سلجوقی سلطنت کو طاقتور بنانے والے نہایت دانا،صاحب علم اور عظیم وزیر"نظام الملک طُوسی
نظام الملک طُوسی 408ھ/بمطابق10اپریل 1018عیسویٰ کو پیدا ہوئے ۔بچپن ہی میں نظام الملک طُوسی کی والدہ وفات پا گئی تھیں ۔نظام الملک طُوسی کا اصل نام "حسن"تھا جبکہ نظام الملک طُوسی انکا لقب ہے۔نظام الملک طُوسی کے والد کا نام علی بن اسحاق تھا۔ جو کہ اس وقت کے حکمران "چغری بیگ" کی جانب سے مال گزاری کی وصولی پر مقرر تھے۔جب نظام الملک طُوسی نے ہوش سنبھالا تو انہیں مکتب بھیجا گیا۔ بہت جلد انکی ذہانت کے چرچے پورے شہر میں ہونے لگے،نظام الملک طُوسی نے صرف 11 برس کی کم عمر میں قرآن کو حفظ کر لیا ۔
طوس میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نظام الملک طُوسی کو ان کے والد نے نیشا پور بھیج دیا۔ اس زمانے میں نیشا پور علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ وہاں ایک بڑے عالم"امام موفقؒ" درس دیا کرتے تھے۔نظام الملک طُوسی نے 4 سال ان سے علم حاصل کیا۔مشہور ریاضی دان اور شاعر "عمر خیام" اور باطنی فرقے کے بانی"حسن بن صباح" بھی اس زمانے میں نظام الملک طُوسی کے ہم جماعت تھے۔یہاں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد نظام الملک طوس چلے گئے، پھر بخارا چلے گئے۔پھر آپ مرو چلے گئے جہاں سے وہ سمر قند سے ہوتے ہوے غزنی جا پہنچے۔
یہ عبد الرشید غزنوی(441ھ/1049تا444ھ/1052ء) کا دور حکومت تھا۔نظام الملک نے غزنی میں ایک دفتر میں ملازمت اختیار کی ۔غزنی میں چند سال گزارنے کے بعد آپ خراسان چلے گئے۔یہاں بھی آپ نے کچھ عرصہ ملازمت کی۔یہاں سے نظام الملک بلخ چلے گئے جہاں ابو علی احمد بن شازان حاکم تھے۔
اس علاقے میں چغری بیگ سلجوقی(سلطان الپ ارسلان کے والد)کی حکومت تھی۔ ابو علی نے نظام الملک کی قابلیت کو دیکھتے ہوے انہیں میر منشی(کاتب) بنا دیا۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد نظام الملک ،ابو علی کے سخت مزاج کی وجہ سے ،ملازمت چھوڑ کر مرو چلے گئے۔جو خراسان کے حکمران چغری بیگ کا پایہ تخت تھا۔چغری بیگ نظام الملک کی ذہانت سے بے حد متاثر ہوئے،انہوں نے محسوس کر لیا کہ یہ شخص قابل اور ذہین ہے۔
یہاں نظام الملک نے الپ ارسلان کی تربیت شروع کر دی۔ 451ھ/بمطابق1059عیسویٰ کو چغری بیک کا انتقال ہواگیا۔4 سال بعد سلجوقی سلطنت کے سربراہ طغرل بیگ محمد کا بھی انتقال ہو گیا۔تو اقتدار کی کشمکش شروع ہو گئی۔ لیکن یہاں نظام الملک نے اعلیٰ حکمت سے تمام بغاوتوں کو ختم کیا اور الپ ارسلان تخت نشین ہو گئے۔ الپ ارسلان نے تخت نشین ہونے کے بعد نظام الملک کو اپنا وزیر مقرر کیا اور انہیں "نظام الملک"کا خطاب دیا۔اس وقت نظام الملک کی عمر 48 برس تھی۔سلطان الپ ارسلان نے اپنے 11 سالہ بیٹے ملک شاہ کا اتالیق نظام الملک کو مقرر کیا۔نظام الملک نے نہایت محنت سے ملک شاہ کی تربیت کی۔465ھ/بمطابق 1072عیسویٰ کو جب سلطان الپ ارسلان کی شہادت ہوئی تو نظام الملک نے اس موقع پر پھیلی ہوئی شورش پر قابو پا لیا،اور ان ہی کی کوششوں سے ملک شاہ بر سر اقتدار آگئے ملک شاہ نے تخت نشین ہونے کے بعد نظام الملک کو نہ صرف ان کے عہدے پر بر قرار رکھا بلکہ ان کو وسیع اختیار بھی دیے۔
نظام الملک نے سلطان ملک شاہ کے وزیر کی حیثیت سے تقریباً20 سال خدمت کی ،اس دوران انہوں نے مملکت کے انتظامات کو اس قدر احسن طریقے سے چلایا کہ ملک شاہ کا دور،سلجوقی تاریخ میں سب سے زیادہ شاندار دور شمار کیا جاتا ہے۔
نظام الملک کا ایک اور عظیم کارنامہ"مدرسہ نظامیہ" کا قیام ہے۔نظام الملک خودبھی صاحب علم تھے اور علما کی قربت پسند کرتے تھے۔
علامہ شہاب الدین مقدسی اپنی تصنیف"کتاب الروضتین فی اخبار الدولتین"میں لکھتے ہیں :"کہ سلجوقیوں کی وسیع سلطنت میں کوئی شہر ایسا نہ تھا جہاں کو ئی مدرسہ نہ ہو ،حتیٰ کہ جزیرہ ابن عمر جو کہ ایک گوشے میں واقع ہے اور وہاں کم لوگوں کا گزر ہوتا ہے،ایک بڑا مدرسہ موجود ہے۔
457ھ/بمطابق14اکتوبر 1065 عیسوٰ کو جامعہ نظامیہ کی عمارت کی تعمیر شروع ہوئی،2سال میں عمارت مکمل ہوگئی۔یہ عمارت بہت وسیع تھی اور اس میں لاکھوں افراد سما سکتے تھے۔
تاریخ دانوں کے مطابق نظامیہ کی اس تعمیر میں 60 ہزار دینار خرچ ہو ئے تھے۔نظام الملک نے اپنی زاتی کتابیں اس کتب خانے کو دے دیں تھیں ۔نظام الملک طوسی کا دور علم کے عروج کا دورتھااس دور میں بڑے نامور علام اکرام اپنے علم سے لاکھوں افراد کو فیض یاب کر رہے تھے۔ ان میں علامہ ابو اسحاقؒ تھے جو فقہ،حدیث کے ماہر تھے۔امام الحرمین جوینیؒ بھی تھے جو متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ان کے علاوہ شیخ ابو علی فارمذی، خواجہ بو عبد اللہ انصاری ہرویؒ۔امام غزالیؒ،امام احمد غزالی،امام ابن ابی الفرج زکی مزریؒ اور امام سرخسیؒ بھی اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں ۔
نظام الملک بے حد متقی،پرہیز گار اور نمازی آدمی تھے۔آپ پانچوں وقت کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھتے تھے،نظام الملک آذان کی آواز سنتے ہی تمام کاموں کو چھوڑ کر اُٹھ جایا کرتے تھے۔آپ ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔نظام الملک روزانہ ایک بڑی رقم مساکین اور محتاجوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔نظام الملک گو کہ فیاض تھے لیکن مال و دولت کو ہمیشہ اعتدال کے ساتھ خرچ کیا کرتے تھے۔
امام الحرمین جوینیؒ نے اپنے ایک خطبے میں نظام الملک کی اسلام میں استقامت ،عدل و انصاف اور فیاضی و احسان کی بہت تعریف کی ہے۔
لیکن آخری زمانے میں سلطان ملک شاہ سلجوقی کو بعض حاسدین نے نظام الملک سے بد ظن کر دیا تھا۔چناچہ ملک شاہ نے نظام الملک سے ان کا عہدہ واپس لے لیا لیکن ان کے ادب و احترام میں کوئی کمی نہ آنے دی۔سلطان ملک شا ہ نظام الملک کو اتابک(اتا:باپ، بک:سردار) اور خواجہ بزرگ کہا کرتے تھے۔
نظام الملک نے ایک باطنی فرقے کے خلاف کاروائی کا آغاز بھی کیا۔ اس فرقے کا بانی حسن بن صباح تھا جو کہ نظام الملک کا ہم جماعت بھی رہ چکا تھا۔ نظام الملک نے ہی اسے سلطان ملک شاہ سے ملوایا تھا ۔پھرا س نے الموت کے مقام پر ایک قلعہ پر قبضہ کیا ۔یہاں رہ کر اس نے ایک خطر ناک تحریک باطنی یا ملاحدہ تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کے کارکن "فدائ"کہلاتے تھے۔کیونکہ وہ اپنے شیخ کے اشارے پر جان فدا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ان باطنیوں نے 171سال تک پوری دنیائے اسلام میں دہشت پھیلائے رکھی۔اس فرقے کے فدایوں نے بڑی بڑی اسلامی شخصیات کو شہید کیا جن میں نظام الملک بھی شامل ہیں ۔
485ھ/بمطابق1092عیسویٰ میں سلطان ملک شاہ نے ایک سردار"امیر ارسلان" کو لشکر دے کر حسن بن صباح کے قلعہ الموت پر حملے کے لیے روانہ کیا۔پھر ایک اور امیر کی قیادت میں مزید کُمک روانہ کی۔حسن بن صباح کو معلوم تھا کہ اس کاروائی کے پیچھے نظام الملک طوسی کے سو اور کوئی نہیں۔اسی لیے اُس نے اپنے ایک فدائی کو نظام الملک طوسی کے قتل پر مقرر کیا۔
نظام الملک طوسی رمضان المبارک 458ھ/بمطابق اکتوبر1092عیسویٰ میں ملک شاہ سلجوقی کے ساتھ بغداد کے سفر پر روانہ ہوئے۔راستے میں سلطان ملک شاہ نے(ایران کے شہر)نہاوند میں قیام کیا۔ رمضان المبارک نے افطار کرنے کے بعد مغرب کی نماز ادا کی۔ پھر وہ علما کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے نہاوند کے مقا م پر ہونے والے ایک معرکے کا ذکر کیا۔جس میں کئی صحابۂ کرام رضوان اللہ عنہم شہید ہوے تھے۔پھر انہوں نے اس جنگ میں صحابۂ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی بہادری کے واقعات سنائے۔
نمازِ تراویح کے بعد نظام الملک اپنے خیمے کی طرف روانہ ہوئے۔ تو راستے میں ایک جگہ رک کر انہوں نے اس جگہ کی نشاند ہی کی جہاں صحابۂ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین شہید ہوئے تھے،اور بڑے دکھ سے کہا کہ بڑے مبارک ہیں وہ لوگ جنہیں ان عظیم ہستیوں کی رفاقت میسر آجائے۔پھر نظام الملک ذرا آگے گئے تو ایک نو جوان جو کہ درویشانہ لباس میں ملبوس تھا اس نے آپ کو روک کر اپنی ایک درخواست بڑھائی،نظام الملک نے جیسے ہی اس درخواست کو لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس نو جوان نے خنجر نکال کر نظام الملک کے دل میں اتار دیا۔خنجر نظام الملک کے دل کے پار ہو گیا۔
یہ زخم اتنا گہرا تھا کہ تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ اس دنیا سے وفات پا گئے۔ان کے قاتل کا نام ابو طاہر حارث بتایا جاتا ہے۔وہ حسن بن صباح کا فدائی تھا۔شہادت کے بعد نظام الملک کو اصفہان بھیج دیا گیا۔ جہاں انہیں محلہ کران کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔نظام الملک نے77 برس عمر پائی تھی جس میں سے انہوں نےتقریباً29 سال سلجوقی سلطنت میں وزیر کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دیں۔ ان کے 29 سالہ دورِ وزارت میں انہوں نے وہ کا م سر انجام دیے کہ دنیا ان کی نظیر پیش کرنے سے آج بھی قا صر ہے۔
تبصرہ کریں