سلجوق کون تھے،اور انکی تاریخ کیا ہے؟
سلجوق خاندان کا پس منظر:۔
سلجوق خاندان کا آغاز دسویں صدی عیسوی میں ہوا۔ان کا جدِ اعلیٰ، سلجوق بن دقاق، اوغوز ترکوں کے قنق قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔سلجوق نے اپنے قبیلے کے ساتھ اسلام قبول کیا اور بخارا کے قریب جند میں سکونت اختیار کی۔یہاں سے انہوں نے اپنی فتوحات کا آغاز کیا اور ترک قبائل پر غلبہ حاصل کیا۔
سلجوقی سلطنت کا قیام:۔
آل سلجوق کا مورث اعلی دقاق تھا جو کاشغر کے تر کی قبائل کا ایک رئیس تھا سلجوق ، جس کے نام سے یہ خاندان مشہور ہے اس کا لڑکا تھا سلجوق اپنے غیر مسلم ترک فرماں روا کو چھوڑ کر بخارا کی اسلامی مملکت میں چلا آیا اور یہاں وہ اور اس کا پورا قبیلہ مسلمان ہو کر بخارا کے قریب مقام "جند" میں قیام پذیر ہوا، اس کے بعد اس نے غیر مسلم ترکوں پر فتوحات حاصل کر کے اپنی قوت بہت بڑھالی۔ سلجوق نے اپنی وفات کے وقت تین لڑکے چھوڑے تھے،ان میں ارسلان، میکائیل اور موسیٰ ،تھے۔ دولت سلجوقیہ کے وارث میکائیل کے تین لڑکے ہوئے، پیغو، طغرل بیگ، چغری بیگ، لیکن سلطنت کی فرماں روائی طغرل بیگ کو ملی ، جس نے اپنے زورِ وقوت کا سکہ گرد و پیش کے علاقوں پر بٹھا دیا تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے سلجوقیوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خائف ہو کر ان سے جنگ شروع کر دی۔ لیکن چند عارضی فتوحات کے بعداس کو اوراس کےلڑکے مسعود کوشکستیں اُٹھانی پڑیں اورآلِ سلجوق تمام خراسان پر قابض ہو گئے ، اس کے بعد انہوں نے جرجان، طبرستان اور خوارزم پربھی قبضہ کر لیا اور پھر طغرل بیگ نے اصغان، تبریز اور حلوان کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیاتھا۔
سلجوق اور عباسی خلافت:۔
یہ وہ زمانہ تھا جب بغداد میں تُرکوں اور آلِ بویہ کی باہمی مخالفت نے سخت بدامنی پھیلا رکھی تھی، خلیفہ معتصم کے بعد دولتِ عباسیہ پر روز بروز ترکوں کا تسلط بڑھتا گیا۔ لیکن چوتھی صدی ہجری سے آلِ بویہ نے اپنا اقتدار خلافتِ بغداد پر قائم کرنا شروع کیا ، جس سے ترکوں کی قوت پر اثر پڑنے لگا، ان حریفوں کی کشمکش نے تمام سلطنت میں ہنگامہ برپا کر دیا اور بغداد کی حالت خصوصیت کے ساتھ بد سے بدتر ہونے لگی، مجبور ہو کر ترک سرداروں نیز خلیفہ "قائم بامراللہ" نے سلطان طغرل بیگ کو اس فتنہ کے فرو کرنے کے لیے طلب کیا، چنانچہ طغرل بیگ رمضان المبارک 447ہجری /مبطابق (دسمبر 1055ء) میں بغداد میں داخل ہوے اور "ملک رحیم" کو گرفتار کر کے آل بویہ کا خاتمہ کر دیا، اب بغداد میں آلِ سلجوق کا اثر قائم ہو گیا، خلیفہ نے سلطان شرق و غرب کے خطاب سے سلطان طغرل بیگ کی عزت افزائی کی ، اس کے بعد طغرل بیگ نے عراق موصل اور دیارِ بکر کواپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ پھر الپ ارسلان کے دور ِحکومت میں ایشیائے کو چک اور شام بھی فتح ہوگیا اور ملک شاہ نے 485 ہجری/بمطابق (1092ء) میں عدن اور یمن پربھی قبضہ کر لیا، اس طرح سے پانچویں صدی سے ساتویں صدی ہجری تک خلیفہ نغداد کے ایشیائی مقبوضات کا بیش تر حصہ سلجوقیوں کے زیرِ اثر آ گیا تھا۔
سلجوقی سلطنت کی توسیع:۔
طغرل بیگ کے بعد، اس کا بھتیجا الپ ارسلان 1063ء میں تخت نشین ہوا۔اس نے 1071ء میں بازنطینی سلطنت کو ملازکرد کی جنگ میں شکست دی، جس سے اناطولیہ کے دروازے ترکوں کے لیے کھل گئے۔الپ ارسلان کے بیٹے، ملک شاہ اول کے دورِ حکومت (1072ء-1092ء) میں سلجوقی سلطنت نے اپنی وسعت کی انتہا کو پہنچا، جس میں ایران، عراق، شام، اور اناطولیہ کے بڑے حصے شامل تھے۔
سلجوقی سلطنت کا زوال:۔
ملک شاہ کی وفات کے بعد، اس کے بیٹوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش شروع ہوئی، جس سے سلطنت کمزور ہوئی۔داخلی انتشار اور صلیبی جنگوں کے باعث سلجوقی سلطنت مزید کمزور ہوتی گئی۔بالآخر، 1194ء میں خوارزم شاہ علاؤ الدین تکش کے ہاتھوں آخری عظیم سلجوق حکمران طغرل سوم کی شکست کے ساتھ ہی سلجوقی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔
سلجوقیوں کا ثقافتی ورثہ:۔
سلجوقیوں نے اسلامی ثقافت اور فنون کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ان کے دور میں مدارس کا قیام عمل میں آیا، جن میں نظامیہ مدرسہ خاص طور پر مشہور ہے۔انہوں نے فارسی زبان و ادب کی سرپرستی کی، جس سے فارسی اسلامی دنیا کی علمی اور ادبی زبان بن گئی۔
سلجوقی سلطنت کی تقسیم:۔
سلجوقی سلطنت کے زوال کے بعد، اس کی باقیات سے مختلف علاقائی سلطنتیں وجود میں آئیں، جن میں سلاجقۂ روم (اناطولیہ)، سلاجقۂ کرمان، سلاجقۂ شام، اور سلاجقۂ عراق شامل ہیں۔ان میں سے سلاجقۂ روم نے اناطولیہ میں ایک مستحکم حکومت قائم کی، اس خاندان کا بانی سلیمان بن قطامش تھا قطامش طغرل بیگ کے سرداروں میں تھا لیکن بعد میں اس نے الپ ارسلان کے خلاف بغاوت کر کے خود مختاری حاصل کر لی اور بالآخر 456ھ (1064ء) میں رے کے قریب جنگ میں مارا گیا ، اس کا بیٹا سلیمان قسمت آزمائی کے لیے ایشیائے کو چک میں چلا آیا اور 470ھ مبطابق (1077ء) میں نائیسا پر جو بازنطینی سلطنت کا ایک مشہور شہر تھا ، قبضہ کر کے اسے اپنا پایہ تخت بنایا اور ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی ، 477ھ (1084ء) میں اس نے انطاکیہ کو بھی اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔ لیکن پہلی جنگ صلیبی میں سلاجقہ روم کی قوت کو سخت صدمہ پہنچا، 490 ھ بمطابق(1057ء ) میں نائیسا ان کے ہاتھوں سے ہمیشہ کے لیے نکل گیا اور اس کے ساتھ ایشیائے کو چک کے مغربی حصے میں بھی ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور اس علاقے پر بازنطینیوں کا قبضہ ہو گیا ، اب صرف ایشیائے کوچک کا اندرونی حصہ ان کے پاس رہ گیا تھا۔ لیکن وہاں بھی دانش مندیوں سے مقابلہ تھا، غرض چھٹی صدی ہجری کے اوائل میں سلاجقہ روم کی حالت بہت نازک نظر آتی تھی، لیکن مسعود بن قلیچ ارسلان نے اس گرتی ہوئی سلطنت کو سنبھالا اور "قونیہ" کو پایہ تخت بناکر ایک مضبوط حکومت قائم کی، اس کے جانشین قلیج ارسلان ثانی نے اپنی فتوحات سے سلطنت میں اضافہ اپنی کیا اور دانش مندیوں کو مغلوب کر کے انہیں اپنا مطیع بنالیا۔578ھ/بمطابق 1182ء میں قلچ ارسلان ثانی کا انتقال ہو گیا اور اس کی جگہ اس کا چھوٹا بیٹا غیاث الدین کیخسر و اول تخت نشین ہوا، اس نے بازنطینیوں سے جنگ کر کے انطاکیہ کی بندرگاہ پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد اس کے جانشین عزالدین کیکاؤس اول نے سنوپ کو بھی فتح کر لیا، عزالدین کیکاؤس اور اس کے بعد علاؤ الدین کیقباد کا دورِ حکومت شان وشوکت کے لحاظ سے سلاجقہ روم کی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ لیکن غیاث الدین کینسر و ثانی ہی کے عہد ( 64 636 وہ بہر طابق1238-1246ء) سے سلطنت کا زوال شروع ہو گیا جو پھر کبھی نہ رکا ، اس دوران میں منگول طوفان ایشیائے کو چک کی سرحد تک پہنچ چکا تھا اور ارض روم اور سرحدی قلعوں پر تاتاریوں کا قبضہ ہو گیا تھا، آخر کار 641ھ بمطابق 1243ء میں "کوز اواخ" کی جنگ نے دولت سلجوقیہ کی قسمت کا فیصلہ کر دیا اور آل سلجوق کی آزادی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی صلح کے بعد منگول چلے گئے۔ لیکن 643ھ (1245ء ) میں کیخسر وثانی کی وفات پر جب اس کے تینوں لڑکوں کی مشترکہ حکومت کی وجہ سے سلطنت میں بد نظمی پیدا ہوئی، تو تاتاریوں نے پھر حملے شروع کر دیے، اس درمیان میں ایک لڑکا مر گیا اور تخت کے دعوے دار بقیہ دولڑ کے عزالدین اور رکن الدین رہ گئے ، ہلاکو نے سلطنت کو ان دونوں کے درمیان تقسیم کر دیا ، مغربی صوبے عزالدین ( کیکاؤس ثانی ) کو اور مشرقی رکن الدین ( قلچ ارسلان رابع ) کو دیے۔ لیکن حکومت در اصل تارتاریوں کی تھی اور سلاطین سلجوق کا عزل و نصب ان ہی کے ہاتھوں میں تھا، تاتاریوں کے تشدد سے عاجز آکر امرائے سلطنت نے اہل مصر سے مدد کی درخواست کی اور مصریوں (مملوکوں)نے ایشیائے کو چک میں تاتاریوں کو شکست دے کر بھگا دیا۔ لیکن ان کی واپسی کے بعد تاتاریوں نے پوری طرح انتقام لیا اور دولت سلجوقیہ کے رہے سے اقتدار کو بھی خاک میں ملا دیا، سلطنت کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر متعدد امرا نے مختلف صوبوں میں خود مختار حکومتیں قائم کر لیں ان میں بنو کرمان اور بنوا شرف اپنی قوت واثر کے اعتبار سے زیادہ ممتاز تھے۔ تاتاریوں نے بارہا ان خود سرامیروں کو زیر کرنے کی کوشش کی مگر عارضی شکستوں کے بعد یہ اپنا اقتدار پھر قائم کر لیتے تھے اور ساتویں صدی ہجری میں تاتاریوں کے زوال پر انہوں نے مستقل حکومتیں قائم کر لیں، چنانچہ دولت سلجوقیہ کے خاتمہ کے قریب ایشیائے کو چک میں صارد خان، کیراسی، ایدین،بنو تکہ،بنو حمید، کرمانیه،گرمیان، قسطمونی اور بنو منتشا کی خود سر حکومتیں قائم ہو چکی تھیں ۔سلجوق خاندان نے اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔انہوں نے نہ صرف وسیع سلطنت قائم کی بلکہ اسلامی ثقافت، تعلیم، اور فنون کی ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ان کا دور اسلامی تاریخ کا ایک زریں باب تصور کیا جاتا ہے۔
تبصرہ کریں