لاکھوں انسانوں کا قاتل"امیرِ تیمور"عثمانی سلطان بایزید یلدرم کی موت پر کیوں رو پڑا تھا؟
جنگِ انگورہ (جسے جنگ انقرہ بھی کہا جاتا ہے) کوئی عام جنگ نہیں تھی۔اس جنگ میں سلطان بایزید یلدرم کی شکست نے سلطنت عثمانیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔امیرِ تیمور نے سلطنت عثمانیہ کے تمام ایشیائی مقبوضات ان سے چھین کر واپس ان ترک سرداروں کے حوالے کر دیے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عظیم سلطنت عثمانیہ کا طاقتور ترین سلطان اب امیر تیمور کا قیدی تھا۔
آلِ تیمور کا مؤرخ"شرف الدین علی" لکھتا ہے کہ:جب سلطان بایزید یلدرم کو قیدی کی حیثیت سے دست بستہ امیرِ تیمورکے سامنے لایا گیا تو ،امیرِ تیمور نے بڑھ کر اس کا استقبال کیا اور اس کے ہاتھ کھلوا کر عزت و احترام کے ساتھ اسے اپنے پاس بٹھایا،اور پھر اس کی حالتِ زار پر افسوس کرتے ہوئے کہنے لگا۔"
"اگرچہ تمام تر احوال اللہ تعالیٰ کے ارادے کے مطابق پیش آتے ہیں،اور کسی دوسرے کو حقیقتاً کوئی اختیار نہیں ہوتا،تاہم انصاف اور حق یہ ہے کہ تم پر جو مصیبت آئی ہوئی ہے وہ خود تمہاری لائی ہوئی ہے۔تم نے ہر بار حد سے تجاوز کیا اور بلآخر مجھے انتقام پر مجبور کیا۔لیکن پھر بھی چونکہ تم نے اس دریا میں کفار سے جہاد کیا ہے،میں نے بہت کچھ برداشت کیا،اور ان حالات میں جو فرض ایک دور اندیش مسلمان کا تھا اسے بجا لایا۔میری خواہش تھی کہ اگر تم میری اطاعت قبول کر لیتے تو میں مال و لشکر کے ساتھ جتنی تمہیں ضرورت ہوتی تمہاری مدد کرتا تاکہ تم اطمینان و قوت کے ساتھ کفار کے خلاف جہاد کرتےاور بے دینوں کے شرک کی شوکت کو فنا کر دیتے۔۔۔۔لیکن تم نے سر کشی اختیار کی،یہاں تک کہ حالات یہاں تک آ پہنچے،سب جانتے ہیں اگر صورتِ حال اس کے بر عکس ہوتی اور یہ قوت و غلبہ جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہےاگر تم کو حاصل ہوتا تو اس وقت مجھ پر اور میرےلشکر پر کیا گزر رہی ہوتی۔لیکن اس فتح کے شکرانے میں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ہے ،میں تمہارے اور تمہارے آدمیوں کے ساتھ بھلائی کے سوا کچھ نہیں کروں گا،اپنے دل کو مطمئن رکھو۔"
سلطان بایزید نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور آئندہ کے لیے امیرِ تیمور کی اطاعت کا وعدہ کیا۔امیرِ تیمور نے اسے خلعت شہانہ پہنا کر مذید لطف و عنایت کی توقع دلائی،سلطان بایزید کی خواہش پر قیدی شہزادے موسیٰ کو رہا کر کے اس کے پاس بھیج دیا۔امیرِ تیمور نے ان کے رہنے کے لیے اپنے خیمے کے ساتھ ایک شاندار خیمہ نصب کرایا،اور چند ایک عالیٰ مرتبہ اُمرا کو بایزید کی خدمت کے لیے مامور کیا۔
لیکن یہ سب مراعات سلطان بایزید کے زخمی دل کے لیے نمک کا کام دے رہی تھیں۔شاہی خیمہ بھی اسے کسی قید خانے سے کم نہیں لگتا تھا۔اسے بار بار اپنے سابق عظمت یاد آ رہی تھی،سلطان بایزید کی بےچینی اس حد تک بڑھ گئی ،کہ اس نے امیرِ تیمور کے لشکر سے بھاگنے کا ارادہ کیا،لیکن اس کی اس کوشش کی خبر امیرِ تیمور کو ہو گئی،اب سلطان بایزید کی نگرانی سخت ہو گئی۔تیموری لشکر جب ایک جگہ سے دوسری جگہ کوچ کرتا تو وہ سلطان بایزید کو ساتھ لیتا جاتا،لیکن تشہیر سے بچنے کے لیےبایزید ایک پالکی میں سفر کیا کرتا تھا،اس پالکی میں لوہے کی جالی کا کام کیا گیا تھا،جس کی بنا پر یہ مشہور ہو گیا کہ امیرِ تیمور نے بایزید کو قیدی کی طرح لوہے کے پنجرے میں بند رکھا ہوا ہے،اور امیرِ تیمور جہاں جاتا ہے اس پنجرے کو ساتھ لے کر جاتا ہے۔
سلطان بایزید اپنی رسوائی ذیادہ دنوں تک برداشت نہ کر سکااور صرف 8 ماہ بعد سلطان بایزید یلدرم کا انتقال ہو گیا۔امیرِ تیمور کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو اُس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔اس فاتح کے لیے بھی جس نے لاکھوں انسانوں کو بنا کسی ڈر اور خوف کے قتل کرا یاتھا،آلِ عثمان کے اتنے جلیل القدر سلطان کی عبرت ناک موت پر رو پڑا۔امیرِ تیمور نے شہزادہ موسیٰ کو آزاد کر کے سلطان بایزید کی میت کو شاہانہ احترام کے ساتھ پایہ تخت بورصہ روانہ کیا۔جہاں اسے دیگر عثمانی سلاطین کے پہلو میں دفنایا گیا۔
جنگِ انگورہ نے صرف سلطان بایزید کا خاتمہ نہیں کیا تھا ،بلکہ اس نے سلطنتِ عثمانیہ کو بھی تقریباً ختم کر دیا تھا،امیرِ تیمور نے ان تمام ترک امیروں کو جنکی ریاستیں سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لی گئیں تھیں ،پھر ان تُرک امیروں کے حوالے کر دیں گئیں۔یوں ایشیائے کوچک میں کوئی بھی علاقہ سلطنتِ عثمانیہ کے ہاتھ میں باقی نہ رہا۔سلطان بایزید کی وفات کے بعد امیرِ تیمور بھی صرف دو سال زندہ رہا اور چین کی مُہم کے دوران اترار شہر(یاد رہے یہی وہ شہر تھا جہاں کے گورنر نے چنگیز خان کے تجارتی قافلے کو قتل کیا تھا جس کے نتیجے میں چنگیز خان نے خوارزمی سلطنت پر حملہ کر دیا تھا)کے پاس امیرِ تیمور کی موت واقع ہوئی۔
ماشاءاللہ
I like it