سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔
سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک قائم رہنے والی مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔یہ عظیم سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ،مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے سر نگیں تھا۔
سلطنت عثمانیہ کے قیام سے پہلے مسلمانوں کی ایک بڑی سلطنت "سلاجقہ روم " اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔اس سلجوقی سلطنت کی بنیاد "طغرل بیگ محمد " نے رکھی تھی۔یہ سلجوقی سلطنت تین سو سالوں تک مسلمانوں کی قیادت کرتی رہی۔لیکن اس سلطنت کا عروج سلطان علاؤالدین کیقباد کے عہد حکومت تک ہی رہا بعد کے شہزادوں کی آپس میں خانہ جنگی نے اس سلطنت کو کمزور کر دیا تھا ،اور منگولوں کے حملوں سے اس سلطنت کا اختتام ہو گیا۔
اس صدی میں تاتاریوں کا فتنہ اپنے عروج پہ تھا ، تاتا ری چنگیز خان کی قیادت میں شہروں کے شہر فتح کرتے جا رہے تھے۔ منگولوں کے ان حملوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی سلطنت "خوارزمی سلطنت" ختم ہو چکی تھی ۔منگولوں کے ان حملوں کی وجہ سے بہت سے مسلمان دور دراز کے علاقوں میں ہجرت کرنے لگے ۔ان ہجرت کرنے والوں میں سے ایک قبیلہ'ارطغرل غازی' کا قبیلہ تھا۔یہ قبیلہ ترکانِ اوغوز کے قبیلہ 'قائی' کا ایک جزو تھا۔ جو ارتغرل غازی کے والد سلیمان شاہ جو کہ قبیلے کے سردار تھے کی قیادت میں اپنے وطن خراسان کو چھوڑ کر مختلف شہروں میں سے ہوتاہوا شام جا رہا تھا۔ کہ اس خانہ بدوشی کے سفر میں قبیلے کے سردار سلیمان شاہ کا 'دریائے فرات' عبور کرتے ہوئے انتقال ہو گیا۔سردار کی وفات کے بعد قبیلہ ارطغرل غازی کی قیادت میں ایشیائے کو چک کی طرف روانہ ہوا اور سلطان علاؤالدین کیقباد کی سلجوقی سلطنت میں داخل ہوئے۔
قائی قبیلہ اس وقت 400 گھرانوں پر مشتمل تھا ۔سلجوقی سلطنت میں داخل ہونے کے بعد یہ قبیلہ سلطان علاؤالدین کیقباد کے زیر سایہ پناہ لینے کے لیے پایہ تخت قونیہ کی طرف جا رہا تھا کہ راستے میں انگورا( یہ وہ مقام ہے جہاں سلطنت عثمانیہ کے سلطان بایزید یلدرم اور امیرِ تیمور کے درمیان 1402ء میں جنگ ہوئی تھی) کے مقام پر دو فوجیں جنگ میں مصروف نظر آئیں۔ ارتغرل غازی نے اپنے بہتریں اور مختصر گھڑ سواروں کے ساتھ کمزور فریق کی مدد کی ۔ارتغرل غازی کے اس حملے سے طاقتور فریق میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا،اور جب جنگ ختم ہوئی تو انہیں معلوم ہوا کہ جس فریق کی انہوں نے مدد کی ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ سلجوق سلطنت کے سلطان علاؤالدین کیقباد ہیں۔سلطان علاؤالدین کیقباد تاتاریوں کی ایک فوج کے ساتھ جنگ میں مصروف تھے۔
ارتغرل غازی کی اس مدد نے جنگ کا پانسہ سلطان علاؤالدین کیقباد کے حق میں پلٹ دیا تھا اور اس کی ہی وجہ سے سلطان علاؤالدین کیقباد جنگ جیتے تھے ۔سلطان علاؤالدین کیقباد نے ارتغرل غازی سے خوش ہوتے ہوے انہیں سوغوت کا علاقہ دیا،جو کہ دریائے سقاریہ کے بائیں جانب بازنطینی سرحد کے پاس واقع تھا۔بازنطینی سر حد کے پاس جب قائی قبیلہ آ باد ہوا تو صلیبیوں سے قائیوں کی جھڑپیں ہونے لگیں ۔اب چونکہ سلجوقی سلطان علاؤالدین کیقباد کی ارتغرل غازی کو بھر پور مدد اور حمایت حاصل تھی اس لیے ارتغرل غازی نے بازنطینی سلطنت کے خلاف جہاد جاری رکھا۔ارتغرل کی اس بہادری سے متاثر ہو کر وہ ترک قبائل جو منگولوں کے حملوں سے بھاگ نکلے تھے ایک ایک کر کے ارتغرل غازی کے جھنڈے تلے جمع ہونے لگے،اور یوں ارتغرل غازی کا اقتدارارد گرد کے علاقوں میں قائم ہونے لگا۔ارتغرل غازی نے سلطان علاؤالدین کیقباد کی طرف سے ملنے والی اس زمیں پربے شمار جنگیں لڑیں یہاں تک کہ ارتغرل غازی 687ھ/بمطابق1288عیسوی میں 90 سال کی عمر میں انتقال کر گئے انہیں سوغوت کے قریب دفن کیا گیا۔
تبصرہ کریں