لودھی سلطنت کے آخری عظیم حکمران"سکندر لودھی"جنہوں نے آگرہ شہر کو آباد کیا تھا۔

سکندر لودھی کا اصل نام "نظام خان" ہے۔ ان کا سنہ پیدائش تاریخ کی کتب میں نہیں ملتا، البتہ تاریخِ شاہی میں احمد یاد گار نے لکھا ہے کہ "سکندر لودھی" نے 18 شعبان 894ھ کو 18 سال کی عمر میں دہلی کی حکومت سنبھالی، اس لحاظ سے سکندر کا سنہ پیدائش 876ھ / بمطابق 1517ء ہے۔ سکندر کا انتقال 923 ھ / بمطابق 1517ء میں ہوا۔ اس اعتبار سے انہوں نے تقریباً 46 برس کی عمر پائی۔بر صغیر میں لودھی خاندان کی ابتدا کیسے ہوئی؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں تاریخ کی انگلی تھام کر چھ سو برس قبل فیروز شاہ تغلق کےدور میں جانا ہو گا۔کابل اور اطراف کے علاقوں سے لودھی خاندان کے بہت سے افراد، تجارت کی غرض سے ہندوستان آیا کرتے تھے۔ ان ہی لوگوں میں سے ایک ملک بہرام بھی تھے۔ بر صغیر کے مشہور حکمراں فیروز شاہ تغلق کے زمانے (752 تا 790ھ / بمطابق 1351ء 1388ء) میں ملک بہرام ملتان چلے آئے، جہاں انہوں نے ملتان کے حاکم ملک مردان دولت کی ملازمت اختیار کر لی۔ ملک بہرام کے پانچ بیٹے تھے۔ ان میں سے ایک ملک کالا اور دوسرے ملک سلطان شاہ تھے۔ ملتان کے گورنر خضر خان تھے۔ ملک سلطان شاہ، خضر خان کے پاس ملازم ہو گئے۔ ملک سلطان کو اسلام خان کا خطاب ملا کچھ عرصے بعد انہیں مشرقی پنجاب کے مقام سرہند کا حاکم بنا دیا گیا۔ ملک کالا کو دورالہ کا حاکم بنایا گیا۔ ان کےباقی بھائی بھی ساتھ رہنے لگے۔

کچھ عرصے بعد ایک حادثہ پیش آیا۔ ملک کالا کا مکان کسی وجہ سے منہدم ہو گیا اور ملبے میں دب کر ملک کالا کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ وہ ان دنوں امید سے تھیں، ان کا بچہ بچا لیا گیا۔ اس بچے کا نام بہلول رکھا گیا۔ ننھا بہلول ماں کی آغوش سے تو محروم تھا ہی، تھوڑے دنوں بعد باپ کے سائے سے بھی محروم ہو گیا، ملک کالا تنازعات میں مارے گئے۔ بہلول کے چچا اسلام خان (سلطان شاہ) نے اپنے معصوم بھتیجے کو سرہند بلا لیا۔

بہلول بچپن ہی سے بہت ذہین تھے۔ اسلام خان نے ان میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو محسوس کر کے ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور بڑے ہونے پر ان سے اپنی لڑکی کی شادی کر دی۔ اسلام خان کے بعد بہلول خان ہی سر ہند کے حکمراں بنے، خود اسلام خان کی یہی خواہش تھی۔ اس زمانے میں دہلی پر سلطان "محمد شاہ" کی حکومت تھی، جن کا تعلق خاندان سادات سے تھا۔ خاندانِ سادات، خاندانِ تغلق کی حکومت کے خاتمے کے بعد 817ھ /بمطابق1414ء میں برسرِ اقتدار آیا تھا، لیکن اس خاندان کی حکومت سمٹ کر بہت چھوٹی سی رہ گئی تھی۔

"بہلول لودھی کیا پوٹریٹ"

بہلول نے سر ہند کا حکموں بننے کے بعد محسوس کیا کہ بر صغیر بہت چھوٹی چھوٹی غیر مستحکم حکومتوں کے درمیان بٹ چکا ہے، چنانچہ ایک مضبوط اور مستحکم حکومت قائم ہونی چاہیے۔ انہوں نے پنجاب کے بیشتر علاقوں کو ایک ایک کر کے فتح کر لیا، جن میں لاہور اور ملتان بھی شامل تھے۔ خاندانِ سادات کے سلطان محمد شاہ کا انتقال ہوا تو ان کے بیٹے علاؤالدین کو حکومت ملی، اس وقت تک صورتحال اور بگڑ چکی تھی۔ بہلول لودھی کے پاس مشرقی اور مغربی پنجاب تھا۔ گجرات، دکن، مالوہ، جونپور اور بنگال میں الگ الگ حکمرانوں نے خود مختاری کا اعلان کر دیا تھا۔ علاؤالدین کے پاس صرف دہلی کا شہر اور چند دیہات رہ گئے تھے۔ آخر بہلول نے دہلی پر قبضہ کر لیا۔

بہلول نے مختلف علاقوں میں اپنے اہل عزیزوں اور بیٹوں کو حاکم بنا دیا تھا۔ ان کے ایک بیٹے نظام خان بھی تھے، جو بعد میں سکندر لودھی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ نظام خان کو دو آبہ یعنی گنگا اور جمنا کے درمیانی علاقے کی حکومت ملی تھی۔ بہلول لودھی کے بعد ان کے لائق بیٹے نظام خان نے زمام کار سنبھالی۔ انہوں نے اپنے لیے سکندر لودھی کا لقب پسند کیا۔ سکندر کے سامنے بہت بڑی آزمائش تھی۔ کیونکہ اس وقت بھی برصغیر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اور ان ریاستوں کو یکجا کر کے ایک مستحکم حکومت قائم کرنے کی ضرورت تھی۔

سکندر لودھی نے 17شعبان 894ھ / بمطابق 16 جولائی 1489 ء کو دہلی کی حکومت سنبھالی۔ ان کے سامنے سب سے پہلا مسئلہ اپنے ہی خاندان کے افراد کو اس بات پر آمادہ کرنا تھا کہ وہ ایک متحدہ حکومت کے قیام میں مدد دیں۔ ان کے چھوٹے بھائی عالم خان، را پری کے حاکم تھے۔ سکندر نے را پری کی طرف پیش قدمی کی۔ عالم خان را پری سے چلے گئے، لیکن سکندر نے انہیں بلا کر "اٹاوہ" کا حاکم بنا دیا۔ دوسرے بھائی بار بک شاہ، جو نپور کے حاکم تھے۔ سکندر نے باربک شاہ کو اطاعت کی دعوت دی، لیکن بار بک نے انکار کر دیا۔ اس پر قنوج کے قریب دونوں فوجوں میں لڑائی ہوئی جس میں باربک کو شکت ہوئی، لیکن سکندر نے فراخ دلی کے ساتھ باربک کو معاف کر دیا اور انہیں دوبارہ جونپور کا حکمراں بنا دیا۔ 

اگلی مہموں میں سکندر نے "کالپی" کو اپنی حکومت میں شامل کیا۔ گوالیار کے حکمران "مان سنگھ" نے اطاعت قبول کر لی۔ 897ھ / 1491ء میں بیانہ فتح ہوا۔ ادھر جونپور پر راجپوت زمینداروں نے قبضہ کر لیا۔ 899ھ / بمطابق۱۳۹۳ء میں سکندر اس طرف گئے۔ کھکر میں ہندو اور جاٹ زمینداروں سے مقابلہ ہوا۔ خونریز جنگ کے بعد دشمن شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ جونپور پر بار بک شاہ کا قبضہ بحال کروایا۔ واپس ہوئے تو اطلاع ملی کہ بار بک شاہ کو مخالفین نے پریشان کر رکھا ہے۔ سکندر نے بار بک کو کمک بھیج دی۔ قلعہ کنشت (ضلع مرزا پور میں آلہ آباد جانے والی سڑک پر واقع ہے) کے راجا رائے بھید چندر نے اطاعت کا یقین دلایا۔

پھر ضلع الہ آباد میں اریل کا شہر فتح کیا۔ 900ھ / بمطابق1494ء میں بھٹہ کی طرف بڑھے۔ راجا بھید چندر کے بیٹے بر سنگھ نے مقابلہ کیا، لیکن ہزیمت اٹھا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ رائے بھید کے بڑے لڑکے لکھی چند اور چند دیگر زمینداروں نے جو نپور کے سابق حکمراں سلطان "حسین شرقی" کو اُکسایا کہ سکندر پر حملہ کر دیں۔ سکندر بھی اپنی فوج لے کر روانہ ہوئے۔ بنارس سے کچھ فاصلے  پر جنگ ہوئی۔ حسین شرقی شکست کھا کر پٹنہ (بہار) کی طرف بھاگے۔ سکندر نے ان کا پیچھا کیا ، 1494ء میں سکندر لودھی بہار پر بھی قابض ہو چکے تھے۔ حسین شرقی، بنگال چلے گئے اور وہاں کے سلطان علاء الدین حسین شاہ کے پاس اپنی بقیہ زندگی بسر کی۔ آئندہ چند دنوں میں سکندر تربت کے راجا کو اطاعت پر مجبور کر چکے تھے۔ 900ھ / بمطابق 1395 ء میں سکندر نے بنگال کے سلطان علاءالدین حسین شاہ کے علاقے پر چڑھائی کی، لیکن علاءالدین نے امن اور صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں صلح نامہ ہو گیا۔ جس کے تحت طے پایا کہ فریقین ایک دوسرے کی علاقائی حدود کا احترام کریں گے اور ایک دوسرے کے دشمنوں کو پناہ نہیں دیں گے۔

سکندر 901ھ / بمطابق1495ء میں مشہور شہر سنجل (اتر پردیش) چلے گئے۔ جہاں 4 سال رہ کر کئی مہوں میں حصہ لیا اور بغاوتوں کا قلع قمع کیا۔ رمضان 906ھ / بمطابق مارچ 1500ء میں راجستھان کے سرحدی شہر دھول پور کا قلعہ فتح کر لیا گیا۔ یہاں بنا یک دیو حکمراں تھا جو قلعہ چھوڑ کر گوالیار بھاگ گیا۔ سکندر نے بعد میں بنا یک دیو سے اطاعت کا وعدہ لے کر دھول پور اسی کو دے دیا۔ ایک ماہ بعد سکندر نے گوالیار کا رخ کیا۔ وہاں کے راجا نے صلح کی درخواست کی جو بعض شرائط پر مان لی گئی۔ رمضان 910 / فروری 1504ء میں قلعہ مندر ایل (اب ریاست کر ولی میں ہے) فتح کیا۔ آئندہ دو برسوں میں انہوں نے گوالیار کے باقی راجا کو لڑائی میں شکست دی۔ کرولی سے 28 میل دور واقع اونت نگر فتح کیا۔ 913ھ/1507ء میں گوالیار سے 44 میل دور قلعہ "نرور" پر چڑھائی کی، یہ قلعہ 8 کوس قطر میں پھیلا ہوا تھا۔ محاصرہ کے ساتھ جنگ کئی دن جاری رہی۔ آخر قلعہ والوں نے خوراک اور پانی کی قلت سے تنگ آکر جاں بخشی کی درخواست کی اور قلعہ چھوڑ کر چلے گئے ۔ 915ھ/ بمطابق1509ء میں سکندر نے آگرہ سے جنوب مشرق میں ہتکانت کا علاقہ رہزنوں اور لٹیروں سے پاک کیا۔

"سکندر لودھی ہندوؤں کے ساتھ میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے"

سکندر لودھی 923ھ / بمطابق 1517ء کے دوران کام کی زیادتی کی وجہ سے بیمار رہنے لگے،اور یہی بیماری ان کے لیے پیام اجل لے کر آئی۔ 7 ذی قعدہ 923 ھ / بمطابق 21 نومبر 1517ء کو اس عظیم حکمراں نے آگرہ میں سفر آخرت اختیار کیا۔ انہیں دہلی میں ان کے اپنے لگائے ہوئے باغ "جود" میں ان کے والد کی قبر کے نزدیک سپرد خاک کیا گیا۔ بعد میں شیر شاہ سوری کے بیٹے اسلام شاہ سوری نے بہلول لودھی اور سکندر لودھی کی قبروں پر مقبرے تعمیر کروائے، جو آج بھی موجود ہیں۔ سکندر لودھی کے بعد ان کے بیٹے ابراہیم لودھی نے حکومت سنبھالی۔ وہ 9 برس تک حکمراں رہے۔ ان کے بعد برصغیر کی حکومت

932ھ / بمطابق1526ء میں خاندان مغلیہ کو منتقل ہو گئی۔ سکندر لودھی شریعت کے پابند، متقی اور خوفِ خدارکھنے والےحکمراں تھے۔ نماز باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے۔ اس کے لیے ظہر کی نماز کے بعد کا وقت مقرر تھا۔

قرآن شریف کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مجلس علما منعقد ہوتی تھی جس میں سکندر شریک ہوتے تھے۔ انہوں نے مملکت میں متعدد مساجد تعمیر کروائیں۔ تمام مساجد میں امام صاحبان، قاری اور خادموں کے تقرر کا باقاعدہ نظام قائم کیا۔ انہوں نے غیر اسلامی رسوم کی سختی سے ممانعت کی، اس ضمن میں مزاروں پر خواتین کے جانے پر بھی پابندی لگادی گئی۔ سکندر کی اسلام پسندی اور خلوص نیت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس وقت ان کی فوج ان کے بھائی بار بک شاہ کی فوج کے مقابل صف آرا تھی، ایک فقیر آیا اور اس نے سکندر کا ہاتھ تھام کر کہا: 

” تیری فتح ہو گی سکندر نے غصے سے ہاتھ چھڑا لیا اور کہا جب دو مسلمانوں میں معرکہ  آرائی ہو رہی ہو تو کبھی یک طرفہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ کہنا چاہیے کہ خدا کرے ایسا ہو جس میں اسلام کی بھلائی ہو۔“

 سکندر بردبار، اعلیٰ ظرف اور نیک دل انسان تھے۔ ان کی فراخدلی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کے بھائی بار بک شاہ نے ان کے خلاف بغاوت کی اور جونپور پر قابض ہونا چاہا، لیکن سکندر نے بار یک شاہ کو لڑائی میں شکست دینے کے باوجود، ان ہی کو دوبارہ جونپور کا حاکم بنا دیا۔ اسی طرح جب کشت (بہار کے نواح میں علاقہ ) کا راجہ بھید چندر، سکندر کو اطاعت کا یقین دلانے کے باوجود ان سے خوفزدہ ہو کر پٹنہ کی طرف بھاگ گیا تو سکندر نے اس کا سارا سامان اسے بھیجوا دیا تھا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ اس وقت پیش آیا جب جو پور کے سابق حاکم سلطان حسین شرقی ایک لڑائی میں سکندر کی فوج سے شکست کھا کربھاگ کھڑے ہوئے تو سکندر کے مشیروں نے پوچھا کہ کیا سلطان حسین شرقی کا پیچھا کیا جائے۔ اس پر سکندر لودھی نے کہا وہ خدا جس نے اسے زمین پر گرا دیا ہے اور تمہیں زمین سے اٹھایا ہے، وہ سب دیکھ رہا ہے،اس لیے بہتر ہے کہ مغرور نہ بنو۔"

سکندر لودھی علم دوست اور علم پرست حکمران تھے اور علما کو اپنا ہم نشین رکھنا پسند کرتے تھے۔ تاریخ ہندوستان کے مصنف مولوی ذکا اللہ کے مطابق 17 جید علما کرام سکندر لودھی کے پاس رہتے تھے۔ سکندر لودھی کے دور میں ملتان سے دو بڑے علما کرام شیخ عبداللہ تلنبی (تلنبہ ملتان کے قریب ایک قصبہ ہے) اور شیخ عزیز اللہ، دہلی تشریف لائے۔ سکندر نے ان بزرگوں کی بہت تعظیم کی۔ ان علما کرام نے درس و تدریس کے معیار کو پہلے سے بھی بہتر بنا دیا اور زیادہ کتابیں نصاب میں داخل کیں۔سکندر لودھی، شیخ عبد اللہ کی مجلس درس میں خود شریک ہوتے تھے، لیکن اس طرح کہ شیخ کے شاگردوں کو پتا نہ چلے۔ وہ چُھپ کر ایک گوشے میں بیٹھ جاتے تا کہ درس کا سلسلہ منقطع نہ ہونے پائے۔ جب درس ختم ہو جاتا تو سکندر اٹھ کر شیخ کے پاس بیٹھ جاتے اور دیر تک ان کی باتوں سے استفادہ کرتے۔ سکندر ہی کے زمانے میں مولانا رفیع الدین شیرازی، جو اچھے محدث تھے، شیراز سے دہلی آئے، سکندر نے ان کی بڑی توقیر کی۔ مولانا شیرازی نے آگرہ میں درس حدیث کا سلسلہ خاصےعرصے تک جاری رکھا۔سکندر لودھی کا ایک اہم کارنامہ "فارسی" زبان کا تحفظ اور اس کا فروغ ہے۔ سکندر نے جب حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو بر صغیر پاک وہند تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہا تھا۔ دہلی کی مرکزی حیثیت ختم ہو جانے کے باعث بہت سے خود مختار ریاستیں وجود میں آچکی تھیں۔ ان ریاستوں میں بیشتر حاکم مسلمان تھے، لیکن ہر جگہ مقامی رجحانات غالب تھے، مثلا بنگال میں "بنگالی" زبان رواج پارہی تھی ، جنوبی ریاستوں میں "دکنی" زبان کا چلن تھا، ایک دو ریاستوں میں مرہٹی زبان کو اہمیت دی جارہی تھی، یوں فارسی زبان اپنی سرکاری حیثیت تقریباً کھو بیٹھی تھی۔ سکندر لودھی نے ان تمام مقامی زبانوں کو کما حقہ اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ فارسی کو سرکاری سطح پر رواج دیا۔

برصغیر میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد بھی حساب کتاب مقامی زبانوں میں رکھا جاتا تھا، ہندو پٹواری، قانون گو اور محاسب الگ الگ مقامی زبانوں میں ریکارڈ رکھتے تھے۔ سکندر لودھی نے حکم دیا کہ حسابات فارسی زبان میں رکھے جائیں، چنانچہ ہندو ملازمین کو فارسی زبان سیکھنی پڑی۔ بہت سے ہندوؤں نے فارسی میں کمال حاصل کیا اور ان میں فارسی زبان کے بہت سے اچھے شاعر پیدا ہوئے، مثلاً پنڈت ڈونگر مل فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ہندوؤں کے فارسی سیکھنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سنسکرت کی کئی اچھی کتابوں کے ترجمے فارسی زبان میں کیے گئے۔ سکندر لودھی خود بھی نئی کتابیں تصنیف کروانے اور تراجم کروانے سے دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ علم کی ہر شاخ سے متعلق کتابیں لکھواتے تھے۔سکندر لودھی نے مملکت میں خوشحالی لانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے اہم اقدامات کیے۔ وہ سخت محنت کے عادی تھے۔ ان کی مصروفیات کا نظام الاوقات متعین تھا۔ وہ انتظامی امور پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ ان کا حافظہ بھی غضب کا تھا، ان کی نگاہوں سے کوئی معاملہ پوشیدہ نہ رہتا تھا۔ ان کے خفیہ نویس (انٹیلی جنس سروس) بہت فعال تھے اور مملکت کے کسی بھی حصے میں پیش آنے والے اہم واقعات ان کے علم میں رہتے تھے۔ صوبائی گورنروں کو تفصیلی ہدایات دی گئی تھیں کہ قیمتوں پر نظر رکھیں اور اس بارے میں روزانہ رپورٹ بھیجیں۔ سکندر کے دربار میں روزانہ منڈیوں میں اشیائے صرف اور اناج کے بھاؤ پڑھ کرسنائے جاتے تھے۔ مملکت کے مختلف حصوں کے اہم حالات سے بھی سکندر کو آگاہ کیا جاتا تھا، اگر سکندر کسی قسم کی تبدیلی چاہتے تو اس ضمن میں ضروری ہدایات جاری کر دیتے تھے۔ ڈاک کا نظام بہت عمدہ تھا۔ جگہ جگہ ڈاک چوکیاں بنی ہوئی تھیں، جن پر تازہ دم گھوڑے تیار رہتے تھے۔

سکندر لودھی نے حسابات (اکاؤنٹس) کی جانچ پڑتال اور معائنہ (آڈٹ) کا نظام سختی سے نافذ کیا تھا۔ وہ اس بات پر بہت اصرار کرتے تھے کہ افسران کو دیانت دار ہونا چاہیے۔ اگر کسی افسر کی غلطی سے سرکاری املاک کا نقصان ہو جاتا تو متعلقہ افسر پر جرمانہ عائد کیا جاتا تھا۔ سکندر لودھی کی جیت اتنی تھی کہ ان کے ماتحت اور ضلعی حکام ان کا خط آتے ہی خوف زدہ ہو جاتے تھے اور اس خط کو بہت احترام سے وصول کرتے۔ جو احکام عوام سے متعلق ہوتے تھے وہ مساجد کے منبر سے پڑھ کر سنا دیے جاتے تھے۔سکندر کا دربار بھی بہت پروقار ہوتا تھا۔ اس دربار میں کوئی ناشائستہ یا نازیبا گفتگو یا کام نہیں ہو سکتا تھا۔ سکندر نظم وضبط کے سختی سے قائل تھے، چنانچہ ان کے دربار میں ضابطوں کی پوری طرح پابندی کی جاتی تھی۔ سکندر جاہ و حشم اور کروفر کے عادی نہ تھے، وہ زرق برق لباس پہنے کی بجائے سادہ لباس زیب تن کرتے تھے ، اور تکلفات سے اجتناب کرتے تھے۔

 مشہور شہر آگرہ بسانے کا اعزاز سکندر لودھی ہی کو حاصل ہے۔ سکندر اپنا دارالحکومت کسی موزوں جگہ بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس غرض سے دریائے جمنا کے کنارے کا انتخاب کیا۔ 911ھ / بمطابق 1505ء میں وہ دہلی سے متھرا آئے۔ پہلے انہوں نے ماہرین کی ایک جماعت اس علاقے میں بھیجی جہاں نیا شہر بسانا مقصود تھا۔ ماہرین کشتی میں سوار ہو کر دریا کے کنارے کے ساتھ ساتھ چلے۔ انہوں نے اچھی طرح دیکھ بھال کرکے وہ مقام پسند کیا جہاں آج کل آگرہ آباد ہے۔ انہوں نے سکندر لودھی کو اپنی رائے سے آگاہ کیا۔

"آگرہ شہر جسے آباد کرنے کا سہرا سکندر لودھی کو جاتا ہے"

سکندر خود اس جگہ پہنچے۔ انہیں یہاں دو بلند ٹیلے نظر آئے۔ انہوں نے ایک ملاح سے پوچھا کہ ان دو بلندیوں میں سے کونسی بہتر ہے۔ ملاح نے کہا جو بھی آگرہ“ یعنی سعد ہو۔“ سکندر نے مسکرا کر کہا ” اس شہر کا نام "آگرہ “ ہو گا۔“ یہ روایت تاریخ خان جہانی و مخزن افغانی میں خواجہ نعمت اللہ ہروی کی ہے۔مولوی ذکا اللہ نے تاریخ ہندوستان میں مختلف بات لکھی ہے۔ ان کے مطابق ملاح نے سکندر کا سوال سن کر کہا تھا، وہ جو آگرہ ہے، یعنی وہ جو آگے والا ٹیلہ ہے۔ مولوی ذکا اللہ نے ایک اور روایت بھی نقل کی ہے کہ آگرہ کا لفظ ” اور “ سے نکلا ہے جس کے معنی ”نمک دان“ کے ہیں، اس علاقے کو آگرہ اس لیے کہا گیا کہ یہاں کی زمین میں شوریت (نمک) بہت تھی۔آگرہ میں سکندر نے بیانہ (تھنکر) کے 52 پر گنوں میں سے 9 پر گنے شامل کر دیے اور یہاں ایک قلعہ تعمیر کروایا جس کا نام قلعہ بادل گڑھ رکھا گیا۔ بعد میں مغل شہنشاہ اکبر نے اس قلعہ کی جگہ ایک اور قلعہ تعمیر کروا دیا تھا۔ سکندر نے آگرہ میں ایک بارہ دری بھی تعمیر کروائی تھی، جو ، اب بھی موجود ہے۔آگرہ نے بہت جلد اہمیت حاصل کرلی۔ دنیائے اسلام کے بہت سے حصوں سے ماہرین علم و فن آکر یہاں آباد ہو گئے۔ یہ شہر جنگی اور تجارتی لحاظ سے نہایت اہم مرکز بن گیا، کیونکہ جنوب میں گوالیار اور مالوہ، مغرب میں راجپوتانہ، شمال مغرب میں دہلی اور پنجاب اور مشرق میں وادی گنگا کو جانے والے رہتے، آگرہ ہی سے گزرتے تھے۔ سکندر لودھی نے آگرہ سے دھول پور تک ہر دس میل کے فاصلے پر سرائیں اور عمار تمہیں بھی تعمیر کروائیں۔

لودھی خاندان کے عظیم فرمانر و اسکندر لودھی نے اپنے 27 ساله دور حکومت میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے، وہ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں۔ سکندر لودھی کے ان کارناموں کی وجہ سے تاریخ ان کا ذکر ہمیشہ اچھے الفاظ میں کرے گی۔

"دہلی شہر میں موجود سکندر لودھی کا مقبرہ"

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

ہندستان میں لودھی سلطنت کی بنیاد رکھنے والے پہلے لودھی سلطان

لودھی سلطنت کے بانی اور پہلے حکمران "بہلول لودھی"۔لودھی دراصل افغانستان کے ایک قبیلے غلزئی کی شاخ کا نام ہے۔سلطان محمود غزنوی کی حکومت سے پہلے یہ قبیلہ ملتان آکر آباد ہو گیا تھا۔یہاں ابو الفتح داؤد کی حکومت تھی۔جو…

مزید پڑھیں
سلجوقی سلطنت کے قیام اور زوال کی مکمل داستان

سلجوقی سلطنت کو عالم اسلام کی چند عظیم سلطنتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سلجوقی سلطنت کا قیام "گیارہویں" صدی عیسوی میں ہوا۔ سلجوق در اصل نسلاََ    اُغوز ترک تھے۔اس عظیم سلطنت کا قیام"طغرل بے"اور"چغری…

مزید پڑھیں
سپین میں مسلمانوں کا 800 سالہ دور حکومت

جزیرہ نما آیبیریا   جو کہ ہسپانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مغربی رومی سلطنت کے ختم ہو جانے کے بعدیہاں پر مکمل طور "گاتھک" خاندان کی حکومت قایم ہو گی۔لیکن انکی یہ حکومت زیادہ عرصہ…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں