پہلی جنگ عظیم کی خطرناک ترین جنگ"گیلی پولی"جس میں ترکوں نے بہادری کی نئی تاریخ رقم کی تھی۔
پہلی جنگ عظیم میں ایک(Gallipoli)ترکی کا جزیرہ نما گیلی پولی تاریخی جنگ کا میدان تھا۔سلطنت عثمانیہ جس کی طاقت سے یورپ بھی ڈرتا تھا اب آخری سانسیں لے رہی تھی،لیکن اس ذوال پذیر "سلطنت عثمانیہ"نے پہلی جنگ عظیم میں گیلی پولی کی جنگ میں یورپ کی متحدہ افواج کو جو ذلت آمیز شکست دی تھی ،اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔اصل میں اتحادیوں کی کوشش یہ تھی کہ وہ درہ دانیال اور آبنائے باسفورس پر حملہ کر کے قسطنطنیہ پہنچیں اور سلطنت عثمانیہ کے دار الحکومت پر قبضہ کر کے سلطنت عثمانیہ کا ہمیشہ کے لیے خا تمہ کر دیں۔
"گیلی پولی کا میدانِ جنگ 1915ء"
19 فروری 1915ء کو برطانیہ اور فرانس کے بہری جہازوں نے جب درہ دانیال کے قلعوں پر حملہ کیا ،تو انہیں عثمانی توپوں کا سامنا کرنا پڑا اور مسلسل حملوں کے باوجود وہ کسی ایک جگہ پر قبضہ نہ کر سکے ،اور اتحادیوں کے بیشتر جہاز غرق ہو گئے۔ترکوں کی بہادری اور تابڑ توڑ حملوں سے برطانیہ اور فرانس کے 50 ہزار سپاہی مارے گئے۔اس شکست کے بعد اتحادیوں نے گیلی پولی پر قبضے کا منصوبہ بنایا۔یہ منصوبہ در اصل یوں تھا کہ جزیرہ نمائے گیلی پولی کے مغربی اور جنوبی ساحلوں پر فوجیں اتار کر درہ دانیال کے قلعوں کے پشت پر حملہ کیا جائے۔اس حملے کے لیے برطانیہ اور فرانس نے بڑی تیاریاں کیں ،انہوں نے ہندستان ،برطانیہ،فرانس اور آسٹریلیا سے بہتریں سپاہی طلب کیے،اسی دوران مئی 1915ءمیں اٹلی بھی اتحادیوں کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑا۔
25اپریل کو فرانس ،برطانیہ اور ہندستان کی بہترین فوجیں بے شمار سپاہیوں کی لاشوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئیں گیلی پولی کے یورپین ساحل پر اتریں۔آپ حیران ہوں گے کہ صرف گیلی پولی کے ساحل تک پہنچنے کے لیے سلطنت عثمانیہ کے سپاہیوں نے 40 ہزار دشمنوں کو قتل کر دیا تھا۔40 ہزار سپاہیوں کے قتل ہونے کے بعدیورپی فوجوں نے اس ساحل کو چھوڑ دیا اور اب سارا زور گیلی پولی کے مغربی ساحل پہ تھا۔یہاں اتحادی فوجوں نے 4 ذبر دست حملے کیے۔اتحادی فوجیں"اری برنو" کے مقام پر اتریں جو کہ"چناق بیر" کی پہاڑی کے دامن میں واقع ہے،چناق بیر کی پہاڑی اس محاز کی کنجی تھی۔مصطفیٰ کمال پاشا اس وقت "وادی میڈوس" میں اپنے دستے کے ساتھ خیمہ زن تھے۔جب انہیں خبر ملی کہ اتحادی بیر چناق کی پہاڑی پر قبضے کے لیے آ رہے ہیں ،تو انہوں نے فوراً اپنے دستے کو ساتھ لیا،اور پہاڑی کی جانب چل پڑا وہاں آسٹریلین فوج کا دستہ موجود تھا،مصطفیٰ کمال نے اس دستے پر گولہ باری شروع کر دی،2دنوں تک شدید گولہ باری ہوتی رہی۔جس سے کہ اتحادیوں کی پیش قدمی رُک گئی۔مصطفیٰ کمال کی کوشش تھی کہ وہ دشمنوں کو واپس ساحل پر دکھیل دیں ،لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔چناق بیر کی پہاڑی اصل میں درہ دانیال کی کنجی تھی۔درہ دانیال پر قبضہ کر نا گویا قسطنطنیہ پر قبضہ کرنا تھا،اس محاز پر کوئی بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہ تھا،چناچہ عثمانیوں اور اتحادیوں نے خندقیں کھود کر جنگ لڑنا شروع کر دی،کئی ایک ہفتے یوں جنگ جاری رہی،گرمی کا موسم شدید تھا اور پانی کی بھی بڑی کمی تھی،مردہ سپاہیوں کی گلی سڑی لاشوں سے سپاہیوں میں ہیضہ پھیل رہا تھا۔
یہاں اتحادیوں نے ایک اور پلان بنایا،وہ پلان یہ تھا کہ "کوجا چمن" کی چوٹی پر قبضہ کر لیا جائے،جو چناق بیر کے شمال میں واقع تھی۔یہ مصطفیٰ کمال کی خندقوں سے دور تھی۔اس چوٹی پر قبضہ ہو جانے کا مطلب یہ تھا،کہ ترکوں کے حملوں سے بچ کر درہ دانیال پر قبضہ کر لیا جائے۔اس حملے کے لیے مصر سے تازہ دم فوج اور بے شمار اسلحہ لایا گیا۔ایک ہفتے سے رات کو یہاں اتحادی فوجیں آکر خندق میں چھپتی جاتی تھیں۔
"مصطفیٰ کمال پاشاخندق میں ترک دستوں کی کمان کرتے ہوئے"
آخر 2 آگست کی رات کو حملہ شروع ہوا،یہ حملہ پچھلے تمام حملوں سے شدید تر تھا۔اس حملے میں "کچز آرمی" بھی شامل تھی ،جو کہ اتحادیوں کی سب سے ذیادہ مضبوط فوج سمجھی جاتی تھی۔اس کے علاوہ اتحادیوں نے جنگی جہاز"الیزبتھ" اور باقی سینکڑوں بڑے بڑے جہازوں سے دوسری طرف سے حملہ کیا۔لیکن جب اتحادی فتح کے بلکل قریب ہوئے تو،عین اس وقت جرمن جہازوں نے الز بتھ اور باقی جہازوں کی بڑی تعداد پر حملہ کر کے انہیں تباہ کر دیا۔البتہ اتحادیوں کی کچز آرمی آری برون کی چوٹی،کی جانب کسی حد تک بڑھنے میں کامیاب ہو ہی گئی۔یہاں اتحادی فوجیوں نے بھی فضائی حملے کیے جس سے عثمانی فوج کا شیرازہ منتشر ہو گیا،لیکن اری برنو پر قبضہ کر نا بہت ضروری تھا،ورنہ اگر عثمانی ہمت نہ کرتےتو اتحادیوں کا "الفنزا" پر قبضہ ہو جاتا،اور پھر گیلی پولی پر قبضہ کرنا ان کے لیے بہت آسان ہوتا۔لیکن اس نازک گھڑی میں عثمانی ترکوں نے اپنے وطن کی حفاظت میں جیسی بہادری دیکھائی،اس کی مثال پوری عثمانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے،اتحادی فوجیں اپنی ساری طاقت"برنوکی" چوٹی پر قبضہ کے لیے لگا رہے تھے۔ترک فوج کی سپہ سالاری پہلے جرمن جرنل"لیمان سانڈرس"کے ہاتھ میں تھی،لیکن اب اس محاز کی کمان "مصطفیٰ کمال پاشا"کودے دی گئی۔یہ جنگ کئی دنوں تک جاری رہی ،اورآخر کار ہزاروں لاشوں کوچھوڑتے ہوئے اتحادی فوج میدانِ جنگ سے بھاگ کھڑی ہوئی۔
"گیلی پولی کے محاز پر شکست کھانے کے بعد اتحادی فوجیں میدانِ جنگ سے بھاگتے ہوئے"
دسمبر کے آخری ہفتے کی تاریک راتوں میں جبکہ موسم انتہائی خراب تھا،برطانیہ،فرانس اور اٹلی کی فوجوں نے خاموشی کے ساتھ بھاگنا شروع کر دیا،اور جنوری 1916ء کے پہلے ہفتے تک گیلی پولی سے تمام فوجیں پسپا ہو گئیں۔اس معرکے میں برطانیہ ،فرانس کے ایک لاکھ بارہ ہزار سپاہی مارے گئے تھے۔جبکہ سلطنت عثمانیہ کا بھی جانی نقصان ہوا تھا،لیکن اہلِ یورپ نے دیکھ لیا کہ یورپ کا"مرد بیمار"سلطنت عثمانیہ اپنے ذوال کی حالت میں بھی حیرت انگیز طاقت کا مالک ہے۔
Mashallah Allha aapki Mehent ko kaya na kere aamin