امیرالمومنین حضرت علیؑ اورام المومنین حضرت عائشه صدیقہ رض کے درمیان ہونے والی "جنگِ جمل" کی لرزہ خیر تاریخ۔
سال656ء میں تیسرے خلیفہ "حضرت عثمانؒ" کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے "حضرت علیؑ" کو چوتھا،خلیفہ منتخب کر لیا، اور یوں حضرت علی چوتھے اور آخری راشدین خلیفہ منتخب ہوئے۔حضرت علی کی یہ خلافت پھلوں کی سیج ثابت نہ ہو سکی،کیونکہ رسول اللہؐ کی زوجہ"حضرت عائیشہ" اور حضرت عثمان کے قبیلے کی جانب سے "حضرت معاویہ" نے حضرت علی کی خلافت کو قبول نہیں کیا تھا،انکا مطالبہ تھا کہ پہلے حضرت عثمان کے قاتلین کو سزا دی جائے۔جس کے بعد حضرت علی کو دو بڑی جنگیں"جمل"اور "صفین" لڑنا پڑیں۔
644ءمیں دوسرے راشد خلیفہ"حضرت عمر"کی شہادت کے وقت اسلامی خلافت کی سرحدیں تیونس سے لے کر موجودہ پاکستان تک پھیلی ہوئی تھیں۔
"حضرت عثمان رضی الله عنه کے دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کی سرحدیں"
حضرت عمر کی شہادت کے بعد حضرت عثمان تیسرے خلیفہ منتخب ہوئے،حضرت عثمان ،حضرت عمر کی نسبت بے حد نرم تھے۔اس کے علاوہ حضرت عثمان سے گورنروں کے معاملے میں کچھ کوہتاہیاں بھی ہوئیں۔جسکی وجہ سے مختلف علاقوں کے گورنروں نے اختیارات کا بے دریخ استعمال کیا، جسکی وجہ سے حضرت عثمان کے خلاف مصر میں بغاوت اُٹھ کھڑی ہوئی، جس کے اختتام پر حضرت عثمان کو انکے گھر میں بے دردی کے ساتھ انہیں شہید کر دیا گیا۔حضرت عثمان کی مظلومانہ شہادت کے بعد مدینہ کے لوگوں نے حضرت علی المرتضیٰ کو نیا خلیفہ چن لیا،اور یوں 18 جون 656ء میں حضرت علی آخری راشدین خلیفہ منتخب ہوئے۔حضرت علی نے تقریباً 5 سال خلافت کے فرائض سر انجام دیے،لیکن ان پانچ سالوں میں شاید ہی کوئی ایسی رات ہو جس میں حضرت علی سکون سے سوئے ہوں۔حضرت علی نے خلیفہ بننے کے بعد "دارالخلافہ"کو مدینے سے کوفہ منتقل کیا۔
خلیفہ بننے کے بعد حضرت علی کے خلاف پہلی بغاوت اُٹھ کھڑی ہوئی ۔جس میں حضرت طلحہ،حضرت زبیر،اور اُم المومنین"حضرت عائیشہ" سر فہرست تھیں،ان تینوں شخصیات کا ایک ہی مطالبہ تھا،کہ حضرت عثمان کا قصاص لیا جائے اور قاتلینِ عثمان کو چُن چُن کر قتل کر دیا جائے۔
اس مطالبے میں ہزاروں مسلمان حضرت عائیشہ کے جھنڈے تلے حضرت عثمان کے قصاص کے لئے جمع ہو گئے۔مکہ میں حضرت علی کے حامی تعداد میں زیادہ تھا،جس کی وجہ سے حضرت عائیشہ، اکتوبر 656ء میں اپنے حامیوں کے ساتھ بصرہ چلی گئیں۔بصرہ میں حضرت علی کے حامیوں کی تعداد زیادہ تھی،اہلِ بصرہ کی آنکھیں تب کھلیں جب دسمبر میں حضرت عائیشہ نے اپنے حامیوں کے ساتھ بصرہ شہر کے باہر پڑاؤ ڈالا۔
"بصرہ شہر کے باہر حضرت عائشه صدیقہ رض کے لشکر کا پڑاؤ"
بصرہ شہر کے باہر حضرت طلحہ،اور حضرت زبیر نے قصاصِ عثمان پر پُرزور تقریریں کیں ،جس کے بعد اہلِ بصرہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ کچھ لوگ حضرت عائیشہ کے حامی تھے اور کچھ لوگ حضرت علی کے حامی تھے۔کچھ ہی دنوں کے بعد بصرہ کے بازاروں میں حضرت علی اور حضرت عائیشہ کے حامیوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور لڑائی شروع ہو گئی،جس میں دونوں گروہوں نےایک دوسرے کو جوتے مارنے شروع کر دیے۔اس وقت بصرہ کے گورنر"عثمان بن حنیف"تھے،جو کہ حضرت علی کے ساتھ مخلص تھے،انہوں نے خون بہانا پسند نہ کیا،بلکہ انہوں نے حضرت علی کے انتظار میں باغیوں کو شہر سے باہر خیمہ زن ہونے کی اجازت دے دی۔اور وہ خود حضرت علی کا انتظار کرنے لگے۔
حضرت علی بھی اس دوران مدینہ سے بصرہ کے لئے روانہ ہو چکے تھے،اس دوران بصرہ کے گورنر"عثمان بن حنیف" کے پاس حضرت علی کا قاصد پہنچا،اور اُس نے حضرت علی کا پیغام پہنچایا،جس میں آپ ؑ نے باغیوں کے بارے میں فرمایا کہ یا تو وہ،میری بیعت کریں یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔
لیکن اس سے پہلے ہی حضرت عائیشہ کی فوج شہر سے باہر دفاعی پوزیشن میں موجود تھی۔بصرہ کے گورنر نے صلح کی ایک اور کوشش کی،اُنہوں نےمشہور شاعر"حضرت ابو الاسود"کو صلح کے لئے اُم المومنین حضرت عائیشہ کے پاس روانہ کیا،لیکن بد قسمتی سے یہ صلح نہ ہو سکی۔جس کے بعد بصرہ کی فوج جنگ کے لئے شہر سے باہر نکلی۔بصرہ کی فوج کے گھڑ سوار "حکیم بن جبلہ"نے مقامی فوج کے ساتھ حضرت عائیشہ کی فوج پر حملہ کر دیا۔دونوں جانب سے خون ریز جنگ جاری رہی، دونوں جانب سے بےشمار مسلمان شہید ہوئے،لیکن حضرت عائیشہ کی فوج میدانِ جنگ میں ڈٹی رہی۔
"بصرہ شہر کے باہر ہونے والی ابتدائی جھڑپ"
اس ابتدائی جھڑپ کے بعد دونوں جانب سے جنگ بندی ہو گئی۔یہ جنگ بندی چند دنوں کے لئے تھی۔اگر جنگ بندی ایسے ہی جاری رہتی،تو حضرت علی کے پہنچنے پر حضرت عائیشہ کے لشکر پر قابو پانا آسان تھا۔اس لئے حضرت طلحہ کے مشورے پر سپاہوں کا ایک معمولی دستہ، بصرہ شہر میں خاموشی کے ساتھ داخل ہوا،بصرہ کے گورنر "عثمان بن حنیف" جب مغرب کی نماز کی ادائیگی کے لئے گھر سے باہر نکلےتو اس دستے نے اچانک حملہ کر کے گورنرِ بصرہ کو اغوا کر کے پڑاؤ میں لے گئے۔
اگلی صبح حضرت زبیر کے بیٹے" عبد اللہ" نے ایک دستے کو ساتھ لیا اور شہر کے ایک حصے پر حملہ کر دیاجہاں خوراک کا زخیرہ موجود تھا۔اس حملے میں چند مسلمان غلام بھی شہید ہو گئےجنہیں سندھ کی مُہم سے غلام بنا کر لایا گیا تھا۔اس کے بعد "حکیم بن جبلہ"اپنی بچی کچھی فوج کے ساتھ حضرت عائیشہ کے پڑاؤمیں جا پہنچے،اور انہوں نے حضرت عبد اللہ سےگورنرِ بصرہ"عثمان" کی رہائی کا مطالبہ کیا،لیکن حضرت عبد اللہ نے گورنرِ بصرہ کی رہائی سے صاف صاف انکار کر دیا۔جس کے بعد حضرت "حکیم بن جبلہ" نے 700 کی مختصر فوج کے ساتھ حملہ کر دیا،لیکن کچھ ہی دیر میں حکیم بن جبلہ تینوں طرف سے باغی سپاہیوں کے گھیرے میں آ گئے۔حکیم بن جبلہ آخری سانس تک بڑی بہادری کے ساتھ جنگ لڑتے رہے۔اس حملے میں "حکیم ان کا بیٹا اور ان کے بے شمار سپاہی شہید ہوگئے۔اس کے بعد بصرہ پر حضرت عائیشہ کی فوج کا قبضہ ہو گیا۔اُدھر دوسری جانب حضرت علی اپنی فوج کے ساتھ بصرہ کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے۔حضرت عائیشہ نے مقامی قبائل کو قصاصِ عثمان کے لئے لشکر میں شامل ہونے کی دعوت دی ،جس کو چند قبائیل نے قبول کر لیا۔اس کے بعد حضرت عائیشہ نے کوفہ کے گورنر حضرت"ابو موسیٰ اشعریٰ " کو لشکر میں شامل ہونے کی دعوت دی لیکن ابو موسیٰ اس جنگ میں غیر جانب دار رہے۔جس کے بعد حضرت علی نےابو موسیٰ اشعریٰ کو معزول کرتے ہوئے اپنے بیٹے"امام حسین" کو کوفہ روانہ کیا۔
"حضرت علی اور حضرت عائیشہ کی فوجیں میدانِ جنگ میں آمنے سامنے"
5 دسمبر کو حضرت علی اپنے 10ہزار کےلشکر کے ساتھ میدانِ جنگ میں جا پہنچے۔جنگ سے پہلے حضرت علی نے صلح کےلئے حضرت طلحہ و زبیر سےبات چیت کی کوشش کی جس کے نتیجے میں فریقین کے مابین صلح ہو گئی جس کے بعد امیر المومنین حضرت علی نے وہاں سے کوچ کا ارادہ کیا ،حضرت علی نے اعلان کرتے ہوئے فرمایا۔!"اے لوگو سنو کل میں یہاں سے کوچ کرنے والا ہوں ،آپ کی مراد بصرہ جانے کی تھی،آپ نے لشکر کو خبر دار کیا کہ کل کوچ کرتے ہوئے میرے ساتھ کوئی ایسا شخص نہ آئے،جس نے کسی بھی سطح پر شہادتِ عثمان میں کوئی مدد کی ہو۔
حضرت علی کے لشکر میں بھی خوارج موجود تھے، جو کہ کسی بھی فتنے کا باعث بن سکتے تھے۔دوسری جانب اماں عائیشہ کے لشکر میں بھی چند فتنہ پرور "سبائی"موجود تھےجو مسلمانوں کے مابین امن نہیں دیکھ سکتے تھے،اور انہیں اس بات کا پتہ تھا کہ اگر یہ جنگ نہ ہوئی ،تو بعد میں اُن کا سر ضرور کٹے گا۔
چناچہ رات کے اندھیرے میں جبکہ دونوں لشکر اپنی اپنی قیام گاہ میں آرام کر رہے تھے،تو اچانک حضرت عائیشہ کے لشکر میں موجود چند سبائیوں نے چپکے سے امیر المومنین حضرت علی کے لشکر پر شب خون مارتے ہوئے حملہ کر دیا۔پھر کیا تھا دونوں طرف سے تلواریں آپس میں ٹکرانا شروع ہو گئیں،امیر المونین اس حقیقت سے نا آشنا تھے ،وہ پکار پکار کر لوگوں کو جنگ سے باز رہنے کی تلقین فرماتے رہے،لیکن 36ھ جمعہ کے دن بصرہ کے قریب امیر المونین اور امی عائیشہ کے لشکر کے درمیان ایک خونریز معرکہ ہوا جو کہ جنگِ جمل اور(Battle Of Cammel)کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جب جنگ اپنے انتہاکو پہنچی تو حضرت طلحہ نے بصرہ کے چند بہترین دستوں کو لے کر حضرت علی کے بائیں جانب حملہ کر دیا۔ادھر حضرت علی کی فوج کا بائیاں دستہ جسکی کمان حضرت مالک بن اشترکر رہے تھے انہوں نے اماں عائیشہ کی فوج کے بائیں پہلو پر اس سختی کے ساتھ مقابلہ کیا کہ چند ہی لمحوں میں مقابل دستے پسپا ہو گئے۔
"جمل کے میدان میں حضرت علیؑ کی فتح اور حضرت عائیشہ کے لشکر کی پسپائی"
اس کے بعد مروان ابن الحکم اپنے دستوں کے ساتھ میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا،جبکہ امیر المونین نے حضرت طلحہ کو رسول اللہؐ کی ایک حدیث یاد کروائی تو وہ جنگ سے علیدہ ہو گئے ،اسی دوران مروان جو کہ حضرت طلحہ کا اتحادی تھا اس نے حضرت طلحہ پر تیر برسائے ،جس کی وجہ سے آپکی شہادت ہو گئی۔دوسری جانب امیر المونین کے لشکر نے تمام باغیوں کو کچلتے ہوئےفتح حاصل کر لی۔
جنگ جمل میں دونوں جانب سینکڑوں مسلمانوں کی شہادتیں ہوئیں،ایک اندازے کے مطابق امیر المونین کے لشکریوں کی شہادت 400تھی،جبکہ ام المونین حضرت عائیشہ کے لشکر کے شہیدوں کی تعداد2500تھی۔اس جنگ میں فتح کے بعد حضرت علی نے ام المونین حضرت عائیشہ کو نہایت احترام کے ساتھ انکے بھائی"محمد بن ابو بکر"کے ساتھ انہیں مدینہ روانہ کیا۔
حضرت علی کی خلافت پھولوں کی سیج ثابت نہ ہو سکی،خلافت کی زمہ داری سنبھالنےکے بعد انہیں جنگ جمل لڑنا پڑی جس میں ہزاروں مسلمانوں کا خون بہا،اور آنے والے چند مہینوں کے بعد انہیں اپنی زندگی کی ایک بڑی جنگ "جنگِ صفین "امیر شام حضرت معاویہ کے خلاف لڑنی پڑی۔
تبصرہ کریں