مغلیہ سلطنت کا خاتمہ کیسے ہوا؟
مغلیہ سلطنت جس کا شُمار عالمِ اسلام کی عظیم ترین سلطنتوں میں کیا جاتا ہے یہ، ہندستان میں قائم مسلمانوں کی عظیم سلطنت تھی ۔جس نے ہندستان میں کئی سو سال تک حکومت کی تھی۔اس سلطنت کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی پانی پت کی پہلی جنگ میں دہلی سلطنت کے حکمران ابراہیم لودھی کو شکست دے کررکھی تھی۔مغلوں کی اس حکومت نے اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر جس میں موجودہ افغانستان،پاکستان،اور بنگلہ دیش کے ممالک پر حکومت کی تھی۔لیکن اس سلطنت کا اختتام باقی اسلامی سلطنتوں کی طرح انتہائی درد ناک ہوا تھا۔
"مغلیہ سلطنت اورنگ زیب عالمگیر کےدور میں اپنے عروج پر"
جنگِ آزادی 1857ءکےبعد جب انگریزوں نے دہلی پر قبضہ کر لیا تو ،اگلے سال 1858ءمیں مغلیہ سلطنت کے شاہی افراد کو بہت سی مصیبتوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ان مشکلات کا احوال اردو ادب کے مشہور ادیب"خواجہ حسن نظامی" نے واقعات اور کہانیوں کی نظر میں اپنی مشہور کتاب "بیگمات کے آنسو"میں نہایت غمزدہ اور دکھی انداز میں بیان کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ 1857ءکی جنگِ آزادی میں جب انگریزوں نے سیکھوں اور ہندؤں کی مدد د سے جنگِ غدر میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو شکست دے کر دہلی شہر پر قبضہ کر لیا۔تو انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر اور انکے اہلِ خانہ کو لال قلعے کی ایک چھوٹی سی کوٹھری میں قید کر دیا۔
"جنگِ آزادی کے بعد انگریز بہادر شاہ ظفر کو لال قلعے میں قید کرتے ہوئے"
بہادر شاہ ظفر کو اہلِ خانہ سمیت قید کیے جانے کے کچھ ہی دنوں کے بعد انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کے 21 بیٹوں میں سے 18 بیٹوں کو سرِ عام انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا۔جبکہ انگریزوں کے اس ظلم و ستم سے بہادر شاہ ظفر کے صرف 3 بیٹے ہی زندہ بچ گئے۔جو کہ مرزا جوان بخش، مرزا شاہ عباس،اور قسمت بیگ زندہ بچ گئے۔جنہوں نے مغل خاندان کی نسل کو آگے بڑھایا۔انگریزوں نے قتل کیے ہوئے 18 شہزادوں میں سے 3 شہزادوں کے کٹے ہوئے سر دہلی کے دروازے پر لٹکا دیے۔انگریزوں نے یہ اس لیے کیا تا کہ اب ان کے خلاف کوئی کھڑا نہ ہو سکے۔اس ظلم و ستم کے بعد جب انگریزوں کا دل ٹھنڈا نہ ہوا،تو انہوں نے بہادر شاہ ظفر پر غداری اور فریب دہی کا مقدمہ چلایا۔انگریزو ں نے اس نام نہاد مقدمے کو دہلی کے لال قلعے میں 44 دن چلایا۔پھر انہوں نے بہادر شاہ ظفر کو پھانسی کی سزا سنا دی۔جسے بعد میں جلا وطنی میں بدل کر انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو ان کی بیوی زینت محل کے ساتھ رنگون برما میں بھیج دیا۔ان کے ساتھ ان کے دونوں بیٹوں مرزا جوان بخش اور مرزا شاہ عباس کو بھی جلا وطن کر دیا۔وہاں انہوں نے اپنی باقی زندگی نہایت غُربت میں گزاری۔
"بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹے جو رنگون میں ان کے ساتھ قید تھے"
سنہ1862ءمیں جب برما کے شہر رنگون میں جب آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا انتقال ہوا۔تو انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کے 2 بیٹوں مرزا جوان بخش،اور مرزا شاہ عباس کو ہندستان واپس نہ جانے کی شرط پر زندہ رکھا۔کیونکہ انگریز یہ جانتے تھے،کہ اگر یہ شہزادے واپس ہندستان چلے گئے۔تو یہ وہاں کی عوام کو بغاوت پر آمادہ کر کے ہمارے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں ۔یہی وجہ تھی کہ یہ بد نصیب شہزادے پھر کبھی واپس ہندستان نہ جاسکے،اور وہیں رنگون میں انکی وفات ہوئ۔
شہزادے مرزا شاہ عباس کی شادی رنگون کے ایک سوداگر کی بیٹی سے ہوی۔جن سے انکی کئی ایک اولادیں ہوئیں ۔جو کہ آج انتہائی غربت کی حالت میں رنگون کے ایک "ڈیگن"نامی قصبے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔دوسرے شہزادے مرزا جوان بخت کی صرف ایک ہی اولاد تھی،جسکا نام مرزا جمشید بخت تھا۔ جو کہ مرزا جوان بخت کی بیوی نواب زمانی بیگم کے بطن سے تھے۔
سنہ 1884ءمیں جگر کی بیماری کی وجہ سے جب مرزا جوان بخت کا انتقال ہوا۔تو انکے انتقال کے کچھ ہی سالوں بعد انکی بیوی نواب زمانی بیگم بھی انتقال کر گئیں ۔اپنے والد مرزا جوان بخت اور اپنی والدہ نواب زمانی بیگم کے انتقال کے بعد انکا بیٹا مرزا جمشید بخت حالات ناسازگار ہونے پر ہندستان واپس چلا گیا۔جہاں مرزا جمشید بخت نے بیگم نادرا جہاں نامی عورت سے شادی کی جن سے انکا صرف ایک ہی بیٹا پیدا ہوا ،جسکا نام تاریخی اوراق میں "مرزا بیدار بخت" بتایا جاتا ہے۔مرزا بیدار بخت ابھی چھوٹے ہی تھے کہ انکے والدین کا سایہ انکے سر سے ہمیشہ کے لئے اُٹھ گیا۔اپنے والدین کے انتقال کے بعد مرزا بیدار بخت چھوٹے موٹے کام کر کے گزر اوقات کرتے رہے،اور آزادی ملنے تک انہوں نے اپنی اصل پہچان چھپائی رکھی۔آزادی ملنے کے بعد جب سب کو مرزا بیدار بخت کی اصل شناخت کی پہچان ہوئی تو سرکار نے انہیں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے پڑ پوتے ہی حیثیت سے تنخواہ دینا شروع کر دی۔1950ء کی دہائی میں مرزا بیدار بخت نے سلطانہ بیگم نامی عورت سے نکاح کیا۔ جن سے انکی 5 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔مرزا بیدار بخت جب تک زندہ تھے تو بھارت سرکار انہیں چند سو روپے تنخواہ دیا کرتی تھی۔لیکن 1980ءمیں مرزا بیدار بخت کے انتقال کے بعد مرزا بیدار بخت کی بیگم سلطانہ اور انکے بچوں کو تنخواہ دینا بند کر دی۔جس سے کہ انکے حالات بد سے بد تر ہونے لگے۔سلطانہ بیگم اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے انہوں نے کلکتہ کے ڈالی گنج علاقے میں چائے کی ایک چھوٹی سی دوکان کھول لی۔1982ء میں سلطانہ بیگم کو بہادر شاہ ظفر کے پڑ پوتے کی بیوہ ہونے کی وجہ سے بھارت سرکار نے انہیں ایک سرکاری مکان دیا،جو کہ 1983 کے اختتام تک ان سے واپس لے لیا گیا۔سرکاری مکان چھن جانے کے بعد آخری مغل بادشاہ کے پڑپوتے کی بیوہ اور بچے آج بھی کلکتہ کی تنگ گلیوں کے 2 کمروں میں رہنے پر مجبور ہیں ۔
تبصرہ کریں