/ تاریخِ اسلام / حیاتِ صحابہ

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی رُولا دینے والی زندگی

"حضرتِ بلال"

جب اللہ تعالیٰ نے  حضرت محمدؐکو نورِ نبووت سے آراستہ کیاتو اُس وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی عمر 28سال تھی۔آپ بلال رضی اللہ عنہ اپنے آقا اُمیہ ابن خلف کی بکریاں چرانے کے لیے پہاڑوں میں لے جایا کرتے تھے۔ایک دن آپ کا گزر غار حرا سے ہوا جہاں رسول اللہ ؐ اپنے عزیز ساتھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔آپؐ نے ایک  حبشی نوجوان کو بکریاں لے جاتے ہوے دیکھا تو اسے بلایا اور فرمایا،"میں اللہ کا رسول ہوں،تمہارا اسلام کے متعلق کیاخیال ہے؟"

حضرت بلال رضی اللہ عنہ  رسول اللہؐ کی پُر شکوہ شخصیت سے بے حد مُتاثرہو چکے تھے،پھر حضورؐ کا دل نشیں انداز ِ گفتگو! بلال رضی اللہ عنہ  کے منہ سے نکلا"میں آپؐ کے دین کو اچھا پاتا ہوں۔"

 

حضرت بلال رضی اللہ عنہ  واپس چلے گے۔اگلے دن پھر بکریاں لے کر وہیں پہنچے۔آپؐ کی مبارک زبان سے باتیں سن کر انکا دل بے قرار ہو گیا۔آپ رضی اللہ عنہ  نے اسلام کی پکار پر اسلام لے آے۔آپ رضی اللہ عنہ  ان پہلے سات خوش نصیب افراد میں سے ہیں  جن کے لیے اسلام نے اپنے دروازے کھول دیے۔

 

یہ اسلام کا ابتدای دور تھا،آپ ؐ اس وقت اسلام کی تبلیغ رازداری سے فرما رہے تھے۔

لیکن اسلام کی جو چاشنی آپ کو ملی وہ زیادہ عرصے تک کُفار مکہ سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔اُمیہ ابن خلف  کو بھی خبر مل چکی تھے کہ بلال رضی اللہ عنہ   محمدؐ کے ساتھیوں میں شامل ہو گے ہیں غلام اور اس کی یہ مجال کہ آقا کے دین سے رُگردانی کرے۔اُمیہ کے تو تب بدن میں آگ سی لگ چکی تھی۔اس نے بلال رضی اللہ عنہ  کو طلب کیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیے۔اب ازیتوں  اور تکالیف کا ایک نہ ختم ہونے والا دور شروع ہو چکا تھا۔

مکہ مکرمہ کی زمیں اپنی گرمی کی وجہ سے مشہور تھی،اُمیہ نے حضرت ملال کو اس زمیں پر لتا دیا اور ان کے اوپر بھاری پتھر رکھ دیا۔لیکن حضرت بلال کی زبان سے"اَحد اَحد"کے سوا کچھ نہ نکلتا تھا۔اُمیہ نے جب دیکھا کہاس طرح کام نہیں بنا تو اس نے مردہ جانور کی کھال لی اور حضرت بلال کو اس مین لپیٹ کر سی دیا اور پھر تپنی ریت میں ڈال دیا۔گرمی کی شدت سے کھال سوکھ گی،لیکن حضرت بلال رضی اللہ عنہ  بدستور  اللہ کا نام بلند کرتے رہے ۔آپ رضی اللہ عنہ  کو دھکتے انگاروں پر لٹا دیا گیا۔امیہ کہتا،"بلال اب بھی محمد کے خدا سے باز آ جا"لیکن جواب وہی تھا،"اَحد اَحد۔"

 

حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں ،"میں  نے حضرت بلال کو اس حالت میں دیکھاکہ امیہ ان کو ایسی تپتی ریت میں لٹا رکھتا تھا جس پر گوشت رکھ دیا جاتا تو وہ گل جاتا،لیکن اس حالت میں بھی حضرت بلال اللہ کا ہی نام لیتے رہتے تھے۔

امیہ کے طیش کا عالم دیدنی تھا،اس نے حضرت بلال کے گلے میں رسی باندھ دی اور مکہ کت شریر لڑکوں کے حوالے کر دیا ۔ لڑکے آپ رضی اللہ عنہ  کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے،پھر جلتی ریت پر اوندے منہ ڈال دیتے اور ان پر پھتروں کا ڈھیر لگا دیتےاسلام کے اس سچے عاشق کے جسم کا کوی حصہ ایسا نہ تھا  جو شدید زخمی نہ ہو چکا ہو۔

تشدد کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا۔حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  جب ان کے پاس  سے گزرے تو ایک دن ان سے رہا نہ گیا،وہ امیہ کے پاس گے اور اس سے کہا،"امیہ!اس نے گناہ اور بے کس غلام پر اتنا ظلم تو نہ کرو،تمہارا اس میں کیا نقصان ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرتا ہے۔اگر تم اس پر احسان کرو تو قیامت کے دن تمہارے کام آے گا،"امیہ نے حقارت سے کیا،"میں تمہارے خیالی یومِ آخرت کا قایل نہی۔میرے جو جی میں آیا کروں گا،پھر اس نے کہا اگر تم اس غلام کے اتنے ہی ہمدرد ہو تو اسے خرید کیوں نہیں لیتے؟

آپ رضی اللہ عنہ  نے فرمایا:"بولو کیا لو گے؟"

اُمیہ بولا"تم اپنے غلام فسطاس رومی مجھے دے دو اور اسے لے جاو۔"

فسطاس برے کام کا غلام تھا ،اور اُمیہ کا خیال تھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ  اپنے صحت مند غلام کے بدلے اس کمزور غلام کو کیوں خریدیں گے۔لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا۔"مجھے منظور ہے۔"اُمیہ حیران  رہ گیا،تاہم اُس نے ایک شرط اور لگا دی۔بولا:فسطاس کے ساتھ چالیس اوقیہ چاندی بھی اڑھای تولے)حضرت ابو=لوں گا۔"(ایک اوقیہ

صدیق رضی اللہ عنہ  اس پر بھی راضی ہو گے۔جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ  کو لے کر جانے لگے تو اُمیہ ہنس کر کہنے لگا،"ابو قحافہ! تمہاری جگہ میں ہوتا تو  اس غلام کو درہم کے چھٹے حصے کے عوض بھی نہ خریدتا۔"حضرت ابو بکر نے فرمایا اُمیہ تم اس غلام کی قیمت سے واقف نہیں ،مجھ سے پوچھو تو یمن کی بادشاہی بھی اس کی قیمت کے مقابلے میں ہیچ ہے۔"

یہ کہا اور حضرت بلال کو آزاد کر دیا۔

رسولِ پاک ؐ کو خبر ملی تو آپ ؐ  بے حدخوش ہوے،اب حضرت بلال رضی اللہ عنہ  آ زاد تھے۔وہ اپنا زہادہ سے دیادہ وقت  آپ ؐ کی خدمت میں گزارتے تھے آپ ؐ سے قرآن کی تعلیم حاصل کرتے،اور دینِ اسلام کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کرتے۔

ہجرت کا حکم ہوا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ  بھی مکہ سے مدینہ چلےجا پہنچے۔آپ ؐ نے انصار اور مہاجرین کا  بھایء چارہ کروا دیا تھا۔حجرت بلال رضی اللہ عنہ   کو حضرت ابو رویحہ رضی اللہ عنہ  کا بھای بنا دیا۔ حضرت بلال کو  ابو رویحہ رضی اللہ عنہ  سے بے پناہ محبت تھے۔جب آپ عہد فاروقی میں جہاد پر جانے لگے تو  حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے ان سے پوچھا،"بلال!آپ کا وظیفہ کون وصول کرے گا؟"جواب ملا۔"ابو رویحہ!کیونکہ آپ ؐ نے ہم میں جو برادرانہ تعلق بنایا تھا وہ کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔"

آپ رضی اللہ عنہ  کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے آذان دینے کا شرف آپ کو حا صل ہے۔حضرت بلال کی آواز میں وہ چاشنی تھی کہ جو آپ رضی اللہ عنہ  کی آزان سنتا۔مسحور ہو کر رہ جاتا۔ جب نمازی آجاتے  تو آپ حضور ؐ کے دروازے پر جا کر نہایت احترام سے کہتے " اے اللہ کے رسول ؐ! نماز تیار ہے۔"

مدینہمنورہ میں مسجد نبوی کی تعمیر ہوی تو اس کے ایک سرے پر ایک چبوترہ بنا کر اس پر چھت ڈال دی گیء۔اس چبوترے پر آپ ؐ کے وہ صحابہ رہنے لگے،جو تمام وقت آپ ؐ کی خدمت میں علم حاصل کرنا چاہتے تھے۔

حضرت بلال تمام مشہور غزوات میں شامل تھے۔ بدر کے مقدس معرکے میں جنابِ بلال رضی اللہ عنہ  نے امیہ بن خلف کو ہلاک کیا جو اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا۔

حضرت بلال  فتح مکہ میں بھی آپؐ کے ساتھ تھے۔جب آپ ؐ اللہ کے گھر میں داخل ہوے،تو آپؐ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ  کو کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر آذان دینے کا حکم فرمایا۔

آپ ؐ کی وفات کے بعد عہد صدیقی میں آپ رضی اللہ عنہ  نے ان سے جہاد میں جانے کی درخواست کی ،لیکن حضرت ابو بکر صدیق نے یہ کہ کر انہیں جانے سے روک دیا کہ مجھے آپ کی ضرورت ہے۔

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ  خلیفہ بنےتو حضرت بلال رضی اللہ عنہ  جہاد کی خواہش ظاہر کی۔حضرت عمر نے بھی آپکو روکا لیکن آپ کے اصرار پر جانے کی اجازت دے دی آپ  رضی اللہ عنہ  بیت المقدس کی فتح میں شریک تھے۔16ہجری637عیسویٰ میں جب حضرت عمر شام گےتو جابیہ میں حضرت بلال نے انکا  خیر مقدم کیا۔حضرت عمر نے ان سے کہا"اے ہمارے سردار بلال رضی اللہ عنہ ، بیت المقدس فتح ہو چکا ہے ،اس عظیم موقعہ پر آپ آذان دیں تو ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے۔"

حضرت بلال رضی اللہ عنہ  نے آزان دی،برسوں بعد وہی آذان بلند ہوی  جو مدینے کی گلی کوچوں میں سنای دیتی تھی،تو سب رونے لگے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ  ہچکیاں لے لے کر رونے لگے۔حضرت ابو عبیدہ اور حضرت معاز بن جبل رضی اللہ عنہ  کا بھی یہی حال تھا۔

 

ایک دن  حضرت بلال نے نبی پاک ؐ کو خواب مین دیکھا کہ آپؐ فرما رہے ہیں،"بلال! یہ خشک زندگی کب تک؟کیا تمہارے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ہماری زیارت کرو۔"یہ خواب دیکھنا تھا کہ حضرت بلال تڑپ اُٹھےاور مدینہ روانہ ہو گے۔قبر مبارک پر پہنچے آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔آپ ؐ کے نواسوں کو سینے سے لگاکر پیار کیا۔دونوں شہزادوں نے آذان کی درخواست کی۔اور جب مسجد نبوی سے جب روح پرور آذانِ بلالی بلند ہوی تو عورتیں تک بے قرار ہو کر گھروں سے نکلیں۔

کچھ عرصےبعد حضرت بعد بلال رضی اللہ عنہ  اپنے محبوب کے شہر سے رخصت ہوے اور شام چلے گے۔شام میں ہی 20ہجری641عیسویٰ میں آپ رضی اللہ عنہ  نے اپنا سفر حیات مکمل کیا۔آپ رضی اللہ عنہ  کو دمشق میں باب الصغیر کے قریب دفن کیا گیا۔آپ رضی اللہ عنہ  کی وفات کی خبر  جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ  تک پہنچی تو وہ روتے روتے نڈ ہال ہو گے،اور بار بار کہتے تھے کہ"آہ ہمارا سردار بلال بھی ہمیں داغِ جدای دے گیا۔"

 

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

رسول اللہ ﷺ کی محبوب بیوی"حضرت خدیجہؓ " جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام موصول ہواتھا۔

سیدہ طاہرہ، جنہیں تمام مسلمان حضرت"خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا" کے نام سے جانتے ہیں ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تمام مسلمانوں کی ماں ہیں ،جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ  درجہ عطا فرمایا کہ وہ نبی کریم…

مزید پڑھیں
جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا مقابلہ ایک چڑیل سے ہوا،ایمان افروز واقعہ۔

 یہ بات تو آپ سبھی جانتے ہیں کہ قبل اسلام زمانے میں عرب بُتوں کو اپنا خُدا سمجھتے تھے اور ان کی پوجا کرتے تھے۔ اُس وقت ان کے تین بڑے بُت تھے جنہیں دیوتاؤں کا سردار مانتے تھے۔ انہیں…

مزید پڑھیں
سلجوقی سلطنت کے قیام اور زوال کی مکمل داستان

سلجوقی سلطنت کو عالم اسلام کی چند عظیم سلطنتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سلجوقی سلطنت کا قیام "گیارہویں" صدی عیسوی میں ہوا۔ سلجوق در اصل نسلاََ    اُغوز ترک تھے۔اس عظیم سلطنت کا قیام"طغرل بے"اور"چغری…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں