مسلمانوں کی مقدس ترین جگہ مکہ معظمہ ،میں حجرت ابراہیمؑ کی آؐد کی تاریخ۔
مکہ مکرمہ کا محل وقوع اور اسکی تاریخ۔
مکہ معظمہ پہاڑیوں کے اس سلسلے میں واقع ہے جو بحیرہ قلزم کے مشرقی جانب سے آنے والی عام شاہراہ کے ساتھ متصل ہے۔ پہاڑیوں کا یہ سلسلہ سمندر سے تقریبا (80) کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس سلسلہ میں ایک مشہور درہ ہے جو یمن ، جدہ اور فلسطین کے خطوں کا سنگم ہے،اور اسے سر زمینِ حجاز کہتے ہیں
(مکہ مکرمہ کی بنیاد)
مکہ مکرمہ کی بنیاد کب پڑی اور یہاں آبادی کا سلسلہ کب شروع ہوا ؟ اس کے بارے میں تفصیل سے کہنا کچھ مشکل ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس کی ابتداء آج سے ہزاروں سال قبل ہو چکی تھی ۔ قدیم زمانوں میں فلسطین اور یمن کے درمیان سفر کرنے والے تجارتی قافلے اسی مقام پر پڑاؤ کرتے تھے۔ اس مقام پرٹھنڈے اور میٹھے چشمے ان کے لئے پانی کا ایک اہم ذریعہ تھے۔اس مقام پر سب سے پہلے "حضرت اسماعيل عليه السلام" نے رہائیش اختیار کی تھی۔
(حضرت ابراہیم خلیل اللہ عليه السلام)
حضرت ابراہیم عليه السلام کے والد کا نام آذر تھا اور ان کا وطن عراق تھا۔ حضرت ابراہیم عليه السلام کے والد لکڑی کے بت تیار کر کے اپنی گزر بسر کرتے تھے۔ جب حضرت ابراہیم عليه السلام بڑے ہوئے، تو اپنے والدہ کا پیشہ دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی مگر جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ ان کے والد کے بنائے ہوئے بتوں کی نہایت عزت کرتے اور ان کی پوجا کرتے ہیں تو وہ اس سوچ میں پڑ گئے، کہ آخر یہ سلسلہ کیا ہے؟ سب سے پہلے تو حضرت ابراہیم عليه السلام نے اپنے والد سے دریافت کیا
کہ جو بت آپ اپنے ہاتھوں سے بنا کر فروخت کرتے ہیں کس طرح خدا ہو سکتے ہیں؟
لیکن انکے والد ان کو تسلی بخش جواب نہ دے سکے ۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم عليه السلام نے ان لوگوں سے بات چیت کی، جو ان بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ مگر وہ بھی ان کے بارے میں حضرت ابراہیم عليه السلام کو قائل نہ کر سکے۔ اس لئے آذر نے حضرت ابراہیم عليه السلام کو سمجھانے کی کوشش کی مگر حضرت ابراہیم عليه السلام اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
ایک دن جب کہ سب لوگ ایک میلے میں شرکت کیلئے بستی سے باہر گئے ہوئے تھے، حضرت ابراہیم عليه السلام کوموقع مل گیا، وہ ایک کلہا ڑا لے کر ان کے بڑے مندر میں داخل ہو گئے اور بتوں کو توڑ پھوڑ ڈالا کسی کی ٹانگیں توڑ دیں، کسی کی گردن اڑا دی۔ اس کے بعد سب سے بڑے بت کے کندھے پر کلہاڑارکھ دیا اور واپس آگئے ۔ جب لوگ میلے سے واپس لوٹے اور اپنے خداؤں کا یہ حال دیکھا تو کہنے لگے، یہ ضرور ابراهیم (عليه السلام ) کا کام ہے، کیونکہ وہ ہمارے بتوں کو برا بھلا کہتا رہتا ہے۔ انہوں نے تمام بڑوں کو اکٹھا کیا اورحضرت ابراہیم علی اسلم کو بلا کر پوچھا:
قَالُوا ، أَنْتَ فَعَلْتَ هَذَا بِالِهَتِنَا بِإِبْرَاهِيمُ .
ترجمہ "انہوں نے کہا اے ابراہیم (علی اللہ ) ! کیا یہ تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ کیا۔
(سورة الانبیاء آیت 62)
حضرت ابراہیم عليه السلام نے جواب میں فرمایا:
قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَسَتَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ ) ترجمہ: اس نے کہا بلکہ یہ ان کے اس بڑے نے کیا ہے تو ان (ہی ) سے پوچھ لو اگر یہ بولتےہیں ۔
(سورة الانبیاء آیت 63)
حضرت ابراہیم عليه السلام نے ان بتوں کے ساتھ یہ سلوک اس وقت کیا تھا جب انہیں بت پرستوں کی گمراہی کا پورا یقین ہوگیا اور انہوں نے جان لیا کہ معبودِ برحق ایک ہے۔
ترجمہ:
پھر جب اس پر رات نے اندھیرا کر لیا تو ایک ستارہ دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے۔ پھر جب وہ غائب ہو گیا تو (ابراہیم علی اسلام ) کہنے لگے میں غائب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا ۔ پھر جب چمکتا ہوا چاند دیکھا تو بولے یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ دے تو میں بھٹکنے والے لوگوں میں سے ہو جاؤں ۔ پھر جب اس نے جگمگاتا ہوا سورج دیکھا تو بولے یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اے میری قوم ! بے شک میں ان سے بیزار ہوں جن کو تم شریک کرتے ہو۔ بے شک میں نے اپنا منہ یک رخ ہو کر اس کی طرف موڑ لیا جس نے زمین اور آسمان بنائے اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ۔
(سورة الانعام آیت 76 تا 79)
لیکن اس کے باوجود حضرت ابراہیم علیہ السلام ان لوگوں کو سیدھی راہ پر لانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ان لوگوں نے آپ عليه السلام کو اس جرم کی سزا دینے کے لئے حاکم وقت سے رجوع کیا اور آپ علی السلام کو زندہ نذر آتش کرنے کے لئے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ دہکایا گیا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو اس آسمان کو چھوتی ہوئی آگ میں پھینکا گیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آگ گلزار بن گئی اور اس نے آپ عليه السلام کو ذرہ بھر بھی نقصان نہ پہنچایا۔ مگر آپ علیه سلام کی قوم شرک کی دلدل میں اس طرح پھنس چکی تھی کہ اس عظیم معجزے کے بعدبھی خدائے واحد پر ایمان نہ لائی۔
حضرت ابراہیم علی السلام کی فلسطین ہجرت۔
حضرت ابراہیم علی سلام جب اپنی قوم کو راہ راست پر لانے میں ناکام ہو گئے تو وہاں سے دل برداشتہ ہو کر اپنی زوجہ سارہ علیہ السلام کو ساتھ لے کر فلسطین کی طرف ہجرت کر گئے ۔ یہاں سے مصر کی طرف آئےتو اس وقت مصر میں عمالقہ (الہکسوس) کی حکومت تھی۔مصر کا حکمران رعایا کی شادی شدہ خوبصورت عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین کر اپنے حرم میں داخل کر لیا کرتا تھا۔
قوم عمالقہ کا بادشاہ"الہکسوس"۔
حضرت سارہ علیہ السلام بھی ظاہری حسن و جمال سے مالا مال تھیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خیال آیا۔ ایسا نہ ہو کہ ہم سے بھی یہی برتاؤ کر کے قتل نہ کردیا جائے۔ آپ علیہ السلام نے سارہ علیہ اسلام کو اپنی بہن بتایا مگر شاہان مصر اپنے ارادہ سے باز نہ آیا اور سارہ علیہ السلام کو اپنے محل میں طلب کر لیا۔
بادشاہ نے اس وقت خواب میں بی بی سارہ علیہ السلام کو شادی شدہ دیکھا جس سے وہ ڈر گیا اور حضرت ابراہیم علی اسلام سے معذرت کرتے ہوئے اور ان کی خوشنودی کی خاطر بہت سارے تحائف پیش کئے ۔ جن میں ایک کنیز بھی تھی جس کا اسم گرامی هاجر علیہ السلام نام تھا۔
جب ایک طویل مدت تک حضرت سارہ علیہ السلام کے ہاں اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے اپنے شوہر سےدرخواست کی کہ وہ حضرت ہاجرہ علیہ السلام کو اپنی زوجیت میں لے لیں۔ ایک برس بعد حضرت باجرہ علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے ایک بیٹا عطا فرمایا جن کا اسم گرامی حضرت "اسماعیل علیہ السلام" رکھا گیا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نےحضرت سارہ علیہ السلام کو بھی ایک بیٹا عطا کیا جن کا نام حضرت اسحاق علیه السلام رکھا گیا۔
قرآن مجید میں حضرت اسماعیل علیه السلام کا ذکر۔
حضرت ابراہیم علی السلام نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو قربانی میں ان کے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دے رہے ہیں، جب اُن کو خواب کی حقیقت پر یقین ہو گیا تو وہ اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علی اسلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے صبح سویرے اپنے خیمے سے نکل کر ایک طرف چل پڑے۔ قرآن پاک میں اس واقعہ کا ذکر کچھ اس طرح آیا ہے:
"ترجمہ: پھر جب وہ بچہ اس کے ساتھ دوڑنے کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا: میرے پیارےبچے میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا جان ! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے۔ان شاء اللہ ، آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے اس (بیٹے) کو پیشانی کے بل گرا دیا تو ہم نے آواز دی کہ اےابراہیم یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں اور حقیقت یہ کھلا امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیے میں دے دیا اور ہم نے ان کا ذکر پچھلوں میں باقی رکھا۔"
(سورة الصافات آیت 102 تا 108)
مکہ مکرمہ کی جانب ہجرت۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام دونوں بھائی اکٹھے والد کے زیر سایہ شفقت میں پرورش پارہے تھے۔ پھر کسی وجہ سے حضرت ابراہیم علی السلام حضرت حاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام دونوں ماں،بیٹے کو لے کر جنوب کی سمت چل پڑے اور ان کا یہ سفر ایک پہاڑی درے میں آ کر ختم ہوا، جہاں آج مکہ آباد ہے۔لیکن اس وقت یہاں آبادی کا کوئی نشان تک نہ تھا۔ حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے یہاں ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنالی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو چند دن کا راشن پانی دے کر اور اللہ تعالیٰ کے سپرد کر کے واپس چلے گئے ۔ جب پانی ختم ہوگیا تو حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں بے تابی سے ادھر سے ادھر دوڑنے لگیں۔ایک بار پہاڑی پر جاتیں اور پھر بھاگ کر حضرت اسماعیل علیہ اسلام کو دیکھ جاتیں اور دوبارہ پانی کیلئے
سرگراں ہو جاتیں۔ اس دوران بچہ پیاس سے بلک رہا تھا اور ممتا سنگلاخ چٹانوں میں تڑپ رہی تھی۔ اس دوران انہوں نے صفا و مروہ پہاڑیوں کے سات چکر لگائے اور جب مایوسی کے عالم میں واپس آئیں تو رحمت الہٰی جوش میں آچکی تھی اور اس مقام سے جہاں اسماعیل علیہ السلام ایڑیاں رگڑ رہے تھے، پانی کا ایک چشمہ اُبل رہا تھا۔ حضرت ہاجرہ علیہ السلام دوڑتی ہوئی آئیں اور پانی کے گرد تھوڑی سی رکاوٹ بنا کر بولیں ۔ ” زمزم رک جا!رک جا !
حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پانی پلایا اور خودبھی پانی پیا۔ اس کے بعد وہ وہاں سے گزرنےوالے قافلوں سے کھانے کی اشیاء خرید لیتیں اور گزر بسر کرتیں۔ ذرا تصور کیجیے اس وقت نہ تو وہاں آبادی تھی نہ لوگ تھے۔ رات کے وقت آپ کی حالت اس بے آب گیاہ صحرا میں کیا ہوتی ہوگی۔ کیا وہ چین کی نیند سوتی ہوں گی یا ساری رات گھڑیاں گھن گھن کر اور جنگلی درندوں سے ڈر ڈر کر گزارتی ہوں گی۔ اپنے بیٹے کی آسائشوں کا خیال کیسے رکھتی ہوں گی ؟ لیکن آفرین ہے حضرت ہاجرہ علیہ السلام پر جنہوں نے نہایت صبر و شکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کو تسلیم کیا۔
اب یہ علاقہ قافلوں کی ایک عام شاہراہ تھا اور تاجروں کا ایک مستقل پڑاؤ تھا،اور پانی کی وجہ سے اور بھی پُر کشش ہو گیا اور عرب کے مختلف قبائل یہاں آکر آباد ہونے لگے۔ جن میں سب سے پہلے آنے والا قبیلہ جرہم ہے۔ یہ قبیلہ اس مقام کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اس نے یہاں فضا میں پرندوں کو اڑتے دیکھا تو خیال کیا کہ یہاں ضرور پانی موجود ہے لہٰذا قافلے کا رخ اس جانب موڑ دیا۔ انہوں نے جب یہاں پانی دیکھا تو حضرت ہاجرہ علیہ السلام سے یہاں آباد ہونے کی اجازت طلب کی۔ حضرت ہاجرہ بینا نے بخوشی اس قبیلے کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دے دی۔
حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی مکہ آمد:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ علیہ السلام سے کہا کہ وہ حضرت ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو دیکھنے کیلئے جانا چاہتے ہیں۔ اس پر حضرت سارہؑ نے کوئی تعرض نہ کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام گھر میں موجود نہیں تھے آپ نے ان کی اہلیہ سے دریافت کیا کہ حضرت اسماعیل علیہ سلام کہاں ہیں تو اس نے کہا کہ وہ شکار کیلئے گئے ہیں جو ہمارا ذریعہ روزگار ہے۔ اس کے بعد حضرت براہیم علیه السلام نے کھانے کے لئے کچھ طلب کیا تو اس نے کہا کہ ان کے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے پیغام دیا کہ اسماعیلؑ آئیں تو ان کو میرا سلام دینا اور کہناکہ وہ اپنے گھر کی چوکھٹ تبدیل کر لیں ۔
جب حضرت اسماعیلؑ علیا واپس آئے تو اہلیہ نے ان کو یہ پیغام دیا۔ یہ سن کر انہوں نے اسے طلاق دے دی اور قبیلہ جرہم کی ایک اور خاتون بنت مضامن ( بن عمرو ) سے شادی کر لی۔ اس نیک سیرت خاتون کے وقت بھی حضرت ابراہیم علیہ سلام تشریف لائے اور گفتگو کے بعد روانہ ہوتے ہوئے فرمایا کہ اپنے شوہر سے کہنا کہ اس چوکھٹ کو بحال رہنے دیں ۔ جب انہوں نے یہ پیغام حضرت اسماعیل غلام کو دیا تو انہوں نے فرمایا ۔" وہ میرے والد محترم تھے اور تم میرے گھر کی چوکھٹ ہو،میرےوالد نے اس پیغام میں مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں ہمیشہ اپنی زوجیت میں رکھوں ۔"
عرب مستعربه کون تھے؟
حضرت اسماعیلؑ کی اس اہلیہ کے بطن سے بارہ بیٹے پیدا ہوئے جو عرب مستعربه کے نام سے مشہور ہوئے ۔ ان کی والدہ کے مورث اعلیٰ کا نام "يعرب بن قحطان" تھا۔ اس نسبت سے بھی ان کو عرب عاربه کہا جاتا تھا۔ حضرت اسماعیلؑ کی والدہ مصر سے تعلق رکھتی تھیں اس لئے حضرت اسماعیل علیه السلام مصر اور ان تمام علاقوں سے منسوب ہیں جن میں آپ کے والد محترم نے قیام فرمایا۔
کعبہ میں بت پرستی کب شروع ہوئی؟
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس نیت سے کعبہ کو تعمیر کیا تھا کہ لوگ یہاں ایک اللہ کی عبادت کریں گے۔ لیکن تریخ سےاس بات کا سراغ نہیں ملتا کہ کعبہ میں کب بت پرستی شروع ہوئی۔ اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیلؑ کی وفات کے بعد کس نے یہاں تو حید پرستی کی جگہ بت پرستی کو فروغ دیا۔
مکہ مکرمہ میں بت پرستی کی ابتداء:
مکہ کے لوگوں نے چقماق ( وہ پھر جن کو رگڑنے سے آگ نکلتی ہے ) پتھروں سے ہی آگ کا کرشمہ دیکھا تو انہوں نے یہ یقین کر لیا کہ آسمان سے جو ہمارے معبود ستاروں کی نذر چڑھانے کے لئے پتھر گرائے جاتے ہیں وہ یہی پتھر ہیں۔
بعض نے ستاروں کو چھوڑ کر ان کو ہی اپنا معبود بنالیا۔ پہلے وہ حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے۔ اب انہوں نے ادھر ادھر بکھرے پتھروں کو چنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے پہلے پہل کعبتہ اللہ کے اردگرد بکھرے پتھروں کو سفر میں بطور تبرک ساتھ لے جانا شروع کیا۔ بعد میں یہی پتھر معبود کی طرح پوجے جانے لگے اور ان سے حاجتیں طلب کرنے لگے اور اس کے بعد پتھروں کو تراش کر بت بنائے جانے لگے اور ان کی نذر و نیاز دی جانے کی اور ان کے ساتھ ہر قسم کی قربانیاں پیش کی جانے لگیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد عرب میں دیگر انبیاء کرام کا ظہور۔
"حضرت ہود علیہ السلام"
حضرت ہود علیہالسلام قوم عاد کی طرف مبعوث ہوئے تھے قوم عاد "حضر موت" کے شمال میں آباد تھی۔ لیکن ان میں قلیل تعداد کے سوا باقی سب لوگ اپنے کفر پر ڈٹے رہے ۔ انہوں نے حضرت ہود علیہ سلام کو یہاں تک
کہہ دیا کہ:
اے ہود علیہ السلام تمہارے پاس بت پرستی کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہے۔ پھر ہم تمہاری باتوں میں آکر اپنے باپ دادا کا راستہ کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ اور تمہاری نبوت پر کس طرح ایمان لا سکتے ہیں ؟“
حضرت صالح علیہ السلام:
حضرت صالح علا لسلام کی بعثت حجر میں آباد قوم میں ہوئی۔ یہ مقام حجاز و شام کے درمیان خلیج عقبہ کے اس کنارے پر واقع ہے۔ جو مدین سے بحق " حجر" کے نام سے موسوم ہے ۔ حضرت صالح علی السلام نے بھی اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کے لئے بھر پور تبلیغ فرمائی مگر ان کی قوم پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔
حضرت شعیب علیہ السلام:
حضرت شعیب علیہ السلام نے مدین کے پہاڑی علاقوں کے باشندوں کو دعوت ایمان دی لیکن انہوں نے بھی حضرت شعیب علیہ السلام کی باتوں پر کان نہ دھرا اور عاد و ثمود کی طرح عذاب الہی کا شکار ہوئے۔اسی طرح اور بہت سے انبیائے کرام علیہ السلام نوع انسانی کی ہدایت کے لئے تشریف لاتے رہے جن کا ذکر قرآن مجید میں مذکور ہے۔ قرآن پاک میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کی دعوت سے انکار کرنے والوں کا کیا حشر ہوا، کیونکہ وہ لوگ سب کچھ جان بوجھ کر بھی بتوں کی عبادت کرتے رہے۔ اُن کے دلوں میں پتھر اور لکڑی کے بتوں کی عظمت کچھ اس طرح رچ بس چکی تھی کہ وہ خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کی زیارت و حج کی غرض سے لوگ عرب کے دور دراز حصوں سے آتے ۔ نذریں نیازیں چڑھاتے۔
اللہ تعالی نے دنیا کے تمام انسانوں کو پیغامِ ہدایت ضرور دیا ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
"اور جب تک ہم کوئی رسول نہ جھیجیں ہم عذاب دینے والے نہیں۔"
تبصرہ کریں