ہندستان میں سوری سلطنت کو قائم کرنے والے پہلے سوری بادشاہ
"شیر شاہ سوری"
فرید خان جنہیں دنیا شیر شاہ سوری کے نام سے جانتی ہے ،آپ ہی نے سوری سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔آپ کا تعلق ایک افغان قبیلے"سور"سے تھا۔یہ قبیلہ روہ کے علاقے میں مقیم تھا،جس زمانے میں برصغیر پر "سلطان بہلول لودھی "کی حکومت تھی،اس زمانے میں شیر شاہ سوری کے داداابراہیم "روہ"سے ہجرت کر کے بر صغیر چلےآئے۔ہندستان میں 891ھ بمطابق1486ءمیں ان کےپوتے فرید خان(شیر شاہ سوری)پیدا ہوئے،اسکے بعد یہ لوگ "نارنول"میں رہے۔نارنول سیالکوٹ سے 35 میل جنوب مشرق کی جانب واقع ہے۔آج کل یہ قصبہ"نارووال"کہلاتا ہے۔
جب سلطان بہلول لودھی کا 894ھ بمطابق1489ءمیں انتقال ہو گیا تو ان کی تمام سلطنت ان کے بیٹے سکندر لودھی کے ہاتھ میں آگئی،اسی دوران سور قبیلے کے ایک امیر کو جونپور کی حکومت ملی،ابراہیم خان کے بیٹے حسن نے جمال خان کی ملازمت اختیار کر لی،جمال خان حسن سوری سے بہت خوش تھے،انہوں نے حسن سوری کو سہسرام،خواص پور،ٹانڈہ کے پرگنے بطور جاگیر عطا کیے اور 500سوار بھی دیے،اسی ماحول میں فرید خان نے پر ورش پائی۔
فرید خان نے جب ہوش سنبھالا تو انہوں نے محسوس کیا کہ انکی سوتیلی والدہ ان سے نا خوش رہتی ہے۔انہوں نے صورتحال کو نا خشگوار ہونے سے بچانے کے لیے جونپور چلے گئے،جہاں جمال خان حکمران تھے۔جمال خان نے نوجوان فرید خان کو بڑی خوشی سے رہنے کی اجازت دے دی،اس زمانے میں جنپور علم ع فضل کی بلندیوں پر تھا۔یہاں بڑے بڑے اہل علم حضرات موجود تھے،یہاں انہوں نے جونپور کے مشہور قاضی"شہاب الدین"سے " الکافیہ فی النحو" پڑھی۔
چند سال بعد جب حسن سوری جونپور آئے تو ان کے اعزہ نے ان سے کہا کہ آپ نے فرید خان جیسے لائق بیٹے کو اپنے دور رکھا ہوا ہے؟اس پر حسن سوری نے اپنے بیٹے کو سہسرام جانے کی دعوت دی۔فرید اپنے والد کی دعوت پر واپس چلے گئے جہاں ان کے والد نے انہیں اپنی جاگیروں کا ناظم مقرر کیا۔
"تیسری پانی پت جنگ1526ء کا میدان جس میں فتح ظہیر الدین بابر کی ہوئی اور یہیں سے مغلیہ
سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔"
رجب932ھ بمطابق اپریل 1526ء میں پانی پت کی جنگ چھڑ گئی،فرید خان اس وقت بہار کے حاکم "بہار خان" کےہاں ملازم تھے۔بہار خان نے اپنے لئے سلطان محمد کا لقب پسند کیا تھا،ایک دن سلطان محمد شکار کے لئے نکلے،فرید بھی ساتھ تھے۔اچانک ایک طرف جھاڑیوں سے ایک بڑا شیر سلطان محمد پر حملہ آور ہوا،سلطان اس حملے سے حواس باختہ ہو گئے،لیکن فرید خان نے حاضر دماغی کا ثبوت دیا ،وہ بلکل بھی نہ گھبرائے بلکہ انہوں نے اپنی تلوار نکال کر شیر پر ایک کاری ضرب لگائی جس سے تلوار شیر کے آر پار ہو گئی،اور چند لمحوں بعد شیر کی لاش فرید خان کے قدموں پڑی ہوئ تھی۔سلطان محمد اس واقعے سے بے حد متاثر ہوئے،انہوں نے اپنے محسن فریدخان کی بہت تعریف کی،اور ان کی بہادری پر انہیں "شیر خان"کاخطاب دیا۔سلطان محمد نے فرید خان کو اپنے چھوٹے بیٹے "جلال خان"کا اتالیق بھی مقرر کر دیا۔کچھ عرصے بعد سلطان محمد کا انتقال ہو گیا تو ان کے بیٹے جلال خان حکمران بنے،انہیں اپنی والدہ"دودو" کی سر پرستی حاصل تھی۔لیکن بہت جلد ان کا بھی انتقال ہو گیا۔یوں بہار کی حکومت عملاً فرید خان کے ہاتھ میں آگئی۔
کچھ عرصے کے بعد فرید خان نے پورے بہار کو فتح کر لیا۔قلعہ چنار پر ایک شخص تاج خان حکمران تھا،جب اس کا انتقال ہوا تو فرید خان نے اسکی بیوہ ملکہ لاد سے شادی کر لی۔
ظہیر الدین بابر نے 1530ء میں وفات پائی،انکی وفات کے بعد حکومت انکے بیٹے ہمایوں کے پاس چلی گئی۔دوسری جانب فرید خان کی سلطنت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔بہار کے بعد بنگال پر بھی فرید خان کا قبضہ ہو گیا۔آگرہ اور دہلی پر قبضہ کرنے کے بعد انہوں نے "شیر شاہ" کا لقب اختیار کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مفتوحہ علاقوں میں اپنے نام کا سکہ اور خطبہ جاری کیا۔اس سے قبل بہار کے قلعہ رہتاس(سہسرام) پر بھی شیر شاہ کا قبضہ ہو چکا تھا۔جہاں راجہ ہری کشن کا قبضہ تھا۔
"سال1542ءمیں شیر شاہ سوری کا بنایا ہوا قلعہ جو وہاں کے گھکڑوں اور افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں
کے لئے بنایا گیا تھا۔"
محرم948ھ بمطابق مئی 1540ء میں شیر شاہ کی حکومت برصغیر کے بڑے حصے پر قائم ہو چکی تھی۔اب شیر شاہ نے اپنی فوج کے ایک حصے کو نیلاب(دریاے اٹک جس کا پانی نیلگوں ہوتا ہے) کی طرف اور دوسرے حصے کو سندھ کی طرف روانہ کیا۔اسی دوران شیر شاہ نے جہلم سے بارہ میل مغرب میں واقع نمک کی کانوں کے علاقے نندنہ اور ٹیلہ بال ناتھ کے گردو نواح کے علاقے کا جائزہ لیا بہت تلاش اور غور و فکر کے بعد انہوں نے ایک جگہ منتخب کی اور وہاں قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔کہتے ہیں کہ جب شہر شاہ نے رہتاس(خوشاب کی شمالی جانب کا علاقہ)میں رہنے والوں گھکڑوں سے کہا کہ وہ اطاعت کریں تو انہوں نے جواب میں چند تیر اور شیر کے بچے بھیج دیے۔یہ اطاعت قبول نہ کرنے کا اعلان تھا۔جب شیر شاہ نے اس علاقے میں قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا تو گھکڑوں نے قلعے کی تعمیر میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔جب شیر شاہ کو اس بات کا علم ہوا تو اہنوں نے کہا کہ یہ قلعہ ہر صورت میں تعمیر ہو گا۔چناچہ قلعے کے لیے پتھر لانے کی مزدوری فی پتھر ایک اشرفی مقرر کر دی گئی۔ اعلان کی دیر تھی کہ مزدوروں کی بھرمار ہو گئی۔مزدور اس قدر زیادہ ہو گئے کہ پہلے پتھر ایک روپے میں اور بعد میں ایک بہلولی سکے کے عوض آنے لگا۔یہ قلعہ 1542ءمیں تعمیر ہوا،کہا جاتا ہے کہ اس قلعے کی تعمیر میں 1کڑور 15لاکھ 5ہزار بہلولی سکے خرچ ہوے تھے،اس قلعے کا مقصد سرکش گکھڑوں کو قابو کرنا اور افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں کی روک تھام تھا۔اس کے لیےشیر شاہ نے جس جگہ کا انتخاب کیا وہ انکی دانش مندی کو ظاہر کرتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ سکندر اس جگہ سے کشتیاں کھینچتا ہوا گزرا تھا۔
شیر شاہ نے949ھ بمطابق1542ء میں قلعہ گوالیار اور مالوہ پر فوج کشی کی اور یہ دونوں مقامات فتح کیے۔اس کے بعد قلعہ رنتھمبور تسخیر کیا۔
اب شیر شاہ بنگال سے پنجاب کے پورے علاقے پر اپنی حکمرانی قائم کر چکے تھے۔اس کے بعد انہوں نے اپنے مشیروں سے کہا کہ اب میں اجمیر ،مارواڑ اور کالنجر کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔چناچہ شیر شاہ کا لشکر مارواڑ کی جانب روانہ ہوا۔ان دنوں مارواڑ ،ناگور اور اجمیر پر ایک راجپوت مال دیو قابض تھا۔اس کے پاس پچاس ہزار سوار تھے۔شیر شاہ کا اصول تھا کہ وہ رستے میں جہاں پڑاو ڈالتا وہاں خندقیں یا کچہ قلعہ تعمیر کرتا۔
شیر شاہ کا لشکر آخر کار جودھپور اور ناگور کے حکمران راجہ مال دیو کے علاقے پر حملہ آور ہوا۔اجمیر میں دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔شیر شاہ نے ایسی جنگی چال چلی کہ مال دیو خوفزدہ ہو کر میدان جنگ سے بھاگ نکلا۔صرف اس کے دو سردار گوپا اور جیتا 8ہزار کی فوج کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہے۔گوپا اور جیتا نے شیر شاہ کے لشکر پر شب خون مارنے کا فیصلہ کیا۔شیر شاہبھی سمجھ گئے کہ ان کی نیت شب خون مارنے کی ہے۔شیر شاہ نے حکم دیا کہ شام ہوتے ہی لشکر 2 یا 3 میل دور منتقل ہو جائے ،کیونکہ شام تک جیتا اور گوپا کے جاسوس یہاں موجود رہیں گے۔پھر جا کر خبر دیں گے کہ لشکر یہیں ٹھہرا ہوا ہے۔چناچہ رات ہوتے ہی شیر شاہ کا لشکر دور منتقل ہو گیا۔
رات کو جب دشمن کے دستے شب خون مارنے نکلے تو راستہ بھول گئے۔گوپا اور جیتا کے لشکر ایک دوسرے سے بچھرگئے،کئی گھنٹوں بعد دونوں لشکر یکجا ہونے میں کامیاب ہو گئے اور صبح صادق ہونے تک انہوں نے شیر شاہ کے لشکر کو ڈھونڈ نکالا۔دونوں راجپوت سرداروں نے پانچ ہزار سواروں کے ساتھ شیر شاہ کے لشکر پر حملہ کر دیا،لیکن شیر شاہ کی فوج پہلے ہی سے تیار تھی۔راجپوت بڑی بے جگری سے لڑے لیکن آخر کار انہیں شکست ہوئی۔اس جنگ میں 2ہزار راجپوت مارے گئے۔
`"شیر شاہ سوری کی فتح کے بعد میدان میں پڑی 2ہزار راجپوتوں کی لاشوں کے منظر"
شیر شاہ نے چند افسران کو ناگور،اجمیر،اور جھودپور میں مقرر کیا۔951ھ بمطابق1544ءمیں شیر شاہ نے پھر فوج کو تیاری کا حکم دیا۔افسران نے کہا کہ یہ برسات کا موسم ہے یہ آرام سے گزر جائے پھر فوج کشی کریں گے۔شیر شاہ نے کہا کہ "میرے لیے کام میں ہی آرام ہے"انہوں نے فوج کو روانگی کا حکم دیا۔چتوڑ گڑھ فتح کیا پھر مالوہ کے سر حدی علاقوں کو فتح کرتے ہوئے کالنجر کی طرف بڑھے،کالنجر پر حملہ کرنے کا ایک سبب یہ بھی تھا،کہ یہاں کے راجہ نے ایک باغی کو پناہ دے رکھی تھی،اور شیر شاہ کے حکم کے باوجود باغی واپس نہیں کیا تھا۔
کالنجر کے راجہ کیرت سنگھ کو جب شیر شاہ کی آمد کی اطلاع ملی۔تو اس نے قلعے کے آس پاس کی عمارتیں مسمار کرا دیں اور خوراک زخیرہ کر کے قلعہ بند ہو گیا۔یہ قلعہ ہندستان کے مضبوط ترین قلعوں میں شمار کیا جاتا تھا۔شیر شاہ کی فوج نے اس قلعے کا محاصرہ کر لیا۔شیر شاہ نے قلعے کے آس پاس اونچے برج بنانے کا حکم دیا یہ برج اس قدر اونچے تھے کہ قلعے کے اندر لوگ نظر آنے لگے۔یہاں محاصرہ طول پکڑ گیا لیکن راجہ کیرت سنگھ نے ہتھیار نہ ڈالے اور یوں چھ ماہ گزر گئے۔
9ربیع الاول 952ھ بمطابق 21 مئی 1545ء کو شیر شاہ دوپہر کے کھانے پر بیٹھے تھے۔شیر شاہ کا معمول تھا کہ آپ علماء کرام کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے۔ کھانے کے دوران شیخ خلیل اور ملا نظام نے جہاد کا تزکرہ چھیڑ دیا ،اور کہا کہ"کفار کے خلاف جہاد سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں"شیر شاہ اس بات سے بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے کھانے کے بعد بارود نما بموں سے قلعے پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔
"کالنجر کا وہ قلعہ جس کی فتح کے دوران بارود کے پھٹنے سےشیر شاہ سوری کا انتقال ہوا تھا"
شیر شاہ کے حکم پر آتشیں بموں سے حملہ شروع ہوا۔خودشیر شاہ ایک مورچے پڑ کھڑے اپنے سپاہیوں کو ہدایات دے رہے تھے۔گولہ باری کے دوران اتفاق سے ایک گولہ قلعے کی دیوار پر لگا اور پلٹ کر واپس اس جگہ جہاں شیر شاہ کی فوج نے بارود کا زخیرہ کیا ہوا تھا۔اس گولے کے پھٹنے سے بارود میں آگ لگ گئی۔شیر شاہ اسی زخیرے کے پاس کھڑے تھے۔وہ بڑی طرح جلس گئے۔شیخ خلیل اور مولانا نظام بھی وہیں موجود تھے لیکن وہ وہیں شہید ہو گئے۔شیر شاہ جھلسی ہوئی حالت میں اپنے خیمے تک پہنچے۔انہیں فوراً اٹھا کر انہیں ان کے خیمے تک لایا گیا۔شیر شاہ شد تِ کرب سے بے حوش تھے لیکن جیسے ہی انہیں ہوش آتا تو کہتے ڈٹے رہو آگے بڑھو۔بار بار تاکید کرتے کہ جب تک قلعہ فتح نہ ہو آگے بڑھتے رہو۔اگلے دن عصر کی نماز کا وقت ہوا تو قلعہ فتح ہو گیا۔اسلامی لشکر قلعے میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوا اور قلعے کے اندر سے عصر کی ازان گونجنے لگی،"اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے۔"
شیر شاہکو جب فتح کی خوشخبری سنائی گئی تو قہ سخت تکلیف کے عالم میں تھے،لیکن ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور ان کے لبوں پر کلمہ جاری ہوا۔10 ربیع الااول 952ھ بمطابق 22 مئی 1545ء کو اس عظیم حکمران نے دنیا کو خیر آباد کہا۔انہیں سہسرام میں سپرد خاک کیا گیا۔شیر شاہ بے حد اعلیٰ درجے کے منتظم اور انتہائی بیدار مغز انسان تھے۔
"سسرام انڈیا میں واقع"شیر شاہ سور"کا مزار جہاں انہیں دفن کیا گیا تھا"
تبصرہ کریں