/ تاریخِ اسلام / خلافتِ عثمانیہ

سلطنتِ عثمانیہ کے چوتھے عثمانی سلطان"بایزید یلدرم"کی تاریخ۔

سلطان مراد کی شہادت کے بعد ہی جنگ کسووا کا بھی خاتمہ ہو گیا ، شہزادہ بایزید جب اتحادیوں کو پوری طرح شکست دینے کے بعد اپنے لشکر میں واپس آیا تو فوج کے تمام سرداروں نے اس کا خیر مقدم وارث تاج و تخت کی حیثیت سے کیا لیکن تخت نشین ہونے کے بعد اس نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے چھوٹے بھائی شہزادہ یعقوب کو جس نے اس جنگ میں شجاعت اور فوجی قابلیت کے اعلیٰ جوہر دکھائے تھے، فوراً قتل کرا دیا ، باپ کی لاش ابھی سرد بھی نہیں ہوئی تھی کہ "الفتنة اشد من الفضل" کی آڑ پکڑ کر یعقوب کے وجود کو سلطنت کے لیے فتنہ قرار دیا گیا اور صادوجی کی بغاوت نظیر میں پیش کی گئی تخت سلطنت کی خاطر آل عثمان میں یہ پہلا قتل تھا، جس نے آئندہ کے لیے مثال قائم کر دی۔

سرویا سے صلح:۔

اتحادیوں کی شکست کے بعد بھی سرویا نے کچھ دنوں تک جنگ جاری رکھی لیکن بالآخر اسے صلح کر لینی پڑی، بایزید نے سرویا کی خود مختاری قائم رکھی اور صرف اس کے باج گزار ہونے پر اکتفا کیا ، لازار کے جانشین شاہ اسٹیفن نے سالانہ خراج کے علاوہ پانچ ہزار سپاہیوں کا ایک دستہ سلطان کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رکھنے کا معاہدہ کیا ، نیز اپنی بہن شہزادی ڈیسپینا کو بایزید کے نکاح میں دے دیا، اس نے یہ بھی وعدہ کیا کہ سلطان کی تمام لڑائیوں میں وہ اپنی فوج لے کر خود شریک ہوا کرے گا، چنانچہ آخر وقت تک وہ اس معاہدہ پر قائم رہا اور نا ئیکو پولس اور انگورہ کی خونریز جنگوں میں اسٹیفن بایزید کے شانہ بشانہ لڑتا رہا اور سر وی افواج کی خدمات حد درجہ موثر ثابت ہوئیں۔

شہنشاہ سے جدید صلح نامہ:۔

سرویا سے صلح کرنے کے بعد بایزید قسطنطنیہ کی طرف متوجہ ہوا اور اینڈ رونیکس کو تخت پر بٹھانے کی دھمکی دے کر شہنشاہ پلیو لوگس کو ایک جدید صلح نامہ پر مجبور کیا ، جس نے بازنطینی سلطنت کی رہی سہی حیثیت بھی خاک میں ملا دی، جان اور اس کے لڑکے مینوئل نے جو تخت سلطنت میں اپنے باپ کا شریک تھا، معاہدہ کیا کہ تمیں ہزار طلائی سکے بطور خراج ہر سال ادا کرتے رہیں گے اور بارہ ہزار کا ایک فوجی دستہ بایزید کی خدمت میں ہمیشہ حاضر رکھیں گے، ایشیائے کو چک میں بازنطینی سلطنت کے مقبوضات میں سے اب صرف ایک قلعہ فلاڈلفیا باقی رہ گیا تھا ، اس صلح نامہ میں وہ بھی بایزید کے نام لکھ دیا گیا لیکن اس قلعہ کے یونانی افسر نے شہنشاہ کے حکم کے باوجود قلعہ خالی کرنے سے انکار کر دیا، بایزید نے شہنشاہ کو مجبور کیا کہ وہ خود اپنی فوج کے ذریعہ سے قلعہ خالی کرادے، چنانچہ دولت بازنطینیہ کے انتہائی زوال کا یہ عبرت ناک واقعہ بھی ظہور میں آیا کہ یونانی سپاہیوں نے فلاڈلفیا پر حملہ کیا اور اسے فتح کر کے بایزید کے حوالے کر دیا۔

اناطولیہ کی فتوحات:۔

ایشیائے کو چک کی اکثر تر کی ریاستیں سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو چکی تھیں، بایزید نے باقی ماندہ پر بھی قبضہ کر لینا چاہا اور سب سے پہلے "ایدین" کی طرف بڑھا، ایدین کو فتح کرنے کے بعد اس نے امتشا اور صادر خاں کا رخ کیا، ان ریاستوں کے امیروں نے بھاگ کر امیر قسطمونی کے پاس پناہ لی اور امنیتشا اور صادر خاں سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لی گئیں، ایدین، امنتشا اور صادر خاں کی فتوحات کا نتیجہ یہ ہوا کہ عثمانی ترک بحر ایجین کے ساحل تک پہنچ گئے ، یہیں سے عثمانی بحری طاقت کی ابتدا ہوئی ، گو بایزید کے عہد میں اس کو ترقی نہ ہو سکی ، ساتھ جہازوں کا پہلا عثمانی بیڑا 792ھ (1390ء) میں روانہ ہو کر جزیرہ کیوس (Chios) پر حملہ آور ہوا، اس کے بعد بایزید نے سمرنا پر حملہ کیا، یہ شہر یروشلم کے مبارزین سینٹ جان کا مقبوضہ تھا، بحری قوت کے ناکافی ہونے کی وجہ سے بایزید کو چھ ہفتوں کے بعد سمرنا کا محاصرہ اُٹھا لینا پڑا، ریاست "تکہ" کے ایک حصہ پر مراد کے زمانہ میں قبضہ ہو چکا تھا، بایزید نے بقیہ علاقے کو بھی اپنی حدود سلطنت میں لے لیا، اب صرف دو ریاستیں کر مانیہ اور قسطمونی سلطنت عثمانیہ میں شامل ہونے سے رہ گئی تھیں، بایزید نے کرمانیہ پر بھی حملہ کیا، حالانکہ کرمانیہ کے امیر علاؤ الدین سے اس کی بہن بیاہی ہوئی تھی اور پایہ تخت قونیہ کا محاصرہ کر لیا، علاؤ الدین نے کر مانیہ کا ایک ٹکڑا جس میں آق شہر بھی شامل تھا، بایزید کی نذر کر کے صلح کر لی۔

قسطنطنیہ کا محاصرہ:۔

ان فتوحات کے بعد جن کا اکثر حصہ بغیر کسی جنگ کے ہاتھ آیاتھا۔ بایزید پھر درہ دانیال و عبور کر کے وارنا چلا گیا، اسی درمیان میں جان پلیو لوگس نے قسطنطنیہ کے تین گرجے مسمار کرا دیے تھے اور وہ ان کے سامان سے نئے قلعے تعمیر کرنا چاہتا تھا، بایزید نے  شہنشاہ کو جبراً باز رکھا، چند ہی دنوں کے بعد جان کا انتقال ہو گیا ، اس کا لڑکا مینوئل جو کچھ عرصہ سے بایزید کے دربار میں مامور تھا، شہنشاہ کے انتقال کی خبر سن کر چپکے سے بھاگ کر قسطنطنیہ پہنچا اور اپنے باپ کا جانشین ہوا، بایزید کو یہ بات ناگوار ہوئی اور اس نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا، سات مہینہ تک محاصرہ جاری رہا، پھر چونکہ بایزید کو بلغاریا میں سجمنڈ شاہ ہنگری کے جارحانہ اقدام کو روکنے کے لیے فوجیں درکار تھیں ، اس لیے اس نے دس سال کے لیے صلح کر کے محاصرہ اُٹھا لیا، شرائط صلح بہت سخت تھیں ، سالا نہ خراج کی رقم تیں ہزار طلائی کراؤن مقرر ہوئی ، مسلمانوں کے لیے قسطنطنیہ میں ایک شرعی عدالت قائم کی گئی، جس میں بایزید نے ایک ترکی قاضی مقرر کیا اور کلیسائے مشرق کے اس مرکز میں ایک عالی شان مسجد بھی تعمیر کی گئی ، جس کے میناروں سے توحید اسلامی کا اعلان ہونے لگا، مسٹر کینس نے لکھا ہے کہ:۔

"مینوئل نے شہر کے سات سو مکانات بھی مسلمانوں کو دے دیے اور غلطہ کا نصف حصہ بایزید کے حوالہ کر دیا، جس میں اس نے چھ ہزار عثمانی فوج متعین کر دی ، شہر کے باہر جو انگور کے باغ اور ترکاریوں کے کھیت تھے، ان کی پیداوار کا عشرمسلمانوں کو دینا شروع کر دیا"

اس کے بعد بایزید نے ولا چیا کا رخ کیا اور اسے دولت عثمانیہ کا باج گزار بنا کر بوسنیا اور ہنگری کی طرف بڑھا، ابتدا میں ترکوں کو بوسنیا اور ہنگری کی متحدہ افواج سے شکست ہوئی اور نائیکو پولس کا مضبوط قلعہ ان کے ہاتھوں سے نکل گیا لیکن سمجھنڈ کی یہ کامیابی بالکل عارضی تھی اور چند ہی دنوں کے بعد اسے شکست کھا کر بھاگنا پڑا، نا نیکو پولیس پر پھر ترکوں کا قبضہ ہو گیا۔

بلغاریا کی فتح:،۔

سنہ795ھ (1393ء) میں بایزید نے اپنے سب سے بڑے لڑکے سلیمان پاشا کو بلغاریا کی طرف روانہ کیا، بلغاریا کا جنوبی حصہ مراد ہی کے عہد میں سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو چکا تھا، بایزید نے شمالی حصہ پر بھی قبضہ کر لینا چاہا، شاہ سیسمان نے جم کر مقابلہ کیا لیکن تین ہفتہ کے محاصرہ کے بعد پایہ تخت تر نوفتح ہو گیا اور پورے ملک پر ترکوں کا قبضہ ہو گیا ، اب شمالی بلغار یا بھی عثمانی مقبوضات میں شامل کر لیا گیا، بلغاریا کا شاہی خاندان ختم ہو گیا ، بلغاریا کا اسقف اعظم جلا وطن کر دیا گیا اور بلغاری کلیسا قسطنطنیہ کے یونانی کلیسا کا ماتحت بنا دیا گیا اور اس کی یہ محکومی ٹھیک پانچ سو برس تک قائم رہی، بلغاریا کے جن باشندوں نے اسلام قبول کر لیا ، ان کی زمینیں ان ہی کے قبضہ میں چھوڑ دی گئیں، باقی سارا علاقہ فوجی جاگیروں کی شکل میں ترکوں کو دے دیا گیا۔

 

ویدین اور سلسٹر یا:۔

 

نا ئیکو پولس پہلے ہی فتح ہو چکا تھا، بایزید نے ویدین اور سر یا پر بھی قبضہ کر لیا، یہ تینوں قلعے ہنگری کی سرحد پر واقع تھے، اس کے بعد ترکوں نے ہنگری کے سرحدی علاقہ میں چھوٹے چھوٹے حملے شروع کر دیے۔ بایزید اب ہنگری پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا کہ دفعتاً اسے ایشیائے کو چک کی جانب متوجہ ہونا پڑا۔کر مانیہ اور آل عثمان کی عداوت بدستور چلی آرہی تھی ، مراد نے اپنے ایک لڑکی کا نکاح علاؤ الدین سے کر کے تعلقات کو خوشگوار بنانے کی کوش کی تھی لیکن اناطولیہ کے ترکوں کی سرداری اور آل سلجوق کی قائم مقامی کا حوصلہ امیر کرمانیہ کو چین نہیں لیے دیتا تھا، وہ ہر موقع پر دولت عثمانیہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ، مراد کے عہد میں بھی وہ ایک سے زائد بار اپنی دشمنی کا ثبوت دے چکا تھا اور اب بایزید کے مقابلہ میں بھی اس نے اپنی وہی قدیم روش قائم رکھی، چنانچہ بایزید جب ہنگری کی فتح کی تیاری کر رہا تھا، علاؤ الدین نے اناطولیہ کے عثمانی علاقوں پر حملہ کر دیا، انگورہ اور بروصہ کے درمیان سخت معرکہ ہوا ، جس میں عثمانی فوج کو بُری طرح شکست ہوئی اور تیمورتاش پاشا جو سالار عسکر اور ایشیائے کو چک میں بایزید کا نائب سلطنت تھا، علاؤ الدین کے ہاتھ میں گرفتار ہوا، یہ خبر سن کر بایزید سرعت کے ساتھ اناطولیہ پہنچا اور آق چائی کے مقام پر کرمانی لشکر کو شکست دے کر علاؤ الدین اور اس کے دولڑکوں محمد اور علی کو قید کر لیا، علاؤالدین اور اس کے دونوں لڑکے تیمورتاش پاشا کی حراست میں رکھے گئے اور اس نے بایزید کی اجازت کے بغیر تینوں کو پھانسی دے دی ، بایزید یہ معلوم کر کے بہت برہم اور رنجیدہ ہوا لیکن پھر اس مقولہ کو یاد کر کے خاموش ہو گیا کہ ایک امیر کی موت اتنی بری نہیں جتنا ایک صوبہ کا نقصان " لارڈ اور سلے نے اس ترکی مقولہ کو قرآن کریم کی ایک آیت قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ اس آیت کے بموجب بایزید نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ کر مانیہ کی پوری ریاست پر قبضہ کر کے اسے سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا جائے ، اسلام کی دشمنی میں اتنا سفید جھوٹ جو بیسویں صدی کے ایک انگریز مؤرخ کے قلم سے نکلا ہے، قرون وسطیٰ کے مسیحی منتریوں کو بھی نہ سوجھا ہوگا، بہر حال کرمانیہ پر بایزید کا قبضہ ہو گیا اور ایشیائے کو چک میں سلجوقیوں کی قائم مقامی کے لیے اب آل عثمان کا کوئی حریف باقی نہ رہا۔

بقیہ تر کی ریاستیں:۔

اس کے بعد 96-795ھ (94-1393ء) میں بایزید نے سیواس، ہمسون اور اماسیا میں اپنی فوجیں روانہ کیں اور ان علاقوں کو بھی فتح کر لیا، اب صرف ریاست قسطمونی سلطنت عثمانیہ میں شامل ہونے سے رہ گئی تھی  دوسری مفتوحہ ریاستوں کے امرا قسطمونی میں جا کر پناہ لیتے تھے، بایزید نے اس امر کو بنائے مخالفت قرار دے کر قسطمونی پر بھی حملہ کیا اور اناطولیہ کی اس آخری ترکی ریاست کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔

ان فتوحات کے بعد امیر کا لقب جسے اب تک عثمانی فرماں روا اختیار کرتے آئے تھے، بایزید کو اپنی عظمت و شان کے مقابلہ  میں کم تر معلوم ہونے لگا، چنانچہ اس نے مصر کے عباسی خلیفہ کی اجازت سے سلطان کا لقب اختیار کر لیا، خلیفہ کو اگر چہ کوئی اقتدار حاصل نہ تھا، تا ہم اسلامی دنیا میں اس کی مذہبی حکمرانی اب بھی تسلیم کی جاتی تھی اور بایزید جیسے بادشاہ کو بھی جو اپنی سطوت میں یورپ اور ایشیا کے بڑے سے بڑے فرماں رواؤں کا حریف تھا، سلطان کے لقب کو جائز قرار دینے کے لیے خلیفہ ہی کا فرمان حاصل کرناپڑا۔ اس موقع پر لین پول عام مؤرخوں سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ آل عثمان میں بایزید پہلا شخص نہیں ہے جس نے سلطان کا لقب اختیار کیا، بلکہ برٹش میوزیم اور دوسرے مقامات پر عثمانیوں کے جو سکے محفوظ ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اور خان اور مراد اول بھی اپنے سکوں پر سلطان کا لقب کندہ کراتے تھے، عثمان کے نام کا کوئی سکہ موجود نہیں ، ( کیونکہ اگر چہ سلطان علا ؤ الدین سلجوقی نے اسے اپنا سکہ جاری کرنے کی بھی اجازت دے دی تھی ، تاہم اس نے اس حق کو استعمال نہیں کیا ) اور غالباً پہلا عثمانی سکہ اور خان کے عہد میں جاری ہوا، پس بایزید کے لیے سلطان کا لقب صرف اس بنا پر ایک نئی چیز ہو سکتا ہے کہ اس نے اس کے لیے خلیفہ اسلام کی اجازت بھی حاصل کر لی۔

 

یورپ اور ایشیا، ان عظیم الشان فتوحات کے بعد با یزید نے کچھ دنوں آرام کرنے کا قصد کیا اور ہمہ تن محل سرا کے عیش و نشاط میں محو ہو گیا، شہزادی ڈیسپیا کی ترغیب سے اس نے شراب بھی شروع کر دی تھی ، جسے اس وقت تک کسی عثمانی نے ہاتھ نہیں لگایا تھا، شراب کا سرور عیش کے دیگر لوازم کا بھی متقاضی ہوا۔ لیکن جام و سبو کی یہ تمام تر مستیاں بایزید کے قوائے عمل کو مضمحل نہ کر سکیں اور جب اس نے سنا کہ یورپ نے ایک زبر دست صلیبی اتحاد قائم کر کے سلطنت عثمانیہ کے استیصال کا بیڑا اٹھایا ہے، تو عیسائیوں کے مقابلہ کے لیے یوں اُٹھ کھڑا ہوا جیسے کوئی خواب شیریں سے آسودہ ہو کر تازہ قوت کے ساتھ بیدار ہوتا ہے۔جاری ہے۔۔۔

 

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں
سلطنت عثمانیہ"600سالہ دور حکومت کی لاذوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ جسے دولتِ عثمانیہ اور خلافتِ عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ تقریباً سات سو سال تک  قائم رہنے والی  مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت  تھی۔یہ سلطنت 1299ء سے1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی  جس کے حکمران ترک…

مزید پڑھیں
سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کی لازوال داستان۔

سلطنتِ عثمانیہ اسلام کی مضبوط ترین اور  عظیم الشان سلطنت تھی۔ترکوں کی یہ عظیم سلطنت جو 600 سالوں سے زیادہ عرصے پر محیط تھی،اس کی سرحدیں یورپ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوی تھیں ،یہ خانہ بدوش ایشیا مائنر سے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں