سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔
سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے اٹھے اور بہت جلد انہوں نے ایک عظیم سلطنت کی بنیاد ڈالی۔منگول ایلخانی سلطنت اور بازنطینی صلیبیوں کے درمیان میں موجود یہ ترکوں کے ان قبائل میں سے ایک قبیلے"قائی" کے سردار عثمان غازی نے1299عیسویٰ میں سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔عثمان غازی ارتغرل غازی کے بیٹے اور سلیمان شاہ کے پوتے تھے،عثمان غازی اور ان کے غازی مجاہدوں نے بازنطینی صلیبیوں کے خلاف جہاد جاری رکھا۔عثمان غازی ہی کے نام سے اس سلطنت کا نام سلطنت عثمانیہ رکھا گیا۔
سلطنتِ عثمانیہ کے پہلے حکمران "عثمان غازی" 1258-1326ء
ایلخانی منگولوں کی وجہ سے سلجوقوں کی آخری سلطنت سلاجقہ روم آخری سانسیں لے رہی تھی۔سو اسی دوران عثمان غازی نے ترک قبائیل کی متحدہ افواج کے ساتھ اناطولیہ پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا،اور یہیں سے اس عظیم سلطنت کے عروج کا آغاز ہوتا ہے ۔اناطولیہ کی فتح کے بعدعثمانیوں کے قدم دریاے سقاریہ تک مضبوط ہو چکے تھے۔1326ء تک عثمان غازی نے فتوحات کا دائرہ بورصہ تک پھیلا دیا تھا اور اسی سال عثمان غازی نے بورصہ شہر کا محاصرہ کیایہاں خونریز جنگ کے بعد یہ شہر عثمانیوں نے فتح کر لیا اور 1335عیسوی میں عثمان غازی نے بورصہ شہر کوعثمانی سلطنت کادار الحکومت بنایا،اس فتح کے بعد عثمان غازی وفات پا گے۔عثمان غازی کے بعد انکا بیٹا"اورخان غازی"عثمانی سلطنت کا دوسراحکمران بنا۔
بورصہ شہر میں موجود "عثمان غازی "کی قبر
ان ہی کے دور میں "خلیل پاشا"سلطنت عثمانیہ کے پہلے وزیر اعظم بنے،اورخان غازی نے تخت سنبھالتے ہی فوج میں اصلاحات کیں ،انہوں نے کیا کچھ یوں کہ وہ بازنطینی علاقے جن پر عثمانی قابض ہو چکے تھے،وہاں کی عیسائی رعایا کے بچوں کو نئ فوج کے لیے بھرتی کرنا شروع کیا۔ان بچوں کو اسلام میں داخل کیا جاتا اور انہیں سلطنت کی بقا کے لیے تیار کیا جاتا۔یہ فوج "ینی چری"کہلاتی تھی اور درحقیقت یہی سلطنت عثمانیہ کی اصل طاقت تھی۔
"سلطنتِ عثمانیہ کی فوج "ینی چری"جن کے بل بوتے پر عثمانیوں نے بے شمار فتوحات حاصل کیں"
اورخان غازی نے اقتدار میں آتے ہی "ازنیک"شہر کو فتح کیا ۔1337عیسوی میں انہوں نےازمیت شہر فتح کیا اور1338عیسوی میں اورخان غازی نے اسکودار شہر کو فتح کرتے ہوئے ،سلطنت کی سرحدیں قسطنطنیہ تک وسیع کر دیں۔ان فتوحات کے صرف سات سال بعد اورخان غازی نے "کیراسی" پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔اورخان نے قسطنطنیہ کے ہونے والے بادشاہ "جان کوٹیگوزینس"سے اتحاد کیا اور اس کی بیٹی کے ساتھ اورخان نے شادی کر لی۔اس شادی کے بعد اورخان کو تھریس کے علاقوں کو فتح کرنے کی اجازت بازنطینی بادشاہ یعنی کہ اورخان کے سسر نے اسے دے دی۔تھریس کی فتح کے بعد اورخان کےبیٹے سلیمان نے1354عیسوی میں گیلی پولی پر قبضہ کر لیا اور یوں پہلی بار عثمانی ترک یورپ میں داخل ہوے۔بازنطینی بادشاہ نے اورخان کو اجازت صرف اس وجہ سے دی تھی تا کہ اس کے اثرو اسوخ سے اس کی بادشاہت قائم رہے ،لیکن اورخان کی ان فتوحات سے ڈر کر بادشاہ نے اورخان کو واپس جانے کا کہا لیکن اب اورخان غازی نے ان علاقوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔1362عیسوی میں اورخان غازی وفات پا گئے اس وقت انکی عمر 80سال تھی،اورخان کا بیٹا سلیمان چند سال پہلے شکار کے دوران مارا گیا تھا ،اس کی موت کا صدمہ تھا کہ چند سال بعد اورخان غازی اس دنیا سے وفات پا گئے۔
تُرکی کے شہر بورصہ میں "اورخان غازی "کی قبر
ان کی وفات کے بعد انکا بیٹا"مراد خان" سلطنت عثمانیہ کا تیسرا سلطان بنا،سلطان مراد نے اپنی باپ کی طرح فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور کچھ ہی عرصے کے بعد سلطان مراد نے بازنطینی شہر"ادرنہ" فتح کر لیا اس فتح کے بعد سلطان مراد نے اسے سلطنت کا نیا دار الحکومت بنا دیا۔ادرنہ کی فتح کے بعد سلطان نے بلکان کی ریاستوں پر حملے کر کے انہیں فتح کیا۔1382عیسوی میں سلطان مراد نے بلغاریہ کی طرف رخ کیا،سلطان نے بلغاریہ کے بادشاہ "آی وان" کو ہتھیار ڈالنے کی پش کش کی،اور انہوں نے بلغاریہ کے تین اہم شہر فتح کیے۔1389عیسوی میں سلطان مراد نے کوسوو کی جنگ میں سربیا کی فوج کو عبرت ناک شکست دیتے ہوے سربیا کو فتح کر لیا۔
"پہلی کوسووہ کی جنگ15جون1389ء"
سلطان مراد کی وفات کے بعد ان کا بیٹا بایزید یلدرم تخت نشین ہوا۔سلطان بایزید نے تخت نشین ہونے کے بعد یورپ کی بجائے اپنے پڑوس میں کرمانیوں کے خلاف جنگ کر نا زیادہ مناسب سمجھا،کرمانیوں نے بھی سلجوقوں کے زوال کے بعد خود مختار ریاست کی بنیاد رکھی تھی اور سلطان مراد نے ان کے ساتھ جنگ کی بجائے صلح کر لی تھی۔سلطان بایزید نے کرمانیوں سے صلح کر کے انہیں سلطنت میں شامل کر لیا۔
1396عیسوی میں بلغاریہ کی فتح کی غرض سے بلغاریہ اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان"نکوپولس" کی جنگ ہوئی۔اس جنگ میں عثمانی فوج نے بلغاریہ کی فوج جس میں جر منی،فرانس،اور ہینگری کے دستے شامل تھے انہیں زلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔ اور جنگ میں فتح کے بعد بلغاریہ پر عثمانی فوج کا قبضہ ہو گیا۔اس فتح کے بعد سلطان بایزید یلدرم اس وقت اسلامی دنیا کے طاقت ور ترین سلطان بن چکے تھے۔
"نکوپولس کی جنگ1369ء جس میں عثمانی سلطان بایزید یلدرم نے بلغاریہ کی فوج کو شکست دی تھی"
12ہویں صدیء کے آخر تک جہاں ترکوں کے کچھ قبائیل منگولوں اور بازنطینی صلیبیوں سے مسلسل جنگ کرتے ہوے نظر آتے تھے ،اب وہی خانہ بدوش قبائل چودھویں صدی عیسوی کےشروع میں انہوں نے یورپ کی مشہور اور قدیم بازنطینی سلطنت کو تقریباً مکمل فتح کر لیا تھا اور اب ان عثمانی ترکوں کی دہشت یورپ تک پھیل چکی تھی1400 عیسویٰ کا آغاز سلطنت ِ عثمانیہ کے لئے زیادہ مفید ثابت نہ ہو سکا ۔ کیونکہ جہاں ترکوں نے بازنطینی سلطنت کے شہر قسطنطنیہ کے علاوہ پوری بازنطینی سلطنت پر فتح حاصل کر لی تھی وہیں ،عثمانیوں کے مشرق میں منگول ایلخانی سلطنت پر ایک اور ترک فاتح جسےتاریخ"تیمورلنگ"کے نام سے بھی جانتی ہے نے قبضہ کرتے ہوئے اپنی سلطنت کی سرحدیں سلطنت عثمانیہ کی سرحدوں تک وسیع کر لیں تھیں۔اب امیر تیمور اور عثمانی سلطان بایزید یلدرم کے درمیان جنگ کے خطرات بڑھنے لگےتھے۔اور یہ جنگ ہوئی بھی۔امیر تیمور اور سلطان بایزید کے درمیان یہ جنگ 1402 ء میں انقرہ کے مقام پر ایک خوفناک اور تاریخ کا دھارہ بدلنے والی جنگ ہوئی۔اس جنگ میں امیر تیمور نے عثمانی شہر انقرہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا کہ عثمانی سلطان بایزید یلدرم اپنی فوجوں کے ساتھ میدان میں آ پہنچا۔اس سے پہلے امیر تیمور نے پانی پر قبضہ کیا ہوا تھا اور اب جنگ ہونی ہی تھی سو اس جنگِ انقرہ میں عثمانی فوجوں کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور سلطان بایزیر اپنے بیٹوں کے ساتھ میدان جنگ سے بھاگنے لگے جنہیں امیر تیمور نے پکڑ لیا۔
"انقرہ کا میدانِ جنگ 1402ء جس میں امیرِ تیمور نے سلطان بایزید یلدرم کو شکست دی تھی"
سلطان بایزید اور انکے 2 بیٹے موسیٰ اور مصطفیٰ امیر تیمور کے قیدی بنے۔1403 ء کو امیر تیمور نے سلطان بایزید کے بیٹے موسیٰ کو رہا کر دیا ،جبکہ مصطفیٰ 1405 ء کو امیر تیمور کی وفات تک قید ہی میں رہا۔جبکہ چوتھے عثمانی سلطان "بایزید یلدرم "کا انتقال امیر تیمور کی قید میں ہی ہوا۔سلطان بایزید کی وفات کے بعد سلطنت عثمانیہ میں تخت کے لئےشہزادوں میں جنگیں ہونے لگیں ۔ سلطان بایزید کے پانچوں بیٹوں میں تخت کی یہ جنگیں سالوں جاری رہیں۔امیر تیمور نےاپنی موت سے قبل سلطان بایزید کے بیٹے"محمد اول" کو سلطنت عثمانیہ کا نیا سلطان بنایا تھا۔ لیکن شہزادہ عیسیٰ،موسیٰ اور سلیمان اس فیصلے سےمتفق نہیں تھے،شہزادہ سلیمان نے ادرنہ پر قبضہ کرتے ہوئےاس نےتھریس اور یورپ کے شمالی علاقوں پر اپنی حکومت قائم کر لی۔جبکہ محمد اول نے اماسیہ شہر میں اپنی حکومت قایم کر لی،اس دوران موسیٰ اور عیسیٰ بورصہ پر اپنی حکومت قائم کرنے کے لئے لڑنے لگےجس میں موسیٰ کو شکست ہوی۔اس کے بعد عیسیٰ اور محمد اول میں تخت کے لیئے جنگ ہوئی جس میں عیسیٰ کو شکست ہوئ،عیسیٰ شکست کے بعد قسطنطنیہ میں پناہ لینے کے لئے چلا گیا۔اور اس کے بعد محمد اول نے بورصہ شہر پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیا،کچھ عرصے کے بعد شہزادہ عیسیٰ نے ایک بار پھر بازنطینوں کی مدد کے ساتھ محمد اول کے خلاف کیراسی میں جنگ لڑی جس میں شکست کے بعد شہزادہ عیسیٰ کیرامان چلا گیا،اور کیرامان میں ہی شہزادہ عیسیٰ کا قتل ہوا۔پھر شہزادہ سلیمان نے بورصہ اور انقرہ پر حملہ کر کے اپنی حکومت کا اعلان کیا۔سلیمان کے ادرنہ سے جاتے ہی موسیٰ نے ادرنہ پر اپنی حکومت کا اعلان کر دیا۔اس پر سلیمان نے بحیرہ اسود کو عبور کیا اور یورپی علاقوں پر سلطان کی حیثیت سے داخل ہوئے،یہاں سلیمان نے بازنطینی شہنشاہ"جان پیلیو لوگس" کو اتحادی بناتے ہوئے موسیٰ کے خلاف جنگ لڑی۔1410عیسوی میں ہونے والے جنگ میں موسیٰ کو شکست ہوئی جس کے بعد موسیٰ ادرنہ چلا گیا ،شہزادہ سلیمان نے ادرنہ میں بھی جنگ لڑی لیکن یہاں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔1411عیسویٰ کو شہزادہ سلیمان پناہ لینے کے لیے قسطنطنیہ کی طرف کوچ کرنے لگا لیکن شہزادہ سلیمان کو رستے میں ہی قتل کر دیا گیا۔ اب تخت کے لئے موسیٰ اور محمد اول ہی زندہ بچے تھے۔موسیٰ اس بات سے ناراض تھے کہ شہنشاہ نے سلیمان کی مدد کیوں کی ۔ اسی لئے موسیٰ نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا۔شہنشاہ نے موسیٰ کے خلاف اس کے بھائی محمد اول سے مدد مانگی ،محمد اول نےبحیرہ اسود کو عبور کیا اور یورپی حکومتوں سے معاہدے کیے اور سربیا سے فوجی مدد حاصل کر کے محمد اول نے اپنے آخری بھائی موسیٰ سے جنگ لڑی جس میں موسیٰ کو شکست ہوئی اور جنگ کے بعد اسے پکڑ کر قتل کر دیا گیا۔عثمانی شہزادوں میں تخت کی اس جنگ کا یہاں اختتام ہو گیا اور سلطان محمد اول سلطنت عثمانیہ کے نئے سلطان بن گئے۔سلطان بننے کے بعد ان کی باقی زندگی سلطنت میں بغاوتوں کو ختم کرنے اور سلطنت کو مضبوط کرنے میں گزر گئی یہاں تک کہ 1421ء میں انکی وفات ہو گئی۔سلطان محمد اول کی وفات کے بعد انکا بیٹامراد ثانی تخت نشین ہوا۔ سلطان بننے کے بعد انہیں بھی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا،لیکن سلطان مراد نے ان تمام بغاوتوں کو کچل ڈالا۔پھر سلطان مراد ثانی نےقسطنطنیہ کا محاصرہ کیا ،لیکن انہیں یہ محاصرہ صرف اس لئے اٹھانا پڑا کیونکہ انکے بھائی مصطفیٰ جو کہ 13 سال کا تھا نے بورصہ پر حملہ کر دیا تھا،جسکی وجہ سے انہیں محاصرہ اٹھانا پڑا،سلطان نے بورصہ پہنچ کر مصطفیٰ کو شکست دی اور اسے قتل کر دیا،اور سلطان مراد نےمصطفیٰ کو بغاوت پر امادہ کرنے والی اناطولیہ میں پھیلی ترک ریاستوں کو شکست دے کر انہیں اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔1441ء میں صلیبی اتحادیوں نے سلطان کے خلاف ایک لشکر تیار کرتے ہوے صلیبی جنگ کا اعلان کیا۔سلطان مراد نے انہیں 1444ء میں وارنا کی جنگ میں جان ہونیاڈے اور صلیبی اتحادیوں کو شکست دی۔
"جنگِ وارنا1444ء جس میں عثمانی سلطان مراد نے عیسائی افواج کو زلت آمیز شکست سے دوچار کیا"
اس فتح کے بعد سلطان مراد نے تخت اپنے بیٹے "سلطان محمد"کو دیتے ہوئےخود سیاست سے علیدگی اختیار کر لی۔صلیبیوں نے سلطان محمد کی کم عمری کا فائدہ اُٹھایا اور معاہدہ توڑ ڈالا۔جس پر سلطان مراد کو مجبوراً دوبارہ تخت سنبھالنا پڑا،اور پھر سلطان مراد نے دوسری کوسودو کی جنگ میں صلیبی اتحادیوں کو کچل کر رکھ دیا۔اس کے بعد سلطان مراد نے مشرق میں امیر تیمور کے بیٹے"شاہ رخ تیمور" کو شکست دیتے ہوئے کرمانیہ کے علاقے فتح کر لئے۔1450عیسوی میں سلطان مراد بیمار پڑ گئے اور 1451عیسویٰ میں انکی وفات ہو گئی۔ان کی وفات کے بعد انکا بیٹا "محمد" جو کہ بعد میں "سلطان محمد فاتح" کے نام سے مشہور ہوا ،نے تخت سنبھالا۔سلطان محمد فاتح نے سلطان بننے کے بعد قسطنطنیہ شہر کا محاصرہ کر لیا اب چونکہ یہ شہر فتح کرنا آسان کام نہیں تھا کیونکہ ان سے پہلے بہت سے بادشاہوں اور عثمانی سلاطین نے اس شہر کو فتح کرنے کی کوشش کی لیکن سب ناکام رہے۔لیکن سلطان فاتح نے بڑی حکمت کے ساتھ اس شہر کو فتح کرنے کی تیاری کی۔سلطان نے ہینگری اور وینس کے ساتھ امن معاہدہےکیے اور پھر قسطنطنیہ شہر کو فتح کرنے کی غرض سے کوچ کیا۔1453 ء میں سلطان 80 ہزار کی طاقتور عثمانی فوج،100 جنگی جہاز اور مضبوط ترین توپوں کے ساتھ سلطان نے قسطنطنیہ شہر کا محاصرہ کیا ،یہ محاصرہ کم و پیش 50 دنوں تک جاری رہا،لیکن اس طویل محاصرے کے بعد فتح سلطان محمد فاتح کو حاصل ہوئی اور یوں ہزاروں سال پرانی بازنطینی سلطنت کا یہ آخری شہر بھی انکے ہاتھ سے نکل گیا۔
"قسطنطنیہ شہر کی فتح کے بعد سلطان محمد فاتح فاتحانہ انداز میں شہر میں داخل ہوتے ہوئے"
فتح کے بعد سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ شہر کو سلطنت عثمانیہ کا نیا دار الحکومت بنا یا۔پھر سلطان نے اٹلی پر حملہ کیااور اوٹرانٹو کو فتح کیا لیکن البانیا میں "سکندر بیگ "کی بغاوت نے سلطان کو واپسی پر مجبور کر دیا اور اوٹرانٹو عثمانیوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔لیکن چند شکستوں کے باوجود سلطان محمد فاتح نے سلطنت کی سرحدیں کافی وسیع کیں۔3مئی1181 ءکو سلطان محمد فاتح انتقال کر گئے انکے بعد انکا بیٹابایزید ثانی سلطنت عثمانیہ کا آٹھواں سلطان بنا۔سلطان بننے کے بعد بایزید کا سامنا اپنے بھائی جمشید سے ہواجس نے تخت کے لئے بغاوت کر دی تھی ۔سلطان بایزید ثانی کے دور کا سب سے مشہور واقعہ "سقوطِ غرناطہ" تھا،جہاں عیسائی ملکہ ازابیلا نے مسلمانوں کی آخری ریاست غرناطہ کا خاتمہ کرتے ہوئے مسلمانوں کا قتل عام کیا سلطان بایزید نے جہازوں کے زریعے مسلمانوں اور یہودیوں کو لا کر اپنی سلطنت میں آباد کیا۔
سلطان بایزید کا دور حکومت خانہ جنگی سے شروع ہوا اور خانہ جنگی پر ختم ہوا ،زندگی کے آخری حصے میں سلطان کے بیٹے سلیم نے ان کے خلاف تخت کے لئے بغاوت کر دی۔جس کی وجہ سے تنگ آکر سلطان نے اپنے چھوٹے بیٹے سلیم کے حق میں دستبرداری اختیار کی۔
پندھرویں صدی عیسوی کے آغاز میں سلطان بایزید ثانی "جموریہ وینس" کے ساتھ جنگ میں مصروف تھے،ترکوں نے عثمانی امیر البحر"کمال رئیس پاشا"کی سربراہی میں وینس کے خلاف فتح حاصل کی،اور اہل وینس پھر عثمانیوں کے ساتھ امن معاہدے پر مجبور ہو گئے۔اس کے بعد اناطولیہ میں حالات خراب ہونے لگے،کیونکہ عثمانیوں کے مشرق میں موجود صفوی سلطنت اناطولیہ میں بغاوتیں کرانے میں ملوث تھی۔اسی طرح 1511ءمیں صفویوں نے اناطولیہ میں بغاوت کروا کر عثمانیہ سلطنت پر حملہ کر دیا۔جسے سلطان بایزید نے کچل ڈالا۔لیکن اب کی بار جو بغاوت ہونی تھی اسے سلطان بایزید بھی روکنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا،وہ یوں کہ سلطان بایزید کا رجحان جانشینی کے لیےاپنے دوسرےبیٹے "احمد "پر تھا۔لیکن چھوٹے بیٹا سلیم فوجی قابلیت کا حامل بھی تھا اور فوج میں مقبولیت بھی رکھتا تھا۔چناچہ اس نے تخت کے لئے سلطان بایزید کے خلاف بغاوت کر دی اور باپ بیٹے کے درمیان جنگ ہوئی جس میں سلیم کو شکست ہوئی،اور سلیم کریمیا چلا گیا جہاں اسکا سسر فرمانروا تھا اس نے اس سے مدد حاصل کی اور قسطنطنیہ شہر چلا آیا ،یہاں اس نے فوج کی بھی حمایت حاصل کر لی اور آخر مجبوراً سلطان بایزید کو سلیم کے حق میں تخت سے دستبردار ہونا پڑا،اور معزولی کے ایک ماہ بعد بایزید کا انتقال ہو گیا۔تخت نشین ہونے کے بعد اس نے اپنے بھائیوں اور بھتیجوں کو قتل کرا دیا۔
سلطان بننے کے بعد سلطان سلیم نے یورپ کی بجائے اپنی ہمسائی مسلم ریاستوں کو فتح کرنے پر ذیادہ زور دیا ،اس نے سب سے پہلے اناطولیہ میں ترک سرداروں کی بغاوتوں کو ختم کیا اور اپنی فوجوں کے ساتھ ایران کے شاہ اسماعیلٰ صفوی کے خلاف جنگ کے لئے نکل پڑا ۔شاہ اسماعیلٰ کے پاس زیادہ فوجی طاقت نہیں تھی ،جبکہ عثمانیو ں کے پاس 1لاکھ فوج اور جدید توپیں تھیں۔1514ءمیں ہونے والی "چالدران"کی جنگ میں شاہ اسماعیلٰ کو شکست ہوئی اور فتح کے بعد سلطان سلیم نے تبریز کا محاصرہ کر لیا جو کہ صفوی سلطنت کا دار الحکومت تھا۔
"چالدران کی جنگ 1514ء جس میں صفوی سلطنت کو سلطان سلیم نے شکست دی تھی"
ایرانیوں سے جنگ کے بعد سلطان سلیم نے مصر کی مملوک سلطنت کی طرف رخ کیا،اور 1516سے1517ء کے درمیان مملوکوں کا قتل عام کرنے کے بعد سلیم نے مملوک سلطنت کو عثمانی سلطنت میں شامل کر لیا۔مملوکوں کی شکست کے چند سالوں بعد 1520ءمیں سلطان سلیم کی موت ہو گئی،اس نے سلطنت عثمانیہ کے رقبے میں 70اضافہ کیا تھا۔سلطان سلیم کی موت کے بعد انکا بیٹا سلیمان سلطنت کا نیا سلطان بنا،جنہیں یورپ "سلیمان دی میگنیفیسنٹ"اور عثمانی اسے سلیمان القانونی کے نام سے پکارتے تھے۔سلطان سلیمان نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے نیےاسلامی قوانین متعارف کرائے جو اگلی 3 صدیوں تک جاری رہے۔سلطان سلیم اول کی وفات سے پہلے عثمانیوں اور اہل ہینگری کے دمیان آویزش پیدا ہو گئی تھی ،جس کی وجہ سے سرحد پر چھوٹی موٹی لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔سلطان سلیمان نے سلطان بننے کے بعد ہینگری کی طرف زیادہ توجہ دی۔اسی غرض سے انہوں نے 1521ءمیں اپنی فوجوں کے ساتھ بلغراد کا محاصرہ کر لیا اور چند دنوں کی گولہ باری کے بعد یہ قلعہ فتح ہو گیا۔4سال کے بعد سلطان کی مقابلہ ہینگیر ی کی فوج کے ساتھ ہوا،اور اس جنگ میں ہینگری کا بادشاہ مارا گیا۔اسکی موت کے بعد ہینگری میں تخت کے لیے جنگیں شروع ہو گئیں۔پھر 1529ءمیں سلطان سلیمان نے ویانا کا محاصرہ کر لیا۔لیکن موسم کی خرابی رسد کی کمی کی وجہ سے یہ علاقہ عثمانیوں کے ہاتھوں فتح نہ ہو سکا۔1534ء میں سلطان سلیمان نے صفوی سلطنت کے خلاف پیش قدمی کیاور چند علاقے حاصل کرنے کے بعد 1544ءمیں عثمانویں اور صفیوں کے درمیان صلح ہو گئی۔ اس کے بعد عثمانیوں نے امیر البحر "خیر الدین باربروسا "کی سربراہی میں یورپی اتحادی یونان کو بحری جنگ میں شکست دی،اور عثمانی سرحدیں آفریقہ تک پھیل چکی تھیں۔
زندگی کے آخری حصے میں سلطان سلیمان نے آسٹریا کے خلاف آخری جنگ لڑی اس جنگ میں جب عثمانی فوج قلعہ"سگتوار"میں فاتحانہ داخل ہوئی تو اس وقت ان کا محبوب سلطان سلیمان خالق حقیقی سے جا ملا تھا۔
"استنبول شہر میں موجود سلطان سلیمان القانونی کی قبر"
سلطان سلیمان کی وفات کے بعد انکا بیٹا سلیم ثانی1566ءمیں عثمانی سلطنت کا نیا سلطان بنا۔لیکن سلطان بننے کے بعد اصل اختیارات وزیر اعظم صوقوللی پاشا اور انکی بیوی نور بانو سلطان کے پاس تھے۔اسی لیے سلیم ثانی حکومتی انتظامات سے کافی دور رہتے تھے۔سلیم ثانی نے جنگ کی بجائے امن کو ترجع دی اور انہوں نےپڑوس کی ریاستوں سے امن معاہدے کیے۔1568ءمیں سلطان نے آسٹریا کے ساتھ ایک امن معاہدہ کیا اور پھر سلطان نے صفوی سلطنت کے ساتھ امن معاہدہ کیا،پھر سلطان نے روس کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کر لیا۔لیکن اس کے باوجود سلطان کو یورپ کی بحری فوج سے جنگ لڑنا پڑی ۔کیونکہ 1570ءمیں جب عثمانیوں نے سایپرس کا جزیرہ فتح کیا تو اس سے یورپ میں کھلبلی مچ گئی اور 1571ءمیں لیپانٹو کی جنگ ہوئ اس بحری جنگ میں ترک بحری بیڑے کو شکست ہوی اور امیر البحر سمیت 30 ہزار تک عثمانی سپاہی شہید ہوئے۔
"لیپانٹو کی جنگ جس میں عثمانی افواج کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا"
سلطان سلیم ثانی کی وفات سے پہلےتونس اور سائپرس پر عثمانیو ں کا قبضہ ہو چکا تھا۔1574ءمیں سلطان سلیم ثانی انتقال کر گئے۔ان کے بعد انکا بیٹا مراد ثالث نیا عثمانی سلطان بنا۔مراد ثالث نے آسٹریا اور صفوی سلطنت کے خلاف جنگیں شروع کیں جس سے سلطنت کو بدترین نقصان ہوا ۔مراد ثالث دوسرے ایسے سلطان تھے جنہوں نے فوجوں کی کمان تخت پر بیٹھ کر کی تھی اور وہ فوجوں کے ساتھ میدان ِجنگ میں نہیں گئے ۔1595ءمیں مراد ثالث کا انتقال ہو گیا جس کے بعد انکا بیٹا محمد ثالث نیا سلطان بنا۔سلطان محمد ثالث کی وفات کے بعد انکا بڑا بیٹااحمد اول جو کہ ابھی صرف 14سال کا تھا تخت نشین ہوا۔سلطان احمد نے تخت نشین ہونے کے بعد 1604عیسوی میں قسطنطنیہ سے ایک لشکر صفوی سلطنت کے خلاف جنگ کے لئے روانہ کیا۔لیکن صفویوں نے پہلے ہی پیش قدمی کر کے ایریوان پر قبضہ کر لیا۔ادھر دوسری جانب عثمانیوں کے لئےآسٹریا کی سرحد پر ایک اور محاز کھل گیا ۔کیونکہ صدراعظم لالہ مصطفیٰ نے جو علاقہ فتح کیا تھا انہیں وہ موسم کی خرابی اور ینی چری کے آغا کی کم ہمتی کی وجہ سے خالی کرنا پڑے۔اور 11نومبر 1606عیسوی کو صلح نامہ "سیتوا تورک" پر دستخط ہوئے۔1612عیسوی میں عثمانیوں اور صفویوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔جس کی رو سے عثمانیوں نے چند علاقے صفویوں کو واپس کیے۔ایران کے ساتھ جنگوں میں زیادہ نقصان ترکوں کا ہی ہوا۔سلطان احمد نے اس کے علاوہ کچھ یورپی ممالک سے تجارتی معاہدے کیے۔سلطان احمد 22نومبر1617ء میں 28برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔سلطان احمد کی وفات پر اسکے سات بیٹے تھےجن میں سے 3تخت نشین ہوئے،لیکن پہلا جانشین اسکا بھائی مصطفیٰ تھا،اب تک چودہ پشتوں سے سلطنت عثمانیہ کی وراثت باپ سے بیٹے کو منتقل ہوتی تھی، لیکن یہ پہلا موقعہ تھا کہ بیٹے کےبجائے مرحوم سلطان کا بھائی تخت نشین ہوا۔سلطان مصطفیٰ صرف نام کے سلطان تھے جبکہ اصل حکومت انکی والدہ حلیم سلطانہ کے ہاتھ میں تھی۔سلطان مصطفیٰ صرف تین ماہ ہی حکومت کر سکے اور16فروری 1618ء کو انہیں معزول کر کے ان کے بھتیجےعثمان کو تخت نشین کر دیا گیا۔سلطان عثمان کا دور حکومت سلطنت کے لئے نہایت نا مبارک ثابت ہوا۔ترکوں کو مسلسل شکستوں سے مجبور ہو کر1618عیسوی میں ایران سے صلح کرنی پڑی اور وہ تمام تر فتوحات جو مراد ثالث اور محمد ثالث کے عہد میں حاصل ہوی تھیں وہ ایرانیوں کو واپس کر دی گئیں۔پھرسلطان عثمان سلطنت کے اندر موجود دشمن یعنی کہ ینی چری فوج کی طرف متوجہ ہوے انہوں نے انکی قوت کو کم کرنے کے لئے پولینڈ سے جنگ چھیڑ دی انہیں اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیابی حاصل ہوی۔لیکن ینی چری سلطنت کے لئے مستقل خطرہ تھی اسی لیےسلطان عثمان نے حج کے سفر کا ارادہ کیا لیکن بظاہر سلطان کا ارادہ دمشق پہنچ کر کردوں اور دوسرے سپاہیوں کی ایک فوج تیار کرنا تھی تاکہ انکی مدد سے ینی چری کی بغاوتوں کو کچل دیا جائے۔لیکن جلد ہی ینی چری کو سلطان کے ارادوں کا پتہ چل گیا اور انہوں نے سلطان کو اس سفر سے روک دیا۔پھر سلطان کو قید کر دیا گیا جہاں داود پاشا نے اپنے تین ساتھیوں کی مدد سے قید خانے میں بے رحمی کے ساتھ سلطان عثمان کو پانسی دے دی۔
سلطان عثمان کی وفات کے بعد 1622ء کو مصطفیٰ کو پھر قید خانے سے نکال کر سلطان بنا دیا گیا۔سلطان مصطفیٰ نے تخت پر آنے کے بعد سلطان عثمان کے قاتلوں کو چن چن کر قتل کیا۔لیکن مصطفی ٰ کی نااہلی اب بھی مسلسل برقرار تھی اس کے دور حکومت میں سلطنت میں بد امنی اور شورشیں بہت بڑھ گئیں ،چناچہ اگست1623عیسوی کومصطفیٰ دوسری مرتبہ معزول کیا گیا اورسلطان عثمان کا بھائی شہزادہ مرادجس کی عمر صرف بارہ سال تھی کو10ستمبر1623ءکوتخت پر بٹھا دیا گیا۔ابتدائی چند سال سلطان کی جگہ احکامات انکی والدہ سلطانہ کی طرف سے چلتے تھے لیکن بہت جلد سلطان مراد نے اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں لے کر زوال کے شکار سلطنت عثمانیہ کے لئے ایک نئی امید کی کرن بن کر سامنے آئے۔سلطان مرادکے اقتدار میں آنے کے بعد صفویوں نے عثمانی سلطنت پر حملہ کر کے بغداد اور موصل پر قبضہ کر لیا۔ اور ایرانیوں کاان شہروں پر 15برس قبضہ رہا۔آخر1638ء میں سلطان مراد نے اپنے عہد کی آخری مہم کے طور پر ان علاقوں پر حملہ کر کے انہیں اپنی سلطنت میں دوبارہ شامل کر لیا اور صفویوں سے 15ستمبر1639ء کو ایک صلح نامہ مرتب ہوا جس کی رو سے اریوان ایرانیوں کو واپس کر دیا گیا،جبکہ بغداد اور اس کے ملحق علاقہ پر عثمانیوں کا قبضہ باقی رہا۔9فروری1640ء کو28سال کی عمر میں سلطان مراد کی وفات ہوئی۔
سلطان مراد کی وفات کے بعد ابراہیم تخت نشین ہوئے اور انہوں نے تخت نشین ہونے کے بعد آسٹریا اور ایران سے امن معاہدے کیے۔1645ء میں انہوں نے وینس کے خلاف جنگ لڑی۔اس کے علاوہ سلطان ابراہیم کا دور انتہائی بغاوتوں اور بد امنیوں پر مشتمل تھا۔ہر جگہ لوٹ مار عام تھی یہاں تک کہ ینی چری فوج میں اعلیٰ عہدے رشوت کے عوض بکنے لگے تھے۔اور عوام ظلم و مہنگائی سے پریشان تھی۔جبکہ ابراہیم نے خود عیش و عشرت سے خزانے کو کافی نقصان پہنچایا۔اور آخر کار تنگ آکر ابراہیم کو معزول کر کےشہزادہ محمد کو جس کی عمر ابھی صرف 7سال تھی تخت نشین کر دیا۔محمد رابع کا دور حکومت تقریباً39سال تک کا تھاانہوں نے زوال پزید سلطنت کو پھر سے مضبوط کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔سلطان محمد نے وینس ،پولینڈ،ٹرانسلوینیا، اور روس کے خلاف فوجیں روانہ کیں جو کہ کامیاب لوٹیں۔لیکن 1683ء میں ہونے والے جنگِ وایانا جوکہ عثمانیوں اور آسٹریا کے درمیان تھی،اس جنگ میں عثمانیوں کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا،جبکہ اگر عثمانی قرہ مصطفیٰ جو کہ اس جنگ کی قیادت کر رہے تھے چاہتے تو یہ جنگ جیت سکتے تھے لیکن قرہ مصطفیٰ کی لالچ و حرص نے عثمانی فوج کو شکست سے دوچار کر دیا اور عثمانی دستوں کو پسپا ہونا پڑا بعد میں سلطان کے حکم سے قرہ مصطفیٰ جو کہ اس شکست کا زمہ دار تھا کو قتل کر دیا گیا۔
وارنا کی دوسری جنگ جس 1683ء
نومبر1687ء میں سلطان محمد رابع کو معزول کر کے انکی جگہ انکے بھائی سلیمان ثانی کو تخت نشین کیا گیا۔تخت نشینی کے بعد سلطان سلیمان نے آسٹریا کی ان فوجوں کو جو کہ عثمانی علاقوں کی طرف بڑھتی چلی آرہی تھیں کو شکست سے دوجار کیا۔سلطان سلیمان نے اپنے دور حکومت میں عیسائی رعایا کے ساتھ مخصوص رعایتیں کیں۔سلطان سلیمان کے دور میں عثمانی فوجوں نے مقدونیا کو فتح کیا اور آس پاس کے علاقوں کو بھی عثمانی سلطنت میں شامل کر لیا گیا۔10مئی1691ء میں سلطان سلیمان ثانی کا انتقال ہوگیا۔سلطان سلیمان ثانی کی وفات پر انکا بھائی احمد ثانی تخت نشین ہوا،سلطان احمد نے سلطنت کے معاملات کو صدراعظم مصطفیٰ کے ہاتھ میں چھوڑ دیے۔ انہوں نے آسٹریا کے خلاف فوجیں جمع کیں اور ان سے جنگ لڑی ،بحری جنگ میں عثمانیوں کو فتح حاصل ہوی لیکن بری جنگ میں عثمانی فوج شکست کھا گئی اور اس جنگ میں جب مصطفیٰ کوپریلی نے دیکھا کہ ترکوں کے قدم اکھڑ رہے ہیں تو وہ مردانہ وال تلوار نکالتے ہوے میدان جنگ میں چلے گئے لیکن شہید ہو گئے۔اس کے بعد 6فروری1695ء میں51سال کی عمرمیں سلطان احمد ثانی کا انتقال ہوا۔انکی وفات کے بعد معزول سلطان محمد رابع کا بیٹا شہزادہ مصطفیٰ تخت نشین ہوا۔ان کے دور کا سب سے مشہور واقعہ صلح نامہ کالو وٹز ہے جس کی رو سے آسٹریا ہمیشہ کے لئےعثمانی سلطنت کا دائرہ اختیار سے نکل گیا۔
اب تک سلطنت عثمانیہ یورپ میں پے درپے فتوحات حاصل کرتی چلی آ رہی تھی لیکن اس صدی کے آغاز تک عثمانیوں کی حالت انتہائی پتلی ہو چکی تھی ۔عثمانیوں کے لئے فتوحات تو دور بلکہ روس اور آسٹریا اس کے علاقوں پر حملے کر کے انہیں فتح کر رہے تھے۔سترہویں صدی کے آغاز میں سلطان مصطفیٰ تخت عثمانیہ پہ براجمان تھے۔ان کے دور حکومت میں عثمانی فوجیں آسٹریا کے خلاف روانہ ہوئیں اور ابتدا میں انہیں تھوڑی بہت فتوحات حاصل ہوئیں لیکن، جلد عثمانیوں کو "زنتا" اور "ازف" میں زلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ زنتا کے مقام پر عثمانی فوج کی بغاوت اور آپس میں بغص و عداوت کی بنا پر دشمن نے ان پر حملہ کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 26ہزار عثمانی سپاہی مارے گئے۔پے درپے شکستوں کے بعد سلطان مصطفیٰ نے اہل یورپ کے ساتھ ایک صلح کی جو کہ "صلح نامہ کالووٹز" کے نام سے جانی جاتی ہے ۔اس صلح کے تخت ازف روس کے قبضے میں چلا گیااور روس کے ساتھ 30 سال کے لئے جنگ بندی کا معاہدہ بھی ہوا جبکہ آئندہ کے لئے آسٹرا ،ہینگری نے عثمانی سلطان کو خراج دینا بند کر دیا ،اس معاہدے کے بعد سلطان کے خلاف قسطنطنیہ میں ینی چری فوج نے شدیداحتجاج کیا اور سلطان کو اردنہ شہر سے قسطنطنیہ آنے کی اجازت نہ دی بلکہ ینی چری باغیوں نے سلطان سے مفتی فیض اللہ آ فندی کی معزولی کا مطالبہ کر دیا۔اس مطالبے نے جنوری 1703ء میں بغاوت کی شکل اختیار کر لی،لیکن سلطان نے قسطنطنیہ پہنچنے تک معزولی کا فیصلہ ملتوی کر دیا جس پر ینی چری سلطان کے خلاف ہو گئی اس پر سلطان مصطفی ٰ کو 1115ھ بمطابق(15اگست 1703)ء کو معزول کر دیا گیا۔پھر باغیوں نے معزول سلطان کے بھائی احمد ثالث کو تخت پر بیٹھایا۔سلطان احمد ثالث کی تخت نشینی ینی چری کی بغاوت کا نتیجہ تھی اسی لیے ینی چری نے پہلا مطالبہ مفتی اعظم فیض اللہ آفندی کے قتل کا کیا اور مجبور ہو کر سلطان کو مفتی فیض اللہ آفندی کے قتل کے احکامات جاری کرنا پڑے۔سلطان احمد ثالث نے انگلینڈ ،فرانس اور سویڈن کے بادشاہ چارلس سے اچھے تعلقات قائم کیے۔سویڈن کا بادشاہ اس وقت روس کے ساتھ جنگ کر رہا تھا کہ اسےروس کے زار سے 8جولائی 1709 ء میں "پلٹوا" کےمقام پر شکست ہوئی اور چارلس بھاگ کر سلطنت عثمانیہ چلا آیا۔جہاں سلطان احمد نے اسکا شاندار استقبال کیا،لیکن اس کی خواہش پرسلطان نے روس سے جنگ کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ روس اور سلطان کے درمیان 30 سالہ جنگ بندی کا معاہدہ تھا۔لیکن روس اس معاہدے پر قائم نہ رہا اس نے جنگی تیاریاں شروع کیں اور اپنی فوجوں کے ساتھ نکل پڑا۔اُدھر مئی1711ءمیں صدراعظم بلط جی محمد پاشا عثمانی فوجوں کے ساتھ مالدیویا روانہ ہوے،دونوں فوجیں دریاے پرتھ کے کنارے پہنچی ۔جنگ سے پہلے ہی روسی زار اور اسکی فوجیں عثمانیوں کی توپوں کے نشانے پر تھیں۔روسی زار نے عافیت اسی میں سمجھی کی عثمانیوں سے صلح کر لی جائے ،چناچہ عثمانیوں نے نے زار سے اپنے مطالبات منواے۔روس سے فارغ ہونے کے بعد سلطان احمد نے وینس کے خلاف دسمبر1714ءمیں جنگ کا آ غاز کیا۔یہ علاقہ گزشتہ معاہدے کے تخت وینس کو دے دیا گیا تھا اس وقت عثمانی سلطنت انتہائی کمزور تھی لیکن اب عثمانیوں کی طاقت قدرے بہتر تھی ،چناچہ صد ر اعظم علی پاشا نے 1715ء میں 101 دنوں کی جنگ کے بعد تمام موریا پر قبضہ کر کے اسے عثمانی سلطنت میں شامل کر دیا۔لیکن عثمانیوں کی یہ فتح آسٹریا کو ہضم نہ ہوئی اور اس نے وینس سے اتحاد کر کے عثمانیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ،گزشتہ شکستوں کے باوجو عثمانیوں نے ڈیڑھ لاکھ فوج کے ساتھ آسٹریا سے جنگ لڑی ابتدا میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی لیکن شہزادہ یوجین کے تازہ دم دستوں کے حملوں سے عثمانیوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔پھردوسرے سال 1717 ء میں صدر اعظم خلیل پاشا کی سر کردگی میں آسٹریا روانہ ہوئی لیکن اب کی بار پھر عثمانی اپنی کثیر تعداد کے ہوتے ہوئے شکست کھا گئے۔
"آسٹریا کے خلاف عثمانی فوجوں کی پے درپے شکستیں"
اس شکست کے بعد عثمانیوں اور اہل آسٹریا کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا جو کہ "معاہدہ پساروویچ" تھا ۔یہ معاہدہ سرا سر آسٹریا کے حق میں تھا اور عثمانی سلطان اس کے حق میں نہیں تھے لیکن آخر میں سلطان اس پر راضی ہو گئے اور سرویا کے ایک چھوٹے سے گاوں پساروویچ میں 21 جولائی 1718ء کو یہ معاہدہ ہوا ۔اس معاہدے کے بعد بہت سے علاقے عثمانیوں سے آسٹریا کے پاس چلے گئے۔اسی دوران ایران میں شاہ عباس صفوی کے انتقال پر صفوی سلطنت زوال کا شکار ہونے لگی جس پر روس اور عثمانیوں نے صفوی سلطنت کو آپس میں تقسیم کر لیا۔لیکن جو علاقے عثمانیوں کے حصے میں آئے وہاں سے بغاوتیں ہونے لگیں اور عثمانی فوجیں ان بغاوتوں کو کچلنے میں ناکام رہیں ،جب یہ خبر قسطنطنیہ پہنچی تو ینی چری نے بغاوت کر دی سلطان نے فوج کو اعتماد میں لینا چاہا لیکن ینی چری کی بغاوت طول پکڑ گئی اور آخر سلطان کو مجبور ہو کر اپنے بھتیجے محمود اول کے حق میں تخت سے دستبردار ہونا پڑا۔سلطان محمود صرف نام کے سلطان تھے جبکہ اصل اختیارات باغیوں کے سردار پطردنا خلیل کے ہاتھ میں رہے ،لیکن جب ان کے اختیارات حد سے بڑھ گئے تو سلطان کے وفاداروں نے سلطان سے مل کر ان سب کا خاتمہ کر دیا۔پایہ تخت میں امن قائم کرنے کے بعد ایران میں جنگ چھڑ گئی، جس کے نتیجے میں سلطان کو 10جنوری 1732 کے ایک معاہدے کے تحت سلطان کو تبریز، لورستان اور ہمدان ایران کو واپس کرنے پڑے۔اُدھر روس نے سلطنت عثمانیہ سے کیے گئے معاہدے کا الٹ تمام علاقے ایران کو واپس کر دیے اور وہ قسطنطنیہ کے فتح کے خواب دیکھنے لگا ،روسی جنگی جارحیت کے خلاف مجبورً سلطنت عثمانیہ کو 28مئی1736ء میں روس کے خلاف جنگ کا اعلان کرنا پڑا ۔روسی فوجیں کریمیا میں عثمانی مقبوضات پر حملے اور محاصرے کر رہیں تھیں۔1737ءسے 1739ء کے درمیان روس اور عثمانیوں کے درمیان جنگیں جاری رہیں جس میں شکست عثمانیوں کو ہوئی اور اسکے علاوہ بہت سے قلعے روس کے قبضے میں چلے گئے۔اب اس سارے سنیریو میں جب آسٹریا نے دیکھا کہ عثمانی روس کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں تو انہوں نے عثمانی سلطنت پر حملہ کر دیا،لیکن اب کی بار عثمانیوں نے الحاج محمد پاشا کی عظیم فوج سے آسٹریا کو بد ترین شکست سے دوچار کیا ،بلکہ اس شکست کے بعد عثمانیوں نے 1739کی گرمیوں میں بلغراد کو فتح کر لیا۔عثمانیوں کی ان شاندار فتوحات نے آسٹریا کو صلح پر مجبور کر دیا،اور اس صلح کی وجہ سے روس کو بھی سلطنت عثمانیہ سے صلح کرنی پڑی کیونکہ وہ آسٹریا کی مدد کے بغیر قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا خواب پورانہیں کر سکتا تھا۔اس معاہدے کے 6 سال بعد1168ھ بمطابق(13دسمبر 1754ء)کو سلطان محمود اول کی طبعی موت واقع ہوئی۔
سلطان محمود کی وفات کے بعد انکا بھائی عثمان ثالث تخت نشین ہوا ۔سلطان عثمان کا دور حکومت صرف 3 سالوں پر محیط رہا۔ان کے دور حکومت میں کوئی خاص واقع پیش نہ ہوا،البتہ انہوں نے شاہی محل میں گانے بجانے پر پابندی لگا دی تھی۔اکتوبر 1757ءمیں سلطان عثمان ثا لث کا انتقال ہو گیا، ان کے بعد تختِ عثمانی پر سلطان احمد ثالث کا بیٹا مصطفیٰ ثالث تخت نشین ہوا۔سلطان مصطفیٰ نے اپنے دور حکومت میں یورپ کے ساتھ امن رکھنے پر زور دیا لیکن روس کی کریمیا اور پولینڈ پر بڑھتے ہوئے اثر و اسوخ کے پیشِ نظر عثمانیوں نے 1768ء میں روس کے خلاف جنگ کا آغاز کیا،لیکن پہلے کی طرح اس جنگ میں بھی عثمانیوں کو شکست کا سامنا کر نا پڑا اور روس کا مالڈوویا اور ولاچیا میں جو کہ عثمانیوں کی باجگزار ریاستیں تھیں اثرو اسوخ بڑھنے لگا۔اس کے بعد سلطان مصطفیٰ ثالث 25دسبر 1773ءکو حرکتِ قلب بند ہو جانے صورت میں انتقال کر گئے۔ان کی وفات کے بعد سلطان مصطفیٰ کا بھائی عبد الحمید اول تخت نشین ہوا۔سلطان عبد الحمید اول نے اقتدار میں آنے کے بعد ینی چری فوج میں کافی اصلاحات کیں ،اور انہوں نے بہری فوج کو بھی ترقی دی۔ان کے دور مین روس نے کریمیا پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔1789ء میں سلطان عبد الحمید اول کی وفات ہوئی۔ان کے بعد سلیم ثالث تخت نشین ہوئے،آپ روس سے امن کے خواہاں تھے ۔سلطان نے یورپ کے ساتھ اچھے تعلقات کے لئے یورپی ممالک کے دار الحکومت میں اپنے سفارت خانے بنائے۔ سلطان سلیم ثالث کے دور کا اہم واقعہ مصر میں نپولین بونا پاٹ کا قبضہ اور وہاں فرانسیسی حکومت کا قیام تھا۔
مارچ 1802ء میں فرانس اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان ایک صلح ہوئی،جس کے تخت نپولین نے مصر پر دولتِ عثمانیہ کی فرماں روائی تسلیم کر لی۔اس کے بعد نپولین اور سلطان کے درمیان خط و کتابت ہوتی رہی یہاں تک کہ جلد ہی سلطان نے فرانس سے اتحاد کر لیا۔ فرانس سے اتحاد کرنے کے بعد سلطان نےفوجی طاقت کو مضبوط کرنے کے لئے بہت سی اصلاحات کیں۔لیکن سلطان کی یہ اصلاحات ہی ان کے خلاف ہو گئیں۔کیونکہ ینی چری ان اصلاحات سے راضی نہ تھی سو اس نے بغاوت کر دی اور شدید احتجاج کیا یہاں تک کہ جب سلطان نے ان اصلاحات کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا تو ان سر کش باغیوں نے اصلاحات کے حامیوں کو چن چن کر قتل کر ڈالا ۔جب سلطان سلیم کو یہ احساس ہوا کہ اب باغی حد سے بڑھ گئے ہیں تو سلطان تخت سے دست بردار ہو گئے۔22ربیع الاول 1222ھ/29مئی1807ءمیں سلطان سلیم ثالث کو معزول کر دیا گیا۔اس کے بعد مصطفیٰ رابع 1807ءکو تخت نشین ہوے،لیکن ان کی حکومت صرف13 ماہ تک رہی۔ان کے سلطان بننے کے بعد اب بھی بہت سے لوگ سلطان سلیم ثالث کو تخت پر لانے کے حامی تھے ،اسی خطرے کے پیشِ نظر مصطفیٰ رابع نے سلطان سلیم کے قتل کا حکم دے دیا اور سلیم ثالث کو قتل کر دیا گیا۔لیکن یہ اندھا قتل جلد ہی رنگ لے آیا سلطان سلیم کا ایک وفادار بیر قدار نے مصطفی ٰ کو تخت سے اتار کر محمود ثانی کوجولائی 1808ء میں تخت نشین کردیا اور تخت نشین ہونے کے چند دنوں کے بعد معزول سلطان مصطفیٰ کو قتل کر دیا گیا۔سلطان محمود ثانی نے تخت پر آنے کے بعد فوجی اصلاحات جاری رکھیں جو کہ سلطان سلیم ثالث نے شروع کی تھیں۔1809ء میں روس نے سلطنت عثمانیہ سے جنگ چھیڑ دی ترک اس حملے سے سخت سیخ پا ہوئے اور ہر جگہ سے رضا کارانہ طور پر لوگ فوج میں شامل ہونے لگے ،لیکن افسران کی نا اہلیوں اور پرانے جنگی نظام کی وجہ سے انہیں شکست ہوئی لیکن پھر بھی انہوں نے روسی فوجوں کو دریائے ڈینیوب کے اُس پار پسپا کر دیا۔روسی اب مدافعانہ جنگ لڑ رہے تھے کیونکہ روسی زار کو نپولین کی طرف سے حملے کا شدید خطرہ تھا،اسی لئے اس نے طاقت میں ہونے کے باوجود دولت عثمانیہ سے 28مئی1812ءکو صلح کر لی جو کہ "صلح نامہ بخارسٹ"کے نام سے جانی جاتی ہے ۔1821ءمیں یونان نےبغاوت کر کے موریا پر حملہ کر دیا۔کیونکہ یونان سلطنت عثمانیہ سے آزاد ہونا چاہتا تھا۔سلطان محمود نے اس بغاوت کو امن سے ختم کرنا چاہا لیکن یونانیوں نے ترکوں کو گائے بکریوں کی طرح زبح کرنا شروع کر دیا۔جس کے نتیجے میں عثمانی فوج نے اس بغاوت کو عارضی طور پر 1828ءمیں ختم کر ڈالا۔اسی سال جبکہ یونان نے بغاوت کر دی تھی۔مئی1828ءمیں روسی زار نکولس خود میدان میں آیا اور اس نے دریائے پرتھ کو عبور کر کے پندرہ ہزار فوج کے ساتھ مالدیویا میں داخل ہوا گیا،تقریباًاسی وقت روسی بیڑا بھی درۂ دانیال میں داخل ہو گیا۔روس اور عثمانیوں کی یہ جنگ تقریباً ایک سال تک جاری رہی۔اس دوران یونان نے سلطنت عثمانیہ سے علیدگی اختیار کرتے ہوئے آزادی حاصل کر لی۔
"گریس(یونان) کی سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت جس کے بعد اس نے عثمانی سلطنت سے آزادی حاصل کر لی تھی"
1831ءمیں مصر میں قائم عثمانی گورنر علی پاشانے بغاوت کر دی اس بغاوت کا سبب یہ بنا کہ سلطان محمود نے یونانیوں کی بغاوت کو کچلنے کے لئے مصر سے علی پاشا کو طلب کیا اور اس بغاوت کو کچلنے کے بعد انعام کے طور پر سلطان نے اسے شام ،دمشق طرابلس اور کریٹ کا والی بنانے کا وعدہ کیا ۔لیکن اب چونکہ یونان کی بغاوت میں جنگ کا نتیجہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف رہا اور جب علی پاشا نے ان چاروں ولایتوں کا سلطان سے مطالبہ کیا تو سلطان نے صرف اسے کریٹ کا والی بنایا۔اس پر اس نے سلطنت سے بغاوت کر ڈالی۔اس نے ایک فوج اپنے بیٹےابراہیم پاشا کی سر براہی میں حلب ،دمشق،اور قونیہ کو فتح کرنے کی غرض سے روانہ کی جس نے ان تمام علاقوں کو فتح کیا اور یہ فوج قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئی سلطان نے ان باغیوں کو ختم کرنے کے لئے کئی ایک فوجیں روانہ کیں لیکن ان سبھی نے شکست کھائی۔قریب تھا کہ ایک سال کے اندر اندر باغی علی پاشا کی یہ فوج قسطنطنیہ کا محاصرہ کر کے عثمانی سلطنت کا خاتمہ کر ڈالتی ۔سلطان محمود خطرہ محسوس کرتے ہوئے برطانیہ سے مدد مانگی کیونکہ گزشتہ بغاوتوں اور جنگوں کی وجہ سے عثمانی فوج کی حالت انتہائی خراب تھی ۔ برطانیہ کے انکار کرنے کے بعد سلطان نے روس سے جنگی مدد مانگی روس جو کہ پہلے ہی سے عثمانیوں کی مدد کرنے کے لئے تیار بیٹھا تھا ،اس نے20فروری1833ءکو 4جنگی جہاز،اور 6ہزار کی فوج قسطنطنیہ روانہ کر دی۔روس کی اس مدد سے برطانیہ پریشان تھا،اس نے عثمانیوں پر دباؤ ڈالا کہ روسی فوج واپس چلی جائے،لیکن زار نے کہا کہ جب تک ابراہیم کی فوج واپس چلی نہیں جاتی۔روسی فوج سلطان کی کمان میں وہیں رہے گی۔ادھر سلطان نے علی پاشا کو شام ،حلب اور دمشق دے کر صلح کر لینی چاہی لیکن محمد علی پورا شام فلسطین کا ایک حصہ اور ایک اہم بندرگاہ لینے پر اصرار کر رہا تھا۔مجبوراً سلطان محمود نے دوسرا جنگی بیڑا اور بری فوج روس سے طلب کی۔5اپریل کو 12 ہزار کی مزید روسی فوج سقوطری کے قریب اتری۔اس دوسری کمک سے برطانیہ اور فرانس بے حد پریشان ہوئے اب کی بار انہوں نے محمد علی اور سلطان محمود پر دباؤ ڈالنا شروع کیا اور آخر کار سلطان نے محمد علی کے تمام مطالبات منظور کر لیے۔یوں "معاہدہ کوتاہیہ"کے تحت وہ تمام علاقے عثمانیوں نے محمد علی کو دے دیے جو سلطان سلیم اول کی فتوحات کی وجہ سے عثمانی سلطنت میں شامل ہوئے تھے۔
"محمد علی پاشا(1769-1849)جنہوں نے سلطنتِ عثمانیہ سے بغاوت کر کے مصر میں آزاد حکومت قائم کی تھی"
یہ صلح عارضی ثابت ہوئی کیونکہ چند سال بعد محمد علی نے خراج دینا بند کر دیا اور خود مختاری کا اعلان کر دیا۔سلطان نے اس کی سر کشی کے لئے25جون1839ءمیں ایک فوج اور بحری بیڑا روانہ کیا۔جب عثمانی لشکر جنگ میں شامل ہوا تو بہت سے عثمانی افسر جو کہ پہلے سے ہی محمد علی سے رشوت لے کر غداری کر چکے تھے،ابراہیم کی فوج سے جا ملے جبکہ بحری بیڑا پورے کا پورا محمد علی کے حوالے کر دیا گیا غداری کی ایسی مثال شاید ہی تاریخ میں کہیں ملے۔لیکن قبل اس کے کہ یہ خبریں سلطان تک پہنچتیں یکم جولائی 1839ء کو سلطان محمود کا انتقال ہو گیا۔
ان کی وفات کے بعد سلطان عبد المجید خان نے تختِ عثمانی سنبھالا۔سلطان عبد المجید نے سلطنت میں بہت سی اصلاحات کیں ۔لیکن جب انہیں عثمانی بحری بیڑے کی غداری کا علم ہوا تو ان کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔بلاآخر طویل جدوجہد کے بعد برطانیہ اور روس نے عثمانیوں کی مدد کے لئے اپنے جنگی جہاز مصر روانہ کیے اور جلد عثمانیوں نے محمد علی کی فوجوں کو پسپا کر دیا ۔آخر تنگ آکے محمد علی نے20ستمبر1841ءمیں صلح کر لی اور باقی زندگی سلطنت کے ایک ادنیٰ پاشا کی حیثیت سے مصر پر حکمرانی کرتے رہے۔
1853ءمیں سلطنت عثمانیہ کی روس کے ساتھ کریمایاکی جنگ چھڑ گئی یہ جنگ ولاچیا اور مالدوا کے عیسائی عوام کو لے کر ہوئی تھی ۔روس کے مطالبات کو سلطان عبد المجید نے ماننے سے انکار کر دیا تھا جس پر روسی سفیر شہزادہ من شی کوف فوراً قسطنطنیہ سے روانہ ہو گیا اور روس کے ساتھ عثمانیوں کے سفارتی تعلقات ختم ہو گئے۔3جولائی1853ءکو روسی فوجیں دریائے پرتھ کو عبور کر کے مالدیویا اور ولاچیا پر قبضہ کر لیا۔ یکم اکتوبر کو سلطنت عثمانیہ نے بھی جنگ کا اعلان کیا ،اور ترک فوج نے عمر پاشا کی قیادت میں دریائے ڈینوب کو عبور کیا اور 4 نومبر کو "اولٹے نٹزا"اور5نومبر کو سائٹیٹ" کے معرکے میں روسیوں کو عبرت ناک شکست کا سامنا ہوا۔عثمانیوں کی ان فتوحات سے اہل یورپ کوان تمام اصلاحات کا اندازہ ہو گیا جو کہ دولتِ عثمانیہ کے فوجی نظام میں جاری کی گئی تھیں۔17ذی الحجہ1277ھ/25جون1861ءمیں سلطان عبد المجید نے وفات پائی۔ان کی وفات کے بعد ان کے بھائی سلطان عبد العزیز نے تخت سلطانی سنبھالا۔سلطان عبد العزیز نے اصلاحات کا کام جاری رکھا،اور بعض اصلاحات کے لئے سلطان نے فرانس کی مدد بھی حاصل کی۔سلطان کے دور میں بالکنز کی طرف سے پھر بغاوتیں ہونے لگیں۔جسکی وجہ سے روس سے پھر جنگیں شروع ہو گئیں۔ان جنگوں کا اختتام سلطنتِ عثمانیہ کی شکست جبکہ روس اور اس کے اتحادیوں کی فتح پر ہوا۔اس جنگ کے بعد سربیا ،رومینیا اور مونٹینیگرو سلطنت عثمانیہ سے آزاد ہو گئے۔
"روس سے شکست کے بعد وہ علاقے جو سلطنتِ عثمانیہ سے آزاد ہوئے تھے"
اسی دوران برطانیہ نے عثمانی جزیرے سائیپرس پر حملہ کر دیا۔ان شکستوں کے بعد سلطنت کے وزرا نے سلطان کو معزول کر دیا،اس کے بعد ایک سال کے لئے سلطان مراد خان پنجم نئے سلطان بنے۔
لیکن جلد انہیں بھی معزول کر کے سلطان عبد الحمید ثانی کو تخت نشین کرنا پڑا جو اگلے کم وپیش 30 سال تک سلطان رہے۔اگلے چند سالوں میں فرانس نے تیو نس پر جبکہ برطانیہ نے1882ءمیں مصر پر قبضہ کر لیا۔برطانیہ اور فرانس کے بدلتے رنگوں کی وجہ سے دولتِ عثمانیہ نے جرمنی کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھا دیے۔1897ءمیں یونان اور عثمانیوں کے درمیان جزیرہ کریٹ کو لے کر جنگ چھڑ گئی جس میں عثمانیوں نے یونان کو شکست دی،اور جزیرہ کریٹ پر سلطنتِ عثمانیہ کا کنٹرول رہا۔
بیسویں صدی عثمانی سلطنت کے لئے انتہائی خطر ناک ثابت ہوئی ،کیونکہ اسی صدی کے آغاز میں عظیم"سلطنتِ عثمانیہ"جو کم و پیش 6سو سالوں تک ایشیا اور یورپ کے ایک بڑے حصے تک قائم رہی تھی کا خاتمہ ہو گیا۔عثمانیوں کی پے درپے فتوحات اب شکست میں تبدیل ہو چکی تھیں۔اور سلطنت عثمانیہ کو "یورپ کا مردِ بیمار"کہا جانے لگا ۔عثمانی سلطنت کے ختم ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔
جن میں سے پہلی وجہ یہ تھی کہ اٹھارویں صدی کی شروعات میں سلطنت کے یورپی حصوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔1821ءمیں یونان نے سلطنت سے جنگ چھیڑ کر اس سے آزادی حاصل کر لی،سربیا نے 1835ء میں ،بلغاریہ نے 1877ءمیں جبکہ رومانیہ نے بھی 1877ء میں سلطنت سے علیدگی اختیار کرتے ہوئے آزادی حاصل کر لی تھی۔
دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ1826ءمیں سلطان محمود ثانی نے یہ بھانپ لیا تھا کہ سلطنت کو مظبوط کرنے کے لئے ایک نئی فوج بنانی چاہیے جو کہ یورپی فوج کے طرزِ عمل پر ہو،لیکن یہ بات ینی چری فوج کو بلکل پسند نہ آئی اور انہوں نے بغاوت کر دی جس پر سلطان نے اپنے یورپی سپاہیوں کو بلا کر ینی چری فوج پر گولیاں چلوائیں ،اور جو ینی چڑی سپاہی زندہ بچے انہیں پھانسی دے دی ،اور یوں اس ینی چڑی فوج کا خاتمہ ہو گیا۔
تیسری بڑی وجہ سلطنت میں رشوت خوری تھی ۔سلطنت میں ہربڑا عہدہ پیسوں کے عوض بکنے لگا یہاں تک کہ عدل کا نظام بھی تباہ و برباد ہو کر رہ گیا ۔
چوتھی بڑی وجہ1876ء میں پہلی عثمانی پارلیمینٹ کی بنیاد ہے جس کے قیام کے صرف دو سال بعد اس وقت کے سلطان نے اسے ختم کر ددیا تھا ،لیکن اسی پارلیمنٹ کو 1908 میں تُرک نوجوان تحریک نے دوبارہ بحال کیا اور یہی پارلیمنٹ سلطان کی معزولی کا سبب بنی۔
پانچویں بڑی وجہ سلطنتِ عثمانیہ کی روس کے ساتھ کریما کو لے کر جنگ تھی۔اس جنگ میں سلطنتِ عثمانیہ کے اتحادی انگلینڈ اور فرانس تھے۔اور 1853ءسے 1586ءتک کریمیا کی جنگ میں سلطنتِ عثمانیہ کو فتح حاصل ہوئی ۔ لیکن 1876 اور1877 میں روس کے ساتھ سلطنتِ عثمانیہ کی پھر جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں کریما ،ولاچیا اور بہت سے علاقے سلطنتِ عثمانیہ سے چھن گئے ۔مسلسل جنگوں کی وجہ سے سلطنتِ عثمانیہ دیوالیہ ہو چکی تھی۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی طاقت ور ترین سلطنتِ عثمانیہ نے پہلی بار1854ءمیں یورپ سے قرض لیا،اور 1876 تک سلطنتِ عثمانیہ بینک کڑپٹ ہو چکی تھی۔
اب اس سب سنیریو میں آپ یہ دیکھیں کہ سلطنت کی معیشت مسلسل جنگوں کی وجہ سے کمزور ہو رہی تھی اور سلطنتِ عثمانیہ کے بہت سے علاقے دشمن فتح کر رہے تھے تو ایسے میں سلطان عبد المجید خان نے توپ قاپی محل کو پرانا سمجھتے ہوئے یورپ کی طرز پر ایک عالیشان پیلس بنوایا جس میں اربوں روپوں کا خرچہ ہوا۔
"سلطنتِ عثمانیہ کے سلاطین کا آخری محل"
اسی لیے 1876 کے آتے آتے سلطنتِ عثمانیہ کو "یورپ کا مردِ بیمار کہا جانے لگا۔1881ءمیں اب چونکہ سلطنتِ عثمانیہ دیوالیہ ہوچکی تھی تو انگلینڈ اور فرانس نے سلطنت سے قرض وصول کرنے کے لیے سلطنتِ عثمانیہ کے حصوں کو آپس میں بانٹنا شروع کر دیا۔اور 1882 تک مصر،الجیریا،بلغاریہ،مالڈوا،گریس اور آسٹریا کا کچھ علاقہ سلطنت کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔
چھٹی بڑی وجہ "نوجوانان تُرک"تھے ،جنہوں نے 1908ء میں انقلاب کے طور پر ترکی سے سلطنت کا خاتمہ کر کے ایک جموری ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔سو سلطان کو مجبوراً1876ء میں ختم کی ہوئی پارلیمینٹ کو دوبارہ بحال کرنا پڑا ۔جس کے بعد سلطان کے اختیارات ختم ہو گئے اور سلطان صرف نام کے ہی سلطان رہ گئے۔
ساتویں بڑی وجہ 1912 اور 1913 میں ہونے والی بالکنز جنگیں تھیں،جس میں سلطنتِ عثمانیہ کو شکست ہوئی اور بالکنز ریاستوں نے سلطنتِ عثمانیہ سے مکمل آزادی حاصل کر لی۔1912 کے دوران ہی پہلی جنگِ عظیم کے آثار نظر آنے لگے۔
اور آخر پر سلطنتِ عثمانیہ کے تابوت میں آخری کیل"پہلی جنگِ عظیم"ثابت ہوئی۔اس جنگ میں سلطنتِ عثمانیہ نے جرمنی،آسٹریا ہینگری اور بلغاریہ کا ساتھ دیا ،اور شروع میں سلطنتِ عثمانیہ کوفتح حاصل ہوئی لیکن اسی دوران اینگلینڈنے 1916سے1918کے درمیان عرب میں اپنے ایک جاسوس "لارنس آف عریبیہ" کو بھیج کر بغاوت کروا دی ،جس سے اہل عرب نے عثمانی سپاہیوں کو مارنا شروع کر دیا۔اس بغاوت میں انگلینڈ نے عربوں کو اسلحہ اور پیسے کی بھر پور مدد کی۔جس کی وجہ سے سلطنتِ عثمانیہ پہلی جنگِ عظیم میں ہار گیا۔اس شکست کے بعد سلطنت عثمانیہ سے یورپ نے 1920ءمیں معاہدہ کیا جو کہ معاہدہ"سیوڑے"کے نام سے جانا جاتا ہے،اس معاہدے کے تحت سلطنتِ عثمانیہ کے ٹکرے ٹکرے کر دئے گئے۔اس سے عوام میں خوب غم و غصہ پایا گیا۔اور 1920 میں "مصطفیٰ کمال پاشا" نے اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بہت سے حصوں کو واپس فتح کرتے ہوئے سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ کر دیا اورجموریہ تُرکی کی بنیاد رکھی ۔ نومبر 1922ء میں اسی شخص نے آخری عثمانی سلطان "محمد وحید الدین"کی خلافت کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں ملک بدر کر دیا ۔اور یوں 600 سالوں سے زیادہ عرصے تک حکومت کرنے والی سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔
I want to read our history. I really inspired by ur history urdu channel. So I want to join ur channel
Masaallah
Great Info