رسول اللہ ﷺ کی محبوب بیوی"حضرت خدیجہؓ " جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام موصول ہواتھا۔
سیدہ طاہرہ، جنہیں تمام مسلمان حضرت"خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا" کے نام سے جانتے ہیں ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تمام مسلمانوں کی ماں ہیں ،جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ درجہ عطا فرمایا کہ وہ نبی کریم ؐ کی سب سے پہلی زوجہ محترمہ بنی تھیں۔
آپ وہ پہلی خوش نصیب خاتون ہیں،جو نبی کریم ؐ پر سب سے پہلے ایمان لائی تھیں۔آپ کو یہ بھی فضیلت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام کہلوایا۔رسول اللہؐ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں فرمایاکہ"ساری دنیا کی عورتوں میں (اپنے بارے میں)مریم(حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ) افضل تھیں اور اسی طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا افضل ہیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مکہ مکرمہ کے ایک تاجر "خُوَیلدِ بن اسد" کی صاحبزادی ہیں۔آپ کی والدہ کا نام "فاطمہ بنت زائدہ" ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سلسلہ نسب پانچویں پشت پر رسول اللہؐ سے جا ملتا ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پہلی شادی "ابو حالہ بن زرارہ تمیمی" سے ہوئی تھی۔ان سے آُ کے دو بیٹے پیدا ہوئے تھے۔ایک کا نام "ہند" اور دوسرے کا نام "حارث" تھا۔ابو حالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دوسری شادی"عتیق بن عاید مخزومی سے ہوئی ،ان سے آپکی ایک بیٹی پیدا ہوئی۔اسی مناسبت سے آپ "اُمِ ہند" بھی کہلاتی تھیں۔ عتیق کی وفات کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ ؐ کے ساتھ شادی کی تھی۔
رسول اللہ ؐ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بے حد محبت تھی،حضورﷺ سے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا 25برس تک زندہ رہیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زندگی میں آپؐ نے دوسری شادی نہیں کی تھی۔اللہ تعالیٰ کی زات نے نبی کریمؐ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے حضرت ابراہیم کو چھوڑ کر ساری اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عطا فرمائی تھی۔
رسول للہؐ سے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ نے اپنا تمام کاروباررسول اللہؐ کے حوالے کر دیا ۔جب نبی کریمؐ کی عمر مبارک 35 سال ہوئی تو آپ تنہائی پسند ہو گئے،اور آپؐ مکہ مکرمہ سے تین میل کے فاصلے پر واقع ایک غار جسے غارِ "حرا" کہا جاتا تھا وہاں چلے جاتے تھے،اور آپؐ وہاں کئی دنوں تک قیام فرماتے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کئی دنوں کا کھانا بنا کر آپؐ کو دے دیتی تھیں۔
ایک دن رسول اللہ ؐ انتہائی پریشانی کے عالم میں گھر تشریف لائے۔آپؐ نے آتے ہی فرمایا مجھے کمبلوں سے ڈھانپو،مجھے کمبلوں سے ڈھانپو۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایسا ہی کیا،جب کچھ دیر کے بعد آپؐ کی طبیعت بہتر ہوئی،تو آپؐ نے غارِ حرا میں آنے والے واقعے کا زکر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کیا۔کہ غارِ حرا میں تھا کہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ پڑھ،میں نے اسے جواب دیا کہ مجھے پڑھنا نہیں آتا،اس بات پر اس نے مجھے پکڑ کر زور سے بھینچا یہاں تک کہ میری قوتِ برداشت جواب دینے لگی۔پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ،میں نے وہی جواب دیا۔اس نے تیسری مرتبی اس زور سے بھینچا کہ میں تھک کر چوڑ ہو گیا،پھر اس نے مجھے چھوڑ کر کہا، پڑھ اس پر میں نے کہا کیا پڑھوں اس نے کہا:
"پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ، جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا،پڑھو کہ تمہارا رب نہایت بزرگ کرم والا ہے،جس نے قلم کے زریعے علم سیکھایا۔ اسی نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہ تھا"
جب تکمیل ہو گئی تو فرشتہ چلا گیا ، اور یہ آیات میرے ذہن میں نقش ہو گئیں۔
اس واقعے کے بعد آپؐ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایاکہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔لیکن اس موقعہ پر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بے حد یقین،محبت اور حکمت سے آپﷺ کی دل جوئی فرمائی۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گزشتہ پندرہ برسوں سے نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھیں۔ہمیشہ بیوی کی نگا سے شوہر کی شخصیت اور سیرت چھپی نہی رہ سکتی۔اس دوران حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جن الفاظ میں حضور ﷺ کی جن الفاظ میں دل جوئی فرمائی،وہ حضورﷺ کے کردار کی عظمت آپﷺ کے اخلاق کی بلندی صاف ظاہر کرتی ہے۔
سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرمانے لگی:۔
"آپ ﷺ خوش ہو جایئے،اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔آپﷺ ہمیشہ رشتے داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں،سچ بولتے ہیں امانتیں ادا کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا بوجھ برداشت کرتے ہیں ، محتاجوں کی مدد کرتے ہیں ،مہمان نواز ہیں ،نیک کاموں میں مدد کرتے ہیں ،اور مصیبت میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔"
اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:۔
"میرے ایک چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل ان چیزوں سے بہت واقفیت رکھتے ہیں۔کل صبح ہم اُن کے پاس جائیں گے،آپ ﷺ اُن سے اپنا قصہ بیان کیجیئے گا وہ آپﷺ کو بتا سکیں گے کہ یہ کیا چیز ہے۔"
ایک روایت کے مطابق اگلی صبح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خود آپ کو وَرقہ بن نوفلکے پاس لے کر گئیں،جبکہ دوسری روایت میں آتا ہے کہ اگلی صبح "حضرت حضرت ابو بکر صدیق ؓ آپﷺ کے گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ نے اُن کو یہ واقعہ سنایا اور حضورﷺ کو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس بھیجا۔
ورقہ بن نوفل ایک عیسائی عالم تھے،وہ بہت کمزور ہو چکے تھے اور آپ کی بینائی جاتی رہی تھی،اُنہوں نے جب آپ ﷺ سے غار میں فرشتے کی آمد اور آیات کی تعلیم کا واقعہ سنا تو فوراً کہ اُٹھے:
"یہ وہی ناموس ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی طرف ساے نازل ہوئی تھی۔
ایک اورروایت میں آتا ہے کہ وَرقہ بن نوفل نے کہا۔:
" میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے نبی ہیں جن کی بشارت حجرت عیسیٰ علیہ اسلام نے دی تھی۔کاش کہ میں ُس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپؐ کو ستائے گی اور آپ کو اپنے شہر سے نکال دے گی۔
اس پر نبی کریم ﷺ فرمانے لگے کہ کیا سچ میں میری قوم مجھے اس شہر سے نکا ل دے گی؟اس پر وَرقہ بن نوفل کہنے لگے:"بخدا آج تک جو بھی اس دعوت کو لے کر آیا ہے،اس کے ساتھ اسکی قوم نے یہی سلوک کیا ہے۔اگر میں اُس وقت تک زندہ رہا تو میں آُکی مدد کروں گا(بخاری)
وَ رقہ بن نوفل اس کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے اور وفات پا گئے۔
وَرقہ بن نوفل نے اپنی گفتگو میں "ناموس" کا لفظ استعمال کیا تھا۔یونانی زُبان میں "توریت" کو "ناموس "کہتے ہیں ۔ورقہ کو سُریانی زبان آتی تھی،اور اُنہوں نے سُریانی زبان سے عربی زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا تھا۔آپ کے کہنے کا مقصد یہ تھا،کہ آپؐ پر جو ناموس اُتری ہے وہ حضرت موسیٰ ؑ پر نازل ہونے والی کتاب "توریت"سے مشابہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہونے کے بعد تین سال تک پھر کوئی وحی نازل نہ ہوئی،لیکن اس دوران رسول اللہ ﷺ نے رازداری کے ساتھ اپنے قریبی ساتھیوں کو اسلام کی دعوت پہنچا دی تھی۔آپ ؐ کی دعوت پر لبیک کہنے کی سعادت آپؐ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کو حاصل ہوئی تھی۔
نبی کریم ؐ نے گو کہ اپنے ابتدائی دور میں کھلے عام تبلیغ نہیں فرمائی تھی لیکن آپؐ اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کے ساتھ نماز اد کرتے تھے۔ابن الاثیر کے مطابق آپؐ چاشت کی نماز حرم میں اد ا کیا کرتے تھے۔کیونکہ یہ نماز قریش کے مذہب میں جائز تھی۔اس وقت تک قرآن پاک کی وہ آیات نازل نہیں ہوا کرتی تھیں جن میں بت پرستی کو بُرا قرار دیا گیا تھا۔اس لئے مکہ والوں کی حضورﷺ کے ساتھ دشمنی پیدا نہیں ہوئی تھی۔بعد میں حضورﷺ مکہ سے باہر کسی گھاٹی یا صحرا میں جا کر نماز ادا کرنے لگے تھے۔حضرت خدیجہؓ بھی آپﷺ کے ساتھ ہوتی تھیں۔ ایسے موقعہ پر حضرت علی المرتضیٰ بھی آپؐ کا پیچھا کرتے ہوئے گھاٹی میں پہنچ جایا کرتے تھے،اور وہ بھی اس نماز میں شامل ہو جایا کرتے تھے۔
کچھ عرصے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اپنے قریبی رشتے داروں کو اللہ سے ڈرانے کا حکم دیا یعنی کہ انہیں اسلام کی دعوت دینے کا کہا۔حجورؐ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ وہ بازار سے اشیا خرید کر لائیں۔پھر اپنی غم غسار بیوی حضرت خدیجہ ؓ کو فرمایا کہ وہ ان اشیا سے ضیافت کا اہتمام فرمائیں۔پھر آپؐ نے حضرت علیؓ کو خاندان کے تمام لوگوں کے گھروں میں انہیں دعوت پر بلائیں کہ وہ فلاں دن فلاں وقت پر کھانے پر میرے گھر آئیں۔مقرر ہ دن بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کے لوگ کھانے پر آئے۔آپؐ نے ان سب کو اسلام کی دعوت دی۔لیکن ابو لہب نے بد کلامی کی جس کی وجہ سے محفل درہم برہم ہو گئی۔صرف حضرت علیؓ نے رسول اللہؐ نے آپﷺ کا ساتھ دینے کا اعلان فرمایا۔
پھر کُفار نے آپﷺ کا ساتھ دینے والوں کی مخالفت شروع کر دی گئی،اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔آپؐ اور صحابہ کرامؓ کو طرح طرح کی تکا لیف دی جانے لگیں۔
آپؐ کو تکالیف پہنچانے والوں میں آپؐ کا چچا ابو لہب اور ابو جہل پیش پیش تھے۔ابو لہب آپؐ کے راستے اور گھرمیں گندگی اور غلاظت پھینک دیتا۔وہ ہر اُس جگہ جاتا جہاں آپؐ تبلیغ فرما رہے ہوتے،اور وہ شور مچا کر آپؐ کی باتیں سننے والوں کوروک دیتا۔کبھی نماز کی حالت میں وہ آپؐ پر اوجھڑی پھینک دیتا۔کفارِ مکہ کے اُکسانے پر شرارتی لڑکے آپؐ کے پیچھے لگ جاتے اور آپ ؐ کو تنگ کرتے۔یہ ایک فطری بات ہے کہ کفار مکہ کی جانب سے ان ایزا رسانیوں پر آپﷺ کو دکھ ہوتا،لیکن رسولؐ کی رفیقِ حیات آپﷺ کو تسلی دیتیں۔خود آپﷺ فرماتے ہیں:
"میں جب کُفار سے کوئی بات سنتا تھا اور وہ مجھ کو ناگوار محسوس ہوتی تو میں خدیجہؓ سے کہتا۔وہ اس طرح میری ڈھارس بندھاتی تھیں کہ میرے دل کو تسکین ہو جاتی تھی،اور کوئی رنج ایسا نہ تھا جو خدیجہؓ کی باتوں سے آسان اور ہلکا نہ ہو جاتا"
جب کفارِ مکہ تمام تر مظالم کے باوجود مسلمانوں کو اسلام ترک کرنے پر آمادہ نہ کر سکے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ نبی کریم ؐ کے خاندان ِ بنی ہاشم کا ( بائیکاٹ) کر دیا جائے۔ چناچہ ایک قرار داد لکھی گئی کہ آئیندہ کوئی بھی فر بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب سے تعلق نہیں رکھے گا۔نہ ان سے کوئی تجارتی لین دین کرے گا نہ ہی شادی بیاہ کرے گا ،بلکہ یہاں تک کہ ان سے بات چیت بھی نہیں کرے گا۔یہ قرارداد لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا دی گئی۔
اس مقاطعہ کے نتیجے میں رسول اللہؐ شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے۔لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت خدیجہؓ اس موقعہ پر اپنے خاندان میں واپس چلی جائیں گی،لیکن حضرت خدیجہؐ حضورﷺ کے ساتھ رہیں اور انہوں نے مسلمانوں سے دوری اختیار نہ کی۔یہ مقاطعہ ایک نہیں دو نہیں پورے تین سال تک جاری رہا۔ اس دوران صحابہ اکرامؓ نے سوکھے اور بد مزہ چمڑے تک تناول فرمائے۔ کئی کئی دن کا فاقہ رہتا ،کُفارِ مکہ راستوں کی نگرانی کرتے،اور باہر سے کوئی شے اندر نہ جانے دیتے تھے۔
تین سال بعد مکہ کہ کچھ نرم دل لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس ظالمانہ پابندی کا خاتمہ ہو جانا چاہئے۔ان افراد نے خانہ کعبہ میں کھڑے ہو کر اس مقا طعہ کے ختم ہونے کا اعلان کیا۔ابو جہل نے مخالفت کی لیکن کئی قبائل نے ابو جہل کے خلاف رائے دی۔جب لوگوں نے مقاطعہ کی قرار داد کو دیکھا تو سب یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ اللہ کے نام کے سوا باقی تمام ناموں کو دیمک کھا گئی تھی۔
یہ بائیکاٹ 10 نبوی کو ختم تو ہو گیا لیکن تین سال تک فاقہ کُشی کی صعبتیں برداشت کرتے کرتے حضرت خدیجہؓ بہت کمزور ہو گئیں تھیں۔ کچھ ہی عرصے بعد آپؓ بیمار ہو گئیں اور اسی علالت میں ہی آپؓ اپنے رب سے جا ملیں۔حضرت خدیجہؓ کے انتقال کا رسول اللہؐ کو بے حد دکھ ہوا ۔آپؐ خود کو تنہا محسوس کرنے لگے۔اسی زمانے میں رسول اللہﷺ کے محبوب چچا "حضرت عبد المطلب " کا بھی انتقال ہو گیا۔اسی لئے رسول اللہﷺ 10 نبوی کو "عام الخزن"یعنی کہ غم کا سال کہا کرتے تھے۔
آپﷺ حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد بھی ان کو یاد فرمایا کرتے تھے۔بہت دیر تک آپؐ کا یہ اصول رہا کہ آپﷺ اس وقت تک گھر سے نہیں نکلا کرتے تھے جب تک کہ آپؐ حضرت خدیجہؓ کی خوب تعریف نہ کر لیتے، آپﷺ حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے،جب کبھی بھی آپ بکری زبح فرماتے تو اس کا گوشت حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کو بھی بھجواتے ۔
آپﷺ نے ایک بار فرمایا ،حضرت خدیجہؓ سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائیں،انہوں نے ایسے وقت پر میری مدد کی جب کسی کے مال کا سہارا میرے پاس نہ تھا،اور اللہ نے مجھے ساری اولاد حضرت خدیجہؓ سے عطا فرمائی ۔
اللہ تعالیٰ حضرت خدیجہؓ پر لاکھوں رحمتیں نازل فرمائے جو اللہ کے محبوب ترین بندے کی مونس غم خوار رہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ پر نبوت کی جو گراں باری زمہ داری عائد فرمائی،اسے ادا کرونے میں حضرت خدیجہؓ کا کردار بہت اہم ہے۔
تبصرہ کریں