حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
"حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا"
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا رَسول پاک ؐ کے جگر کا ٹکرا تھیں۔بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا وہ خوش قسمت خاتون ہیں جن کو اللہ کے حبیب نے سب سے بڑھ کر محبوب رکھا کرتے تھے اور آپ کی زاتِ اَقدس کو یہ شرف حاصل ہے کہ اللہ کی زات نے آپ ہی کے زریعے آپنے محبوب نبیؐ کی نسل کو آگے بڑھایا۔بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اعلیٰ اوصاف کی بنا پر آپ کو مختلف القاب سے نوازا گیا ہے ،جن میں سے "تازہ پھلوں کی طرح پاکیزی"۔"بتول"۔"جنت کی عورتوں کی سردار"وغیرہ۔
بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت اُس وقت ہوی جب اہل قریش بیت اللہ کی دیواروں کو ڈھا کر از سرِ نو تعمیر کرنے میں مصروف تھے۔یہ آپ ؐ کو نبوت عطا کیے جانے سے پانچ برس پہلے کی بات ہے۔اس وقت آپؐ کی عمر مبارک 35 سال تھی۔بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنی بہنوں میں سے سب سے چھوٹی بہن تھیں۔
ننھی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہااپنے والدِ گرامی اور والدہ بیبی خدیجہ سلام اللہ علیہاسے بہت محبت کیا کرتی تھیں ،آپ سلام اللہ علیہا اپنے والد گرامی جناب محمد ؐ کے افعال،عادات گفتگو اور اطوار کو غور سے دیکھتی تھیں اور خود بھی وہی انداز اپنانے کی کوشش کیا کرتی تھیں ۔
آپ سلام اللہ علیہا کی شکل و صورت نبی پاک ؐ سے بے حد ملتی تھی۔
بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اللہ تعالیٰ نے بے حد زہانت اور مثالی حافظہ عطا کیا تھا۔
اعلانِ نبوت کے چھوتھے برس کے آغاز پر آپؐ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حکم دیا کہ اب دین کی تبلیغ کھلے عام کی جاے،آپؐ نے کھلے عام دعوت و تبلیغ کا کام شروع کر دیا،ایک مرتبہ رحمتِ دو عالم ؐ خانہ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے کہ قریب ہی قریش کی محفل جمی ہوی تھی۔ابو جہل نے کہا۔"کاش اس وقت کوی شخص فلاں قبیلے میں جاتا،وہاں اُونٹ زبح ہوا ہے،اس کی اوجھڑی اُٹھا لاتااور یہ شخص(محمدؐ) جب سجدے میں جاتا تو اس کی پیٹھ پر رکھ دیتا۔"
عقبہ بن ابی معیط نے کہا،" یہ کام میں کروں گا" وہ دوڑا ہوا گیا اور اونٹ کی اوجھڑی اٹھا لایا،پھر جب آپؐ سجدے کی حالت میں تھے تو اس ظا لم نے وہ اوجھڑی آپؐ کے مبارک پشت پر رکھ دی،اس سے آپ ؐ کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اس منظر کو دیکھ کر کُفارِ مکہ قہقے لگا نے لگے،انکا حال یہ تھا کہ ہنستے ہنستے ایک دوسرے کے اوپر گر جاتے۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے آپ جلدی سے یہ خبر بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا تک پہنچادی، ان لمہات میں بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے حد بے قرار ہو کر دوڑیں اور انہوں نے اپنے پیارے باپؐ کی مبارک پشت سے اونٹ کی اوجھڑی ہٹاکر ہنسنے والے کفار سے فرمایا،" احکم الحاکمین تمہیں اس شرارتوں کی سزا دے گا۔"
اعلانِ نبوت کے بعد 13ویں برس زی الحجہ کے مہینے میں آپؐ نے صحابی کرام کو ہجرت کی اجازت دے دی،کچھ عرصے میں آپؐ نے ابو بکر صدیق کی رفاقت میں ہجرت فر ما کر مدینہ تشریف لے آے۔ مدینہ میں جب آپ ؐ نے مسجد نبوی کی تعمیر کا آ غا ز کیا تو حضور ؐ نے حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ مکہ و معظمہ میں جا کر حضورؐ کے اہل و عیا ل کو لے کر آیں۔تو حضرت زین بن حارث رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔
ہجرت کے بعد مدینہ میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔دین اسلام کی کرنیں بڑی تیزی سے پھیل رہی تھیں ۔ انہی دنوں رسولِ پاکؐ کی چہیتی بیٹی بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے لیے بہت سے نکاح کے پیغام آنے لگے ،لیکن آپ ؐ نے خاموشی اختیار فرما رکھی تھی۔بعض روایات کے مطابق آپؐ کو وحی الہیٰ کا انتظار تھا ،پھر بعض صحابہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ آپ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے لیے نکاح کا پیغام بھیجیں ،انہوں نے پھر آپؐ سے اس خواہش کا اظہار فرمایا،آپؐ نے اسے قبول فرما لیا۔آپؐ کا طریقہ کار یہ تھا کہ آپؐ جب بھی کسی صاحبزادی کا نکاح فرمانا چاہتے تو بلند آواز میں فرماتے،"فلاں شخص نے تمہارے لیے نکاح کا پیغام بھیجا ہے" اگر اس کے جواب میں آپؐ کی بیٹی سکوت اختیار کرتیں تو حضورؐ سمجھ جاتے کہ بیٹی کو اس پر اعتراض نہیں ہے۔چناچہ جب مولا علی رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا تو بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے خاموشی اختیار فرمای جو کہ انکی رضا مندی کا اظہار تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں