جنگِ وارنا جس میں عثمانی سلطان "سلطان مراد" نے عیسائیوں کی طاقت کو کچلتے ہوئے انہیں عبرت ناک شکست دی تھی۔
سلطان مراد ثانی سلطنت عثمانیہ کے چھٹے سلطان تھے،جنہوں نے سلطنتِ عثمانیہ سے تیموری حملوں کے تمام نشانات کو ختم کرتے ہوئے سلطنت کو پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن کیا تھا۔
سلطان مراد نے 22 جولائی 1444ءمیں عیسائیوں سے 10 سال کے لیے امن معاہدہ کیا اور سلطان کو اب اطمینان حاصل تھا،کیونکہ بیس بائیس سال مسلسل جنگوں کی وجہ سے اب سلطان مراد امورِ سلطنت کی جانب سے دل برداشتہ ہو چکے تھے۔سلطان مراد اب چاہتے تھے کہ وہ بقیہ زندگی سکون کے ساتھ گزاریں۔صلح نامہ زیجڈین کے بعد جب سلطان ایشیائے کوچک واپس آئے تو یہاں انہیں اپنے سب سے بڑے اور چہیتے بیٹے علاؤ الدین کی وفات کی خبر ملی،شہزادہ علاؤالدین نہایت بہادر اور لائق تھا۔سلطان مراد نے اب سلطنت سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔سلطان مراد نے اپنے دوسرے بیٹے محمد جس کی عمر ابھی صرف 14 سال تھی کو تخت نشین کیا اور وہ خود ایدین چلے گئے۔
"سلطان محمد فاتح جن کی کم عمری کا فائیدہ اُٹھاتے ہوئے عیسائیوں نے سلطنتِ عثمانیہ پر حملے کی جراَت کی تھی"
عیسائیوں کی بد عہدی:-
لیکن سلطان مراد نے جس سکون کی تلاش میں تخت چھوڑا تھا وہ سکون انہیں ایدین میں بھی نہ مل سکا۔ہوا کچھ یوں کہ جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ سلطان مراد نے تخت سے کنارہ ک شی اختیار کر کے سلطنت ایک کم عمر شہزادے کے سپرد کر دی ہے،جو کہ ناتجربہ کار ہے،تو عیسائیوں نےترکوں کو یورپ سے نکالنے کا فیصلہ کیا اور صلح نامہ زیجڈین جسے ابھی بمشکل ایک ماہ ہی ہوا تھا اسے ختم کرنے کی تیاریاں کرنے لگے۔اس غداری کا اصل مجرم"کارڈینل جولین"تھا۔جو کہ پوپ کی سر پرستی کی وجہ سے ترکوں کے ساتھ معاہدہ شکنی پر زور دے رہا تھا۔اس کے علاہ قسطنطنیہ کا شہنشاہ بھی اس تحریک کا حامی تھا۔یہاں حالات تمام تر عیسائیوں کے حق میں ہوتے نظر آ رہے تھے۔کیونکہ عثمانی سلطنت کی باگ ڈور ایک کم عمر اور ناتجربہ کار شہزادے کے ہاتھ میں تھی۔ایشیائے کوچک میں امیر البانیا نے پھر بغاوت پرپا کر دی تھی،اور عثمانی دستے اسے کچلنے میں مصروف تھے۔جبکہ درہ دانیال میں وینس،جینوا اوربرگنڈی کے بحری جہازوں کا قبضہ تھا۔جس کی موجودگی میں ترک افواج کا ایشیائے کوچک سے یورپ آنا مشکل تھا۔یہاں ہینگر ی کے بادشاہ لارڈ سیلاس نے معاہدے کی خلاف ورزی سے انکار کیا،لیکن کارڈینل جولین نے اپنےمذہبی اثرو اسوخ کو استعمال کرتے ہوئے بادشاہ کو مجبور کیا۔نیز اس نے یہ فتویٰ دے کر بادشاہ کو مطمن کرا دیا کہ غیر عیسائیوں کے ساتھ معاہدے کی پابندی نہیں کرنی چاہیے۔جب مجلس کے بعض ارکان نے بھی مخالفت کی تو اس نے بھری مجلس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ:-
"کیا تم اس موقعہ پر ان عیسائی بھائیوں کی امیدوں کو توڑ دو گے،اور اس عظیم موقعہ سے فائیدہ نہیں اٹھاؤ گے۔تمہاراعہد صرف خدا اور تمام عیسائی بھائیوں کے لیے ہے،نہ کہ ان قاتل ترکوں کے لیے۔دنیا میں خدا کا نائب پاپائے روم ہے۔ جس کی اجازت کے بغیر نہ تو تم کسی سے معاہدہ کر سکتے ہو اور نہ پورا کر سکتے ہو۔پاپائے روم کی طرف سے میں تمہیں اس معاہدے سے آزاد کرتا ہوں۔تمہاری فوج کو برکت دیتا ہوں۔شہرت اور نجات کے لیے میرے پیچھے چلو اور اگر اب بھی تمہیں ڈر ہے تو میں اس گناہ کا وبال اپنے سر لیتا ہوں"۔
"کارڈینل جولین جس کی وجہ سے عیسائیوں نے سلطنتِ عثمانیہ سے صلح نامہ زیجیڈین کو ختم کیا تھا"
ابتدا میں ہونیاڈے نے بھی اس معاہدے کی خلاف ورزی کی،لیکن جب اسے یہ لالچ دیا گیا کہ ترکوں کو شکست دینے کے بعد اسے بلغاریہ کا بادشاہ بنا دیا جائے گا تو وہ راضی ہو گیا۔البتہ اس نے یہ اختلاف ضرور کیا کہ معاہدے کی عہد شکنی کو ستمبر تک ملتوی کر دیا جائے۔یہ اختلاف اس لیے نہیں تھا کہ وہ ترکوں سے جنگ کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ یہ اس لیے تھا کہاتحادی اس معاہدے سے پورا پورا فائدہ اُٹھا نا چاہتے تھے،اور ان تمام علاقوں اور قلعوں پر قبضہ کر لیں جنہیں عثمانی ترک بری ایمانداری کے ساتھ خالی کر رہے تھے۔یہاں انگریز مؤرخ لین پول ایک کڑوا سچ لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ:-
"جس طریقے سے یہ غداری عمل میں لائی گئی اس سے زیادہ معیوب بات یورپ کے سور ماؤں اور ایک بڑے سپہ سالار کی شہرت کے لیے تصور میں بھی نہیں لائی جا سکتی،کہ جب عثمانی دستوں نے پوری ایمانداری کے ساتھ قلعوں کو عیسائیوں کے ہوالے کر دیا،اور عیسائیوں نے صلح نامے سے پورا فائیدہ اُٹھا لیا،تو شاہ لاڈسلاس ،ہونیاڈےاور کارڈینل جولین نے یکم ستمبر کو 20ہزار کی فوج کے ساتھ عثمانی سلطنت پر حملے کے لیے روانہ ہوئے۔ترک عیسائیوں کی اس غداری سے بلکل بے خبر تھے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے ترک دستے جو قلعے میں موجود تھے شہید کر دیے گئے اور کچھ کو چٹانوں سے نیچے پھینک دیا گیا،اور متعدد قلعے عثمانیوں سے چھین لیے گئے۔بحر اسود کے ساحل پر عیسائیوں نے پہنچ کر وارنا چلے گئے اور شہر کا محاصرہ کر لیا تُرک اس اچانک حملے سے بلکل بے خبر تھے۔مسلسل محاصرے کی وجہ سے یہاں ترکوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے،اور وارنا پر عیسائیوں کا قبضہ ہو گیا۔ان ابتدائی فتوحات کی خبریں جب دولتِ عثمانیہ کے امرا اور وزرا کو ہوئیں تو انہوں نےسلطان مراد سے گزارش کی یہ وقت عیسائیوں کی طاقت کو کچلنے کا ہےورنہ دشمن شہزادے محمد کی نو عمرے اور ناجربے کا فائیدہ اُٹھاتے ہوئے آگے بڑھتے جائیں گے۔سلطان مراد نے حالات سے آگاہ ہوتے ہوئے 40 ہزار کی فوج جمع کی اور عیسائیوں سے مقابلے کے لیے نکل پڑے۔درہ دانیال پر عیسائی بیڑے کا قبضہ تھا۔لیکن سلطان مراد نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنوا کے بحری جہازوں کو فی سپاہی ایک دوکات کی شرح سے محصول ادا کرتے ہوئے اپنی پوری فوج کو یورپ منتقل کر دیا۔اتحادی فوج اپنے نشے میں مست تھی انہیں سلطان مراد کے یوں اچانک آجانے کا یقین وہم و گمان بھی نہیں تھا۔سلطان مراد نے وارنا سے 4میل کے فاصلے پر اپنے خیمے نصب کیے اور جنگ کی تیاری کرنے لگے۔
جان ہونیاڈے کو اپنی سابقہ فتوحات کی بنا پر اپنی فتوحات کا پورا یقین تھا۔اس نے مجلس کی اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا کہ لشکر کے گرد ناکہ بندی کر کے سلطان مراد کے حملے کا انتظار کرنا چاہیے۔بلکہ ہونیاڈے پوری فوج کے ساتھ خود سلطان مراد پر حملے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔
"وارنا کا میدانِ جنگ جس میں عثمانیوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی تھی"
یوں 26 رجب848ھ/بمطابق10 نومبر 1444ءکو دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوئیں۔ہونیاڈے اس عیسائی فوج کا سپہ سالار تھا۔عیسائی فوج کے دائیں اور بائیں میں ہنگری اور ولاچیا کے بہترین دستے تھے۔ترکوں کی طرف پہلی دو صفیں بے ضابطہ سوار اور پیدل فوجوں کی تھیں۔دائیں بازو کی کمان رومیلیا کے بے لر بے کے ہاتھ میں تھی اور بائیں بازو کی کمان اناطولیہ کے بے لر بے کے ہاتھ میں تھی۔ان کے پیچھے مرکز میں خود سلطان مراد ینی چری دستوں کے ساتھ موجود تھے۔سلطان نے ایک اونچے نیزے کے سرے پر صلح نامہ زیجیڈین کی نقل فوجی نشان کی طرح ہوا میں لہرا رکھی تھی۔جنگ شروع ہونے کے قریب ہی تھی کہ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے کہ عیسائی فوج کے دلوں میں بد شگونی پیدا ہوگئی۔ہوا کچھ یوں کہ اچانک ہوا کا ایسا شدید جھونکا آیا کہ عیسائیوں کے بادشاہ کے علاوہ تمام علم نیچے زمین پر گر گئے۔
جنگ کا آغاز ہوا،جنگ کی شروعات میں عیسائی کامیاب رہے اور ترکوں کی پہلی دو صفوں کے قدم اُکھڑ گئے اورفوج میں کھلبلی مچ گئی،اور سلطان مراد کو اپنی شکست کا یقین ہونے لگا۔زندگی میں پہلی اور آخری بارصبر و استقلال کا دامن سلطان مرادکے ہاتھ سے چھوٹنے لگا۔سلطان نے گھوڑا موڑ کر بھاگنے کا ارادہ کیالیکن اناطولیہ کے بے لر بے نے جو کہ سلطان کے پاس میں ہی موجود تھا نے سلطان کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور سلطان سے کہا کہ ابھی تو مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں، سلطان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔سلطان نے ینی چری فوج کی کمان خود کی اور انکا حوصلہ بڑھانا شروع کر دیااور یوں دیکھتے ہی دیکھتے جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ینی چری فوج نے سلطان کی کمان میں ایسے خطر ناک حملے کیے کہ عیسائی فوج کے قدم اُکھڑ گئے۔لارڈ سیلاس بڑی بہادری سے لڑا لیکن اچانک اس کا گھوڑا زخمی ہو کر گر گیا۔اتنے میں ینی چری فوج کے ایک دستے نے لارڈ سیلاس کو گھیر لیا۔لارڈ سیلاس نے ترکوں سے درخواست کی کہ اسے گرفتار کر لیا جائے،لیکن ترکوں میں عیسائیوں کی عہد شکنی کی وجہ سے اس قدر غصہ تھا کہ ایک پرانے ینی چری سپاہی "خواجہ خیری" نے آگے بڑھ کر اس بد عہد کا سر تن سے جدا کر دیا۔خواجہ خیری نے اس کا سر کاٹ کر ایک نیزے پر رکھا اور نیزہ لے کر عیسائیوں کی جانب بڑھا۔ہینگری کی فوج اور اُمرا نے جب یہ منظر دیکھا تو ان کے دل بیٹھ گئے،اور وہ میدانِ جنگ سے دُم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔جان ہونیاڈے نےکچھ دیر کے لیے جم کر ترکوں کا مقابلہ کیا ۔اُس کی کوشش تھی کہ کسی طرح لارڈ سیلاس کا سر ترکوں سے چھین لے۔لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہا اور باقی عیسائیوں کی طرح میدان سے بھاگ نکلا،لیکن اس وقت تک عیسائیو ں کی فوج کا آدھا حصہ ترکوں کے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکا تھا۔ہینگری کے شاہ کے علاوہ اس جنگ میں دو اور مشہور بشپ اور بعض نامور افسر اس جنگ میں ترکوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
"لارڈ سیلاس کی لاش جو کہ اس جنگ میں ایک عثمانی ینی چری سپاہی کے ہاتھوں مارا گیا تھا"
اس جنگ میں فتح کے بعد ہینگری پر ترکوں کا قبضہ فوراً تو نہ ہو سکا لیکن اس جنگ کا یہ فائیدہ ضرور ہوا کہ ترکوں نے بوسنیا اور سرویا پر مکمل قبضہ کر لیا۔یہ دونوں ریاستیں یونانی کلیسا سے وابستہ تھیں اور وہ خود ترکوں کے زیرِ اثر آنا بھی چاہتی تھیں۔کیونکہ جان ہونیاڈے نے فتح کی صورت میں انہیں جبراً لاطینی کلیسا میں داخل کرنے کی دھمکی دی تھی۔
سرویا کا ایک مشہور مؤرخ"رانکی"لکھتا ہے کہ:-
"ایک مرتبہ جارج برینکویچ نے جان ہونیاڈےسے پوچھا کہ اگراسے جنگ میں فتح ہو جاتی ہے تو وہ مذہب کے متعلق کیا کرے گا،تو ہونیاڈے نے کہا کہ میں سرویا اور بوسنیا کو کیتھولک مذہب قبول کرنے پر مجبور کر دوں گا۔جارج نے جب یہی سوال سلطان مراد سے کیا تو عظیم عثمانی سلطان نے جواب میں کہا کہ میں فتح کے بعد ہر مسجد کے ساتھ ایک گرجا بنوا دوں گا اور عیسائیوں کو پوری مذہبی آزادی ہو گی۔اسی لیے کلیسائے رومہ کے ماننے والوں نے عثمانیوں کی مدد کی اور جب عثمانیوں نے بوسنیا پر حملہ کیا تو صرف 8 دنوں کے مختصر وقت میں اہلِ بوسنیا نے 70 قلعوں کے دروازے عثمانیوں کے لیے کھول دیے۔یوں بوسنیا پر عثمانیوں کا قبضہ ہو گیا اور بوسنیا کا شاہی خاندان ختم کر دیا گیا اور اس کے بہت سے ممتاز امرا نے اسلام قبول کر لیا۔
The glory of past I didn't know yet. Thanks to provide information.