فرعون کی لاش پر ہر سال چوہے کیوں چھوڑے جاتے ہیں؟
قرآنِ کریم کا مطالعہ کرنے پر ہم پرکُھلتا ہے کہ زمانہِ قدیم میں بنی اسرائیل ایک ایسی قوم تھی جسے اللہ تعالٰی نے بے شمار نعمتوں اور برکتوں سے نوازا تھا-لیکن وہ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئ۔ جبکہ یہی وہ قوم تھی جس نے مِصّر کے فرعون کے ظلم و ستم بھی برداشت کیئے-آج کے اِس آرٹیکل میں آپکو اُس فرعون کے احوال بتانے والے ہیں، جس نے اپنے جھوٹے دعوہِ خدائی کے لیئے جب ظلم وستم کو اپنا شُعار بنایا، تو اللہ رب العزت نے اُسے دریائے نیل کی بے رحم موجوں کے سپرد کرتے ہوئے اُسکی لاش کو آنے والی نسلوں کے لیئےنشانِ عبرت بنادیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نہ صرف اِسکی لاش پر وقت کے ساتھ ساتھ گوشت کا اضافہ ہوتا ہے بلکہ ہر سال ایک مخصوص دن کو اس پر چوہے چھوڑے جاتے ہیں تاکہ وہ فالتو گوشت سے اپنے معدے کی ضیافت کرسکیں-
تاریخی اوراق کے مطابق مصر کے ہر حاکم کو "فرعون" کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا-خاص طور پر وہ فرعون جو حضرت موسی کے دورمیں حکمران تھا، وہ نعوزباللہ اپنی جھوٹی خدائی کا بھی دعویدار تھا-جب اللہ کے اسِ جلیل وقدر پیغمبر کو حکم ہوا کہ فرعون کے پاس جائیں وہ سرکشی کررہا ہے اور اُسے اللہ کی وحدانیت کا پیغام دو- آپ حکمِ الٰہی کی بجاآوری میں دربارِشاہی پہنچے اور منسبِ نبوت ادا کیا-مگر اُس بدبخت نے ہدایت قبول کرنے کی بجائے مزید سرکشی اختیار کرلی اور کہا کہ نعوزباللہ یہ جادوگر ہے-پھر اُس نے اُس دور کے نامور جادوگروں کو آپ کے مقابلے میں طلب کیا-اُنھوں نے اپنے شیطانی علم کے زور پر جب اپنی رسیاں آپ کے سامنے پھینکی تووہ سانپوں کا روپ دھار گیئں، جس پر حکمِ الٰہی آیا کہ موسیٰ اپنا عصا اِن پر پھینک دو-جونہی آپ نے اپنا عصا مبارک زمین پر پھینکا تووہ ازدھے کی صورت اختیار کر کے اُن سب سانپوں کو نگلنے لگا-اِس عمل کو دیکھتے ہوئے جادوگر جان گئے کہ یہ ہرگز جادو نہیں ہے بلکہ کوئی آسمانی قوت ہے جو حضرت موسٰی کے ساتھ ہے، سو انہوں نے وہیں توبہ کرتے ہوئے دینِ موسٰی کو قبول کرلیا- جس پر فرعون نے سیخ پا ہوتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں آگ کے عذاب سے ڈراتا ہوں، لیکن اُن جادوگروں نے اپنے فیصلے سے پسپائی اختیار کرنے سے انکار کر دیا جس کے باعث وہ نہ صرف موسٰی بلکہ آپ کے پیروکاروں کا بھی جانی دشمن بن گیا- اِس حقیقت سے بہت سے لوگ واقعف ہوں گے کہ حضرت موسٰی کی پرورش بھی اُس فرعون کے ہاں ہوئی تھی، بلکہ ایک بار جب آپ نے اپنے بچپن میں اُس کی داڑھی کو پکڑکرکھینچا تو اُس نے کہا کہ مجھے گمان ہوتا ہے کہ یہ وہی بچہ ہے جو آگے چل کر میری سلطنت کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے- لیکن حضرت آسیہ جوکہ اُس کی زوجہ محترمہ تھیں اور جنہوں نے آپ کو گود لے رکھا تھا، فرمایا "کہ یہ تو معصوم ہے اور اِن باتوں کی تمیز نہیں رکھتا"، جس پر فیصلہ ہوا کہ اِس کے سامنے ایک برتن میں پھول اور ایک برتن میں انگارے رکھے جایئں- اگر وہ انگاروں کو چھوڑکر پھولوں کی طرف متوجہ ہو تو فرعون کا وہم درست ہے- سو اِسی طرح کیا گیا اور جب وہ برتن آپ کے سامنے رکھے گئے توآپ نے آگ کا ایک انگاڑہ اُٹھا کر اپنے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی جس سے نہ صرف آپ کا ہاتھ جل گیا بلکہ زبان مبارک بھی متاثر ہوئی-جس کی وجہ سے تا عُمر بولنے میں آپکو مشکلات پیش آتی رہیں-
خیر تو ناظرین بعد از نبوت اور بیان کردہ جادوگروں کے اس واقعے کے، فرعون نے بنی اسرایئل پرمظالم کی تمام حدیں عبورکردیں اور اُس کی فرعونیت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلاگیا- جس کی بدولت بنی اسرایئل کی زندگی تلخ تر ہوتی گئی اور بالاخر اللہ تعالیٰ نے آپکو حکم دیا کہ آپ بنی اسرایئل کو لے کر مّصر سے ہجرت کر جایئں- اِس مقصد کے لیئے جب آپ نے اور آپ کے پیروکاروں نے دریائے نیل جوکہ راستے کی رکاوٹ تھا، جب اُس کو عبور کرنے کا فیصلہ کیا تو حکمِ الٰہی سے نیل کے درمیان یوں راستہ پیدا ہوگیا کہ اُسکے دونوں جانب کی دیواریں کھڑی تھیں، مگر درمیان کی جگہ خشک تھی جہاں سے گزر کر بنی اسرایئل سہی سلامت دریا کے اُس پار اُتر گئے- جبکہ اُسی دوران فرعونِ وقت بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نیل کے کنارے پہنچ چکا تھا- اُس نے بھی اُس راستے کو دیکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اسکے ساتھ اُس میں اُتر جایئں- سو جب وہ اپنی اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے نیل میں اُترا تو اچانک دریا کا وہ حصّہ جو کہ حکمِ الٰہی کی وجہ سے وجود میں آیا تھا، اچانک بھر گیا- جس کی وجہ سے فرعون اور اسکے ساتھی نیل کی بے رحم موجوں کے شکنجے میں آگئے- اب اُس کے وہ ساتھی جو کہ نعوزباللہ اسے خدا مان کر اُس کے ساتھ اللہ کے پیغمبر سے جنگ کے لیئے آئے تھے، انہوں نے موت کو سامنے دیکھتے ہوئے چِلّا کر کہا کہ اے فرعون پانی کو حکم دو کہ وہ نگلنے سے باز رہے لیکن اِس موقع پر وہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ فرعون جو کہ خود موجوں کے تھپیڑوں کی زد میں تھا، نہ صرف اپنی جان بچانے کے لیئے ہاتھ پاوں مار رہا تھا بلکہ چِلّا چِلّا کر کہہ رہا تھا کہ موسٰی مجھے بچاو میں تمہارے خدا کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتا ہوں- اِس منظر کو قرآن مجید میں کیا ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہےِ، "کہ ہم بنی اسرایئل کو پانی سے نکال کر لے گئے- جب فرعون اور اسکے لشکر ظلم کی نیت سے اُنکے تعاقب میں چلے ،حتٰہ کہ فرعون ڈوبنے لگا تو اُس نے پکار کر کہا کہ میں بھی بنی اسرایئل کے رب پر ایمان لاتا ہوں، لیکن اب ایمان لانے کا وقت گُزرچُکا تھا- موسٰیؑ نے کہا کہ اِس سے پہلے سرکش اور ظالم تھا لہذا اب توبہ کا وقت گُزچکاہے- مزید اللہ تعالٰی فرماتے ہیں "کہ ہم اب تمہاری لاش کو ہی بچایئں گے تاکہ تم دوسروں کے لیئےسامانِ عبرت بن جاؤ اور اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں- اِس قرآنی حوالے کے مطابق یہ بات بالکل واضع ہو جاتی ہےکہ اِس کا جسم آنے والی نسلوں کے لیئے بطور عبرت محفوظ کر لیا گیا ہے، جو کہ 1898 میں دریائے نیل کے کنارے "وادیِ شامو" سے ایک حنوط شدہ لاش کی صورت میں مِلا جسکو بعدازاں قاہرہ منتقل کر دیا گیا- اُس وقت سے لے کر اب تک فرعونِ وقت کی یہ ممی قاہرہ کے عجائب خانے میں دُشمنانِ خدا کے لیئے سامانِ عبرت کے طور پر موجود ہے جس کا سر اور گردن اگر چہ سامنے ہے مگر جسم کا باقی حصّہ کپڑے میں ملبوس ہے- اس بدبخت کی لاش پر مزید تحقیق کے لیئے ایک شہرۂ آفاق ڈاکٹر مورس نے اس کے جسم کے باقی حصّوں کی بھی تصاویر لیں اور اِس کی موت کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کی، بعداذاں اِس کی لاش کو فرانس بھی لے جایا گیا جس کے بعد تمام تحقیقات کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی کہ اِس کی موت کی وجہ اگرچہ غرقِ آب ہونا ہی تھا تاہم فوری سبب اس کے سَر میں لگنے والی وہ چوٹ تھی جو اسکی پیشانی پرلگی اور وہ جہنم کا رزق بن گیا- جیسا کہ یہ چیز بھی سامنے آئی کہ اس کی لاش ذیادہ عرصے پانی میں موجود نیہں رہی بلکہ اُسے نکال کر حنوط کردیاگیا- پھر ایک زمانے کے بعد یہ انیسیوں صدی میں دنیا کے سامنے آئی- گویا اس کی دریافت اِس قرآنی شہادت کی تصدیق تھی کہ ہم اِس کی لاش کو آنے والی نسلوں کے لیئے عبرت بنا کر محفوظ رکھیں گے- اُس عہد میں یہ رواج عام تھا کہ فراعینِ مصّر کی لاشوں کو محفوظ کرنے کے لیئے حنوط کر دیا جاتا تھا جن میں سے کئی آج بھی محفوظ ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس لاش پر اب بھی نیا گوشت پیدا ہوتا ہے جس کو ختم کرنے کے لیئے ہر سال 15مارچ کو اِس پر چوہے چھوڑے جاتے ہیں لیکن صاحبانِ علم ودانش جانتے ہیں کہ اِس کا حقیقت کے ساتھ ہرگز کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ نظام فطرت کے اصولوں سے قطع طور پر متصادم ہے البتہ اللہ نے خود اِس باغی کو نشانِ عبرت بنایا جس کی اِس نے خود گواہی بھی دی ۔
تبصرہ کریں