/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

قسطنطنیہ شہر کو فتح کرنے والے عظیم عثمانی سلطان"محمد فاتح" کی تاریخ۔

26 ربیع الاخر 857 ہجری بمطابق 6 اپریل 1453ء عیسوی کو قسطنطنیہ شہر کے باہر آٹومن فوج اپنے جلالی سلطان "محمد فاتح" کی کمان میں 1100 سالہ پرانی بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے اپنی پوری قوت کے ساتھ وہاں موجود تھی۔ ترکوں کے اس عظیم الشان لشکر کو دیکھ کر قسطنطنیہ کے باسیوں کے دل دہل گئے تھے۔ ہر گزرتا ہوا لمحہ عثمانی فوج کو فتح کے قریب جبکہ بازنطینیوں کو انکی موت کی جانب لے جا رہا تھا۔ یہ فتح جس نے "بازنطینی سلطنت" کے ہزار سالہ حکمرانی کا خاتمہ کیا اور قسطنطنیہ کو "استمبول" میں تبدیل کر دیا تھا درحقیقت، یہ سلطان "محمد فاتح" کی جرات اور حکمت کا جشن تھا۔ ایک نئی صبح کی آمد کے ساتھ عثمانی سلطنت کی عظمت کی بنیاد رکھی گئی اور دنیا نے دیکھا کہ تاریخ کے صفحے پر ایک نیا باب لکھا جا رہا تھا۔

جب سلطان "مراد ثانی" کا انتقال ہوا تو اس وقت شہزادہ محمد ریاست "ایدین" میں تھا۔ شہزادے کو جب اپنے والد کی وفات کی اطلاع ملی تو وہ فوراً ایک عربی گھوڑے پر سوار ہوئے اور یہ کہتے ہوئے:۔

"کہ جو لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں میرے ساتھ آئیں شہزاد محمد نے درے دانیال کو عبور کیا اور وہ دارالحکومت ادرنے چلے گئے۔ جہاں ان کی تخت نشینی عمل میں لائی گئی۔ تخت نشینی کے وقت "ینی چری" کی خوش نودی حاصل کرنے کی غرض سے سلطان محمد فاتح نے انعامات تقسیم کیے جس سے آئندہ کے لیے ایک مثال قائم ہو گئی اور ینی چری میں اپنی اہمیت کا مزید احساس پیدا ہو گیا۔

 تخنشین ہونے کے بعد سلطان محمد فاتح نے سب سے پہلا جو کام کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنے شیر خوار بھائی جو کہ سرویہ کی شہزادی کے بطن سے تھا، اسے آئندہ فتنے کے خوف سے سلطان نے پانی میں ڈبو کر اسے غرق کر دیا معصوم شہزادے کا یہ قتل عین اس وقت عمل میں آیا جب غریب و بے کس ماں سلطان کے حکم سے بالکل بے خبر اس کی تخت نشینی کی تیاریوں میں مصروف تھی۔

" ناظرین یقیناً اپ معصوم شہزادے کے اس قتل کی خبر سے متفق نہیں ہوں گے۔ کیونکہ سلطان محمد فاتح پر بنائے جانے والے نئے ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ سلطان کے چھوٹے بھائی کو ایورینوز اوگلو بے قتل کرتا ہے۔ جس کا سلطان محمد فاتح کو بے حد رنج اور دکھ تھا۔ لیکن ترک ڈراموں کی شائقین کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے ڈرامے کی ریٹنگ کو بڑھانے اور اصل حقائق کو چھپانے میں برتری لے جاتے ہیں، اسی طرح عثمان غازی اور اورحان غازی پر جو گزشتہ سیریز میں نے مکمل کی ہے اس میں سے بے شمار ناظرین نے اس بات کا اعتراض کیا ہے کہ اپ ویڈیو میں کچھ اور دکھا رہے ہیں جبکہ حقیقت تو ارطغرل غازی اور کرولوش عثمان ڈرامے میں کچھ اور ہے اور ناظرین اپ کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ سلطنت عثمانیہ میں بھائیوں کے قتل کا جو قانون رائج ہوا تھا یعنی کہ جو نیا سلطان تخت نشین ہوتا ،وہ سب سے پہلے اپنے بھائیوں کو قتل کیا کرتا تھا یہ قانون سلطان محمد فاتح نے ہی بنایا تھا۔ایسا اس لئے کیا گیا تھا تاکہ  بغاوت اور خونریزی سے سلطنت کو بچایا جا سکے۔

سلطان محمد فاتح کی تخت نشینی سے تین سال قبل بازنطینی سلطنت کا آخری فرماں روا "قسطنطین یادہم" تخت پر بیٹھ چکا تھا۔ قسطنطین ایک بہادر شہزادہ تھا، لیکن سلطان محمد کو ہلقے میں لینے کی اس نے ایسی شدید غلطی کی کہ جس کا خمیازہ اس کے پیش رو "مینویل" کو سلطان "مراد ثانی" کے ہاتھوں بھگتنا پڑا تھا۔ سلطان بایزید یلد رم کا ایک پوتا اور خان نامی جو کہ شہزاد سلیمان کی اولاد سے تھا۔ قسطنطنیہ میں نظر بند تھا۔ اس کے تمام تر اخراجات عثمانی سلطان کی طرف سے ہر سال ادا ہوتے تھے۔ قسطنطین نے اس رقم میں اضافے کا مطالبہ کیا اور عدم منظوری کی صورت میں اس نے اورحان کو سلطان محمد کے مقابلے میں سلطان کے طور پر کھڑا کرنے کی دھمکی دی۔ اس نے اپنی غلط فہمی سے یہ خیال کیا کہ سلطان محمد اب بھی ویسے ہی نہ تجربہ کار ہے جیسا کہ چھ سال پہلے جب وہ تخت نشین ہوا تھا ویسے تھا۔ اسے بالکل بھی معلوم نہ تھا کہ اس قلیل مدت میں نو عمر سلطان کی قوتیں حیرت انگیز طور پر ترقی پا چکی ہیں اور 21 سال کی عمر میں وہ ارادے کی پختگی فوجی قابلیت اور ملکی نظم و نسق میں اپنے پیش روؤں کا حریف بن چکا ہے۔ بازنطینی سفیر کے آنے سے کچھ ہی ماہ پہلے سلطان کو اناطولیہ سے تشویش ناک خبر ملی۔ یہ خبر اناطولیہ میں موجود کارامان قبیلے کی جانب سے تھی۔ جب سلطان محمد فاتح تخت نشین ہوئے تو کارامان سردار "ابراہیم بے" نے سلطان محمد فاتح کی کم عمری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے انطولیہ میں موجود عثمانی شہروں پر حملہ کر دیا۔ پہلے تو سلطان نے اناطولیہ کے بیلر پہ "اشک پاشا" کو کرمانیہ کی بغاوت کو چلنے کے لیے روانہ کیا۔ جبکہ بعد میں سلطان خود اپنی مرکزی فوج کے ساتھ اناطولیہ میں داخل ہوئے۔ جب عثمانی فوج سلطان محمد فاتح کی سربراہی میں کرامان قبیلے کے دارالحکومت کونیا پہنچی تو کارامان سردار ابراہیم بے خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا اور اس نے سلطان محمد فاتح سے جنگ نہ کرنے کا ارادہ کیا اور سلطان سے اس نے صلح کی پیشکش کی۔ جسے سلطان نے خوش دلی کے ساتھ منظور کر لیا۔ لیکن اس صلح کی رضامندی کی ایک اور بڑی وجہ رومی سفیر تھا۔ جس نے سلطان کو دھمکی دی تھی کہ اگر شہزادے اورحان کی نظر بندی کی رقم نہ دی گئی تو وہ اسے سلطان کے خلاف اناطولیہ میں روانہ کر دیں گے۔ سلطان نے بازنطینی سفیر کو نرمی سے جواب دے کر اسے ٹال دیا۔ لیکن وزیراعظم  "جاندارلی خلیل پاشا" نے سفیر کو اس احمکانہ مطالبے کے خطرات سے متنبع کیا اور اس نے سفیر سے کہا کہ تمہارا جنون قسطنطنیہ کو سلطان کے ہاتھوں میں دے کر رہے گا۔ یورپ میں اور خان کے سلطان ہونے کا اعلان کرو۔ اہلِ ہنگری کو اپنی مدد کے لیے بلاؤ جو صوبے تم واپس لے سکتے ہو واپس لے لو، لیکن بہت جلد تم کو بازنطینی سلطنت کا خاتمہ بھی نظر آ جائے گا۔

اگر بازنطینی شہنشاہ سلطان کو یہ دھمکی آمیز پیغام نہ بھی دیتا تو بھی سلطان محمد فاتح نے قسنطنیہ کو اپنی سلطنت میں شامل کر لینے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا۔ سینوب اور طرابزون کے علاوہ قدیم بازنطینی سلطنت کے تمام ایشیائی علاقوں پر عثمانیوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ قیصر کی وہ عظیم الشان سلطنت جو اپنی وسعت اور قوت کے لحاظ سے کبھی دنیا کی تمام سلطنتوں پر برتری رکھتی تھی اب تباہی اور بربادی کی آخری منزلوں تک پہنچ چکی تھی اور جہاں تک وسعت اور قوت کا تعلق تھا گویا اس کی طاقت ختم ہو چکی تھی۔ تا ہم اس حالت میں بھی قسطنطنیہ کا وجود بجائے خود نہایت اہم تھا ترکوں نے جس وقت یورپ کی سرزمین پر قدم رکھا اسی وقت سے اس شہر کو فتح کر لینے کا حوصلہ ان کے دلوں میں پیدا ہوتا رہا۔ جوں جوں فتوحات کا دائرہ بڑھتا جاتا تھا ان کے ارادوں میں پختگی آتی جاتی تھی اور بالاخر اس کا پہلا عملی اظہار عثمانی سلطان "بایزید یلدرم" کے عہد میں ہوا۔ جبکہ سلطان با یزید نے آبنائے باسفورس کے مشرقی ساحل پر ایک مضبوط قلعہ تعمیر کرانے کے بعد "قسطنطنیہ" کا محاصرہ شروع کیا۔ لیکن محاصرے کو ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ امیر تیمور نے عثمانی سلطنت پر حملہ کر دیا جس کی وجہ سے سلطان بایزید کو یہ محاصرہ اٹھا لینا پڑا اور جنگ انکرہ کے بعد کچھ دنوں کے لیے "قسطنطنیہ" کی عمر بڑھ گئی تھی۔

اس کے علاوہ سلطان بایزید یلدرم کے بیٹے اور سلطان محمد فاتح کے والد "مراد ثانی" اگرچہ شہنشاہ "قسطنطنیہ" سے آویزش پیدا کرنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن خود شہنشاہ کی غداری نے سلطان کو مجبور کیا کہ سلطنت عثمانی کی حفاظت کے خیال سے "قسطنطنیہ" پر قبضہ کر کے اس فتنے کا استحصال کر دیا جائے مگر "قسطنطنیہ" کے دن ابھی باقی تھے اور سلطان مراد کو بھی اناطولیہ کی ایک بغاوت کے باعث محاصرہ اٹھا کر شہنشاہ کی اطاعت اور خراج قبول کرنے پر اکتفا کرنا پڑا۔ دراصل اناطولیہ میں اٹھنے والی یہ بغاوت بھی شہنشاہ نے کروائی تھی کیونکہ اس نے عثمانی شہزادے کو فوج دے کر سلطان کے خلاف اناطولیہ میں باغی شہزادے کو بھیج دیا تھا جس کی وجہ سے سلطان کو یہ محاصرہ اٹھا لینا پڑا۔

 تا ہم ترکوں کی نظریں اب بھی "قسطنطنیہ" پر جمی ہوئی تھیں یہ شہر اپنے موقع کے لحاظ سے سلطنت عثمانیہ کا قدرتی پائے تخت تھا۔ بحرے مارمورہ کے دونوں ساحلوں پر عثمانیوں کی حکومت تھی لیکن جب تک "قسطنطنیہ" عیسائیوں کے قبضے میں رہتا۔ سلطان کے ایشیائی اور یورپی صوبوں کا درمیان کبھی محفوظ نہیں ہو سکتا تھا۔ قسطنطین کی دھمکی نے سلطان کو اور زیادہ غصہ دلا دیا تھا اور اس دھمکی کی وجہ سے سلطان نے اپنے دور حکومت کے سب سے بڑے عظیم الشان حملے کے لیے تیاریاں شروع کر لی تھیں۔

قسطنطنیہ پر حملہ کرنے سے پہلے سلطان نے قسطنطنیہ کے محاصرے کے دوران میں کسی دوسری جانب سے حملے سے بچنے کے لیے سلطان نے سب سے پہلے ایشیا کو چک کی بغاوتوں کو ختم کیا اور کارامان قبیلے کے سردار ابراہیم بے کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرتے ہوئے انہوں نے صلح کر لی۔ اس کے بعد سلطان نے تین سال کے لیے ہنیاڈی کے ساتھ صلح کر لی، جس کی وجہ سے شمالی یورپ کی طرف سے کوئی خطرہ باقی نہ رہا۔ پھر سلطان نے ایک فوج موریہ میں بھیج دی تاکہ شہنشاہ کے بھائی جو کہ وہاں حکومت کرتے تھے وہ قسطنطنیہ کی مدد کرنے سے روک دیے جائیں۔ ان احتیاطی تدابیر سے فارغ ہو کر سلطان نے آبنائے باسفورس کے یورپی ساحل اور "قسطنطنیہ" سے تقریباً 5 میل کے فاصلے پر ایک زبردست قلعہ تعمیر کرانا شروع کیا۔ یہ قلعہ سلطان بایزید یلدرم کے بنوائے ہوئے قلعے کے بالکل مد مقابل تھا۔ قسطنطین نے اس قلعے کی تعمیر کے خلاف احتجاج کیا لیکن بے سود ، قسطنطنین سمجھ چکا تھا کہ یہ ساری تیاریاں دراصل قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کے لیے ہو رہی ہیں اس نے خوفزدہ ہو کر شہر کا پاٹک بند کرایا اور ایک وفد کے ذریعے سے سلطان محمد ثانی کی خدمت میں ترک سپاہیوں کے طرز عمل کی شکایت کی۔ سلطان محمد فاتح نے اس شکایت کا جواب اعلانِ جنگ سے دیا اب بازنطینی سلطنت کے خاتمےکا فیصلہ سلطان محمد فاتح کر چکے تھے۔

سلطان محمد فاتح کا یہ نیا قلعہ 856 ہجری بمطابق 1452ء عیسوی کے موسم سرما سے پہلے تیار ہو گیا تھا۔ یوں آبنائے باسفورس تمام تر ترکوں کے قبضے میں تھا۔ کوئی بحری جہاز بغیر ان کی اجازت کے اسے عبور نہیں کر سکتا تھا۔ اس قلعے کی تعمیر کے بعد سلطان محمد فاتح جنگ کی دوسری تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ سلطان نے دارالحکومت ادرنے میں ڈیڑھ لاکھ فوج جمع کی۔ لیکن سپاہیوں کی تعداد خواہ کتنی ہی زیادہ ہو یہ شہر مثلث نما تھا۔ جس کے دو حصے پانی میں گھرے ہوئے تھے۔ شمال میں شاخِ زریں اور جنوب میں بحر مار مورا تھا۔ بری فوجیں صرف تیسرے حصے سے حملہ کر سکتی تھیں، جو مغرب کی جانب واقع تھا۔ لیکن اس کی حفاظت یکے بعد دیگرے تین زبردست دیواریں کر رہی تھیں۔ جو توپوں کی ایجاد سے قبل ہر طرح کے حملے سے محفوظ خیال کی جاتی تھیں۔ اندر کی دونوں دیواریں بہت موٹی تھیں اور ان پر 170 فٹ کے فاصلے سے مضبوط برج بنے ہوئے تھے۔ ان دیواروں کے درمیان 60 فٹ کا فاصلہ تھا باہر کی جانب دوسری اور تیسری دیوار کے بیچ میں 60 فٹ چوڑی خندق تھی جو 100 فٹ گہری تھی۔ یہ دیواریں پانچویں صدی عیسوی میں شہنشاہ تھیوڈوز ثانی نے تعمیر کرائی تھیں اور اب تک 21 محاصروں میں "قسطنطنیہ" کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھ چکی تھیں، قسطنطنیہ کی فتح کے لیے ضروری تھا کہ ان دیواروں پر کامیابی کے ساتھ گولہ باری کی جائے۔ کچھ عرصے سے ترکوں اور عیسائیوں نے جنگ میں توپوں کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ لیکن سلطان محمد فاتح نے موجودہ توپوں کو ناکافی خیال کرتے ہوئے سلطان نے نہایت عظیم الشان توپیں بنوائی جو اپنی جسامت اور طاقت کے لحاظ سے بے نظیر تھیں۔ اس غرض سے "اُربان" نامی ایک عیسائی انجینیئر جو کہ ہینگری کا رہنے والا تھا اوروہ بازنطینیوں کی ملازمت سے علیحدہ ہو کر غثمانی سلطان کی خدمت میں چلا آیا تھا۔ اس نے سلطان محمد فاتح کے حکم پر ایک نہایت زبردست توپ تیار کی جس کے سنگی گولوں کا قطر اڑھائی فٹ تھا۔ اس کے علاوہ اس نے اور بھی توپیں بنائی جو نسبتاً چھوٹی تھیں لیکن زیادہ تیزی کے ساتھ گولے برسا سکتی تھیں۔

 سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کے محاصرے کے لیے 180 جہازوں کا ایک بحری بیڑا بھی تیار کرایا سلطان محاصرے کی تیاریوں میں بے حد سنجیدہ تھے اور سلطان نے تمام تر سامان اپنی ذاتی نگرانی میں تیار کروایا۔

ادھر قسطنطین بھی ترکوں کے حملے کی مدافت کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ اس نے شہر کی دیواروں کی مرمت کرائی اور جو کچھ رسد ممکن ہو سکتی تھی اس نے جمع کر لی، اس کے بعد اس نے مغربی یورپ کے فرمان رواؤں سے مرد کے درخواست اور پوپ کی پوری مدد اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے کلیسائے روما کے تمام مطالبات کو منظور کر کے یونانی کلیسا کو اس سے ملحق کر دیا۔ سینٹ صوفیا میں پوپ کے نمائندہ "کارڈینل اسیڈور" کے زیر صدارت ایک مجلس منعقد ہوئی۔ جس میں شہنشاہ اس کے درباری اور "قسطنطنیہ" کے تمام ملکی اور مذہبی عہدے دار شریک ہوئے اور کلیسائے "قسطنطنیہ" کو کلیسائے روما سے متحد کرنے کی تجویز کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔ اس فیصلے نے یونانی پادریوں کو بہت زیادہ غصہ دلایا اور شہر کی آبادی کے بڑے حصے نے اس سے اپنی بیزارگی کا اعلانیہ اظہار کیا۔ شہنشاہ کے اس فعل نے خود اس کی عوام کی ایک کثیر تعداد کو اس سے الگ کر دیا۔ "گرانڈ ڈیوک نوٹارس جو کہ تمام افواج "قسطنطنیہ" کا سپہ سالار اور قسطنطین کے بعد سلطنت کی سب سے بڑی شخصیت تھا اس قدر برم تھا کہ اس نے صاف لفظوں میں یہ کہا کہ کارڈینل کی ٹوپی کے مقابلے میں قسطنطنیہ میں ترکوں کے امامے دیکھنا مجھے زیادہ گوارا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گر جاؤں نے شہنشاہ کو مالی مدد دینے سے انکار کر دیا اور اس میں سے جو لوگ جنگ میں شریک ہو سکتے تھے ان کی ایک بہت قلیل تعداد نے شہر کی حفاظت کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ "قسطنطنیہ" کی آبادی باوجود بہت کچھ کم ہونے کے ایک لاکھ کے قریب تھی لیکن ترکوں کے مقابلے میں شہنشاہ کی مدد کے لیے صرف 6 ہزار یونانیوں نے اپنی خدمات پیش کیں۔

شہنشاہ نے مغربی یورپ سے مدد کی جو درخواست کی تھی وہ بھی بہت ناکافی حد تک پوری ہوئی پوپ نے ازمودہ کار سپاہیوں کی ایک تعداد اور کچھ مالی مدد گارڈینل ایسیڈور کے ساتھ روانہ کی اٹلی اور سپین کے بعض شہروں نے جو "قسطنطنیہ" سے تجارتی کاروبار رکھتے تھے چند فوجی دستے بیچے وینس اوراراگان نے کچھ مدد کی۔ لیکن ان سب سے زیادہ قیمتی مدد اہلِ جینوا کی طرف سے آئی۔ مشہور جینوی کمانڈر جان جسٹنیانی دو جنگی جہازوں اور 700 منتخب بہادروں کے ساتھ محاصرہ شروع ہونے سے تھوڑی ہی دیر قبل آ پہنچا۔ یہ شخص اپنی شجاعت اور اعلیٰ فوجی قابلیت کے لحاظ سے تنہا ایک فوج کے برابر تھا۔

 بہرحال مغربی یورپ سے مختلف حکومتوں نے جو فوج بھیجی تھی اس کی مجموعی تعداد 3 ہزار سے زیادہ نہ تھی اور ان کو شامل کرنے کے بعد "قسطنطنیہ"کی تمام فوج صرف 9 ہزار تک پہنچی تھی۔ ناظرین تعجب یہ ہے کہ شہنشاہ کی درخواست کا کوئی اثر نہ ہوا۔ یہ عیسائی سلطنتیں جو کہ بار بار ایک عظیم الشان مسیحی اتحاد قائم کر کے ترکوں کو یورپ سے نکالنے کے لیے مذہبی جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھتی تھیں۔ "قسطنطنیہ" کے اس آخری لمحہ حیات میں جب کہ انہی ترکوں کے ہاتھوں بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ بالکل بے حسی اور بے پرواہی کے ساتھ دور بیٹھی یہ منظر دیکھتی رہیں۔ لیکن بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ "قسطنطنیہ" کے معاملے سے یورپ کو زیادہ دلچسپی نہ تھی مگر اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو عیسائی سلطنتوں کے اس طرز عمل کا باعث کچھ اور ہی تھا۔

 گزشتہ 65 سال کے اندر ترکوں کو یورپ سے نکالنے کی غرض سے انہوں نے چار مرتبہ مذہبی اتحاد کے ذریعے اپنی تمام قوتوں کو یکجا کیا۔ لیکن ہر بار انہیں شکست اٹھانی پڑی اور عیسائی اتحاد کا شیرازہ منتشر ہوتا گیا۔ 1379ء میں کسوا ،1396ء میں نائیکوپولس، 1444ء میں وارنا اور 1448ء میں کسواکی دوسری جنگ، جیسی جنگوں میں عیسائیوں کو عبرت ناک شکستیں مل چکی تھیں۔ یہ شکستیں اس قدر تازہ تھیں کہ یورپ کی عیسائی ریاستیں اس قسم کے کسی مزید تجربے کے لیے تیار نہ تھیں اور باوجود اس کے کہ قستنطین نے اپنے اور اپنی سلطنت کا مذہب تبدیل کر کے کلیسائے روما کی اطاعت قبول کر لی اور اس نے وہ کر ڈالا جو صدیوں کی کوشش کے بعد بھی مغربی یورپ کی تمام قوتیں انجام نہ دے سکی تھیں۔ یورپ کے عیسائیوں نے کوئی مدد نہ کی اور نہ ہی کوئی کمک بھیجی اور قسطنطنیہ کی دیواروں کو آخر کار ترک فاتح سلطان محمد فاتح کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔

26 ربیع الاول 857 ہجری بمطابق چھ اپریل 1453 عیسوی کو عثمانی فوج نے باقاعدہ قسطنطنیہ کا محاصرہ شروع کیا۔

سلطان محمد فاتح خشکی کی طرف سے "قسطنطنیہ " کے سامنے نمودار ہوئے۔ فصیل پر گولہ باری شروع ہو گئی دونوں جانب بڑا جوش و خروش تھا، تیر برس رہے تھے اور توپوں سے آگ اور دھواں نکل رہا تھا۔ سلطان محمد فاتح نے اپنا خیمہ شہر کے دروازے سینٹ "رومانوس" کے سامنے نصب کروایا تھا۔ اسی دروازے پر سلطان کی فوج اپنا زیادہ زور صرف کر رہی تھی۔ چند روز کی گولہ باری کے نتیجے میں فصیل میں کچھ شگاف پڑ گئے۔ لیکن عیسائیوں نے انہیں جلد ہی ُپر کر لیا۔ مسلمان فصیل پر چڑھنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے تھے سلطان محمد ثانی نے اب فصیل کی بلندی کے برابر اونچے اونچے لکڑی کے مینار بنوائے ان کے نیچے پہیے لگے تھے اور اوپر سیڑھی بندھی ہوئی تھی۔ لیکن جوں ہی یہ "سیک ٹاور" شہر کی دیوار کے پاس پہنچتے تو شہر کے اندر سے رومی آگ برسائی جاتی جس سے کہ یہ ٹاور جل کر راکھ ہو جاتے۔ 

ادھر دوسری جانب بری فوج کے حملے کا ابھی کوئی معمولی اثر بھی ظاہر نہ ہونے پایا تھا کہ وسط اپریل میں ایک مختصر سی بحری جنگ پیش آئی ایک یونانی اور چار جینوی جہاز اہل "قسطنطنیہ " کے لیے سمانِ رسد لا رہے تھے۔ بحر مارمرہ کو عبور کرنے کے بعد جب وہ آبنائے باسفورس میں بمشکل داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ 140 عثمانی کشتیاں ان کی راہ میں حائل ہیں۔ جس وقت یہ جہاز بندرگاہ کے قریب پہنچے ترک بیڑے نے حملہ کر دیا لیکن جنوی جہاز عثمانی کشتیوں کے مقابلے میں بہت اونچے اور طاقتور تھے انہوں نے عثمانی کشتیوں پر پتھر اور آگ برسانا شروع کر دیے جس سے ان میں انتشار پیدا ہو گیا اور یہ انتشار ان کی کثرت تعداد کی وجہ سے اور بھی بڑھ گیا۔ سلطان محمد فاتح ساحل پر اپنے پاشاؤں اور وزیروں کے ساتھ کھڑے یہ جنگ دیکھ رہے تھے کہ سلطان سے رہانہ گیا اور انہوں نے بے اختیار اپنا گھوڑا پانی میں ڈال دیا لیکن تب تک عثمانی بیڑا اس قدر منتشر ہو چکا تھا کہ عیسائی جہازوں کو نکل جانے کا راستہ مل گیا اور وہ اہل قسطنطنیہ کے نعرہ ہائے مسرت کے ساتھ باحفاظت بندرگاہ میں پہنچ گئے ۔

جنوی جہازوں کی اس شاندار فتح کا اخلاقی اثر محصورین پر بہت اچھا پڑا۔ ان میں جرات و استقلال کی ایک نئی روح پیدا ہو گئی۔ تاہم صرف اس روح کا پیدا ہو جانا ہی مدافعت کے لیے کافی نہ تھا۔ کیونکہ جینوی رسد کے بعد پھر کوئی بھی رسد "قسطنطنیہ " تک نہ پہنچ سکی۔

 دوسری طرف سلطان محمد فاتح نے بھی اپنی پہلی بحری شکست کے بعد محاصرے کی سختی کے لیے ایک زیادہ موثر تدبیر سوچی سلطان کو اندازہ ہو چکا تھا کہ آبنائے باسفورس کے اس حصے میں جہاں پانی زیادہ گہرا تھا ترک بیڑا عیسائیوں کے طاقتور جہازوں کے مقابلے میں مشکل سے کامیاب ہو سکے گا لہذا سلطان نے اپنی کشتیوں کی ایک بڑی تعداد بندرگاہ کے بلائی حصے میں منتقل کر دینا چاہی۔ جہاں پانی تنگ اور چھچلا تھا اور جس میں یونانی اور جینوی جہاز اپنے بڑے قد کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔ سمندر کے راستے سے بندرگاہ کے اس حصے تک پہنچنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے سلطان محمد فاتح نے ایک ایسی تدبیر اختیار کی جو کہ سلطان کی ذہانت اور اس کے عزم و استقلال کی ایک غیر فانی مثال ہے۔ باسفورس اور بندرگاہِ "قسطنطنیہ " کے درمیان پانچ میل کا فاصلہ ہے سلطان نے اس درمیانی پہاڑی زمین پر لکڑی کے تختوں کی ایک سڑک بنوائی اور ان تختوں کی چربی سے ان کو خوب چکنا کروا دیا اور ایک رات کے اندر 80 کشتیاں بیلوں سے کھینچوا کر بندرگاہ کے اس حصے میں پہنچا دیں قسطنطنیہ کا یہ حصہ اپ تک بالکل محفوظ تھا۔ لیکن ترک کشتیوں کے پہنچ جانے سے اب یہ بھی حملے کی ضد میں آگیا اور جب اگلی صبح اہلِ "قسطنطنیہ " نے اس حصے میں عثمانی جہازوں کو دیکھا تو ایک بار شہنشاہ سمیت پورا "قسطنطنیہ " سکتے میں پڑ گیا، کہ آخر عثمانی جہاز یہاں پہنچے کیسے؟

 سلطان کے اس عمل سے قستنطین کو مجبوراً سپاہیوں کا ایک دستہ شہر کے دوسرے حصے سے ہٹا کر اس حصے میں متعین کرنا پڑا اس درمیان میں شہر کی دوسری سمتوں میں برابر حملے ہو رہے تھے۔ لیکن زبردست دیواروں پر جو ایک ہزار سال سے دشمن کا مقابلہ کر رہی تھیں۔ ان حملوں کا اس پر کوئی اثر ظاہر نہ ہوا بالاخر سات ہفتوں کی متواتر گولہ باری کے بعد دیواروں میں تین مقامات پر شگاف نمودار ہوئے اور سلطان محمد فاتح کو آخری حملے کی کامیابی کا یقین ہو گیا۔

 15 جمادی الاول 857 ہجری بمطابق 24 مئی 1453 عیسوی کو سلطان نے قسطنطنین کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر وہ شہر کو ترکوں کے ہوالے کر دے تو عوام کی جان و مال کی حفاظت کی جائے گی اور موریہ کی حکومت شہنشاہ کو دے دی جائے گی لیکن قسطنطین نے ایسے منظور نہ کیا۔ اس کے بعد سلطان محمد نے فوج میں اعلان کر دیا کہ 10 جمادی الاول 29 مئی کو آخری اور فیصلہ کن حملہ کیا جائے گا۔

20 جمادی الاول 857 ہجری بمطابق 1453 عیسوی کی رات ترکوں نے عبادت میں گزاری اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد حملہ شروع ہوا۔ حملہ مختلف سمتوں میں ہو رہا تھا لیکن سب سے زیادہ زور اس حصے پر تھا جو دروازہ سینٹ رومانوس کے قریب تھا۔ وہاں کی دیوار ترک توپوں کی گولہ باری سے بے حد ٹوٹ چکی تھی۔ عثمانی اور یونانی سپاہیوں کی تعداد میں کوئی مناسبت نہ تھی لیکن دوپہر سے پہلے تک انتہائی کوشش اور فتح کی پوری امید کے باوجود عثمانی فوج کا ایک سپاہی بھی شہر میں داخل نہ ہو سکا قسطنطین اور اس کے ساتھیوں نے اس روز حیرت انگیز شجاعت کا ثبوت دیا اور ترکوں کی باڑ کو بہادری کے ساتھروکے رکھا۔ لیکن سلطان محمد فاتح عزم و استقلال کا مجسمہ تھا وہ ابتدائی ناکامیوں سے مایوس نہ ہوئے اور اب خود سلطان  اپنے ینی چری دستوں کو لے کر آگے بڑھے۔ یونانی اس وقت تک بالکل خستہ حال ہو چکے تھے ان میں اس تازہ حملے کو روکنے کی سکت نہ تھی۔ اس درمیان جسٹنیانی کو جو کہ جان توڑ کر ترکوں کا مقابلہ کر رہا تھا ایک گہرا زخم لگا جس سے وہ کچھ ایسا خائف ہوا کہ جنگ سے بالکل کنارہ کش ہو گیا۔ ایسے نازک وقت میں جب سلطان محمد اپنی پوری قوت کے ساتھ حملہ کر رہا تھا ۔ یوں اچانک اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر چلے جانا گویا شہر کو دشمن کے سپرد کر دینا تھا۔ لیکن قسطنطین کے شدید اصرار کے باوجود وہ کچھ دیر بھی نہ ٹھہرا اور فوراً بندرگاہ میں چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی عیسائیوں میں کمزوری کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ قسطنطین نے خود موقع پر پہنچ کر کمان اپنے ہاتھ میں لی۔ مگر ینی چری کا حملہ اتنا سخت تھا کہ شہنشاہ اور اس کے سپاہیوں کی جاں بازی زیادہ دیر تک مقابلہ نہ کر سکی۔ ینی چری کے سردار آغا حسن اپنے 30 سپاہیوں کے ساتھ دیوار پر چڑھ گیا اور اگرچہ حسن اور اس کے 18 ساتھی فورا مار کر گرا دیے گئے۔ تا ہم باقی کامیاب رہے اور اس کے بعد ہی ترک دستے بھی یکے بعد دیگرے پہنچ گئے۔

 یونانیوں کے لیے اب کوئی امید باقی نہ رہی۔ قسطنتین نے اپنی سرخ قبا جو کہ اس کی بادشاہت کی امتیازی پوشاک تھی اس نے اتار کر پھینک دی اور ترک فوج کے بڑھتے ہوئے طوفان میں گھس کر ایک جاں باز اور سرفروش سپاہی کی طرح وہ لڑتا ہوا مارا گیا۔

چند لمحوں کے اندر قسنطنیہ ترک فاتحین کے دستوں کے ساتھ بھڑ گیا، پہلے تو انہوں نے فتح کے ابتدائی جوش میں قتل عام شروع کر دیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب یہ جوش کسی قدر ٹھنڈا ہوا اور نیز یہ دیکھ کر کے شہر والوں کی طرف سے مزاحمت نہیں ہو رہی انہوں نے اپنی تلوارنیام میں ڈالیاور وہ مالِ غنیمت حاصل کرنے میں مصروف

 ہو گئے۔

 ظہر کے قریب سلطان محمد فاتح اپنے وزرائےسلطنت کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے۔ سینٹ صوفیا کے گرجے کے پاس پہنچ کر سلطان گھوڑے سے اترے اور سلطان عالیٰ شان معبود میں داخل ہو کر جس میں 1100 برس سے تین خداؤں کی عبادت ہوتی آرہی تھی، یہاں سلطان محمد فاتح نے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرنے کے لیے موذن کو حکم دیا کہ اللہ تعالی کی پکار کو بلند کیا جائے۔ فتح کے دوسرے روز سلطان محمد نے شہر کا جائزہ لیا جب قیصر کے شاہی محل میں سلطان پہنچے تو ان کے ویران اور اُجڑے ہوئے ایوانوں پر سلطان کی نظر پڑی تو بے اختیار سلطان کی زبان پر فردوسی کا یہ شعر آگیا:۔

" کہ قیصر روم کے محل میں مکڑی نے جالا تان لیا ہے اور گنبد افرا سیاب میں الو بول رہے ہیں"

"قسطنطنیہ " میں داخل ہونے کے بعد ترکوں نے جو کچھ کیا وہ تاریخ کا کوئی غیر معمولی واقعہ نہ تھا قرونِ وسطیٰ کے دستورِ جنگ میں مفتوحین کی جان و مال تمام تر فاتح کی ملکیت ہوتی تھی جس پر اسے ہر طرح کا اختیار حاصل ہوتا تھا۔ یورپ کی سلطنتوں نے اس اختیار کے استعمال میں کبھی کوئی کمی نہ چھوڑی اور ظلم و بربریت کی ایسی ہولناک مثالیں پیش کیں جو کہ تخیل میں بھی نہیں آ سکتی۔ جب کبھی انہوں نے مسلمانوں پر فتح پائی وہ سب کچھ کر ڈالا جسے بیان کرتے ہوئے روح کانب جاتی ہے۔

 اس کے مقابلے میں ترکوں نے قسطنطنیہ میں داخل ہو کر جو کچھ کیا وہ حقیقتاً کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا بلا شبہ شروع شروع میں جو بھی سامنے آیا اس کو قتل کر دیا۔ لیکن یہ سلسلہ تین روز تک جاری رہا چوتھے روز سلطان نے امن عام کا اعلان کیا اور سپاہیوں کے ہاتھ اچانک رک گئے اس موقع پر ایک عیسائی مورخ لارڈ ایورسلے لکھتا ہے:۔

"کہ اگرچہ سلطان اور اس کی سپاہیوں نے بہت سے مظالم کیے اور یونانیوں کی پوری جماعت پر نہایت سخت مصیبت ٹوٹ پڑی تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فتح قسطنطنیہ کے موقع پر ویسی نفرت انگیز مظالم کا مظاہرہ ہوا جیسے 1204 عیسوی میں دیکھا گیا تھا۔ سلطان نے گرجاؤں اور دوسری عمارتوں کو محفوظ رکھنے میں پوری کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب رہا"

یکم جون 1453 عیسوی کو سلطان نے امن عام کا اعلان کیا اور ان تمام عیسائیوں کو جو قسطنطنیہ سے بھاگ گئے تھے واپس آنے کی دعوت دی سلطان ان کی جان اور مال کی حفاظت کا ذمہ لیا اور انہیں آمادہ کیا کہ وہ اپنے پیشوں اور کاروباروں میں پھر بدستور مشغول ہو جائیں سلطان نے عیسائیوں کو مکمل مذہبی آزادی دی اور انہیں انکی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کی پوری آزادی دی"

قسطنطنیہ کی فتح سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان غازی کے خواب کی تعبیر تھی یہی شہر اس انگوٹھی کا نگینہ تھا جسے عثمان غازی اپنی انگلی میں پہننا چاہتے تھے، لیکن وہ نہ پہن سکے اور یہ فتح اللہ تعالی نے سلطان محمد فاتح کے مقدر میں لکھی ہوئی تھی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو سلطنت عثمانیہ کا پایا تخت بنا لیا ،جو اگلے 500 سال تک سلطنتِ عثمانیہ کا دار الحکومت رہا۔

 فتح کے تیسرے روز سلطان محمد فاتح کو حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار کا پتہ چلا جو کہ 48 ہجری کے محاصرے کے دوران وفات پا گئے تھے اور انہیں قسنطنیہ کی فصیل سے متصل دفن کیا گیا تھا سلطان نے وہاں ایک مسجد تعمیر کرائی جس کا نام جامعہ ایوب رکھا اس وقت سے عثمانی سلاطین میں یہ دستور قائم ہو گیا،کہ تخت نشینی کے موقع پر ہر سلطان اسی مسجد میں جا کر بانی سلطنت عثمان اول کی تلوار کی تقریب اور رسم تاج پوشی یہاں کیا کرتا۔

 

 

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں