جنگِ زاب جس کے بعد بنو اُمیہ کا خاتمہ ہوا اور عباسی خلافت کی شروعات ہوئی۔
یہ25 جنوری کی صبح خلافت اُمیہ کے خلیفہ" مرو ان ثانی" اور تحِریک عباسیہ کے سپہ سالار"بو مسلم"اور عبداللہ بن علی کی افوج کے درمیان "دریاۓ زاب" کے کنارے لڑی جانے والی ایک تار یخی جنگ تھی۔ خلافت اُمیہ، خلافتِ راشدین کے بعد قائم ہونے والی دوسری بڑی سلطنت تھی۔ خلافتِ بنو اُمیہ کا قیام خلافت ِراشدہ کے آخری خلیفہ" حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ" کی شہادت کے بعد عمل میں آ یا۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی وفات سے قبل اپنے بیٹے یزید کو شوریٰ سے مشاورت کئے بغیر ہی اپنا جا نشین مقرر کردیا۔ اور یوں خلافت تقویٰ، پرہیزگاری، علم، اور سیاسی دانشمندی کی خصوصیات کے حامل لوگوں کے بجائے نسل در نسل منتقل ہونے لگی۔
بنو اُمیہ کے خلفاء نے اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے ا یشیاء، یورپ، افریقہ غرض کہ ہر محاز پر جنگ کی، یہاں تک کہ بنو امیہ کا پرچم مغرب میں سپین سے لے کر مشرق میں سندھ تک بلند ہوگیا۔ لیکن ان تمام فتوحات کے باوجود بنو امیہ کی عوام اپنے حکمران سے ناخوش تھی اور یہی خلافتِ اُمیہ کے زوال کا سبب بنا۔ خلافت ِاُمیہ اسلامی خلافت کے بجائے شخصی اور مورثی خلافت تھی، جب کے مسلمان روزِ اول سے ہی خلافتِ راشدین کے طرزِعمل کو اپنانا چاہتے تھے .اس لۓ اس طرز ِِخلافت کے روزِ اول سے ہی مخالف تھے۔ خلافت کی نوعیت میں اس تبدیلی کو نواسہ ء رسول صلى الله عليه وسلم نے بخوبی محسوس کیا، اور یزید کی بیعت سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں سانحہء کربلا کا علمناک واقعہ پیش آیا۔
"واقعہ کربلا جو کہ 10 محرم الحرام 61ھ میں پیش آیا تھا،جس نے مسلمانوں کے دلوں میں آگ لگا دی تھی"
اموی خاندان کے اس ظالم چہرے نےمسلم اُمہ کے دلوں میں اموی خاندان کےلئےنفرت کے شدیدجذبات پیدا کردیے جو گزرتے وقت کےساتھ زور پکڑتے گئے۔ یزید کی خلافت کے دور سے ہی شراب نوشی اور دوسری اخلاقی بیماریاں بنوں اُمیہ کے خلفاء کی زندگی کا لازمی جُز بن گئیں تھیں۔ بنواُمیہ کے حکمران اپنی عیش و عشرت کی وجہ سے عوام میں مقبولیت کھوتے گئے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ وہ واحد اموی خلیفہ تھے ،جنکی خلافت کا دور خلفاۓ راشدین کے دور کی عکاسی کرتا تھا۔ اسی لئےا نہیں عمر ثانی کا لقب دیا گیا تھا۔ لیکن افسوس کہ انکی حکومت صرف 3 سال ہی رہی۔ زیادہ تر حکومتی عہدوں پر فائض افسران نااہل اور ظالم تھے. زیادہ تر حکومتی عہدوں پر فائیز افسران ظالم اور ظلم و جبر میں مشہور ہوچکے تھے ۔بنوامیہ ایک ایسی عرب سلطنت تھی جو صرف عرب قوم کو ہی برتر سمجھتی تھی جبکہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم نے خطبہءحجۃ الوداع مں واضح فرمادیاتھا، کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اورکسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری نہیں، بر تری صرف تقویٰ پر ہے۔ لیکن بنو امیہ نے تقویٰ کے بجائے عربی ہونے کو برتر سمجھا۔ اور اسی نظریے کے پیشِ نظر خلافت امیہ نے کچھ ایسے اقدام کیے جو غیر عرب مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث بنے۔ جزیہ ایک ایسا ٹیکس ہےجو اسلامی حکومت میں صرف غیر مسلموں کو ادا کرنا ہوتا ہے، بنو امیہ نے یہ ٹیکس غیر مسلموں کے علاوہ غیر عرب مسلمانوں پر بھی مسلط کردیا۔ اورحکومتی عہدوں کے دروازے تمام غیر عرب مسلمانوں پر بند کردیے۔ عرب قبائل میں زمانہ ء قدیم سے ہی دشمنیاں چلی آرہی تھیں۔
خلافتِ راشدین کے دور میں یہ قبائیلی تعصبات دبے رہے،لیکن اموی خلافت میں یہ نسلی تعصبات پھر سر اٹھانے لگ گۓ۔ حتیٰ کہ بنوامیہ کے آخری دور میں اس قبائلی چپقلش نے عرب قبائل کے درمیان خانہ جنگی کی صورتحال اختیار کرلی ۔ یوں عرب اتحاد کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا اوراس کا فائدہ باغی جماعتوں نے بخوبی اٹھایا۔ اسکے علاوہ اموی خاندان میں خلافت کے حصول کے لئے اندرونی دھڑے بندیاں بھی شروع ہوگئیں جس نے اموی خاندان کے اتحاد کو ہلا کر رکھ دیا۔ خلفاۓ بنو امیہ نے اپنی ذاتی دشمنیوں کی بنا پر اپنے ہی سپہ سالاروں کو موت کے گھاٹ اتارا، فاتحِ سندھ "محمد بن قاسم" کا قتل ان دشمنیوں کی واضح مثال ہے۔ ان اقدامات نے سپہ سالارو ں کی وفاداری اور جزبہء جانثاری کو بےحد نقصان پہنچایا جو بعد میں بنو امیہ کے زوال کا سبب بنا۔ چنانچہ ان حالات اور ناا نصافیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنو امیہ کی عوام اپنے حکمرانوں سے بےزار ہوگئی اور عوام میں بغاوت سر اٹھانے لگی۔
"فاتح سندھ محمد بن قاسم"
جبکہ اس کے ساتھ ہی جنگی محاز پر بھی بنوامیہ کا زوال 717 عیسوی سے شروع ہوگیا جب شامی فوج کو بازنطینی فوج کے ہا تھوں زبردست شکست اٹھانی پڑی ۔ اگرچہ اس شکست کے بعد خلیفہ ء ہشام بن عبد الملک نے ایسے اقدامات کئے جن سے سلطنت عار ضی طور پر مضبوط ضرور ہوئی، لیکن ان کے اقدامات بھی دیرپا ثابت نہ ہوسکے اور 743 ءمیں انکی وفات کے ساتھ ہی سلطنت میں بغاوت پھوٹ پڑی۔
خلیفہ ہشام کی وفات کے بعد "ولید ثانی خلیفہ"خلافت کے منصب پر فائض ہوا۔ ولید ثا نی خلیفہ کے منصب کے لئے انتہای نا موزوں شخص تھا۔ تاریخ میں آتا ہے کہ ولید نہ صرف ایک عیاش فطرت رکھنے واال انسان تھا بلکہ دینِ اسلام کی توہین بھی کیاکرتا تھا۔اپریل744ء میں یزید ثالث نے ولید ثآنی کے خلاف کھلی بغاوت کردی اور دمشق کا محاصرہ کر کے آخرکار ولید ثانی کو قتل کردیا اور خود خلیفہ بن گیا۔ بہرحال یزید ثالث خلافت سنبھالنے کے صرف 6 ماہ بعد ہی انتقال کر گیا، اور وصیت میں اپنے بھائی ابراہیم کو اپنا جانشین نامزد کردیا۔ لیکن مروان ثانی نے ابراہیم کو خلیفہ ماننے سے انکار کیا اور طاقت کے زور پر خود خلیفہ ہونے کا ا علان کردیا۔ جس کے بعد اموی خلافت میں انتشا بڑھتا ہی چلا گیا۔ مصر، شام، ایران، عراق اور خراسان کے علاقوں میں بنوامیہ کے خلاف باغی جماعتیں حرکت میں آگئیں۔ ا س دور کو اسلامی تاریخ میں تیسرا فتنہ بھی کہا جاتا ہے۔ جب مروان ثا نی نے شام و مصر میں طاقت کا بے دریغ استعمال کرتے ہوۓ بغاوت کو کچل کر اپنی خلافت قائم رکھنے کی کوششوں میں مصروف تھا، توخراسان میں ایک نئی اور سب سے طاقتور باغی جماعت "تحریکِ عباسیہ "نے سر اٹھا لیا، جو بنوامیہ کے 90 سالہ اقتدار کے خاتمے کا باعث بنی ۔
سال719ء عیسوی میں شروع ہونے والی تحر یک عباسیہ دوسری باغی جماعتوں کے برعکس 3 دہائیوں پر مشتمل 1 سوچی سمجھی سیاسی حکمتِ عملی کے تحت وجود میں آنے والی جماعت تھی۔ تحریک عباسیہ خلافت امیہ کو ہٹانے اور خلافت عباسیہ کو قائم کرنے کی 1 خفیہ مہم تھی۔ تحریک عباسیہ کا نام "حضرت محمد صلى الله عليه وسلم "کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے نام پر رکھا گیاتھا۔ آپ سے خاندانی قربت اس تحریک کا بنیادی نظریہ ء تھا۔ اور اسی نظریہء کے تحت تحریک عباسیہ کے رہنماؤں کا یہ ماننا تھا کہ چونکہ وہ خاندان ِرسالت سے ہیں اسلئے بنو امیہ کے مقابلے میں وہ خلافت کے زیادہ حقدار ہیں۔ عباسی خاندان نے یقین دلایا کہ وہ اہل بیت کا بدلہ اموی خاندان سے لینگے، اور یوں اہلِ بیت سے محبت رکھنے والے عربی اور غیر عربی مسلمان جوق درجوق تحریک عباسیہ میں شامل ہوتے گئے۔
" خراسان میں پھیلی تحریکِ عباسیہ"
دعو تِ بنی عباس کا باقاعدہ عملی آغاز "امام ابو ابراہیم محمد عباسی" نے کیا تھا۔ اور حالات کے پیشِ نظر کھلی بغاوت کے برعکس خفیہ طور پر اپنے دعوت کو مختلف علاقوں کے لئے روانہ کیا اور ہدایت کی کہ "میری یا میرے اہل بیت کی طرف لوگوں کو ترغیب دو اور جو تمھاری دعوت قبول کرلیں ا ن سے دستخط بھی لے لینا"۔ خراسان کے رہائشی جوق در جوق خفیہ طور پر اس دعوت کو قبول کرتے گئے اور دستخط بھی کرتے گئے۔ حتی کہ امام ابراہیم کی مقبولیت خرا سان میں اس حد تک بڑھ گئی کے بھیجے گئے نقیب کم پڑ نے لگے اور مزید 12 نقیبوں کو خراسان روانہ کردیا گیا۔ حاکِم خراسان اسد کو جب اس بغاوت کا معلوم ہوا تواُس نے آلِ عباس کی تحریک کے بہت سے لوگ قتل کئے،بہت سوں کو قید کیا، اور کچھ کی ناک کاٹی ،لیکن یہ تحریک بجائے کمزور ہونے کے زور پکڑتی گئی. 746ء میں امام ابراہیم نے ابو مسلم کو جو خود بھی 1 خراسانی تھے، اپنا اہل بیت قرار دے کر خراسان بھیجا. خراسان میں اس وقت یمنی اور مضری عرب قبائل ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے ہوۓ تھے، ابو مسلم خراسانی نے اس خانہ جنگی کا بخوبی فائدہ اٹھایا اور اپنی دانشوری اور بہترین حکمتِ عملی کو بروئے کار لاتے ھوئے تحریکِ عباسیہ کو خراسان میں عروج پر پہنچا د یا۔ آخر کار 25 رمضان 747 عیسوی میں آلِ عباس کی طرف سے اعلان ہوا کہ اب تحریکِ عباسیہ کا اظہار خفیہ نہیں بلکہ اعلانیہ طور پر ہوگا، اور اگر بنو امیہ نے طاقت کا استعمال کیا تو طاقت کا جواب بھرپور طاقت سے د یا جائے گا۔ خراسان کے گورنر "نصر بن سیار" نے اپنے آزاد غلام یزید کی ہمراہی میں 1 بہترین رسالہ ابو مسلم کو ختم کرنےکے لئے روانہ کیا۔ لیکن نصر بن سیار کے رسالے کو ابو مسلم کے مرتب کردہ لشکر کے ہاتھوں زبردست شکست ہوئی جس کے نتیجے میں یزید کو گرفتار کرلیا گیا اور بعدازاں رہا کردیا گیا کہ چاہو تو تحریکِ عباسیہ میں شامل ہوجاؤ چاہو تو وا پس اپنے حاکم نصر بن سیار کے پاس چلے جاؤ۔ یزید تحریکِ عباسیہ سے بے حد مرعوب ہوا لیکن اپنے حاکم کی محبت میں واپس چلا گیا اورنصر سے بیان کیا کہ تحریکِ عباسیہ کے اراکان حق پر ہیں، مجھے یقین ہے کہ ان کی تحریک کام یاب ہوگی۔ اگر میں آپ کا آزاد غالم نہ ہوتا تو میں کبھی انہیں نہ چھوڑتا۔ اب ابو مسلم نے دس ہزار سپاہیوں کی ہمراہی میں خود اس وقت کے خراسان کے گورنر نصر بن سیار کی فوج سے مقابلہ کیا اور فتح حاصل کی۔ شکست کے نتیجے میں نصر فرار ہوگیا۔ اسی اثناء میں ابو مسلم نے" حازم بن خزیمہ" کو مرو فتح کرنے بھیجا۔ حازم نے مرو کے حاکم پر حملہ کیا۔ جسکے نتیجے میں حاکم مرو کی فوج بھاگ گئی اور حاکم قتل کردیا گیا۔ مرو کا میدان ہاتھ سے جانے کے بعد نصر کو ابو مسلم کے خراسان پر بڑھتے ہوئے اقتدار کا شدت سے احساس ہوا، اور وہ موقع پا تے ہی خراسان سے فرار ہوکر پہلے طوس پہنچا۔ پھر رے میں قیام کیا اور اس کے بعد جرجان گیا، اور ہمدان کی طر ف سفر کے دوران بیمار ہو کر وفات پا گیا۔
یوں میدان خالی دیکھتے ہی ابو مسلم نے مکمل خراسان پر قبضہ جما لیا۔ اب ابو مسلم نے امام ابراہیم کے مقرر کردہ سپہ ساالر قحطبہ بن شبیب الطائی کو جرجان، طوس، عراق و عجم کی فتوحات کے لئے روانہ کردیا۔ قحطبہ نے جرجان کے قر یب ایک مقام پر حملہ کیا۔اور حاکم بنانہ کی دس ہزار سپاہیوں پر مشتمل فوج کو شکست دے کر بنانہ کو قتل کردیا۔ اس کامیابی کے بعد قحطبہ با قاعدہ جرجان پر حملہ آور ہوا۔ اور جرجان بھی تحریکِ عباسیہ کے لئے فتح کرلیا۔ جب عراق کے امیر یزید بن عمرو کو جرجان فتح ہونے کی خبر پہنچی تو اس نے عامر بن یساراور اپنے بیٹے داؤد کی سربراہی میں50ہزار سپاہیؤ ں کی فوج قحطبہ سے مقابلے کے لئے بھیجی۔ مقا بلہ اصفہان کے قریب "جنی" کے مقام پر ہوا۔ جنگ سے قبل قحطبہ نے یز ید بن عمرو کی فوج کو کتاب اللہ کی دعوت دی، لیکن مقابل فوج نے بدلے میں گالیاں دیں۔ اور یو ں قحطبہ نے اپنی فوج کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ معمولی جھڑپ کے بعد ہی یزید بن عمرو کی فوج کا سپہ ساالر عامر مارا گیا، اور یزید کا بیٹا داؤد فرار ہوگیا، سپہ سالار کی وفات اور داؤد کے بھاگ جا نے سے یز ید کی فوج کے حو صلے پست ہوگئے چنانچہ انہوں نے قحطبہ کی فوج کے سامنے ہتھیارڈال دئیے۔ یوں 749ء میں اصفہان بھی بنو امیہ کے ہاتھ سے نکل گیا۔اصفہان فتح کرنے کے بعد قحطبہ نے اپنے بیٹوں کے ساتھ نہاوند پر حملہ کیا اور وہاں بھی فاتح قرار پایا۔ نہاوند فتح کرنے کے بعد قحطبہ نے عراق کی طرف پیش قدمی کی اور کوفہ سے 23 میل دریائے فراط کے مغربی ساحل پر یزید بن عمرو کی فوج سے مقابلہ کیا، یہ جنگ کئی روز جاری رہی۔ اسی دوران قحطبہ نے وفات پائی اور اسکا بیٹا حسن امیر الجیش مقرر ہوا۔ بہرحال متعدد لڑائیوں کے بعد یزید بن عمرو کو بآلخر شکست ہوئی اور وہ واسطہ کی طرف فرار ہو گیا۔
"عباسی سپہ سالار اموی فوج کو شکست دینے کے بعد کوفہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوتے ہوئے"
یوں محرم 750 عیسوی میں حسن کوفہ فتح کر کے پورے جاہ و جالال کے ساتھ کوفہ میں داخل ہوا۔ یہاں خراسان اور عراق میں تحریکِ عباسیہ فتح پر فتح حاصل کر کے علاقے اپنے قبضے میں کر رہی تھی۔ اور و ہاں مروان ثانی شام میں مو جود خانہ جنگی سے نبٹ نے کی کوششوں میں مصروف تھا اور ساتھ ہی دعوت عباسی سے بھی بےخبر تھا۔ خلیفہ مروان ثانی کو تواس دعو تِ عباسیہ کے بارے میں ایک خط سے معلوم ہوا، جو امام ابراہیم نے ابو مسلم کے خط کے جواب میں بھیجا تھا۔ خط میں تحریرتھا۔:
"کہ تم نصر سے جلد از جلد فارغ ہو جاؤ، اور اگر موقع ہاتھ آئے تو خراسان میں کوئی ایک بھی عربی زندہ نہ چھوڑ نا"
یہ خط پڑھتے ہی مروان ثانی کے ہوش اڑ گئے۔ اور اسنے دمشق کے گورنر کو پیغام بھیجا کہ امام ابراہیم کو نہایت ہوشیاری اور خاموشی سے گرفتار کر کے میرے پاس بھیجو۔ حکم کی فورا تعمیل ہوئی، اور امام ابراہیم کو فجر کی نماز کے فوراً بعد مسجد سے ہی گرفتار کرلیا گیا۔ امام ابراہیم نے اپنی گرفتاری کے دوران وہاں نماز کے موجود نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے بھائی "ابو العباس بن عبداللہ" کو اپنا جانشین مقرر کیا اور کہا کہ یہ میری تم لوگوں سے آخری ملاقات ہے۔ اور کوفہ جانے کا حکم دیا۔ امام ابراہیم کو قید کر کے "حران" کے قیدخانے بھجوایا گیا اور وہاں آپ کو زہریلا دودھ پلا کر قتل کردیا گیا۔ جبکہ کچھ روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ کی وفات قید میں سرطان سے ہوئی۔ بہرحال، ابو العباس السفاح کوفہ کی جانب روانہ ہوا ،اور 749ء کوفہ میں باقاعدہ اپنی خلافت کا اعلان کر دیا ۔اور اس طر ح عباسیہ خلافت کا پہلہ خلیفہ بنا۔
"خلافتِ عباسیہ کے پہلے عباسی خلیفہ ابو العباس السفاح"
کوفہ اور خراسان میں اپنی خلافت قائم کرنے کے بعد ابوالعباس نے اپنی فوج کو عبداللہ بن علی عباس کی سربراہی میں خلافت ِامیہ کے آخری خلیفہ مروان ثانی سے مقابلے کے لیے روانہ کیا۔ اگرچہ سپہ سالار عبداللہ بن علی عباس کو مقرر کیا گیا تھا، لیکن درحقیت جنگ کا سارا انتظام ابو مسلم ہی کے ہا تھ میں تھا۔اموی اور عباسی خاندان کے درمیان اقتدار کی یہ فیصلہ کن جنگ دریائے زاب کے کنارے پر ہوئی ، اسلئے اسے "جنگِ زاب" کہا جاتا ہے۔ یہ انقلابِ عباسیہ کی وہ آخری جنگ تھی جس نے اموی خاندان کو خلافت سے بے دخل کر دیاتھا۔ دریائۓ زاب کے مغربی کنارے پر خلیفہ مروان نے اپنی فوج کے ساتھ پڑاؤ ڈالا جبکہ مشرقی کنارے پر عباسی سپہ سالار ابو مسلم اور عبداللہ بن علی عباس نے اپنی فوج کے ساتھ قیام کیا۔بنو امیہ کا سارا شاہی خاندان بمع ڈیڑھ لاکھ سپاہیوں کے اس وقت مروان ثانی کے ساتھ خلافتِ عباسیہ کے 35ہزار سپاہیوں پر مشتمل فوج سے مقابلہ کرنے کے لئے دریاۓ زاب کے مقام پر موجود تھا۔ مروان ثانی کو اپنے تجربے پر بڑا غرورتھا۔ اس کا خیال تھا کہ چونکہ وہ ماضی میں بازنطینی افواج کو شکست دیتا آیا ہے اور اس کی فوج تجربہ کار اموی سپاہیوں پر مشتمل ہے اس لئے وہ عباسی بغاوت کوجنگ کے زریعے آسانی سے کچل سکتا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ محض اسکی خام خیالی ہی ثابت ہوی تھی۔ اگرچہ اموی فوج کو تعداد اور تجربے کی بنیاد پر عباسی فوج پر برتری ضرور حاصل تھی ، لیکن عباسی فوج سے مسلسل شکست نے اموی سپاہیو ں کے حوصلے پست کر دیے تھے۔
"دریائےزاب جہاں یہ تاریخی جنگ لڑی گئی تھی"
جبکہ دوسری طرف بیشک عباسی فوج تعداد میں اموی فوج کے مقابلے میں بہت کم تھی، لیکن مسلسل فتوحات، مضبوط عزائم ا ور انتقام کے جزبے نے ان کے حوصلے بہت بلند کئے ہو ۓ تھے۔ چنانچہ 24 جنور ی 750ء کو عباسی فوج کے سپہ سالار عبداللہ بن علی نے عینیہ بن موسیٰ کو5 ہزار سپاہیوں کے ساتھ دریاۓ زاب عبور کر کے مروان ثانی کے پڑاؤ پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ دونوں فریقین کے درمیان شام تک جنگ جا ر ی رہی. لیکن جب اندھیرا پھیلنے لگا تو دونوں طرف سے جنگ روک د ی گئی ، اور عباسی کمانڈر عینیہ بن موسیٰ دریا عبور کر کے عبداللہ بن علی کے پڑاؤ میں آگیا۔ اگلی صبح مروان ثانی نے اپنے بیٹے عبداللہ کو دریا عبور کر کے عباسی سپہ سالار عبداللہ بن علی کی طرف حملے کے لئے بھیجا ۔ عبداللہ بن مروان، عبداللہ بن علی عباس کے پڑاؤ سے 5 میل کے فاصلے پر خندق کھود کر مورچہ زن ہوا، عبداللہ بن علی عباس نے مخارق بن غفار کی سربراہی میں لشکر تشکیل دے کر عبداللہ بن مروان سے مقابلے کے لیے روانہ کیا۔ اس جھڑپ میں عباسی فوج کو شکست ہوئی، متعدد عباسی سپاہی مارے گئے جبکہ کچھ گرفتار بھی ہوۓ۔ عباسی سپہ سالار یہ اچھے سے جا نتے تھے کہ خود سے 2 گنا بڑی فوج سے لڑنے کے لئے انہیں اپنی فوج کے بلند حوصلے اور جوش کی ا شد ضرورت ہے۔
چنانچہ جب عباسی سپہ سالارعبداللہ بن علی عباس کو اس شکست کی بابت معلوم ہوا تو اس کے ساتھیو ں نے اسے مشورہ دیا کہ سپاہیوں کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ شکست خوردہ فوج کے واپس آنے سے پہلےہی آپ مروان ثانی پر حملہ کردیں۔ اب عبداللہ بن عباس اپنی فوج کے ساتھ مروان ثانی کے مقابلے کے لئے نکل پڑا۔ مقابلہ شروع ہوا اور جب یہاں بھی عبداللہ بن عباس کو پسپائی دکھنے لگی تو اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ سب گھوڑے سے اتر کر پیدل ہوجائیں اور نیزے تان لیں۔ چنانچہ تمام عباسی سپاہی گھوڑے سے اتر گئے اور گٹھنو ں کے بل کھڑے ہو کر نیزے کی دیوار بنا لی۔
تیر برسائے گئےاور کچھ ہی دیر میں جنگ کا پاسا کچھ یوں پلٹا کہ اموی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے، اور اموی فوج پیچھے ہٹنے لگے۔ دوسری طرف عباسی لشکر للکارنے لگ گیا کہ ابراہیم کا بدلہ لو۔ عباسی فوج میں یا محمد! یا منصور! کے نعرے لگنے لگے اور د یکھتے ہی دیکھتے خون ریز جنگ چھڑ گئی۔ صورتحال کی سنگینی د یکھتے ہوئے مروان ثانی نے بنی "قضاعہ" کو پیدل ہونے کا کہا، بنی قضاعہ نے پیدل ہونے سے انکار کردیا اور کہا ک بنی سلیم کو حکم دو۔ اب مروان نے سکاسک کو حملے کا حکم دیا، تو سکاسک نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بنی عامر کو حملے کا حکم دو۔ اب اسنے بنو سکون کو حملہ کرنے کو کہا تو انہوں نے کہا کہ غطفان کو حملے کا کہو۔ مایوس ہو کر مروان نے اپنے خاص محافظ دستے کے سردار کو پیدل ہونے کا حکم دیا، لیکن اس نے بھی یہ کہ کرانکار کردیا کے میں عباسی فوج کے نیزو ں کا نشانہ نہیں بننا چاہتا۔ اور یو ں بنو امیہ کی فوج بجائے مقابلہ کرنے کے خوف و دہشت کے عالم میں میدان چھوڑ کر فرار ہونے لگی۔
چنانچہ مروان ثا نی نے جب دیکھا کہ اس کے سپاہی بجائے مقابلہ کرنے کے میدان چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں تو وہ خود بھی بھاگ نکلا، اور جا تے جاتے عباسی فوج کو پیش قدمی سے روکنے کے لئے اس نے دریا کا پل بھی توڑوا ڈالا۔ اس وجہ سے جتنے اموی سپاہی میدانِ جنگ میں مارے گئے تھے اس سے کہیں زیادہ ڈوب کر مر گئے۔ یوں جنگِ زاب میں دردناک شکست اٹھانے کے بعد بنو امیہ کے 90 سالہ اقتدار کا عباسی خاندان کے ہاتھوں خاتمہ ہوا۔
"جنگِ زاب کا فیصؒہ کُن معرکہ جس نے آلِ اُمیہ کی 90 سالہ بادشاہت کا خاتمہ کر دیا تھا"
خلافتِ عباسیہ کے خلیفہ ء اول "ابوالعباس السفاح" نے بنو امیہ کے زیرِ انتظام تمام سلطنت اپنے ہاتھوں میں لے کر خلافتِ عباسیہ کی بنیاد ڈالی۔ خلافت قائم کرنے کے بعد ابوالعباس نے بغاوت کچلنے کا حکم دیا۔ عباسی حکمرانوں نے طاقت کا پرزور استعمال کیا اوراموی خاندانِ شاہی کا قتلِ عام شروع کردیا، جس نے ابوالعباس کی خلافت پر بیعت کرلی اسے امان دی گئی، جنہوں نے بغاوت کی ان کا قتلِ عام کیا گیا ۔ جو فرار ہوئےانکا تعاقب کیا گیا جب تک کہ پکڑے نہ گئے۔ جو قتل سے بچ گئے انہیں قید کر لیا گیا۔ اس دوران مروان ثانی کا تعاقب اور تلاش بھی جا ری رہی۔ مروان فرار ہو کر پہلے دمشق، پھر فلسطین، اور آخر میں مصر پہنچا، جہاں 6 اگست 750ء میں عباسی سپاہیؤں کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ یوں خلافت خاندانِ مروان سے منتقل ہو کر حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد میں آگئی۔ اور خلافتِ عباسیہ اسلامی دنیا کی واحد خلافت تسلیم ہوگئی ۔
تبصرہ کریں