/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

تیموری حملوں کو مٹانے اور سلطنتِ عثمانیہ کو ٹوٹنے سے بچانے والے پانچویں عثمانی سلطان محمد اول کی مکمل تاریخ۔

سلطان بایزید کے انتقال کے وقت سلطنت عثمانیہ بظاہر فنا ہو چکی تھی، ایشیائے کو چک عثمانیوں کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا، اس کے کچھ حصے ترکی امیروں کے قبضہ میں واپس جا چکے تھے اور کچھ ابھی تک تاتاریوں کی قتل و غارت گری کی آماج گاہ بنے ہوئے تھے۔ یورپ میں بھی سلطنت عثمانیہ کے مقبوضات کی حالت امید افزا نہ تھی، بلغاریا ، بوسنیا اور ولا چیا کی رعایا بغاوت کے لیے آمادہ تھی اور  بازنطینی سلطنت اپنے مقبوضات کو واپس لینے کا حوصلہ کر رہی تھی۔ لیکن پریشانی اور ناامیدی کے ان حالات میں بھی سلطنت عثمانیہ نے اپنی غیر معمولی قوت بقا کا ثبوت دیا اور دس بارہ سال کی قلیل مدت میں اس نے نہ صرف اپنے تمام قدیم مقبوضات واپس لے لیے بلکہ پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ کھڑی ہوئی۔تیموری فوجوں نے ایشیائے کو چک کی غارت گری کے بعد دوسری سمت کا رخ کیا، ان کے واپس جانے کے بعد ایشیائے کوچک میں ان کا کوئی نشان باقی نہ رہا، میدان پھر عثمانیوں اور قدیم ترکی امیروں کی قوت آزمائی کے لیے خالی ہو گیا۔

شہزادوں کی باہمی جنگ:۔

سلطان بایزید کے چھ لڑکوں میں سے پانچ اس کے ساتھ جنگ انگورہ میں شریک تھے ، ان میں ایک مصطفیٰ نامی غالبا لڑائی میں مارا گیا تھا، دوسرا موسٰی بایزید کے ساتھ گرفتار ہو گیا تھا ، باقی تین جان بچا کر بھاگ گئے ، ان میں سب سے بڑا لڑ کا سلیمان وزیر اعظم علی پاشا کو ساتھ لے کر ادر نہ پہنچا اور بایزید کے انتقال کے بعد سلطنت عثمانیہ کے یورپی حصہ کا مالک بن بیٹھا اور اپنے سلطان ہونے کا اعلان کر دیا، دوسرا لڑکا عیسٰی بروصہ آیا اور اس نے وہاں بایزید کی جانشینی کا اعلان کر دیا، محمد سب سے چھوٹا لیکن سب سے لائق تھا، وہ ایشیائے کو چک کے شمال مشرق میں اماسیا کے چھوٹے سے علاقہ پر قابض ہو گیا، بایزید کے انتقال کے بعد ان تینوں میں سلطنت کے لیے کشمکش ہونے لگی، کچھ دنوں کے بعد چوتھا بھائی موسیٰ بھی جو تیمور نے بایزید کی وفات پر رہا کر دیا تھا، تاج وتخت کے لیے قسمت آزمائی کرنے آپہنچا۔

شروع میں شہزادہ محمد اور عیسٰی کے درمیان جنگ چھٹری محمد اول ایشیائی مقبوضات کو برابر برابر تقسیم کر لینا چاہتا تھا لیکن عیسٰی پوری سلطنت کا دعوے دار تھا، جنگ میں عیسٰی کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ کر سلیمان سے مدد طلب کرنے کے لیے یورپ پہنچا، سلیمان عیسٰی کی حمایت میں فوج لے کر ایشیائے کو چک میں داخل ہوا، ابتدا میں محمد اول کو دشواری پیش آئی، لیکن بالآخر اس نے موسیٰ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ یورپ میں داخل ہو کر سلیمان کے مقبوضات پر حملہ کر دے، یہ تدبیر کارگر ثابت ہوئی اور سلیمان عیسٰی کو چھوڑ کر اپنے مقبوضات کی حفاظت کے لیے فوراً یورپ کی طرف روانہ ہوا، عیسٰی کو شکست ہوئی اور وہ خدا جانے کہاں غائب ہو گیا اور پھر کہیں اس کا پتا نہ چلا۔

یورپ میں سلیمان اور موسیٰ کے درمیان جنگ شروع ہوگئی ، سلیمان کا برتاؤ اپنی فوج کے ساتھ بہت سخت تھا اور سپاہیوں میں اس کی طرف سے عام بے زاری پھیلی ہوئی تھی، اس کی سختی سے عاجز آ کر فوج باغی ہو گئی اور اسے قتل کر دیا ، سلیمان کے قتل کے بعد موسٰی ادر نہ کے تخت کا مالک بن بیٹھا اور اس نے اپنے سلطان ہونے کا اعلان کر دیا۔اس کے بعد موسیٰ نے قسطنطنیہ پر حملہ کی تیاری شروع کی ، شہنشاہ نے محمد اول سے مدد کی درخواست کی اور محمد اول اپنی ترکی فوج اور سرویا کے ایک دستہ کے ساتھ شہنشاہ کی مدد کے لیے یورپ میں داخل ہوا، یہ بھی عجیب منظر تھا، ایک ترکی فوج موسیٰ کی سرکردگی میں قسطنطنیہ کا محاصرہ کیسے ہوئے تھی اور دوسری محمد اول کی قیادت میں قسطنطنیہ کی محافظت کر رہی تھی ۔آخر کار موسیٰ کو محاصرہ اُٹھا کر پسپا ہونا پڑا ، محمد اول نے اس کا تعاقب کیا ، سرویا کی سرحد پر دونوں فوجیں ایک دوسرے سے بہت قریب پہنچ گئیں اور جنگ کی نوبت آنے والی ہی تھی کہ موسیٰ کے فوجی سرداروں نے جو اس سے بہت نالاں تھے، بغاوت کا اعلان کر دیا اور پوری فوج محمد اول سے جاملی موسٰی  زخمی ہو کر بھاگا اور تلاش کے بعد اس کی نعش ایک دلدل میں پائی گئی۔

 

محمد اول کی تخت نشینی:۔

تخت سلطنت کے لیے محمد اول کا کوئی حریف اب باقی نہیں رہا۔ اس کے سلطان ہونے کا اعلان کیا گیا اور ایشیا اور یورپ کی تمام رعایا نے اس کا خیر مقدم کیا۔ بہ حیثیت سلطان کے اس نے صرف آٹھ سال حکومت کی لیکن اس مختصر مدت میں بھی اس نے غیر معمولی اہلیت کا ثبوت دیا۔ اس نے نہ صرف اپنی سلطنت کے انتشار کا خاتمہ کیا بلکہ اپنی خداداد فوجی اور آئینی قابلیت سے دولت عثمانیہ کو ویسا ہی طاقتور اور متحکم بنا دیا جیسا کہ تیمور کے حملہ سے قبل وہ تھی۔ سلطنت کے استحکام کے لیے اس نے امن و صلح کو ضروری سمجھا اور اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر گردو پیش کی تمام مملکتوں سے صلح کے معاہدے کیے۔ اس نے بازنطینی سلطنت کے چند مقبوضات شہنشاہ کو واپس کر دیے اور اس سے آخر وقت تک صلح قائم رکھی۔

لیکن کبھی کبھی اسے میدان جنگ میں آنے کے لیے بھی مجبور ہونا پڑا اور اس وقت اس نے ثابت کر دکھایا کہ تدبر او نظم ونسق کی اہلیت کے علاوہ فوجی قابلیت میں بھی وہ اپنے کسی پیش رو سے کم نہیں ہے۔ کرمانیہ، گرمیان اور دوسری تر کی ریاستیں تیمور کے حملہ کے بعد سلطنت عثمانیہ سے آزاد ہوگئی تھیں۔ محمد اول نے ان سب کو تاتاریوں کی حمایت سے الگ کر کے دولت عثمانیہ کی فرماں روائی قبول کرنے اور خراج ادا کرنے پر مجبور کیا، امیر کرمانیہ نے کئی بار بغاوت کی لیکن محمد اول نے ہر بارا سے شکست دے کر معاف کر دیا اور صرف اظہار اطاعت پر قناعت کر کے اس کی جان بخشی کی ، اس نے درویشوں کے گروہ کو جس نے بہت زیادہ طاقت حاصل کر لی تھی اور آخر میں بغاوت کا اعلان کر دیا تھا، شکست دے کر اس فرقہ کا استیصال کر دیا۔

ذاتی اوصاف:۔

محمد اول کے بلند اخلاق اور اعلیٰ اوصاف کی شہادت دینے میں تمام مؤرخین متفق ہیں ، وہ بے حد کشاہ دل اور منصف مزاج  اپنے وعدوں کو سخت پابندی سے پورا کرتا ، اس کی عدالت میں ہر مذہب ، ہر قوم اور ہر فرقہ برابر تھا ، اس کی رعایا ہر جگہ خوش نہ خوش حال تھی ، عیسائی رعایا کی بہبودی کا اسے خاص طور پر خیال رہتا تھا اور ان کے ساتھ وہ کسی قسم کی زیادتی کو روانہ رکھتا ، اس نے ادب کی سر پرستی بڑی فیاضی سے کی اور اس کے مختصر عہد حکومت میں شعر و شاعری کا مذاق عثمانیوں میں اول اول شروع ہوا۔

محمد اول نے اکتالیس سال کی عمر میں 824ھ (1421ء) میں وفات پائی اور بروصہ میں مسجد خضرا سے متصل جسے اس نے خود تعمیر کرایا تھا،دفن ہوا، یہ مسجد اسلامی طرز تعمیر اور سنگ تراشی کا بہترین نمونہ خیال کی جاتی ہے، محمد نے اس عظیم الشان مسجد کی تعمیر بھی مکمل کرائی جسے مراد اول نے بنوانا شروع کیا تھا لیکن بایزید کی ہے تو جہی کی وجہ سے نامکمل رہ گئی تھی ، اس نے اپنی مسجد کے قریب ہی دو عمارتیں اور بنوائیں، ایک میں مدرسہ قائم کیا اور دوسری میں غریبوں کے لیے مفت کھانے پینے کا بندو بست کیا۔

 

معیار عظمت:۔

اگر چہ دولت عثمانیہ کے اول دس فرماں رواؤں میں صرف محمد اول ہی ایسا تھا جس کے عہد میں سلطنت کی توسیع نہیں ہوئی تاہم جنگ انگورہ کے بعد سلطنت عثمانیہ تباہی کی جس منزل پر پہنچ گئی تھی اور پھر گیارہ سال کی مسلسل خانہ جنگیوں سے جو مزید خطرات پیدا ہو گئے تھے، ان پر نظر رکھتے ہوئے محمد اول کا یہ کارنامہ کچھ کم حیرت انگیز نہیں دکھائی دیتا کہ اس نے سلطنت کے کسی صوبے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور گو اس کے مختصر عہد حکومت میں ایشیائے کو چک کی ترکی ریاستوں پر پوری طرح قبضہ نہ ہو سکا پھر بھی اس نے ان سب کو زیر کر کے دولت عثمانیہ کے دامن سے وابستہ رکھا، اس کو بجا طور پر سلطنت کو مضبوط کرنے والوں میں شمار کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں