تغلق خاندان کے دوسرے حکمران جن کی بدولت برصغیر خوشحالی کا مرکز بن گیا۔
سلطان محمد بن تغلق برصغیر پاک و ہند میں تغلق خاندان کے دوسرے حکمران جنہوں نے 26 برس تک برصغیر پر کامیاب حکومت کی اور اپنے بے پناہ علم ، تدبر اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کی بدولت اس خطے کو خوشحالی کا مرکز بنا دیا۔
720ھ/1320ءمیں غیاث الدین تغلق کے نام سے غازی ملک کی قیادت میں تغلق خاندان کی حکمرانی کی بنیاد پڑی۔سلطاب غیاث الدین تغلق نے اپنے بڑے بیٹے "جونا خان "کو اُلغ خان کا خطاب دیا۔یہی اُلغ خان ،محمد تغلق کے نام سے مشہور ہیں ۔
726ھ/1324ء میں بنگال کے مختلف حصوں پر چھوٹے چھوٹے راجاؤں کی حکومت تھی،لیکن جب ان راجاؤں نے دہلی سلطنت سے بغاوت کی کوشش کی تو غیاث الدین تغلق نے محمد تغلق کو ورنگل سے دہلی بلوا کر دہلی میں انہیں اپنا نائب مقرر کیا۔جبکہ وہ خود باقی فوج کے ساتھ بنگال کی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے چلے گئے۔یہ مُہم کامیاب رہی اور تمام بغاوتوں کو ختم کر دیا گیا۔سلطان کی اس فتح پر محمد تغلق نے شہر سے باہر افغان پور کے مقام پر شاندار خیر مقدم کیا۔لیکن اس خوشی کے موقع پر افسوس ناک واقعہ یہ پیش آیا کہ سلطان غیاث الدین تغلق چوبی محل کی چھت گرنے سے دب کر وفات پا گئے ،ان کی وفات کے بعد حکومت محمد بن تغلق کے ہاتھوں میں آگئی۔
محمد بن تغلق نے جب 725ھ/1325ء میں اقتدار سنبھالا تو منگول خان ہلاکو خان کے بیٹوں اور رشتے داروں نے چین،مشرقی ترکستان،ہرات،قندھار،غزنی،ماوا النہر(سمرقند و بخارا)،ایران،خراسان اور عراق پر اپنی اپنی حکومتیں قائم کررکھی تھیں۔شام اور مصر کے علاقوں پر ہلاکوں خان کے بیٹے حملے کرتے رہے۔ ہلاکو خان کی نسل میں سب سے پہلے اس کے بیٹے نکودار نے 681ھ/1382ءمیں اسلام قبول کیا تھا۔لیکن انہیں شہید کر دیا گیا،انکا نام احمد خان رکھا گیا تھا۔انکی وفات کے بعد انکے بھتیجے ارغون خان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
ارغون خان کا بیٹا غازان خان694ھ/1295ءمیں مسلمان ہو گیا۔لیکن اس نے اسلام کی تعلیمات پر عمل نہ کیا۔بعض مؤرخین کے مطابق وہ در حقیقت عیسائی تھا۔غازان خان کو شام و مصر کی مہمات میں شکست ہوئی۔غازان خان کے بعد اسکا بھائی الجائتو خدا بندہ بر سر اقتدار آیا۔اس نے بھی شام اور مصر پر حملہ کیا،اس میں اسے شکست ہوئی۔716ھ/1316ءمیں الجائتو کا انتقال ہوا ۔اس کی موت کے بعد اسکا بیٹا ابو سعید حکمران بنا۔اس وقت تک خراسان کے بعض حصوں اور قندھار اور غزنی پر کبک خان چغتائی کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔کبک خان چغتائی کے نو مسلم بھائی ترمہ شریں خان نے غزنی میں فوج جمع کی انکا ارادہ خراسان اور غزنی پر فوج کُشی کا تھا،لیکن ابو سعید کے بہنوئی امیر حسن سلدوز کے بیٹے نے غزنی پر حملہ کر کے ترمہ زرین کو شکست دی۔
ترمہ شریں خاں شکست کھا کر726ھ/1326ءمیں محمد بن تغلق کے پاس دہلی چلا آیا۔محمد بن تغلق نے خراسان (ایران)پر فوج کُشی کا ارادہ بھی کیا تھا۔جہاں ایلخانی حکمران تھے۔اس کے لیے انہوں نے 3لاکھ کی فوج کو جمع کیا ،لیکن پھر خراسان کے حالات سہی ہو جانے کی وجہ سے انہوں نے ارادہ ترک کر دیا۔
محمد بن تغلق کے دورِحکومت کے آخری سالوں میں بغاوتوں اور شورشوں نے سر اُٹھا لیا۔دکن میں دو آزاد حکومتیں بھی قائم ہو گئیں ،ان میں سے ایک حکومت مسلمانوں کی تھی جو کہ 748ھ/1347ءمیں قائم ہوئی جو کہ بہمنی سلطنت کہلاتی تھی،یہ سلطنت 934ھ/1527ءتک قائم رہی۔دوسری حکومت وجے نگر کی تھی جہاں ہندو حکمران تھے۔جبکہ بنگال کا علاقہ دکن سے بھی پہلے یعنی کہ 739ھ/1338ء میں الگ ہو گیا تھا۔وہاں تین حکومتیں قائم تھیں ۔
751ھ/1350ءمیں سندھ کے علاقے میں بھی بغاوت شروع ہو گئی تھی۔جسے ختم کرنے کے لیے محمد بن تغلق نے سندھ کا دورہ کیا۔ٹھٹھہ کے قریب ایک مقام پر انہیں بخار آگیا،اس دوران محرم کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔سلطان محمد بن تغلق نے بیماری کے باوجود محرم کا روزہ رکھا تھا۔افطار کے وقت انہوں نے مچھلی تناول کی جس سے کہ مرض اور بڑھ گیا۔11دن کی علالت کے بعد 21 محرم 752ھ/20 مارچ 1351ءکو انہوں نے اس دارِ فانی کو الوداع کہا،انہیں دہلی میں ہی سپردِ خاک کیا گیا۔
تبصرہ کریں