سلطنت عثمانیہ کے ظالم ترین سلطان "سلیم اول" اور جنگِ چالدران۔
تخت نشین ہونے کے بعد سلطان سلیم نے یورپ کی متعدد حکومتوں سے صلح ناموں کی تجدید کر کے اپنی سلطنت کے مغربی حصے کو ہر طرح کے خطرے سے محفوظ کر لیا۔پھر سلطان سلیم مغرب کی جانب متوجہ ہوا۔ایران کے تخت پر اس وقت شاہ اسمعٰیل تخت نشین تھا،جس نے چند سال قبل عراق ،عرب،خراسان اور دیارِ بکر پر قبضہ کر لیا تھا۔اور اسکا ایک فوجی افسر بغداد میں داخل بھی ہو گیا تھا۔
سہ 916ھ(1520ء) میں فارستان اور آذر ئیجان بھی سلطنتِ ایران میں داخل کر لیے گئے۔جو خلیج فارس سے بحر کاسپین اور فرات سے دریائے آمو تک پھیلی ہوئی تھی،اس طرح ایران کی سرحد سلطنتِ عثمانیہ کی سرحد تک پھیل گئی تھی۔حیرت کی بات یہ تھی کہ دونوں سلطنتوں کا حکمران شجاعت،عظمت اور ملک گیری کی حوس میں ایک دوسرے کے ہم پلہ تھے۔ایسی صورت میں دونوں سلطنتوں کا تصادم نا گزیر تھا۔سب سے بڑا سبب مذہب کا اختلاف تھا۔شاہ اسمعیلٰ ایک عالی شیعہ اور سلطان سلیم ایک متشدد سنی تھا۔عثمانی سلطنت کے ایشیائی مقبوضات میں زیادہ تعداد اہلِ تشیعوں کی تھی،اورشاہ اسمعیلٰ انہیں سلطان سلیم کے خلاف بغاوت پر اُکساتا رہتا تھا،اس لیے سلطان سلیم انہیں اپنی سلطنت کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے تھے۔
سلطان سلیم دیکھ چکے تھے کہ اس کی تخت نشینی کے صرف ایک سال قبل شاہ اسمعیلٰ کے رستے دار "شاہ قلی"نامی ایک شخص نے اناطولیہ میں شیعت کی تبلیغ کر کے کس طرح بغاوت کروائی تھی،اور سلطان سلیم نے کس مشکل سے اس بغاوت کو ختم کیا تھا۔سلطان سلیم کو اب پھر سے بغاوت کا خطرہ تھا۔سو اس کے لیے سلطان سلیم نے اناطولیہ میں اپنے جاسوس پھیلا دیے،جنہوں نے سلطان سلیم کو یہ خبر دی کہ اس وقت وہاں 70ہزار اہلِ تشیع موجود ہیں۔ایک دن اچانک سلطان سلیم نے 40 ہزار شیعوں کو قتل کرا دیا اور باقی کے30ہزار جن میں بچے اور عورتیں شامل تھیں انہیں قید خانے میں ڈال دیا۔سلطان سلیم کے اس عمل سے پورے ایران میں آگ لگ گئی ،لیکن شاہ اسمعیلٰ اس وقت سلطان سلیم کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتاتھا کیونکہ شاہ اسمعیلٰ کی سلطنت کمزور تھی۔
لیکن دونوں سلطنتوں میں آگ تب لگی جب شاہ اسمعیٰل نے مرحوم شہزادہ احمد کے بیٹے شہزادہ مراد کو اپنے ہاں پناہ دی۔شاہ اسمعٰیل نے نہ صرف یہ کہ اس کی حمائت کا باقاعدہ اعلان کیا بلکہ انہوں نے سلطان سلیم کو تخت سے اتار کر شہزادہ مراد کو تخت نشین کرانے کی تیاریاں بھی شروع کیں ۔جب سلطان سلیم کو یہ خبر ملی تو انہوں نے ایران پر حملے کا اعلان کر دیا اور شاہ اسمعٰیل کو مقابلے کی دعوت بھی دی۔
سلطان سلیم کے حکم سے عثمانی فوجیں "ینی شہر"میں جمع ہو گئیں۔اور سلطان سلیم 23صفر920ھ/بمطابق20اپریل 1514ء کو ایک لاکھ چالیس ہزار کی فوج اور تین سو جنگی توپوں کے ساتھ ایران کے پایہ تخت تبریز پر حملے کے لیے روانہ ہوا۔ینی شہر سے تبریز کا فاصلہ ایک ہزار میل کا تھا اور اس سفر کے دوران کوئی باقاعدہ سڑک بھی نہ تھی،جس سے عثمانی فوجوں کو کافی مشکل ہوئی ،لیکن سب سے بڑی مشکل سلطان سلیم کی فوج کو رسد کی کمک کی تھی۔جب سلطان سلیم اپنی فوجوں کے ساتھ ایران کی سرحد پہ پہنچا تو شاہ اسمعٰیل نے تمام سرحدی علاقوں کو خالی کروا دیا اور خود پایہ تخت تبریز جا پہنچا۔اس سے عثمانیہ فوج کو رسد کے ملنے میں سخت دشواری پیش آئی۔فوج اتنا لمبا سفر طے کر کے تھک چکی تھی،اور رسد کی کمی نے اسے مذید کمزور کر دیاتھا،لیکن سلطان سلیم اپنے ارادے کا پکا تھا،اس نےیہاں ذہانت سے کام لیا اور فوج کے سامنے کا کر اس نے انتہای پرجوش تقریر کی سلطان سلیم کہنے لگا:
"کیا اسی طرح تم اپنے سلطان کی خدمت کیا کرتے ہو؟کیا تمہارا عہد مخص زبانی تھا۔جو لوگ واپس جانا چاہیں وہ فوج سے علیدہ ہو جائیں اور چلے جائیں۔لیکن میں نے اتنی دور کا سفر اس لیے نہیں کیا کہ یہاں سے لوٹ جاؤں،تم میں سے جو بزدل ہیں وہ بہادروں سے علیدہ ہو جائیں،جنہوں نے اپنی تلواروں اور جسم و روح کے ساتھ ہماری مہم کے لیے اپنی جانیں وقف کر دیں ہیں۔"
یہ کہ کر اس نے دستہ قائم کر کے فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا،لیکن کسی میں بھی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اپنا دستہ چھوڑ کر فوج سے علیدہ ہو جائے۔
چالدران کی جنگ:۔
عثمانی فوج جب تبریز کے نزدیک پہنچی تو مجبوراً شاہ اسمعٰیل کو مقابلے کے لیے نکلنا پڑا۔ دونوں فو جیں 2 رجب 920ھ/بمطابق 24 اگست 1514ءکووادی چالداران میں صف آرا ہوئیں۔عثمانی لشکر کی تعداد جس نے 12سومیل کی سخت دشوار گزار رستے کو صرف 126 دنوں کی قلیل مدت میں طے کیا تھا ،اب ایک لاکھ چالیس ہزار سے کم ہو کر ایک لاکھ بیس ہزار ہو چکی تھی۔جبکہ ان کے مقابلے میں ایرانی فوج کی تعداد 80 ہزار تھی۔یہ سب سوار تھے اور اپنی شجاعت اور بہادری میں انکا کوئی ثانی نہ تھا۔عثمانی اس جنگ میں بلکل خستہ تھے۔ایرانی فوج تازی دم تھی۔جنگ کی ابتدا میں جنگ کا پانسہ ایرانیوں کے حق میں تھا۔ایرانی سواروں کا جو دستہ شاہ اسمعٰیل کی کمان میں تھا اُس نے تُرک دستے کو پسپا کر دیا تھا۔لیکن تُرک فوراً پلٹ گئے اورانہوں نے دلیری سے ایرانی دستے کا مقابلہ کیا۔اسی درمیان میں عثمانی توپوں نے گولے برسانے شروع کر دیے،ایرانی فوج کے پاس توپیں نہیں تھیں اسی لیے وہ اس حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے،میدان مٰن شاہ اسمعٰیل کے پچیس ہزار سپاہی شہید ہوئے اور باقی فوج بھاگ کھڑی ہوئی۔شاہ اسمعیٰل زخمی ہو گیا تھا ،بڑی مشکل سے اُس نے جان بچائی۔
سہ 14رجب 920ھ/بمطابق4ستمبر 1514ء کو سلطان سلیم تبریز میں فاتحانہ داخل ہوا۔وہاں اس نے شاہی خزانے کے علاوہ ایک ہزار بہترین صناع اور کاریگر قسطنطنیہ روانہ کیے۔سلطان سلیم نے تبریز میں 8روز قیام کیا۔سلطان سلیم کا ارادہ تھا کہ موسم سرما آذربائیجان میں گراز کر بہار شروع ہونے پر پھر سے فتوحات کا سلسلہ شروع کرے،لیکن اب فوج کی حالت بلکل خراب ہو چکی تھی اور سلطان سلیم کو اس بات کا بھی ڈر تھا کہ اب اگراُس نے فوج کو مذید فتوحات کا حکم دیا تو بغاوت ہو جائے گی۔اس لیے سلطان سلیم نے واپس قسطنطنیہ کا رخ کیا۔
بہائجانجوبہیآپلِکہتےہیںمکمللِکہاکرائں