شیر شاہ سور کے شیر دل بیٹے اسلام شاہ سوری کی لازوال داستان۔
مشہورِ زمانہ جرنیل اور بر صغیر کے لائق حکمراں "شیر شاہ سوری" کے صاحب زادے اسلام شاہ سوری۔ اسلام شاہ سوری نے اپنے والدمحترم کی چھوڑی ہوئی حکومت کو قریباً ساڑھے آٹھ برس تک نہایت مستحکم انداز میں قائم رکھا اور رفاہ عامہ کے سلسلے میں بہت سی مفید خدمات انجام دیں۔
"اسلام شاہ سوری کی خیالی تصویر"
جب کالنجر کی لڑائی میں شیر شاہ سوری نے 10 ربیع الاول 952ھ / 22 مئی 1545ء کو جام شہادت نوش کیا تو اُمرا سرجوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے آپس میں صلاح مشورے سے یہ طے کیا کہ سربراہ مملکت کی مسند کو خالی رکھنا خطرے سے خالی نہ ہو گا۔ اگر سلطنت کا یہ عہدہ پُر کرنے کے لیے شیر شاہ سوری کے بڑے صاحب زادے عادل خان کو بلواتے ہیں تو ان کی یہاں آمد میں خاصی تاخیر ہو سکتی ہے۔ کیونکہ وہ رنتھنبور میں ہیں۔ جبکہ شیر شاہ سوری کے چھوٹے صاحب زادے جلال خان پٹنہ کی مضافاتی بستی ریون میں ہیں۔ انہیں بلا لینا بہتر ہو گا۔ کیونکہ ریون کا لنجر سے صرف ۵۰ میل دور ہے۔ جلال خان کم وقت میں کالنجر پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ جلال خان کو فوراً اطلاع دے دی گئی۔
جلال خان نے اطلاع ملتے ہی تدبر کا ثبوت دیا۔ انہوں نے کسی قسم کی جذباتیت کا مظاہرہ نہ کیا اور ریون کو فوراً چھوڑ دینا بھی مناسب نہ سمجھا، کیونکہ اس طرح وہاں عدم استحکام پیدا ہو جاتا۔ انہوں نے پہلے ریون میں اپنی ذمہ داریاں پوری کیں، اس کے بعد کالنجر روانہ ہو گئے۔ اس طرح وہ اپنے والد کی وفات کے پانچ دن بعد کا لنجر پہنچے۔ اُمرا نے جلال خان کا خیر مقدم کیا۔ کالنجر کے قلعے میں 15 ربیع الاول 952ھ / 28 مئی 1545ء کو جلال خان نے مملکت کے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیا۔تخت نشین ہو جانے کے بعد جلال خان نے اپنا لقب "اسلام خان" یا "اسلام شاہ" اختیار کیا۔ بعد میں لوگوں نے انہیں اسلام شاہ کی بجائے سلیم شاہ کہنا شروع کر دیا۔ شیر شاہ سوری کی میت کو عارضی طور پر کالنجر کے نزدیک سپر د خاک کر دیا گیا۔ بعد میں انہیں سہسرام (بہار) میں ان کےمقبرے میں دفن کیا گیا۔
"بہار(انڈیا)میں موجود شیر شاہ سوری کا مقبرہ"
اسلام شاہ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے بڑے بھائی عادل خان کو خط ارسال کیا۔ جس میں انہوں نے صورت حال کی وضاحت کی کہ، چونکہ والد محترم کی شہادت کے وقت آپ خاصے دور دراز مقام پر موجود تھے اور میں نسبتاً قریب تھا، اس لیے اُمرا نے کسی قسم کے عدم استحکام یا فتنہ و فساد کی روک تھام کی غرض سے مملکت کا اقتدار مجھے سونپ دیا ہے۔ آپ تشریف لائیں اور حکومت سنبھال لیں، مجھے آپ اپنافرماں بردار پائیں گے۔ دونوں بھائیوں کی ملاقات کے لیے فتح پور سیکری کا مقام منتخب کیا گیا۔ عادل خان فتح پوری سیکری پہنچے۔ دونوں بھائیوں کی ملاقات ہوئی۔ والد محترم کی جدائی کا زخم تازہ تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کا دکھ بانٹا۔ یہاں سے وہ آگرہ روانہ ہو گئے۔ آگرہ کے قلعے میں پہنچ کر اسلام شاہ نے اپنے بھائی سے کہا کہ اب تک تو میں نگراں رہا ہوں اب آپ آگئے ہیں لہذا اب اقتدار آپ سنبھالیں، یہ کہہ کر وہ تخت سے اترے اور عادل خان کو مسند پر بٹھا دیا۔ عادل خان اس بات سے واقف تھے کہ ان کے بھائی جلال خان (اسلام شاہ) کتنی عمدہ صلاحیتوں کے مالک ہیں، انہوں نے اپنے اوپر اپنے بھائی کو ترجیح دی۔ انہوں نے تخت سے اتر کر اسلام شاہ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں تخت پر بٹھا دیا۔ تمام امرآ نے اس بات کو پسند کیا اور اسلام شاہ کی اطاعت کا یقین دلایا۔
اقتدار سنبھالنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد اسلام شاہ کو عادل خان، جودھ پور کے سردار خواص خان اور ناگور کے سردار عیسٰی خان نیازی کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدا میں اس مخالفت میں بعض دیگر سردار مثلاً جلال خان بن جالو، برہم جیت گوڑ وغیرہ بھی شامل تھے۔ لیکن پھر انہوں نے مخالفت ترک کر کے اسلام شاہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ آگرہ کے قریب ایک لڑائی ہوئی۔ عادل خان کی فوج جم کر نہ لڑ سکی اور جلد تتر بتر ہو گئی۔
ایک برس بعد اسلام شاہ کو انبالہ کے قریب ایک لڑائی میں حصہ لینا پڑا۔ یہ لڑائی نیازیوں کے خلاف تھی۔ جن کی فوج ہیبت خان نیازی کی قیادت میں انبالہ کے میدان میں اتر آئی تھی۔ اس فوج کو خواص خان کی فوج کی حمایت بھی حاصل ہو گئی تھی۔ لیکن پھر خواص خان نے ہیبت خان نیازی کا ساتھ چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ ہیبت نیازی کی فوج لڑائی نہ لڑسکی اور منتشر ہو گئی۔ ہیبت خان نیازی سندھ کی جانب چلے گئے۔
دھن کوٹ کے مقام پر انہوں نے اپنی طاقت کو مجتمع کیا۔ اسلام شاہ نے ان کے تعاقب میں فوج بھیجی تھی، جس نے انہیں کھیوڑہ کی طرف چلے جانے پر مجبور کر دیا۔ نمک کی کانوں کے اس علاقے میں گکھڑوں نے ہیبت خان نیازی کا ساتھ دیا اور یوں اسلام شاہ کے مخالفین پھر زور پکڑنے لگے ۔ اسلام شاہ کو ان تبدیلیوں کا علم تھا۔ وہ ایک بڑی فوج لے کر گکھڑوں اور نیازیوں کے خلاف کارروائی کے لیے روانہ ہوئے۔ کئی برس تک معرکہ آرائی جاری رہی۔ آخر گکھڑوں کے حاکم سلطان آدم نے معافی طلب کی اور ہیبت خان نیازی کو اپنے علاقے سے نکال دیا۔اسلام شاہ پنجاب میں شورشیں رفع کرنے کے بعد دہلی کی سمت روانہ ہوئے۔ راستے میں انہیں اطلاع دی گئی کہ مغل حکمراں نصیر الدین ہمایوں کے چھوٹے بھائی کامران مرزا، ہمایوں سے برگشتہ ہو کر اسلام شاہ کی حمایت کی غرض سے ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ اسلام شاہ نے کامران مرزا سے ملاقات تو کی لیکن ان کی کوئی خاص مدد نہ کی۔اسلام شاہ دہلی پہنچے۔ کچھ عرصے بعد انہیں خبر ملی کہ نصیر الدین ہمایوں اپنی فوج کے ساتھ دریائے سندھ پار کر چکے ہیں۔ اسلام شاہ نے فوراً فوجی تیاریاں کیں اورطوفانی رفتار سے لاہور جا پہنچے۔
"مغل اور سوری فوجیں میدانِ جنگ میں"
اسلام شاہ اپنے والد شیر شاہ سوری کی طرح بہت اچھے منتظم تھے۔ وہ سرکاری امور میں حد درجہ نظم وضبط کے قائل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی قانون بنایا جائے تو اس پر سختی سے عمل درآمد ہوناچاہیے۔ اسی طرح جب سر براہ مملکت کی جانب سے کوئی حکم نامہ جاری ہو تو اس کی تعمیل میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ ان کی اس سخت روش کا نتیجہ یہ تھا کہ مملکت میں قانون کا احترام پایا جاتا تھا اور بڑے سے بڑا افسر بھی کسی قانون کو توڑنے کی جرات نہ کر پاتا تھا۔اسلام شاہ کی ہیبت اس قدر تھی کہ ان کے حکم نامےمختلف اضلاع میں بھیجے جاتے تھے۔ ان اجلاسوں میں گو کہ اسلام شاہ بذات خود موجود نہ ہوتے تھے۔ لیکن ان کے حکم نامے نہایت توجہ اور احترام سے اس طرح سے سنا جاتا تھا، گویا اسلام شاہ خود سامنے تشریف فرما ہوں۔
اسلام شاہ کے والد شیر شاہ سوری تاریخ کے اچھے طالب علم تھے۔ سابقہ حکومتوں نے جو اچھے اور کامیاب قوانین وضع کیے تھے، شیر شاہ سوری نے ان کو سوچ سمجھ کر اختیار کیا۔ انہوں نے سرکاری اداروں کی کار کردگی بڑھانے میں ذاتی دلچسپی لی۔ اس طرح بحیثیت محمد کی تمام اداروں میں نظم و ضبط پیدا ہو گیا۔ اسلام شاہ کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے سرکاری اداروں کے اس نظم وضبط کو نہ صرف بحال رکھا بلکہ اسے مزید مستحکم بنادیا۔ ان کے عہد میں کسی با اثر فرد کی مجال نہ تھی کہ کسی عام فرد کو ستائے یا تنگ کرے۔
اسلام شاہ نے مملکت کو ترقی دینے اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے بعض اہم اقدامات بھی کیسے، مثلاً ان کے حکم پر قانون گویوں کے کاغذات میں دیہات کی چھوٹی سے چھوٹی بات تک درج کی جانے لگی۔ آبادی اور زراعت کو ترقی دینے کے منصوبے اسلام شاہ ہی کی ہدایت پر تشکیل دیے جانے لگے۔ لگان وصول کرنے کے قواعد بنائے گئے۔ اسلام شاہ کی خواہش پر انہیں رعایا کی کیفیت سے تحریری طور پر باخبر رکھا جانے لگا۔
اسلام شاہ نے رفاہ عامہ کے سلسلے میں بھی گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ شیر شاہ سوری نے بر صغیر میں چار اہم شاہراہوں پر سرائیں تعمیر کروائی تھیں۔ ایک شاہراہ قلعہ پنجاب سے سنار گاؤں (بنگال) تک جاتی تھی۔ دوسری شاہراہ آگرہ کو برہان پور (دکن) سے ملاتی تھی۔ تیسری شاہراہ آگرہ سے جودھ پور تک جاتی تھی اور چوتھی شاہراہ لاہور کو ملتان سے منسلک کرتی تھی۔ شیر شاہ نے ان شاہراہوں پر ہر دو میل کے بعد سرائے تعمیر کروائی تھی۔ ہر سرائے میں مسافروں کے قیام کرنے کے لیے کمرے تھے۔ ٹھنڈے اور گرم پانی کا انتظام تھا،آرام کے لیے چار پائیاں تھیں، مسافروں کے لیے کھانے اور گھوڑوں، مویشیوں کے لیے چارے کا انتظام تھا۔ ہر سرائے کے ساتھ بازار تھا۔اس کے ساتھ گاؤں تھا۔ ہر سرائے میں ایک کنواں بھی ہوتا تھا اور پکی اینٹوں کی ایک مسجد بھی بنائی گئی تھی۔ مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے امام اور قرآن کے معلموں کا تقرر بھی کیا گیا تھا۔
اسلام شاہ نے حکمراں بنتے ہی حکم دیا کہ ہر(ایک میل) پر اس طرح کی سرائیں تعمیر کی جائیں، اس فیصلے سے ملک میں سراؤں کی تعداد دگنی ہو گئی۔ اسلام شاہ نے یہ ہدایت بھی کی کہ شیر شاہ سوری کے زمانے میں جتنے باغات لگائے گئے تھے ان میں کوئی کمی نہ ہونے پائے اور غیر ذمہ داری سے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ اسلام شاہ نے یہ تاکید بھی کی کہ شیر شاہ کے دور میں سرکردہ افراد اور عام لوگوں کو مالی استحکام فراہم کرنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے تھے اور جو منصوبے قائم کیے گئے تھے انہیں جاری رکھا جائے۔اسلام شاہ علماء کرام کی بڑی عزت کرتے تھے۔ خاص طور پر شیخ الاسلام مخدوم الملک مولانا عبد الله سلطان پوری کے بے حد معتقد تھے۔ اسلام شاہ عقیدے کے اعتبار سے بچے اور پکے مسلمان تھے۔ وہ نماز ہمیشہ با جماعت ادا کرتے تھے۔اسلام شاہ اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انہیں بہت سے اشعار یاد تھے۔ اسلام شاہ نے اپنی رہائش گاہ کے قریب کئی ایوان تعمیر کروائے تھے۔ ایوانوں کو نہایت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا اور ان میں قیمتی ساز و سامان رکھا گیا تھا۔ ان ایوانوں میں اس وقت کے ماہرین فنون لطیفہ مثلاً سید محمن شاہ محمد ، حیاتی اور سیفی اکٹھے ہوتے تھے۔
اسلام شاہ کا دور بعض تعمیرات کے لحاظ سے بھی یاد گار ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ شیر شاہ سوری نے مغل حکمراں نصیر الدین ہمایوں کوشکست دی تھی اور ہمایوں اپنی حکومت واپس لینے کی مسلسل کوشش کر رہے تھے۔ اسلام شاہ نے ہمایوں کی واپسی کی روک تھام کی غرض سےدہلی کی سرحد پر ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ دریائے جمنا کے کنارے واقع تھا اور شہر کے بیرونی مورچے کی حیثیت رکھتا تھا۔ 957ھ / 1550ء میں تعمیر کیے گئے اس قلعے کا نام "سلیم گڑھ " رکھا گیا تھا۔ اسلام شاہ کو سلیم شاہ بھی کہا جاتا تھا۔ اسی مناسبت سے قلعے کا نام ان کے نام پر رکھ دیا گیا تھا۔
اسلام شاہ کی خواہش تھی کہ وہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور سے کسی اور محفوظ مقام پر منتقل کریں۔ ان کا خیال تھا کہ لاہور، کامل دہلی شاہراہ پر واقع ہونے کے باعث غیر محفوظ ہے۔ چنانچہ انہوں نے دریائے چناب کے مشرقی کنارے کے قریب کوہ شوالک پر قلعوں کا ایک سلسلہ تعمیر کروایا۔ یہ قلعے پہاڑیوں پر اس طرح تعمیر کیے گئے کہ دور سے دیکھنے والوں کو صرف ایک فلک بوس قلعہ دکھائی دیتا ہے۔ ان قلعوں تک دشمن کا پہنچنا نہایت دشوار ہے۔ قلعوں میں میٹھے پانی کی قطعاً کمی نہیں تھی اور کھانے پینے کی اشیا بھی موجود تھیں۔ قلعوں کا یہ سلسلہ مان کوٹ کہلاتا تھا۔ یہ سلسلہ چار قلعوں اور چار شہروں پر مشتمل تھا۔ ان قلعوں اور شہروں کی تعمیر کے لیے مزدور مسلسل دو برس تک مصروف رہے۔
اسلام شاہ کے زمانے میں بھی مخصوص سُوری طرزِ تعمیر نمایاں رہا، یعنی مقبرے ہشت پہلو تعمیر کیے جاتے تھے، چنانچہ ناگور کے سردار عیسیٰ خان نیازی کا مقبرہ 955ھ/ 1538ء میں اس انداز سے تعمیر کیا گیا۔ اس میں کاشی کاری کے روغنی چوکے (ٹائمز) بڑی تعداد میں استعمال کیے گئے تھے۔ صحن بھی ہشت پہلو تھا، جس کے مغربی حصے میں ایک مسجد تعمیر کی گئی تھی جس میں بھورا سنگ مورہ اور سنگ سرخ استعمال کیا گیا تھا۔ چوڑائی میں تین دالان بنائے گئے تھے۔ اوپر ایک وسطی گنبد تعمیر کیا گیا اور بغلی دالانوں پر چھتریاں بنائی گئیں۔ دہلی میں یہ آخری عمارت ہے جو اس انداز سے تعمیر کی گئی تھی۔
اسلام شاہ فوج کو بے حد منظم رکھتے تھے اور فوجی اصول و قواعد کی سختی سے پابندی کرواتے تھے۔ اپنے حریفوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے وہ ذرا بھی تاخیر گوارا نہ کرتے تھے اور مشکلات یا رکاوٹوں کے باوجود پیش قدمی شروع کرا دیتے تھے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب مغل حکمراں نصیر الدین ہمایوں نے اپنی کھوئی ہوئی سلطنت حاصل کرنے کی خاطر دریائے سندھ پار کر کے لاہور کی جانب پیش قدمی شروع کی اور اس پیش قدمی کی اطلاع اسلام شاہ کو ملی، تو اس وقت وہ دہلی میں تھے اور حکیموں نے ان کے گلے سے فاسد خون نکالنے کی غرض سے 70 جونکیں لگا ر کھی تھیں، لیکن اس خبر کو سنتے ہی اسلام شاہ نے ان جونکوں کونکال کر ایک طرف پھینک دیں اور فوج کو فوری طور پر تیاری کا حکم دے دیا۔
اسلام شاہ کی فوج کا توپ خانہ 20 بڑی توپوں پر مشتمل تھا۔ یہ توپیں نہایت بھاری بھر کم تھیں اور انہیں کھینچنے کے لیے بیل استعمال کیے جاتے تھے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جب اسلام شاہ نے فوجی تیاریوں کا حکم دیا توتمام بیل دور دراز کے دیہات میں چرنے کے لیے بھیجے جاچکے تھے۔ فوری طور پر تمام بیلوں کو واپس لے کر آنا دشوار تھا۔ اسلام شاہ کو اس صورت حال سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر حکم دیا کہ ان توپوں کو پیادہ سپاہی کھینچیں گے چنانچہ ایک ایک توپ گاڑی کو دو دو ہزار پیادہ سپاہیوں نے کھینچا شروع کیا اور فوج تیزی سے پیش قدمی کرنے لگی۔ اس بروقت کارروائی کے نتیجے میں فوج اسی دن دہلی سے تین میل دور جا پہنچی، اور جب یہ فوج لاہور پہنچی تو ہمایوں اس سے پہلے ہی واپس کا بل جا چکے تھے۔ انہیں اسلام شاہ کی فوری فوجی کارروائی کی خبر مل گئی تھی۔
مغل حریف نصیر الدین ہمایوں کے خلاف اس فوجی مہم میں اسلام شاہ نے غیر معمولی اہتمام کیا۔ فوجی تیاری کے لیے نہایت مختصر مہلت میسر ہونے کے باوجود لکڑی کاٹنے کے ماہر ڈیڑھ لاکھ سپاہی اور خندقیں کھودنے کے ماہر ڈیڑھ لاکھ افراد اس مہم میں اسلام شاہ کے ساتھ تھے۔ فوج جب کہیں پڑاؤ ڈالتی تھی تو یہ ڈیڑھ لاکھ ماہرین فوج کی حفاظت کے لیے آن کی آن میں خندقیں کھود کر رکھ دیتے تھے اور لکڑی کاٹنے والے ماہر سپاہی فوجی خیموں کے چاروں طرف جنگلے لگا دیتے تھے۔ یہ جنگلے کٹ گھرے " کہلاتے تھے۔ اسلام شاہ کی فوج میں دفاعی تعمیرات، مورچوں اور جنگی آلات کا محکمہ بہت منظم تھا۔
اسلام شاه 960ھ/ 1553ء میں علیل ہو گئے۔ ان کے جسم پرایک پھوڑا نکل آیا تھا۔ یہ مرض اتنا بڑھا کہ جان لیوا ثابت ہوا۔ 22 ذی قعده 960ھ / 30 اکتوبر 1553ء کو اس جری اور پر عزم حکمراں کی کتابِ زندگی کا آخری باب بند ہو گیا۔ اسلام شاہ نے آٹھ برس پانچ ماہ حکومت کی۔ اسلام شاہ کی وفات کے بعد ان کے کمسن بیٹے فیروز خان کو حکمراں بنایا گیا لیکن جلد اسلام شاہ کے بھائی مبارز خان نے "عادل شاہ" کے لقب سے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ عادل شاہ کی حکومت بھی بمشکل ایک برس تک قائم رہی۔ ان کے بعد ابراہیم شاہ اور سکندر شاہ سوری کو چند ماہ تک حکومت کرنے کا موقع ملا۔ سکندر شاہ نے سرہند کے میدان میں مغلوں سے شکست کھائی۔
نصیر الدین ہمایوں پہلے ہی ذی الحج 961ھ / نومبر 1554ء میں پشاور اور ربیع الاول 962 ھ / فروری 1555ء میں لاہور پر قابض ہو چکے تھے۔
"مغل حکمران نصیر الدین ہمایوں کا تصویری پوٹریٹ"
رمضان المبارک 962ھ/ جولائی 1555 ء میں ہمایوں دہلی میں داخل ہو گئے، لیکن ربیع الاول 963ھ / جنوری 1556ء میں ہمایوں کا انتقال ہو گیا تو عادل شاہ کے سپہ سالار ہیمو نے دہلی اور آگرہ پر قبضہ کر لیا۔ 964ھ / 1556ء میں پانی پت کی دوسری لڑائی میں ہیمو کی فوج کو جلال الدین اکبر کی فوج کے ہاتھوں بری طرح شکست ہوئی۔ اس طرح بر صغیر میں مغلوں کی حکمرانی بحال ہو گئی اور سوری خاندان کی حکومت کا تذکرہ صرف تاریخ کی کتابوں میں باقی رہ گیا۔
تبصرہ کریں