عباسیوں اور امویوں کے درمیان دریائے "زاب"کے کنارے لڑی جانے والی تاریخی جنگ۔
حضرت امام حسن کی شہادت کے بعد راشدین خلافت کا 30 سالہ سنہری دور اپنے اختتام کو پہنچ گیا،اور اُس کے بعد ملوکیت کا ایسا سیاہ دور شروع ہوا،جو آج تک جاری ہے۔حضرت امام حسن کی شہادت کے بعد خلافت ِ اُمویہ معرضِ وجود میں آئی جو کہ اسلام کی دوسری جبکہ تاریخ کی پانچھویں بڑی سلطنت تھی۔اگرچہ بنو اُمیہ نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد بے شمار فتوحات حاصل کیں لیکن،اس کے بر عکس آلِ اُمیہ کے بغضِ اہلِ بیت اور عوام کے ساتھ ظلم و جبر کی وجہ سےامویوں کے خلاف ایک نئی طاقت" آلِ عباس "اُٹھ کھڑی ہوئی جس نےبنو اُمیہ کے 90 سالہ دورِ حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئےنئی عباسی خلافت کی بنیاد ڈالی۔
بنو امیہ کے دسویں خلیفہ"ہشام بن عبد الملک"کے دورِ حکومت میں ہشام کی نااہلی، عیش پرستی، اور قبائلی عصبیت کی وجہ سے739ءمیں پہلی بار"بربر قبائیل" نے اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے خلاف بغاوت کر ڈالی۔جس کے بعد مغربی علاقہ ہمیشہ کے لئے امویوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔
اس کے بعد 6 فروری743ءمیں خلیفہ ہشام بن عبد الملک کا انتقال ہو گیا،جس کے بعد ہشام بن عبد الملک کا بھتیجا"ولید بن یزید"نیا اموی خلیفہ مقرر ہوا۔ ولید انتہائی نالائق اور ظالم خلیفہ تھا۔ولید ثانی کی بد اخلاقی کی بنا پر کئی امرا نے اس کی ولی عہدی کی مخالفت بھی کی تھی۔ جب وہ تخت نشین ہوا تو اس نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ اپنے مخالفوں کو چن چن کر مروا دیا۔ اس کی اس سفاقی پر بعض متاثر افراد اس قدر پریشان ہوئے کہ وہ ہشام بن عبد الملک کی قبر جا کر اُس کے فیصلے پر رویا کرتے تھے۔جب ولید کا ظلم و ستم حد سے بڑھ گیا،تو "یزید" نے ولید کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہوئےاپریل 744ءمیں دمش کا محاصرہ کر لیا،اوراس نے خود کو خلیفہ نامزد کر تے ہوئے ولید کو قتل کردیا۔
لیکن یزید ثانی کا دورِ حکومت بھی مختصر تھا۔کیونکہ اسکی خلافت کےصرف 6 ماہ بعد ہی اسکی موت واقع ہو گئی تھی۔یزیدثانی کی موت کے بعد اموی خلافت میں سیاسی بحران پیدا ہو گیا۔
اس سیاسی بحران کے دوران بنو اُمیہ کی ساکھ بہت بُری طرح متا ثر ہوئی،اس خلا کو پر کرنے کے لئے"مروان ثانی" نے تخت سنبھالتے ہوئے اموی سلطنت کی ساکھ بہتر کرنے کی کوشش کی،مروان ثانی اس سے پہلے"آرمینیا اور آذر بھائی جان"کے علاقوں میں گورنر رہ چکا تھا۔اور اس کےساتھ ساتھ مروان "بازنطینی اورخزر ترکوں" کے خلاف کئی ایک جنگیں بھی لڑ چکا تھا۔ مروان نے اپنی فوج کے ساتھ شام کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئےاس نے خلیفہ سلیمان کی فوج کو شکست دی اور دسمبر 744ءمیں وہ فاتحانہ دمشق شہر میں داخل ہوا۔
مروان کے خلیفہ بننے کے بعد شام میں اس کے خلاف کئی ایک بغاوتیں اُٹھ کھڑی ہوئیں،کیونکہ شام میں مصری اور یمنی قبائل کی کشمکش نے خانہ جنگی کی سی صورت حال اختیار کر لی تھی۔شام میں امن قائم کرنے اور ان بغاوتوں کو ختم کرنے میں مروان کو پورےدو سال لگے۔
لیکن جب مروان شام میں ان بغاوتوں کو کچلنے میں مصروف تھا تو اس دوران عراق اور شام میں مروان کے خلاف بغاوتیں پھیلنے لگیں۔جس کے بعد مروان نے ایک بڑی فوج کے ساتھ مصر پر حملہ کرتے ہوئے مصری باغیوں کو کچل ڈالا۔
لیکن جب مروان مصر میں باغیوں کی سرکوبی میں مصروف تھا،تو موصل کے قریب"ضحاک بن قیس" نے "بین النہرین" میں خلیفہ مروان کے خلاف بغاوت کھڑی کر دی۔جس کے بعد مروان ثانی نے 746ءمیں ایک بڑی فوج کے ساتھ "ضحاک"اور اس کی فوج کو ختم کرتے ہوئے اس بغاوت کو کچل ڈالاتھا۔
اگرچہ مروان نے ان بغاوتوں کو کچلتے ہوئے ، اموی خلافت میں استحکام لانے کی کوششیں کیں ،لیکن اس دوران عباسیوں کی دعوت ملک کے کونے کونے میں پھیل چکی تھی۔
مئی 747ءمیں خراسان میں عباسیوں سے بنو اُمیہ کے خلاف ایک وسیع پیمانے پر بغاوت کھڑی کر دی۔عباسی دراصل قریش کا ایک قبیلہ تھا،جس کی نسبت حضور ؐ کے چچا حضرت عباس ؒ کے ساتھ تھی ،اسی لیے وہ عباسی کہلائے اور انہوں نے حضرت عباس کی مناسبت سے "عباسی خلافت"کی بنیاد ڈالی۔
عباسیوں کی یہ دعوت اچانک نہیں تھی،بلکہ عباسی پچھلے 30،40 سالوں سے خفیہ دعوت دے رہے تھے۔جس کے لئے عرب اور عجم دونوں عباسیوں کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے،جو پچھلی کئی ایک دہائیوں سے بنو اُمیہ کے ظلم کا نشانہ بن رہے تھے،اوراسی وجہ سے عباسی انقلاب کامیاب رہا۔
747ءمیں عظیم عباسی انقلابی رہنما "ابو مسلم خراسانی" کو عباسی خلیفہ"ابراہیم" نے خراسان میں بغاوت کا حکم دیا۔
اسی سال 9 جون کو ابو مسلم خراسانی نےکالے جھنڈوں کے ساتھ آل اُمیہ کے خلاف بغاوت شروع کر دی۔ابو مسلم خراسانی10 ہزار کی فوج کے ساتھ مرو شہر کی جانب پیش قدمی کرنے لگا،اور 14فروری 748ء میں ابو مسلم خراسانی نے خراسان کے اموی گورنر"نصر بن سیار"کو شکست دیتے ہوئےخراسان پر قبضہ کر لیا۔
ابو مسلم نے اپنے ایک کمانڈر"قحطبہ بن شبیب" کو اموی گورنر نصر بن سیار کے تعاقب میں روانہ کیا۔جس کےبعد نصر بن سیار تو بھاگ نکلا،جبکہ "گرکانج" میں "قحطبہ بن شبیب" کا ایک اموی دستے کے ساتھ ٹکراؤ ہوا جسے "قحطبہ بن شبیب" نے شکست دے دی۔
اس پسپائی کے بعد نصر بن سیار نے "رے"شہر سے تازہ دستوں کی مدد سے ایک نئی فوج جمع کر لی،لیکن اس بار بھی نصر بن سیار کو شکست ہوئی،اوراس شکست کے بعد نصر بن سیار کا ارادہ"ہمدان"شہر میں پہنچ کر نئی فوج جمع کرنے کا تھا،لیکن اس پسپائی میں ہی نصر بن سیار عباسی فوج کے ہاتھوں مارا گیا۔اس دوران عباسی کمانڈر قحطبہ،قومس،رے ہمدان اور نہاوند کو فتح کرتے ہوئے،مارچ 749ءمیں اپنی فوج کے ساتھ اس نے اصفہان شہر کا محاصرہ کر لیا،جہاں 50 ہزار اموی فوج موجود تھی۔قحطبہ نے 10 ہزار کی مختصر فوج کے ساتھ 50 ہزار کی اموی فوج کو شکست دیتے ہوئے اصفحان پر بھی قبضہ کر لیا۔اس دوران نہاوند کے قریب "قحطبہ" کا ایک بار پھر دمشق سے آئی تازہ دم فوج کے ساتھ ٹکراؤ ہوا اور قحطبہ نے اسے بھی شکست دے دی۔دوسری جانب ابو مسلم خراسانی مشرق میں عباسی خلافت کو مضبوط کرنے میں مصروف تھا،اور اس نے مشرقی خراسان سے اپنے مخالفین کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا،اور یوں 90 سال کے طویل عرصے کے بعد خراسان سے اموی اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔خراسان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ابو العباس نے"کوفہ"شہر کو حاصل کرنے کا ارادہ کیا جو کہ عباسی انقلاب کا مرکز تھا۔
اُدھر اگست 749ء میں ایک اور اموی کمانڈر نے "قحطبہ" کی فوج کو روکنے کے کوشش کی لیکن عباسی کمانڈرقحطبہ انتہائی چالاک تھا،اس نے اموی کمانڈ ر کے خلاف شب خون مارنے کا فیصلہ کیا،چناچہ جب رات کی تاریکی میں اموی فوج آرام کر رہی تھی ،تو قحطبہ نے اچانک حملہ کر دیا اور ایک بار پھر اموی فوج کو شکست ہوگئی۔لیکن اس حملے میں "قحطبہ"شدید زخمی ہوا جسکے بعد قحطبہ کی موت واقع ہو گئی۔
ادھر ابو مسلم نے دریائے فرات کو عبور کرتے ہوئے،کوفہ پر قبضہ کر لیا۔28 نومبر 749ء جمعہ کے دن ابو العباس السفاح پہلا عباسی خلیفہ منتخب ہوا۔خلیفہ بننے کے بعد ابو العباس نے عباسی خلافت کو مضبوط کرنے کے لئے تمام بڑے عہدوں پر اپنے خاندان کے لوگوں کو منتخب کیا،یہاں تک کہ اس نے اپنے بھائی"عبد اللہ ابن علی"کو فوج کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔
اس کے بعد ابو مسلم خراسانی اپنی فوج کے ساتھ موصل کی جانب پیش قدمی کرنے لگا۔اُدھر اموئی خلیفہ مروان ثانی "حران" میں ایک بڑی فوج کے ساتھ جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھا۔جس کے بعد وہ اپنی فوج کے ساتھ پیش قدمی کرتا ہوا،بین النہرین جا پہنچا ،جہاں اُس نے عباسی فوج کا مقابلہ کرنا تھا۔
یہاں دریائے زاب کے کنارے عباسی اور اموی فوجیں آمنے سامنے صف آرا تھیں۔مروان کے پاس 1لاکھ 20ہزار کی فوج تھی،جبکہ اس کے مقابلے میں عباسی لشکر صرف 40 ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا،اگرچہ اموی لشکر کی تعداد زیادہ تھی،لیکن ابو مسلم خراسانی کی فوج طاقت میں اموی فوج سے کہیں زیادہ تھی،اپنی گزشتہ فتوحات کی وجہ سے ان کا مورال کافی بلند تھا۔اور انہیں یقین تھا کہ اس بار بھی وہ اموی فوج کو شکست دے دیں گے،جبکہ اموی افواج اپنی پے درپے شکستوں کی وجہ سےکافی خوفزدہ تھی اور ان کا مورال کافی ڈاؤن تھا۔
یہ 25جنوری 750ء کی سرد صبح تھی جب دریائے زاب کے مشرقی کنارےعباسی اور اموی فوجوں کا آپس میں ٹکراؤ ہوا۔جنگ سے پہلے دونوں فوجوں نے مکہ کی جانب منہ کرتے ہوئے دعا مانگی۔فجر کی نماز کے بعد دونوں جانب سے جنگی ڈھولوں کی آواز گھونجنے لگی۔یہ جنگ اسلامی تاریخ کی اہم ترین جنگ تھی،کیونکہ اس جنگ نے فیصلہ کرنا تھا ،کہ اب اسلامی دنیا پر حکمرانی کون کرے گا۔جنگ کی شروعات تیر اندازوں سے ہوئی،اموی اور عباسی تیز اندازوں نے ایک دوسرے پر خوب تیروں کی بوچھاڑکی۔تیر اندازی کی جنگ کچھ دیر تک جاری رہی،اور اس کے بعد دونوں فوجوں کے تیز انداز واپس ہر اول دستے کے پیچھے چلے گئے۔اس کے بعد ابو مسلم نے پیدل دستوں کو پیش قدمی کا حکم دیا،یہ اس لئے تھا ،تاکہ اموی فوج مقابلے کے لئے میدان میں اترے۔اس دوران مروان نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور ،بلند آواز سے کہنے لگا۔
"بے شک ہم اللہ ہی طرف سے آئے ہیں اور اُسی ہی کی طرف ہمیں لوٹ کے جانا ہے"
اور پھر اموی فوج کا ہر اول دستہ عباسیوں سے ٹکرانے کے لئے نکل پڑا،یہ ہر اول گھڑ سوار دستہ ہزاروں سپاہیوں پر مشتمل تھا۔جو کہ عباسی فوج کے ہر اول دستےسے تعداد میں کہیں زیادہ تھا،لیکن ابو مسلم خراسانی نے اپنی فوج کی سخت تربیت کی ہوئی تھی،جو چٹان کی طرح میدان میں کھڑی تھی۔اور جب اموی گھڑ سوار دستے عباسی فوج کے پیدل دستوں سے ٹکرائے تو فضا میں تلواروں کے ٹکرانے کی آواز بلند ہونے لگی۔اس ابتدائی حملے میں ہزاروں سپاہی دونوں جانب سے مارے گئے،لیکن عباسی فوج میدانِ میں ڈٹی رہی اورعباسی نیزہ بازوں نے اموی گھڑ سواروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
کچھ ہی دیر میں ابو مسلم خراسانی کی تربیت یافتہ فوج نےجوابی حملہ کرتےہوئے بے شمار اموئ گھڑ سواروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔جس کے بعد ابو مسلم خراسانی نے اپنی تمام فوج کو حملے کا حکم دے دیا۔
پھر کیا تھا حکم ملتے ہی عباسی فوج امویوں پر ٹوٹ پڑی،اس حملے کی وجہ سے اموی خلیفہ مروان ثانی،بھاگ کھڑا ہوا۔مروان کے بھاگنے کے ساتھ ہی اموی فوج بھاگ کھڑی ہوئی،اوراس پسپائی میں ہزاروں گھڑ سوار دستے مارے گئے۔
جب عقب میں کھڑی پیدل اموئ فوج نے ہر اول دستے کا یہ حال دیکھا ،تو اس نے بھی میدانِ جنگ سے بھاگنے کا ارادہ کیا۔لیکن اموی فوج کے عقب میں دریائے زاب تھا جس کی وجہ سے ہزاروں اموی سپاہی دریا میں ڈوب کر مارے گئے۔ جبکہ باقی اموی سپاہی عباسی سپاہیوں کی تلواروں کا نشانہ بنے۔
زاب کی جنگ نے فیصلہ کر دیا کہ اب مسلم دنیا پر حکمرانی عباسی خاندان کرے گا۔اور بنو امیہ کی 90 سالہ خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔اورقوتِ اقتدار امویوں کی بجائے عباسیوں کے ہاتھوں منتقل ہو گیا،اس جنگ میں شکست کے بعد آخری اموی خلیفہ"مروان ثانی" جان بچا کر موصل میں پناہ گزین ہوا۔لیکن عباسی اسکے تعاقب میں وہاں بھی جا پہنچے۔جس کے بعد مروان جان بچاتا ہوا حران اور شام سے ہوتا ہو مصر جا پہنچا،اور جلد شام پر بھی عباسیوں کا قبضہ ہو گیا۔
چناچہ ذی الحج132ھ میں مروان اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ لڑتا ہوا مارا گیا۔اور اسکی وفات کے ساتھ ہی اموی اقتدار کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا۔
ابو العباس الصفاح عباسی خلافت کا پہلا خلیفہ مقرر ہوا۔عباسیوں نے دارالخلافہ کو "دمشق" سے"کوفہ"منتقل کر دیا۔اور آنے والے اگلے چند سالوں میں عباسیوں نے سائینس،فلکیات،اور دیگر شعبوں میں اس حد تک ترقی حاصل کر لی کہ عباسیوں کا دور اسلام کا سنہرا ترین دور "TheGolden Ae Of Islam"کہلانے لگا۔
تبصرہ کریں