عثمانی خاندان آجکل کہاں اور کس حال میں ہے؟
سلطنتِ عثمانیہ جس کا قیام 1299ءمیں ہوا تھا،یہ اوغوزترکوں کی عظیم الشان سلطنت تھی جس نے عیسائیوں کے قلب کو چیڑتے ہوئے،یورپ کے ایک بڑے حصے پر کئی سو سالوں تک اپنی طاقت کا سکہ جمائے رکھا تھا۔
"جنگِ عظیم اول کا ایک اشتہار جس میں عثمانی سلطنت کے یورپی حصوں کے ٹکرے ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے"
لیکن اٹھارویں صدی کے آغاز سے ہی اس سلطنت میں کمزوریاں شروع ہونے لگیں۔یہاں تک کہ بیسویں صدی کا آغاز سلطنتِ عثمانیہ کے لیے بے حد خطر ناک ثابت ہوا۔کیونکہ اس صدی کی شروعات میں ہی عیسائیوں اور یہودیوں نے ملکرسلطنتِ عثمانیہ کوختم کردیاتھا۔سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد آخری عثمانی سلطان کے ساتھ کیا کیا گیا،اور یہ کہ عثمانی شہزادے آج کل کہاں زندگی گزار رہے ہیں۔
ناظرین 1نومبر1922ءکادن مسلمانوں کے لیے سیاہ دن ہے،کیونکہ اس دن سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کااعلان کیا گیا تھا۔تُرکی میں آخری با اختیار سلطان محمد ششم کی حکومت کاخاتمہ کیاگیا اورمصطفیٰ کمال پاشا کی حکومت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔یہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ترکی جہاں عثمانیوں نے کم و پیش 600 سالوں تک حکومت کی وہاں آخری سلطان کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔
"اس تصویر میں سلطان وحید الدین عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد محل سے واپس جا رہے ہیں"
سلطان محمد 17 نومبر کو برطانوی بحری جہاز سے مالٹاروانہ ہوگئے۔اس سفر میں ان کے بیٹے شہزادے "ارطغرل آفندی"بھی ان کے ساتھ تھے۔سلطان محمد ششم پہلےمالٹا میں رہے اور بعد میں وہ اٹلی چلے گئے اور انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام وہیں گزارے۔یوں 16مئی 1926ء کوآخری عثمانی سلطان محمد ششم کا اٹلی میں انتقال ہوگیا۔آپ کو دمشق میں سلطان سلیم اول مسجد کےقریب سپردِ خاک کیا گیا۔سلطان محمدششم جب تک زندہ رہے ،عثمانی خاندان کے سربراہ کے طور پررہے۔انہیں ترکی سے نکالنے کے بعد 19نومبر 1922 ءکو ان کے قریبی عزیز "عبد المجید ثانی" کو نیا خلیفہ چنا گیا۔جو کہ 1924ءتک خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے تک یہ زمہ داریاں نباتے رہے۔ایک اندازے کے مطابق جلا وطن ہنے والے کل عثمانی خاندان کی تعداد156 تھی۔جن میں سلطان کے ساتھ بہت سے شہزادے اور شہزادیاں شامل تھیں۔اسکے علاوہ وہ وفادار نوکر تھے ،جو عثمانی خاندان کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔عثمانی خاندان نے جلا وطن ہونے کے بعد مصر جانا چاہا ،جو کبھی انکی سلطنت ہوا کرتی تھی،لیکن نہ تو انگریز حکومت نے انہیں وہاں جانے کی اجازت دی اور نہ ہی وہاں کے شاہ نے انہیں مصر آنے کی اجازت دی۔پھر عثمانی خاندان نے شام جانے کا ارادہ کیا ،لیکن شام کے دروازے بھی عثمانیوں کے لیے بند کر دیے گئے۔اس کے بعد عثمانی خاندان کے کچھ افراد لبنان کے شہر بیروت میں چلے گئے،جو کہ اس وقت حکومتِ فرانس کے زیر تسلط تھا۔
خلیفہ عبد المجید فرانس کے شہر نائیس چلے گئے،عثمانی شہزادے علی کی کوششوں سے ہی فرانس کی حکومت نے انہیں پاسپوٹ دیا۔یہ وقت عثمانی خاندان کے لیے بہت نازک تھا۔کیونکہ انکے پاس کوئی پیسہ نہ تھا۔
عثمانی خاندان کی جلا وطنی کےبعد خاندان کا سربراہ وہ شخص منتخب ہونا شروع ہوا جو پورے خاندان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑا تھا۔1926میں سلطان محمد ششم کی وفات کے بعد اس پر باقاعدہ عمل ہونا شروع ہوا،اور آج تک اس پر عمل ہو رہا ہے۔آج کل عثمانی خاندان کے سربراہ "داندار علی عثمان"ہیں۔آپ 2017میں خاندانِ آلِ عثمان کے چوالیسویں سربراہ کی وفات کے بعد مقرر ہوئے۔آپ سلطان عبد الحمید ثانی کے پڑ پوتے اور شہزادہ محمد سلیم کے بیٹے تھے۔
"دندار علی عثمان عثمانی خاندان کے سربراہ جو 18جنوری2021میں انتقال کر گئےتھے"
آپ آج کل دمشق شام میں قیام پذیر ہیں۔1952ءمیں خاندانِ عثمان کی عورتوں کو ترکی میں آنے اور وہاں رہنے کی اجازت مل گئی تھی۔اس کے بعد 1974میں عثمانی مردوں کو بھی ترکی میں رہنے کی اجازت دے دی گئی۔لیکن عثمانی خاندان کے مردوں نے ترکی سے باہر ہی رہنا پسند کیا۔عثمانی خاندان کے مرد مختلف ملکوں میں رہ رہے ہیں جن میں امریکہ،بلغراد،ہینگری،فرانس،مصر،شام اور ترکی شامل ہیں۔
سلطان عبد الحمید دوم کے پوتے،عبد الحمید کائی خان ترکی میں عثمانی خاندان کی نمائندگی کرتے ہیں۔آپ 1969ءمیں پیدا ہوئے اور ترکی میں رہائیش پذیر ہیں۔آپ ایک مذہبی شخصیت ہیں اور آپ کی شکل سلطان عبد العزیز سے بے حد ملتی ہے۔
"ترکی میں مقیم عبد الحمید کائی خان جن کی شکل سلطان عبد العزیز سے بے حد ملتی ہے"
ماشاءاللہ
معاہدہ لوزان 2024میں ختم ہوجائگی اس معاہدے کے بعد عثمانی خاندان کو دوبارہ خلافت مل سکتا ہے یا نہیں؟؟