امیرِ تیمور اور عثمانی سلطان "بایزید یلدرم" کے درمیان ہونے والی تاریخی جنگ"جنگِ انقرہ" کی خونریز داستان۔
جنگِ انگورہ (جسے جنگ انقرہ بھی کہا جاتا ہے) سلطنت عثمانیہ اور امیر تیمور کے درمیان ہونے والی ایک خون ریز جنگ تھی جس نےسلطنت عثمانیہ کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔اس جنگ کی ابتدا چند ایک باغی سرداروں سے ہوئی جوامیر تیمور سے بھاگ کر عثمانی سلطان بایزید کے پاس پناہ لینے چلے آئے تھے۔اسی سلسلے میں دونوں بادشاہوں کے درمیان تلخ خط و کتابت شروع ہوئی،اور آخر کار نوبت جنگ تک آ پہنچی۔
"امیر تیمور اپنی فوجوں کے ساتھ عثمانی شہر "سیواس"کا محاصرہ کرتے ہوئے"
اس جنگ کا پہلا معرکہ سیواس شہر تھا۔803ھ/بمطابق1400ء میں امیرِ تیمور آرمینیا کی جانب سے سلطنت عثمانیہ کی سر حد میں داخل ہوا ،اور برق رفتاری کے ساتھ اس نے سیواس کا محاصرہ کر ڈالا۔یہ شہر بڑا مضبوط تھا،اس شہر کی کمان سلطان بایزید کے بیٹے"ارطغرل" کے ہاتھ میں تھی۔ترکوں نے امیر تیمور کے ابتدائی حملوں کا اس شدت کے ساتھ مقابلہ کیا کہ شروع میں تیمور کی 8لاکھ فوج کامیاب ہی نہ ہو سکی۔لیکن یہاں امیر تیمور نے ایک چال چلی وہ چال یہ تھی کہ تیمور نے مزدوروں کو لگا کر قلعے کی دیواروں کے نیچے سرنگیں کھدوا ڈالیں۔اس دوران اس نے دیواروں کو گرنے سے بچانے کے لیے سرنگوں میں شہتیر کی لکڑی کو استعمال کیا اور جب کھدائی مکمل ہو گئی تو تیمور نے شہتیر کو آگ لگوا دی ،جس سے کہ دیکھتے ہی دیکھتے قلعے کی دیواریں سرنگوں میں بیٹھ گئیں۔اب امیرِ تیمور کی فوج کے سامنے شہر کی آبادی اورعثمانی دستہ تھا۔تیمور کا حکم ملتے ہی فوج نے شہر پر حملہ کیا اورشہر پر انکا قبضہ ہو گیا۔شہر کی حفاظت کے لیے سلطان بایزید نے 6ہزار کا آرمینی دستہ بھی متعین کر رکھا تھا،تیمور نے اس دستے سے یوں انتقام لیا کہ اسے زندہ دفن کر ڈالا۔جبکہ عثمانی شہزادے ارطغرل اور باقی سپاہیوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔
"سیواس شہر میں قتل و غارت کے بعد امیر تیمور فاتحانہ شہر میں داخل ہوتے ہوئے"
عثمانی سلطان بایزید یلدرم اس وقت قسطنطنیہ شہر کے محاصرے میں مصروف تھے،انہیں جب سیواس شہر کی فتح اور شہزادے کے قتل کی خبر پہنچی تو سلطان نے محاصرہ اُٹھالیا اور اپنی فوجوں کے ساتھ ایشیائے کو چک جا پہنچے ،لیکن تب تک امیر تیمور شام کی جانب روانہ ہو چکا تھا۔2سال کے بعد امیر تیمور سیواس واپس لوٹا اور اس کے اور بایزید کے درمیان دوبارہ خط و کتابت شروع ہوئی،جو پہلے سے بھی زیادہ سخت اور تلخ کلامی پر مبنی تھی۔یوں اس خط و کتابت کا نتیجہ"انقرہ کی جنگ"نکلا۔
امیر تیمور نے 7 یا 8 لاکھ کی فوج کے ساتھ سیواس کے میدان کی جانب بڑھا،لیکن یہ میدان تیمور کی فوج کے لیے تنگ تھا۔اس لیے اس نے سب سے پہلے انگورہ پہنچ کر شہر کا محاصرہ کر لیا۔امیر تیمور ایک با صلاحیت بادشاہ تھا اور جنگی چالوں میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔اسے اس بات کا یقین تھا کہ انگورہ کے محاصرے کی خبر سن کر بایزید ضرور یہاں آئے گا ،سو ایسا ہی ہوا ۔جب سلطان بایزید کو خبر ملی تو وہ بجائے سیواس جانےکے انگورہ کی جانب چل پڑا اور وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ امیر تیمور نے شہر کے شمال مغرب کی جانب جو کہ فوجی نقطہ نظر کے حوالے سے میدان کا بہترین حصہ تھا پر اس نے قبضہ کر لیا ہے۔امیرِ تیمور نے سلطان بایزید کے مقابلے کے لیے تمام ضروری اور احتیاتی تدابیر کیں،کیونکہ وہ بایزید کی طاقت سے بلکل واقف تھا۔عثمانی سلطان بایزید کی فوج میں ایک بڑی تعداد تاتاریوں کی بھی تھی۔امیرِ تیمور نے یہاں یہ چال چلی کہ اس نے اپنے جاسوسوں کو بھیس بدلا کر بایزید کے لشکر میں بھیجا۔ان جاسوسوں نے تاتاری دستوں کو بایزید کے خلاف انہیں ابھارنا شروع کر دیا۔یہاں تک کہ جب جنگ شروع ہوئی تو عین جنگ کے درمیان ان تاتاریوں نے بایزید کے ساتھ غداری کی اور امیرِ تیمور کے لشکر کے ساتھ جا ملےتھے۔
سلطان بایزید نے یہاں ایک اور غلطی یہ کی کہ انگورہ پہنچنے کے بعد اس نے پوری فوج کو ساتھ لیا اور ایک دن کے لیے شکار پر چلا گیا۔جس جگہ پر بایزید نے شکار کرنا تھا وہاں پانی بہت کم تھا۔جس سے کہ 5ہزار عثمانی سپا ہی صرف پیاس کی وجہ سے مارے گئے،اور باقی فوج کاحال بھی بہت بُراتھا۔جب سلطان بایزید شکار سے واپس لوٹا تو اس نے دیکھا کہ وہاں کا تو نقشہ ہی تبدیل ہو گیا ہے۔عثمانی لشکر گاہ پر تیمور کا قبضہ ہو چکا تھا،اور جس چشمے سے عثمانی فوج پانی لیتی تھی اس کا رخ موڑ کر تیموری فوج نے دوسری جانب کر دیا تھا،اب حالات اس حد تک پہنچ گئے کہ سلطان بایزید کو حملہ کر نا پڑا۔
"انقرہ کے میدان میں تیموری فوجیں عثمانی سلطان کا انتظار کرتے ہوئے"
چناچہ 17ذی الحجہ804ھ/بمطابق20 جولائی 1402ءکو وہ معرکہ پیش آیا جس نے امیرِ تیمور کی شہرت و عظمت کو حیاتِ ابدی بخشی،اور سلطان بایزید یلدرم کی ذلت و رُسوائی کو ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بنا ڈالا۔انقرہ کی یہ جنگ صبح طلوع فجر سے قبل شروع ہو چکی تھی،اور غروب آفتاب تک جاری رہی۔اس دن بایزید نے سپہ گری اور سپہ سالاری کے خوب جوہر دیکھائے،اس کی فوج بھی بڑی بہادری سے لڑی،لیکن امیرِ تیمور کی کثیر فوج اور جنگی حالات کے سامنے بایزید کی تمام کوششیں ناکام نظر آنے لگیں۔
جنگ شروع ہونے کی تھوڑی دیر کے بعد تاتاری جنہیں امیر تیمور نے پہلے ہی اپنے ساتھ ملا لیا تھا وہ اپنے سرداروں کے ساتھ تیمور کے لشکر سے جا ملے۔اس کے علاوہ اناطولیہ کی تُرک ریاستوں کے وہ دستے جنہیں بایزید نے باالجبر فوج میں بھرتی کیا تھا عین موقع پر انہوں نے غداری کی اور اپنے سرداروں کےساتھ امیرِ تیمور کے لشکر سے جا ملے۔اس دوران اسٹیفن لاذار نے اپنی وفاداری قائم رکھی اور سلطان کے شانہ بشانہ لڑتا رہا۔لیکن آخر میں جب اس نے دیکھا کہ بایزید کو شکست ہو کہ رہے گی تو وہ پھی میدان جنگ سے بھاگ کھڑا ہوا۔اب سلطان بایزید یلدرم کے ساتھ صرف 10ہزار ینی چری فوج کا دستہ باقی رہ گیا تھا،اس 10 ہزار کے دستے نے امیرِ تیمور کی آٹھ لاکھ فوج کے مقابلے میں جو حیرت انگیز بہادری کا ثبوت دیا۔
"انقرہ کے میدان ِ جنگ میں تیموری گھڑ سوار دستے ینی چری دستوں کو کچلتے ہوئے سلطان بایزید کو گرفتار کرنے کی کوشش میں"
اس کی مثام خود ینی چری کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔لیکن گرمی ،پیاس،غداری اور سب سے بڑھ کر تیموری فوج کی کثرت نے ینی چری فوج کے بازو کمزور کر دیے۔اور امیرِ تیمور کی فوج غالب آگئی۔سلطان بایزید یلدرم کے افوجی افسروں نے میدان جنگ کی حا لت کو دیکھتے ہوئے 5گھنٹے پہلے ہی میدانِ جنگ چھوڑنے کی رائے دی تھی۔لیکن بایزید نے اس مشورے کو حقارت سے ٹھکرا دیا تھا،اب جبکہ وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔سلطان بایزید نے بھاگنے کی کوشش کی،لیکن محمود خان نے آگے بڑھ کر سلطان بایزیدکو گرفتار کر لیا۔سلطان بایزید کے 5 بیٹے اس جنگ میں شامل تھے جن میں سے 3 شہزادے تیموری فوج سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔شہزادہ محمد نے اماسیہ پہنچ کر دم لیا،شہزادہ سلیمان نے یورپ کا رخ کیا اور شہزادہ عیسیٰ کرمانیہ کی طرف بھاگ گیا۔
I am interested in history