ "اموری"نے مصر پر حملہ کر کے بلبسیں کا قلعہ فتح کر لیا ،جب یہ خبر سلطان نور الدین زنگی تک پہنچی تو انہوں نے اپنے بہترین سپہ سالار "اسد الدین شیر کوہ" کو فوج دے کر 559ھ/بمطابق 1163عیسویٰ کو مصر بھیجا۔اس مقدس جنگ میں عظیم مسلمان سلطان صلاح الدین ایوبی بھی شامل تھے۔جن کو بیت المقدس بازیاب کرانے کا شرف حاصل ہوا ۔سلطان نور الدین زنگی اس سپہ سالار نے مصر پر قبضہ کر لیا۔
564ھ/بمطابق1168ء کو جب سلطان نور الدین زنگی دریائے فُرات کے شمالی علاقوں میں امن قائم کر نے میں مصروف تھے تو موقع ملتے ہی یروثلم کے بادشاہ نے مصر پر پھر حملہ کر دیا اور مصر کی گلی کوچوں میں درندگی کا راج تھا۔صلیبی سپاہی بڑی بے رحمی سے مسلمان بچوں اور مردوں کو شہید کر رہے تھے۔یہاں سے صلیبی لشکر فسطاط شہر جا پہنچا۔ صلیبی فوج نے بے رحمی کا ثبوت دیتے ہوے شہر کو آگ لگا دی اور 10 صفر 564ھ/بمطابق13 نومبر1168 ء کو صلیبی فوج نے قاہرہ کا محاصرہ کیا۔ فاطمی خلیفہ العاضد نے سلطان نور الدین زنگی کو پیغام بھجوایا۔سلطان نور الدین زنگی نے برق رفتاری سے اپنے بہادر سپہ سالار اسد الدین شیر کوہ کو فوج دے کر مصر روانہ کیا۔سلطان نور الدین زنگی کے لشکر کی صلیبی فوج پر اس قدر دہشت تھی کہ سلطان کی فوج کے آنے سے پہلے ہی صلیبی قاہرہ کا محاصرہ ختم کر کے یروثلم فرار ہو گئے۔
22 جمادی الآخر 564ھ/بمطابق 23مارچ 1169 عیسویٰ کو جب شیر کوہ کی وفات ہوئی تو ان کے بعد مصر کی حکومت ان کے بیٹے صلاح الدین ایوبی کے سپرد کر دی گئی۔
اسی سال سلطان نور الدین زنگی نے بیت المقدس کو صلیبیوں سے واپس لینے کا ارادہ کیا اور فوجی تیاریاں شروع کر دیں ۔سلطان نور الدین زنگی نے حلب سے ایک ماہر کاریگر کو بلا کر ایک خصوصی ممبر تیار کروایا یہ اس لیے تھا کہ بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد سلطان نور الدین زنگی خود اپنے ہاتھوں سے اس ممبر کو مسجد اقصیٰ میں نصب کرنا چاہتے تھے۔لیکن اب وہ وقت آپہنچا تھا کہ مسلمان سلطان نور الدین زنگی کی قیادت میں اپنے قبلہ اول کو صلیبیوں سے آزاد کرائیں،لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔کیونکہ 569ھ/بمطابق مئی 1174ء میں سلطان نور الدین زنگی کو خناق کے عارضے نے آلیااور یہ مرض جان لیوا ثابت ہوا۔اور امت مسلمہ کے عظیم سلطان 21شوال 569ھ/بمطابق 25مئی 1174ء کو سلطان نور الدین زنگی امت مسلمہ کو غمزدہ اور سوگوار چھوڑ کر اس دنیا سے وفات پاگئے۔
جب سلطان نور الدین زنگی کی وفات کی خبر پھیلی تو پورے عالم اسلام میں کہرام برپا ہو گیا ،دمشق کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جو سلطان نور الدین زنگی کے غم میں رو نہ رہا ہو۔سلطان نور الدین زنگی نے اپنی 58سال کی عمر میں 28برس حکومت کی اور ان 28 سالوں میں سلطان نور الدین زنگی نے وہ کارنامے سر انجام دیے جو تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ سے لکھے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ سلطان نور الدین زنگی کی قبر کو نور سے بھر دے۔آمین"۔
تبصرہ کریں