حضورؐ
"ننھے حضورؐ اور اُن کا بچپن"
جب مکہ پر ابرہہ حبشی نے چڑھائ کی،تو اس وقت حضرت عبد المطلب کی عمر تقریباً ستر سال تھی اور انکے صاحبزادے حضرت عبد اللہ کی عمر چوبیس سال تھی۔آپ نے اُن کی شادی کا ارادہ کیا اور اس کے لیے سیدہ آمنہ بنتِ وہب کا انتخاب فرمایا۔سیدہ آمنہ کا سلسلہ نسب بھی قبیلہ قریش سے ملتا ہے جو اس طرح ہے۔
1)حضرت آمنہ بنتِ وھب بن زھرہ بن قصی بن کلاب
2)حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب
ایک مرتبہ حضرت عبد المطلب اپنے لختِ جگر حضرت عبد اللہ کو ساتھ لے کر بنو زہرہ کے ہاں تشریف لے گےاور"وہب" سے انکی صاحبزادی حضرت آمنہ کا رشتہ حضرت عبد اللہ کے لیے طلب فرمایا۔
بعض مورخین کے نزدیک اس وقت "وھب"وفات پا چکے تھے اس لیے حضرت عبد المطلب نے انکے بھای وہیب یعنی حضرت آمنہ کے چچا سے درخواست کی جو حضرت آمنہ کے سر پرست تھے۔نکاح کے بعد حضرت عبد اللہ 3 دن بی بی آمنہ کے گھر رہے۔دراصل عرب میں ایک رسم یہ تھی کہ دولہا شادی کے بعد تین دن سسرال میں گزارتا تھا۔ چھوتھے دن حضرت عبد اللہ اور بی بی آمنہ حضرت عبد المطلب کے گھر تشریف لاے۔
جس دن حضرت عبد اللہ کی شادی ہوی اسی دن حضرت عبد المطلب نے بھی حضرت آمنہ کی پھو پھی"ھالہ"(ہمشیرہ وہب و وہیب)سے عقد فرمایا،اور جس سال آپؐ کی ولادت باسعادت ہوی اسی سال بی بی ھالہ کے بطن سے بھی فرزند"سید الشہداءحضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوےء۔حضرت حمزہ آپؐ کے چچا اور رضای بھای بھی تھے۔
شادی کے جلد ہی بعد حضرت عبد اللہ ایک تجارتی سفر پر شام کی طرف تشریف لے گے۔اس وقت تک حضرت آمنہ اُمید سے تھیں۔حضرت عبد اللہ بھی اس سفر مین یہ بشارت اپنے ساتھ لے گے۔مختلف روایات کے مطابق حضرت عبد اللہ کی اور بیویاں بھی تھیں لیکن ان روایات میں صداقت نہیں ہے۔
1)حضرت عبد اللہ کا انتقال!
حضرت عبد اللہ نے بہت سے مہینے غزہ(فلسطین)میں رہنے کے بعد واپسی کا کی راہ لی،راستے میں وہ بیمار پر گیے انہوں نے کچھ دن یثرب میں آرام کرنے کا ارادہ فرمایا۔یہاں انکی ننھال تھی،ان کے ساتھی چند دن ان کی صحت یابی کا انتظار کرتے رہے اور اس کے بعد مکہ روانہ ہو گے۔حضرت عبد المطلب نے جب اپنے لختِ جگر کی بیماری کے بارے میں سنا تو وہ سخت پریشان ہو گےاور فوراً اپنے بڑے بیٹے حارث کو مدینہ بھیجا کہ وہ حضرت عبد اللہ کی خبر گیری کریں اور ان کے صحت یاب ہوتے ہی انہیں مکہ ساتھ لایں۔جب حارث مدینہ پہنچے تو انہیں یہ روح فرسا خبر ملی کہ حضرت عبدللہ کے ساتھیوں کے مکہ جانے کے ایک ماہ بعد انکی وفات ہو گی تھی اور مدینہ میں انکی تدفین بھی ہو چکی ہے۔حارث مدینے سے یہ اندوہناک خبر لے کر مکہ پہنچے تو انکے ضعیف العمر والد اور بی بی آمنہ پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔
اس خبر نے بی بی آمنہ کی تمام اُمیدوں اورانتظار کا خاتمہ کر دیااور حضرت عبد مطلب کے شانے اس غم سے مزید جھک گے۔
2)حضرت عبد اللہ کا ترکہ!
حضرت عبد اللہ نے اپنے پیچھے پانچ اونٹ،بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ اور ایک کنیز اُم ایمن رضی اللہ عنہا کا تر کہ چھوڑا۔حضرت اُمِ ایمن نے ہی نبی کریم ؐ کی دیکھ بھال کی زمہ داری سر انجام دی۔ حضرت عبد اللہ کے کم ترکے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ امیر نہیں تھے مگر اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ وہ غریب تھے کیونکہ وہ نوجوان تھے اور انکے سامنے ابھی زندگی کی منزلیں پڑی تھیں اور جو کچھ اُن کے پاس تھاایک قناعت پسند گھرانے کے لیے کافی تھا پھر اُنکے والد بھی زندہ تھے جنہوں نے ابھی تاحال اپنی دولت کو بیٹوں میں نہیں بانٹا تھا۔
3)آپؐ کی ولادتِ مبارکہ!
جب بی بی آمنہ نے آپؐ کو جنم دیا اور آپ ؐ کی ولادت مبارکہ سے حضرت عبد المطلب کو آگاہ کیا گیا تو انہیں اپنے پیارے بیٹے کی اولاد کی خبر سے بے حد خُو شی ہوی۔وہ بھاگے بھاگے گھر تشریف لاے اور ننھے مولودؐ کو دونوں ہاتھوں میں اُٹھا کر خانہ کعبہ چلے گے جہاں انہوں نے انکا نام "محمد"رکھا۔یہ نام اہل عرب کے لیے مانوس تو تھالیکن آج سے پہلے کسی نے یہ نام نہیں رکھا تھا۔اس کے بعد وہ واپس گھر تشریف لاےاور ننھے مولود کو انکی والدہ ماجدہ کے سپرد کر کے بنی سعد کی دایوں کا انتظار کرنے لگے جو اس معصوم بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش اپنے صحرا کے گھروں میں کیا کرتی تھیں۔یہ عرب کے معزز اور نمایاں گھروں میں ایک رواج تھا۔
مو رخین میں آپ ؐ کی ولادت میں اختلاف ہے ان میں سے زیادہ تر کا خیال ہے کہ آپ ؐ کی ولادت"عام الفیل"یعنی 570ءمیں ہوی تھی۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ آپؐ "عام الفیل"کے دن پیدا ہوے تھے،کچھ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپؐ اس واقعہ کے 15 دن بعد پیدا ہوے تھے۔
حضرت عبد المطلب نے آپ ؐ کی ولادت کی خوشی میں ساتویں دن اونٹ زبح کر کے اہلِ قریش کی دعوت فرمای اور ان سب کو کھانا کھلایا۔
4)نام کے بارے میں قریش کا استفسار!
اس دعوت کے موقع پر قریش نے آپ ؐ کا نام سن کر حضرت عبد المطلب سے دریافت کیاکہ آپ نے،"محمد"نام میں کیا خوبی دیکھی ہے،جو باقی ناموں کو نظر انداز کر کے یہ نام منتخب فرمایاہے؟
اس پر حضرت عبد المطلب نے فرمایا:
"میں نے یہ نام اس وجہ سے رکھا ہے کہ اللہ تعایٰ آسمانوں پر اور زمین پر انسان انکی مدح سرای کریں"
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں